محترم قارئین السلامُ علیکم
آج جب سورہ سباء کی آیت نمبر ۱۶ تا ۱۷ نظروں سے گُزری تو نگاہ اِن آیات پر
جیسے ٹہر سی گئی۔
پھر انہوں نے (طاعت سے) مُنہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر زور دار سیلاب بھیج
دیا اور ہم نے اُن کے دونوں باغوں کو دو (ایسے) باغوں سے بدل دیا جن میں
بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ اور کچھ تھوڑے سے بیری کے درخت رہ گئے تھے، ﴿۱٦﴾ یہ
ہم نے انہیں ان کے کفر و ناشکری کا بدلہ دیا، اور ہم بڑے ناشکر گزار کے سوا
(کسی کو ایسی) سزا نہیں دیتے، ﴿۱۷﴾۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ شہرِ سبا صنعا سے تین فرسنگ کے
فاصلہ پر تھا۔
محترم قارئین سبا شہر یمن کا وہ خوبصورت شہر تھا کہ جسکے میوے دُنیا بھر
میں مشہور تھے اور یہ میوے اِس کثرت سے درختوں میں پیدا ہوتے کہ یہ کہاوت
مشہور ہوگئی کہ اگر کوئی شخص خالی ٹوکرا، اپنے سر پہ لیکر اِن درختوں کے
نیچے سے گُزرے تو وہ خالی ٹوکرا بھی خود بھر جائے۔
محترم قارئین کرام ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہر سبا کے لوگ اِس نعمت کو
پاکر اللہ کریم کا شُکر بجا لاتے اور اللہ کریم کی جانب سے بھیجے جانے والے
انبیا کی تعظیم کرتے لیکن اِن بدنصیب لوگوں نے جب نعمت کی فراوانی دیکھی تو
اُسے اپنا کمال سمجھنے لگے انبیا کرام علیہمُ السلام کی بارگاہ میں زبان
درازی کرنے لگے جس کے سبب اللہ کریم کے غضب کا شکار ہوگئے اور اُنہیں سیلاب
کے عذاب نے آپکڑا جس کے سبب وہ تمام نعمتیں جو اللہ کریم نے اپنے محبوب
انبیا کے صدقے اُنہیں عطا فرمائی تھی چھین لیں گئیں۔
اس سورہ کی تلاوت سے یہ بات اُجاگر ہوتی ہے کہ جو اقوام اپنے انبیاء کرام
علیہمُ اسلام کی تعظیم اپنے دلوں سے نکال دیتی ہیں جو انبیاءَ کرام علیہمُ
السلام کی تعلیمات سے منحرف ہوجاتی ہیں اور اللہ کریم کی نعمتوں کی ناشُکری
کرتی ہیں اُنہیں سیلاب کی طرح کے عذاب گھیر لیتے ہیں۔
محترم قارئین اِن آیات کے تناظر میں اگر ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں تو
یقین جانیے میری طرح آپکے اندر سے بھی یہی آواز آئے گی کہ واقعی ہم اِس
عذاب کے مستحق تھے۔
جس مملکت میں کہیں کُھلے عام تو کہیں دبے لہجے میں نبی اکرم صلی اللہُ علیہ
وسلم کی شان میں گُستاخیاں کی جاتی ہوں جہاں تعلیمات مُصطفٰی صلی اللہ علیہ
وسلم کو مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا جائے جہاں خود کشی جیسے فعل کو جِسے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت سے حرام کام ارشاد فرما دیا جہاد
گردانا جائے جہاں اللہ کریم کے محبوب بندوں کے مزارات کو خود کش حملوں سے
اُڑا دیا جائے جہاں اِس حرام فعل کو حلال قرار دینے والوں میں ایسے لوگ
شامل ہوں جن کے ایک ہاتھ میں کلامُ اللہ ہو تو دوسرے ہاتھ میں صحاح ستہ کی
مشہور کتاب بُخاری ہو اور جو معتدل لوگ ہوں وہ اِن لوگوں سے چشم پوشی کریں
تو محترم قارئین ایسے ملک میں سیلاب اور زلزلے کے عذاب نازل نہ ہوں تو کیا
رحمت کی بارش ہوگی۔
محترم قارئین کرام تمام قرآن مجید کا مطالعہ کرلیں تمام صحاح ستہ کی احادیث
پڑھ لیں لیکن آپ کو ایک آیت ایک جملہ بھی خود کشی کی حمایت میں نہیں ملے گا
اور اتنا تو سوچیے کہ اگر اس معاملہ میں کوئی رعایت ہوتی تو کیا اللہ کریم
کے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اسکا فائدہ اپنے مجاہد صحابی کا نہ
پُہنچاتے اور اگر اس میں ذرہ بھر بھی بھلائی ہوتی تو کیا ہمارے کریم آقا
علیہ السلام اپنے صحابی کو خود کشی کے باعث جہنمی قرار دیتے جواب صاف ظاہر
ہے کہ ہرگز اس حرام فعل میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ یہ سراسر جہنم میں
لیجانے والا عمل ہے اور یہ بھی یاد رکھئے کہ جب خود کشی کفار کیخلاف جنگ
میں جائز نہیں تو مساجد میں دھماکے اور اولیائے کرام کے مزارات پر حملے کس
قدر اللہ کریم کے عتاب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔
محترم کس قدر ظلم ہے کہ افوج پاکستان جو حقیقی جہاد کر رہے ہیں کو ظالم کہا
جائے اور اِن حقیقی مجاہدین کو جو جہاد کے تمام تقاضے بھی پورے کررہے ہیں
کے مقابل میں لڑنے والے کرائے کے قاتلوں کو جہادی کہا جائے محترم قارئین
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے گُناہوں کی معافی اللہ کریم سے سچے دِل سے مانگ
کر اپنی اصلاح کا سامان کرلیں اور خود کُشی اور جہاد کے درمیان حد فاصل
قائم کریں اِس مُلک پاکستان کی قدر کریں ناشُکری کی لعنت کے طوق کو اپنی
گردنوں سے اُتار پھینکیں اور اگر ہم نے آج بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور خود
کشی کو جہاد کا نام دیکر اپنی ضد پر اَڑے رہے تو اِس سے بڑے عذابات ہمارے
منتظر ہیں اس لئے ہمیں اس ظلم کے خلاف آواز بُلند کرنی ہی ہوگی لوگوں میں
شعور بیدار کرنا ہوگا جہاد کو زندہ رکھنا ہوگا لیکن خود کش حملوں کی مذمت
بھی کرنی ہوگی کہ یہ تعلیمات مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نافرمانی
ہے۔
اور حرام ۔ حرام ۔ حرام فعل ہے یہ بات وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو خاموشی سے
اِن ظالموں کی مدد پر کمر بستہ ہیں اور اِنکی خفیہ امداد کر رہے ہیں۔
اے اللہ عزوجل ہماری خطاؤں کو معاف فرما اور ہمیں سُنت مُصطفٰی صلی اللہ
علیہ وسلم پر چلنے کی توفیق عطا فرماتے ہوئے ہمیں ہمیشہ دامنِ مصطفٰی صلی
اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رکھ۔
(آمین بِجاہِ النبی الامین و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)۔ |