خوں آشام شام کے لہو کی سرخی کم نہیں ہوتی!
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
اے گنبد خضریٰ کے مکیں وقت مدد ہے |
|
اس وقت زینۃالبلاد شام خوں آشام دور سے گزر
رہا ہے۔ عصمتیں لُٹ رہی ہیں۔ نسل کشی کا بدترین نظارہ دُنیا دیکھ رہی ہے۔
مسلم قومیت کی دوہائی دینے والے عشرت کدوں میں عیش و طرب میں مگن ہیں۔
دُنیا کے ۵۷؍ مسلم ممالک بے حس ہیں، ان کے حکمراں اسیرِ زلفِ فرنگ ہو چکے
ہیں۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکتیں اپنے اقتدار کے استحکام کے
لیے جٹی ہوئی ہیں۔ اُنھیں لٹتے سہاگ، تباہ ہوتے مکانات، بے گناہوں کے لاشے،
لٹتی زندگیاں، اُجڑتی ہوئی فصلِ مسلم نظر نہیں آرہی۔ شام کی یہ شامِ حزیں
دیگر مملکتِ اسلامیہ میں بھی دستک دے سکتی ہے۔کبھی بھی اقتدار کا سورج ڈھل
سکتا ہے۔ یہود ونصاریٰ کے پنجۂ استبداد میں جکڑے مسلم مراکز کب تک اپنے
اقتدار کا جشن منائیں گے۔ وقت جب آتا ہے تو ایسے حکمرانوں کو خش و خاشاک کی
طرح بہا لے جاتا ہے جو قومی تقاضوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔اسلامی مملکتوں کے
حکمراں اس تہذیب کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جس کے بارے میں مشہور
جرمن مفکر نطشے نے کہا تھا:’’مسیحیت کی اخلاقی تعلیمات، انحطاط، تذلل اور
بوسیدگی کی طرف مائل ہیں، وہ انسان کی بہترین صلاحیتوں کو فنا کر دیتی ہیں۔‘‘
عربوں میں جو مردِ جری تھے، جن کے وجود سے صہیونیت تھرتھراتی تھی، وہ ایک
ایک کر کے ختم کر دیے گئے۔ لیبیا و عراق کے زندہ دل حکمراں کب کے شہید کیے
جا چکے۔ اسلام کی خاطر دھڑکنے والے دلوں کی نبضیں معدوم ہو رہی ہیں۔
عامۃالمسلمین چاہتے ہیں کہ طاقت ور مسلم مملکتیں بے دار ہو کر شام کی خوں
ریزی روک لیں۔ لیکن بے حسی کی چادر تانے حکمرانِ مملکتِ اسلامیہ خوابِ غفلت
میں ہیں۔ شاید اُنھیں اُس وقت ہوش آئے جب ظالموں کے دستے ان کی سرحدوں میں
داخل ہو چکے ہوں گے۔ عیش و طرب نے عرب حکمرانوں کی غیرتوں کا جنازہ نکال
دیا ہے۔ عراق کی تباہی، یمن کی بربادی، شام کی تاراجی، لیبیا کی خزاں
رسیدی، فلسطینیوں کی قربانی، افغاں کی آہ و فغاں ان کے قومی جذبات کو بیدار
کرنے کے لیے کافی نہیں۔ صہیونی غلامی نے فکر و نظر کو جلوۂ دانشِ فرنگ کا
اسیر بنا رکھا ہے۔ جب تک نگاہوں میں خاکِ حجاز و نجف کا سرمہ نہیں بسے گا
تب تک اسی طرح بے حسی کی چادر تنی رہے گی۔
عہدِ تاریک میں عرب سے اُٹھنے والے نور نے کائنات کو جب روشن کیا، غلامانِ
مصطفی اصحابِ رسول نے اپنے عزم و یقیں کے ساتھ شام فتح کیا تو شام کی صبح
بہار آفریں ہو گئی۔ غم کی تاریکیاں سرِ شام چھٹ گئیں۔ سویرا نمودار ہوا۔
شام نے اسلام کی نکہتوں کی خوش بو دور دور پھیلائی۔ علم و فن کی ترویج و
اشاعت کی۔ فتنہ و تشدد کے کئی ادوار شام میں گزرے لیکن ہر بار اسلامی عروج
کا آفتاب تابندہ صبح کا استعارہ ثابت ہوا۔ ایمان و ایقان کی سرحدوں کی نگہ
بانی کی ہے مجاہدینِ شام نے۔ خدمتِ حدیث وتفسیر میں بھی علمائے شام نے بڑی
خدمات انجام دی ہیں۔ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے اہلِ شام کی خدمات نمایاں
ہیں۔ ماضی کے پر امن شام کا تصور اب خواب بن چکا ہے۔ آج شام خونِ مسلم سے
سرخ ہو چکا ہے۔ ہر لمحہ جانوں کا ضیاع، ہر آن تشدد کی فضا، مسلمانوں کی
بدترین نسل کشی۔ اس پر مسلم مملکتوں کی مجرمانہ خامشی! افسوس ناک ہے! پوری
اُمت ایک جسم کے مانند ہے، ایک حصے میں تکلیف گویا پوری مسلم اُمہ کے لیے
باعثِ درد و کلفت ہے۔ لیکن جلتے ہوئے حلب کو بچانے آج کوئی نہیں آرہا! ساری
دُنیا میں امریکہ و اسرائیل کے عزائم کی تکمیل کے لیے جو حکمرانِ عرب سرگرم
ہیں، ان کا دعویِ توحید صرف زبانی ہے، اُنھیں امریکہ عزیز ہے، اُنھیں
اسرائیل کی فکر ہے، انھوں نے تو اپنے یہاں کے ائمہ پر بھی یہ پابندی عملاً
لگا رکھی ہے کہ وہ منبر سے یہود ونصاریٰ کی مذمت کریں۔
حالات کا تقاضا ہے کہ اپنے شامی بھائیوں کی ہم دردی میں ہم اُٹھ کھڑے ہوں۔
ان کے درد کا مداوا کریں۔ ظالموں نے جو جنگ کی آگ بھڑکا رکھی ہے اس کی کھلی
مذمت کریں۔ مسلم مملکتوں کو جھنجھوڑیں۔ اُنھیں خونِ مسلم کی ارزانی کا
احساس دلائیں۔ اُنھیں لٹتے سہاگ اور اُجڑتی گودوں کا واسطہ دیں۔شاید کوئی
جاگ جائے۔ اور اسلامی مملکتوں کے لُٹتے سہاگ؛ بہتے لہو کو روک سکے۔ ظلم
وستم نے چنگیز و ہلاکو کے خونین کارناموں کو بھی شرما دیا ہے۔ کب تک یوں ہی
خونِ مسلم بہتا رہے گا؟ کب اُجڑے آشیانے آباد ہوں گے؟ حلب اور کتنے زخموں
کو سہے گا؟پیغمبر امن و اماں صلی اﷲ علیہ وسلم کے اُمتی کب جاگیں گے؟ ابھی
قربانیوں کی کتنی فصل اور کٹے گی؟ کیا یوں ہی شام کی شامِ غم دراز رہے گی
یا کوئی ایک مردِ جری عربوں میں اُٹھے گا! اور تاراجی و تباہی کا یہ خونین
باب بند ہوگا!ظالم انجام کو پہنچیں گے!
لیکن لگتا ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ابھی سحر پیدا ہونے کو وقت ہے۔ یقیں
محکم کی زنجیریں ٹوٹتی محسوس ہو رہی ہیں۔ اقتدار کی بیڑیاں حکمرانِ مسلم کے
قدموں کو جامد کیے دیتی ہیں۔ اﷲ کریم نے دولت و ذرائع کے ان گنت ذخائر سے
مراکز ِاسلام کو مالا مال کیا ہے۔ لیکن! اس کے باوجود اﷲ و رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کے دُشمنوں کو سینے سے لگانا تعجب خیز ہے! الٰہی ماجرا کیا ہے؟
کیا کوئی نجات دہندہ کھڑا ہوگا جو مسلم لہو کے تحفظ کو یقینی بنا سکے؟ شاید
اس وقت ہم بیدار ہوں گے جب انسانیت کی فصل شام سے مکمل ختم کی جا چکی ہو گی
اور سوائے سسکیوں کے دامن میں کچھ نہیں بچے گا۔
یاسیت کے اس ماحول میں اُمیدوں کا پیغام یہی ہے کہ پوری دُنیا کے مسلمان
اپنے بھائیوں کے ساتھ اظہارِ ہم دردی میں اُٹھ کھڑے ہوں۔ حکمرانوں کو
احساسِ حمیتِ مسلم دلائیں۔ شاید ان میں کوئی بیدار ہوجائے اور صلاح الدین
ایوبی کا جگر پیدا کر کے طاغوت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دے۔ لیکن یہ
عزم شاید شرمندۂ تعبیر ہو اور یاسیت کے اندھیرے چھٹ جائیں:
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
ربیع کی بہاریں جاری ہیں۔ اسی ماہ انسانیت بہار آشنا ہوئی۔ ۱۲؍ ربیع الاول
کو تشدد کی سانس اُکھڑ گئی۔ انسانیت کا سویرا ہوا۔امن و اخوت کا دور دورہ
ہوا۔ بہاروں کی حکمرانی ہوئی۔ اسی ماہِ مقدس میں ہم حلب و شام کے مجاہدینِ
حق کے لیے دُعا گو ہیں کہ مولیٰ خونِ مسلم و عصمتِ نسواں کی حفاظت فرما اور
شامیوں کو صبحِ تابندہ عطا کر جس کے پردے میں امن و اخوت کا ایک نیا آفتاب
رونما ہو:
ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
٭٭ |
|