غیر اخلاقی لفظی ابلاغیات

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سائنس کی نت نئی ایجادات نے آج کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپاکر دیا ہے۔ اگر رب کائنات اپنی قدرت سے زمانہ قدیم کے لوگوں کو زندہ کر دے اور وہ اس بدلی ہوئی دنیا کو دیکھیں تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ اس منظر کو ایک خواب ، نظر کا دھوکا یا جادوی کرشمہ سمجھیں گے۔درحقیقت موجودہ ایجادات نے دنیا کو ایک الگ کی رنگ دے دیا ہے جس کو دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ چیزیں جن کا ذکر صرف روایتی کہانیوں تک محدود تھا وہ آج حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔
ذرائع ابلاغ وہ شعبہ ہے جس نے وجود میں آکر دنیا کا رنگ ہی بدل دیا ہے۔ آج کا انسان مشرق سے بولتا ہے تو اس کی آواز مغرب میں سنی جاتی ہے اور اس کے علاو ہ انسان کی آواز اور حرکا ت کو محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور ضرورت کے وقت ان کو سنا اور دیکھا بھی جا سکتا ہے۔

ذرائع ا بلاغ کے مثبت پہلوؤں کو تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا دوسرا پہلو جو کہ منفی ہے اسے اگر نظر انداز کر دیا جائے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے اور اور ترقی کی بجائے تنزلی ، خوشحالی کی بجائے بدحالی قوم کا مقدر بن سکتی ہے۔ان منفی پہلوؤں میں ایک اہم پہلو غیر اخلاقی لفظی ابلاغ ہے جو کہ نہ صرف معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے بلکہ انسان کو نفسیاتی طور پرکمزور بھی کر سکتا ہے۔ذرائع بلاغ خیر کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو یہ پوری انسانیت کے لیے بہت بڑی نعمت ہے جبکہ اس کا منفی استعمال معاشرے میں اخلاقی زوال سمیت بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔آپ آگ کو ہی لے لیجئے جو کہ جلا کر بھسم کر دینے کی قوت رکھتی ہے، ہم چاہیں تو اس کو کھانا بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ہم ہی ہیں جو اسے گھر، جائیداداور یہاں تک کے انسان کو بھی جلانے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ آسائش کی غرض سے عنایت کی گئی رحمتوں کو زحمتوں میں بدلنا صرف اور صرف انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ذرائع بلاغ ایک بہت وسیع لفظ ہے جس میں اخبار، رسائل، کتابیں، انٹرنیٹ، ریڈیو، ٹیلی ویثرن، فون، کمپیوٹر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

غیر اخلاقی پروگرام اور بیہودہ اشتہارات کے علاوہ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر رومانوی مکالموں اور ڈراموں میں بدکلامی اور بے معنی ڈائیلاگ کا استعمال اس قدر عام ہوتا جا رہا ہے کہ معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار نظر آتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہم نہ صرف اپنے دین سے دور بلکہ اپنی تہذیب، روایات اور انسانی اخلاقیات سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ہمیں اپنے اردگرد بہت سی جگہوں پر ایسے فقرات اور جملے لکھے نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہماری ا خلاقی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہر بڑے شہر کی دیواریں ایسے اشتہارات سے بھری ہوئی ہیں جن میں پسند کی شادی محبوب آپ کے قدموں میں اور عضوخاص سے متعلق جعلی حکیموں کی تشہیری مہموں پر مبنی کئی غیر اخلاقی جملے لکھے نظر آتے ہیں۔ایسے بیہودہ الفاظ جب بچوں کی نظروں سے گزرتے ہوں گے تو ان کے ذہنوں پرکیسے سوالات اور اثرات چھوڑ جاتے ہوں گے اس بات کا اندازہ میں تو کیا آپ بھی بخوبی لگا سکتے ہیں۔

سینما اور فلم بھی ابلاغ اور آگاہی ایک ذریعہ ہے اور ایک وقت تھا جب معیاری اور کسی سماجی کہانی پر فلمیں بنتی تھیں لیکن اب فلموں کی دنیا میں معیار کا کوئی خیال ہی نہیں رکھاجاتا۔ ماضی کی فلمیں دیکھ کر ہمارے سماج اور معاشرے میں مثبت پیغام جاتا تھا لیکن اب فلم کے مکالموں اور گانوں میں ایسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں جس کوایک اچھا آدمی سننا گوارا نہیں کرتا۔

ایک وقت تھا جب اسٹیج ڈرامہ ہمارے معاشرے اور اقدار کی عکاسی کرتا تھا اور اس میں ایسی کہانی اور کردار ہوتے تھے جو معاشرے میںمسکراہٹ پھیلانے کے ساتھ ساتھ ایک مثبت پیغام بھی دیا کرتے تھے۔ مگر آج کل اسٹیج ڈرامہ صرف اخلاق سے گرے ہوئے مکالمے اور بیہودہ ڈانس کا نام ہی رہ گیا ہے۔ اس میں قصور وار صرف تھیٹر مالکان اور پروڈیوسرز ہی نہیں بلکہ عوام خود بھی ہے جو کہ ایسے ڈراموں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جس سے ہماری اخلاقی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ دور حاضرکا وہ جادوئی چراغ ہے جس کو بجا طور پر دو دھاری تلوار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔انسان کی فطرت میں نیکی کی نسبت گناہ کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے انسان کی اسی کمزوری سے فائدہ اتھاتے ہوئے ان کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف کیا جا رہا ہے جو کہ غیر اخلاقی بھی ہیں اور انساتی صحت کو بھی بھر پور نقصان پہنچا رہی ہیں۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات دیگی میڈیا کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ بیہودہ ویب سائٹس تو ایک طرف کئی ویب سائٹس ایسی بھی ہیں جہاں اخبارات اور کتابوں کے شوقین افراد کو ایسے خراب فقرے اور اشتہارات نظر آتے ہیں جن کو پڑھ کر شرم محسوس ہوتی ہے۔

میرے خیال میں ذرائع ابلاغ کی ضرورت کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس دور میں قومی مفادات کے مطابق ذرائع ابلاغ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے بس ضرورت اس چیز کی ہے کہ پاکستان میں شفاف اور غیر جانبدار ذرائع ابلاغ قائم کرنے کے لیے قدم بڑھایا جائے اور ایسے عوامل جو غیر اخلاقی مواد کو عام کرنے میں سرگرم عمل ہیں ان کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی مزید قانون سازی کی ضرورت ہے اور ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی خود کو مضبوط بنانا ہوگا اور ساتھ ہی عوام کو بھی اس کے مثبت استعمال سے آگاہ کرنا ہوگا۔
Hamza Jaffry
About the Author: Hamza Jaffry Read More Articles by Hamza Jaffry: 13 Articles with 12018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.