دعا کے متعلق

ہم اگر اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے دعا کریں تو انشاء اللہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ چاہیے کہ فرض نماز کے بعد دعائیں مانگی جائیں کیوں کہ فرض نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے ! حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ کون سی دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ فرمایا آدھی رات اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعا۔ ( جامع ترمذی) ۔

امام اہلسنت کے والد محترم رئیس متکلمین علامہ نقی علی خان علیہ رحمتہ الرحمٰن نے چند وہ اوقات جن میں قبولیت دعا کی قوی امید ہے بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
شب قدر، روزہ عرفہ، ماہ رمضان مطلقا، شب ھمعہ، روزہ جمعہ، ٹھیک آدھی رات کے وقت، وقت اذان، وقت تکبیر، درمیان اذان و اقامت، وقت ختم قرآن۔

اور اس کے ساتھ ہی دعا مانگنے کے آداب ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) دل کو حتی الامکان غیر کے خیال سے پاک کریں۔ (۲) بند، لباس، مکان، پاک و نظیف و طاہر ہوں (۳) دعا سے قبل کوئی عمل صالح کرے کہ خدائے کریم کی رحمت اسکی طرف متوجہ ہو۔ (۴) جن کے حقوق ذمے ہوں ادا کرے یا معاف کرا لے (۵)کھانے پینے لباس اور کسب میں حرام سے احتیاط کرے کہ حرام خوار اور حرام کار کی دعا اکثر رد ہو جاتی ہے۔ (۶) دعا سے قبل گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے (۷) دعا کے لیے اول و آخر حمد الہٰی بجا لائے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی اپنی حمد کو دوست رکھنے والا نہیں تھوڑی حمد پر بہت راضی ہوتا ہے اور بے شمار عطا فرماتا ہے (۸) شروع میں اللہ تعالیٰ کو اسکے محبوب ناموں سے پکارے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسم پاک ارحم الراحمین پر ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے جب بندہ اسے تین بار کہتا ہے فرشتہ ندا کرتا ہے مانگ ارحم الراحمین تیری طرف متوجہ ہوا۔ (۹) پانچ بار یا ربنا کہنا بھی نہایت موثر اجابت ہے۔ (۱۰) محبوبام خدا کے وسیلے سے دعا قبول ہوتی ہے ۔ (ماخوذ از فضائل دعا )

لیکن کیا کہا جائے کہ اس انا پرستی کے دور میں ان تمام شرائط کی پابندی کرنا ممکن نہیں۔ اور اگر تمام شرائط پوری کر بھی لیں تب بھی شیطان مردود وسوسے ڈالنے سے بعض نہیں آتا اور زبان سے معاذ اللہ ' اللہ ہماری نہیں سنتا، اللہ انکی تو سنتا ہے ہماری نہیں سنتا،اللہ ہمارے ساتھ نہیں' جیسے کلمہ کفر نکلتے ہیں۔ عام انسان کی عقل اس قابل ہے کہاں کے اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو سمجھ سکے۔ ایسے کمزور اعتقاد و ایمان کے ساتھ دعائیں کرنے والے لوگوں کے لئیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دعا کی قبولیت کے لئیے بھی چند شرائط ہیں۔ اگر ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعا مانگی جائے تو دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ بلکہ اس میں تین فوائد میں سے ایک ضرور حاصل ہوتا ہے۔
(۱) یا تو اسکی مراد دنیا میں ہی اس کو دے دی جاتی ہے۔
(۲) یا آخرت میں اس کے لئیے ذخیرہ ہوتا ہے۔
(۳) یا اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیا جاتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے! اور تمھارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا (سورہ المئومن آیت۶۰ ) ۔ اس آیت کی تفسیر میں سید نعیم الدین مراد آبادی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ! اللہ تعالیٰ بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے۔ اور ان کے قبول کے لیے چند شرطیں ہیں، ایک اخلاص دعا میں، دوسرے یہ کہ قلب غیر کی طرف مشغول نہ ہو، تیسرے یہ کہ وہ دعا کسی امر ممنوع پر مشتمل نہ ہو۔ چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو، پانچویں یہ کہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی قبول نہ ہوئی۔ جب ان شرطوں سے دعا کی جاتی ہے، قبول ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے۔ یا تو اسکی مراد دنیا ہی میں اسکو دے دی جاتی ہے۔ یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے۔ یا اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیا جاتا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ص ۸۵۲ ) ۔

دعا مانگنے کا طریقہ
دونوں ہاتھوں کو ملا لیں یا جدا جدا رکھیں۔ یہ دونوں طریقے درست ہیں۔ لیکن ہتھیلیوں میں خم نہ ہو پھیلی ہوں۔ اور ان کا رخ آسمان کی طرف ہو کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے۔ کتاب فضائل دعا میں ہے کہ بہ کمال ادب ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر سینے یا شانوں یا چہرے کے مقابل لائے یا پورے اٹھائے یہاں تک کہ بغل کی سپیدی ظاہر ہو۔ اور ہتھیلیاں پھیلی رکھے۔ اور دعا میں بغل کی سپیدی کا ظاہر ہونا حضور ﷺ سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے ' حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیئے حتٰی کے میں نے آپکی بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔ (صحیح البخاری) ۔
bashir
About the Author: bashir Read More Articles by bashir: 26 Articles with 63255 views i m honestly and sensory.. View More