اردو میں شہر آشوب: فن اور روایت

صنفِ شہر آشوب کے مورّخین عام طور پر تُرکی اور فارسی زبانوں میں اس کے ابتدائی وجود کے قائل ہیں۔ یوں بھی اردو کی تقریباً تمام کلاسیکی صنفیں عربی اور فارسی زبانوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ بہت ساری صنفوں نے عربی فارسی کے دائرۂ کار میں تصرّف سے کام لیا اور اس صنف کو اردو میں نئے مزاج و اسلوب عطا کرنے کی کوششوں میں کامیابی پائی۔ بعض صنفوں نے عربی فارسی کے طلسمات سے پورے طور پر نکلنے میں شاید خود کو غیر مستحکم پایا ہوگا۔اسی کے ساتھ یہ بھی ہو اکہ اردو شعرا کا ایک بڑا حلقہ قصیدے کی حد تک عربی روایات سے الگ ہوکر فارسی کی قدرے مختلف فضا کو اپنانے میں کامیاب ہوا۔ گذشتہ دو سو برسوں میں انگریزی اثرات سے جن نئی صنفوں کی ہماری زبان میں شمولیت ہوئی، اُن میں بھی بعض کومسلّمہ آداب سے گریز کرتے ہوئے کچھ اپنے اصول و ضوابط اور نئے اطوار کو اپنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
شہر آشوب کی حدود اور اس کے دائرۂ کار پر گفتگو سے پہلے یہ تسلیم کرلینا نامناسب نہ ہوگا کہ اردو کی حد تک یہ ایک مردہ صنف قرار دی جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا شمار قصیدہ، مرثیہ اور داستانوں جیسی وقیع ادبی سرماے کی حامل صنفوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جنھیں اپنے تاریخی کام کا موقع ملا لیکن وہ آج مردہ اصناف کے طور پر شمار میں لائی جاتی ہیں۔ اردو کی پوری ادبی تاریخ میں شہر آشوب کا مجموعی سرمایہ اتنا گراں بہا نہیں کہ اس کی بنیاد پر اسے بڑی صنف کا درجہ دیاجاسکتا ہے۔ کوئی ایسا شاعر بھی دکھائی نہیں دیتا جسے صرف شہر آشوب کی بنیاد پر اردو میں بڑے شاعر کی حیثیت سے مقام حاصل ہوا ہو۔غرض شہر آشوب کو ایک ضمنی اور ذیلی صنفِ ادب کے طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ حیثیت کے ساتھ اس صنف کو یاد کرنا ادبی مورّخین کے غیر متناسب کردار کا ثبوت ہی فراہم کرے گا۔
صنفِ شہر آشوب مغربی ایشیا کے ممالک سے بڑھتے ہوئے جب ہندستان کی سرزمین تک پہنچی تو اس وقت ہر جگہ وہ جاگیردارانہ ماحول تھا جس کے شانوں پہ چڑھ کر تہذیب و ثقافت کے جلوے دکھائی دیتے تھے۔ یہ بتانے کی آج کوئی خاص ضرورت نہیں کہ جمہوری تقاضوں اور انسانی ضرورتوں کے تحت گذشتہ کئی سو برسوں سے انصاف اور مساوات کی بنیاد پر نئی تہذیب کے استحکام کی کوششیں ہر طرف کامیابی سے ہم کنار ہیں۔ لیکن تُرکی اور فارسی میں جب ابتدائی شہر آشوب لکھے گئے تو اس وقت ان کے مقاصد معمولی، ناپسندیدہ اور جاگیردارانہ تعیّش اور بد تہذیبی کی بنیادوں پر محمول نظر آتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ ایک ایسی صنف کی تشکیل کی جاتی ہے جس کا اوّلاً یہی مقصد ہوتا ہے کہ پیشے ور اقوام کا مذاق اڑایا جائے۔ ابتدا میں جب امرد پرستی کا زور تھا، اس وقت بھی شعرا نے پیشے ور اقوام کے نوخیزوں کو شعر میں تختۂ مشق بنانے کی مہم چھیڑ رکھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس معاشرے میں غیر پیشے ور یا طبقۂ اشراف کے جوانان نوخیزی یا کشش سے خالی تھے یا اُن شعراے قدیم میں ایسی جسارت نہیں تھی۔
شہر آشوبوں کے لیے یہ بات مشہور ہے کہ زمانے کی بدحالی اور عمومی زوال کے مناظر اس صنفِ ادب میں شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات شہر آشوب کی تاریخ کے آخری دور سے تعلّق رکھتی ہے جب ہندستان میں بادشاہت اور جاگیردارانہ نظام کے پرخچے اڑنے شروع ہوگئے تھے۔ تُرکی، فارسی اور اردو کے ابتدائی شہر آشوبوں میں سماج کے محنت کش اور اپنے اپنے فن کے ماہرین کو بے وجہ نشانۂ طنز بنانے کی خوٗ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ صنف ابتداً جاگیردارانہ چونچلوں اور تعیّشِ ذہنی کی بنیاد پرہی قائم ہوئی تھی۔ ابتدائی شہر آشوبوں میں پیشے ور اقوام کی اپنی محنت کی بدولت مالی طور پر کہیں کہیں مستحکم ہونے کی بات بھی سامنے آتی ہے لیکن شہر آشوب نگاروں کے بیان میں وہاں کسی ترغیب یا تحسین کی کیفیت نہیں ہے بلکہ یہ زمانے کے زوال کا ایک پیمانہ بتایا جاتا ہے۔ جمہوری ماحول میں ایسی باتیں پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے آبا و اجداد کے ذہن و کردار کی ان ناہم واریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے جن کے سبب نہ صرف یہ کہ بادشاہت واگذاشت ہوئی بلکہ قومی زندگی کی ساری رونقیں ہی ہم سے ایک طویل مدّت کے لیے چھن گئیں۔
کسی صنف کی زندگی اور بقا کے لیے یہ لازم ہے کہ اس کا دائرۂ کار وسیع تراور نَو بہ نَو ہوتا جائے۔ شاید یہ بھی اصناف کے ارتقا کی وہ جمہوری آنچ ہے جس سے حقیقتاً انھیں زندگی یا موت حاصل ہوتی ہے۔ شہر آشوبوں نے بعد میں اپنا دائرۂ کار سماجی اعتبار سے پھیلایا اور کوشش کی کہ زوال کے ہمہ جہت زاویے اس میں شامل ہوں لیکن اس وقت بھی اصولی طور پر ایک رخنہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جاگیردارانہ طبقے کے زوال پر ہمارے شعراے کرام کے جو آنسو بہتے ہیں ، کیا وہی کیفیت اور درد و سوز ان تمام غربا و مساکین یا پیشے ور اقوام کے زوال کے سلسلے سے سامنے آتا ہے؟ کہاں شعرو ادب کو انسانی سوز کا سب سے سچّا ترجمان کہتے ہیں اور یہاں حال یہ ہے کہ شاکرناجیؔ سے لے کر میرؔ اور سوداؔ تک یا غالبؔ و سرسیّد کی نثری تحریروں تک میں اس عہد کی جو تکلیف پیش ہوئی ہے، اس میں انصاف کے بنیادی تقاضے کم کم کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اعلا طبقے کا دکھ الگ ہے اور ادنا طبقے کا دکھ الگ؛ دونوں کے تئیں اظہارِ ہمدردی میں بھی درجے کا واضح فرق ہے۔ ایسی صنف جمہوریت کی آندھی میں کسی بھی قیمت پر خود کو نہیں بچا سکتی تھی۔ ہم لاکھ جدید شہر آشوب کی اصطلاحیں استعمال کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب جدید نظموں کی اگلی پچھلی کڑیاں ہیں اور ہمیں انھیں اسی طور پر اب دیکھنا چاہیے۔ صرف شہر آشوب کے مجموعی سرماے میں اضافے کی غرض سے ان کی فہرست قائم کرنے کی خوٗ سے اجتناب برتنا چاہیے۔
سید مسعود حسن رضوی ادیب نے شہر آشوب کے لغوی معنیٰ پر بحث کرتے ہوئے دو مطالب واضح کیے ہیں:۱۔شہر کے لیے فتنہ اور ہنگامہ ۲ ۔ شہر میں فتنے اور ہنگامے برپا کرنے والے۔ ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں ’شہر آشوب ‘ کے تین معنوں کی تفصیل ملتی ہے: ۱۔ کسی شہر کی نسبت سے مدح یا ذم کے اشعار۔ ۲۔کسی شہر کے اجڑنے یا برباد ہونے کا ذکر یا ماتم۔ ۳۔ وہ شخص جو اپنے حسن و جمال کے باعث آشوب بندۂ شہر ہو۔’نورالغات‘ میں شہر آشوب کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: وہ نظم جس میں کسی شہر کی پریشانی، گردشِ آسمانی اور زمانے کی ناقدردانی وغیرہ کا ذکر ہو۔ سید عبداﷲ اپنے مقالے میں ان تعریفوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ انھوں نے ترکی، فارسی اور اردو شہر آشوبوں کے مابین امتیازات کی وضاحت ان لفظوں میں کی ہے:’’مضمون کے لحاظ سے ابتدا میں شہر آشوب کی بنیادی صفت صرف اس قدر تھی کہ اس میں باشندگانِ شہر کے مختلف طبقوں سے متعلّق کسی آشوب انگیز امر کا ذکر نظم میں موجود ہوتا تھا۔ترکی شہر آشوبوں میں مختلف جماعتوں اور گروہوں سے تعلّق رکھنے والے نازنین نوخیزوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ فارسی شہر آشوبوں میں بنیادی صفت کے لزوم کے ساتھ طبقاتِ شہر کی ہجو اس میں شامل ہوئی۔ اردو کے اقتصادی شہر آشوب، ہجو، مرثیے اور نوحے کے انداز پر لکھے گئے‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ طویل مدّت تک شہر آشوب کا مقصد تفریح اور تفنّنِ طبع سے زیادہ نہیں تھا۔ جن پیشے ور افراد کے حسن و جمال سے لذّت انگیزی کی گئی ہے، وہاں بھی شعری کیفیت اور انسانی سوز و ساز کی جلوہ سامانیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ سیّد مسعود حسن رضوی ادیب نے تو انھیں لطیفہ گوئی قرار دیا ہے۔
آگہی خراسانی کے شہر آشوب کے بارے میں’ تحفۂ سامی‘ میں واضح طور پر یہ درج ہے کہ اس کے مزاج میں خباثت غالب تھی۔ اس قصیدے میں ایسے رکیک الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے کہ ہر مورّخ اسے دہرانے سے گریز کرتا ہے۔ آگہی کی انھی عادتوں سے حاکمِ وقت نے اس کا دایاں ہاتھ اور اس کی زبان کاٹ ڈالی۔ عہدِ عالمگیری میں حلقۂ دکن میں ایک فارسی شہر آشوب دستیاب ہوتا ہے۔ نعمت خاں عالی کی کتاب ’وقایع محاصرۂ گولکنڈہ ‘میں جو شہر آشوب شامل ہے، اس کا سلسلہ ایک طرف فارسی اور ترکی کے پرانے شہر آشوبوں سے تو ملتا ہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا ایک سرا شہر آشوب کے نئے دور کی کہانی بھی کہتا ہے۔۱۸۵۲ء اور ۱۸۷۰ء کے دو مطبوعہ نسخوں کے مطالعے کے بعد خاکسار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ شہر آشوب اٹھارھویں صدی کے اردو شعرا کے لیے عین ممکن ہے ،خاص اہمیت کا حامل ہوگیا ہو۔ ستائیس پیشے ور اقوام کا یہاں تذکرہ ہے لیکن وہ زوال کے آثار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اہلِ دکن کی کسمپرسی اور مہتم بالشان حکومت کے زوال کے آنسو کی یہاں جو تفصیل پیش کی گئی ہے، حقیقت میں شہرِ دہلی اور مغل حکومت کے زوال کے احوال لکھنے کے لیے بعد کے شہر آشوب نگاروں کے لیے اس نے نرم مٹّی کا کام کیا ہوگا۔نعمت خاں عالی نے قصیدے کی ہئیت کا استعمال کیا اور یہ کوشش کی کہ شہر آشوب محض تفنّنِ طبع کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ اس نے اپنے شہر آشوب میں انسانی سوز اور دردمندی کی کڑیوں کو سلسلے وار طریقوں سے جوڑنے میں کامیابی حاصل کی جس کے سبب اس کے فوراً بعد کے اردو شعرا اکثر و بیش تر ایک وسیع دائرۂ کار میں غور و فکرکرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور شہر آشوب کو ایک سنجیدہ علمی گفتگو کا موضوع سمجھنے کی روایت کی داغ بیل پڑ جاتی ہے۔
سید عبداﷲ نے ایک فارسی شاعر بہشتی کے’ آشوب نامۂ ہندستان‘ کا ذکر کیا ہے جس میں ۱۰۶۷؁ھ اور ۱۰۶۸؁ھ کے آشوبِ سلطنت کے احوال رقم ہوئے ہیں۔نعمت خاں عالی کی طرح ہی اس شہر آشوب میں بھی وہ نئے عناصر موجود ہیں جن کی بنیاد پر اردو کے نئے شہر آشوبوں کی تصنیف و تالیف کا کام ہونا تھا۔ یہاں حکومتوں کے زوال کے سیاسی و سماجی اسباب و علل بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔ ایک واضح تبدیلی اس طور پر بھی سامنے آتی ہے کہ اس شہر آشوب میں ظریفانہ اور تمسخرانہ لہجہ کافور ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ تاریخی سنجیدگی اور انسانی درد و سوز کو حاصل ہوتی ہے۔اسی لیے نعمت خاں عالی اور بہشتی کو ہندستان کے ان فارسی گو شعرا میں اہمیت دی جاسکتی ہے جنھوں نے اردو شہر آشوبوں کے لیے موضوعاتی اور صنفی دائرۂ کار کا نہ صرف تعیّن کیا بلکہ آنے والے وقت میں انھی خطوط پر شہر آشوب نگاری کا سلسلہ بھی آگے بڑھا۔ عمومی پیشے ور ان کے احوال سے الگ مہنگائی، مفلسی اور عوامی بے بسی و بے چارگی کے احوال اس شہر آشوب میں بہت صفائی کے ساتھ شامل ہیں۔
کسی دوسری صنف کی طرح یہ بھی ایک مشکل امر ہے کہ حتمی طور پر اس بات کا فیصلہ ہو جائے کہ اردو کا پہلا شہر آشوب نگار کون ہے؟ فارسی اور تُرکی میں بھی اس سلسلے سے فطری طور پر اختلافات ہیں اور محققین میں اتفاقِ راے نہیں ہے۔یہ مسئلہ بھی کم پیچیدہ نہیں کہ شہر آشوب کی ہیئت کیا مخصوص ہے؟ تاریخ اس بات سے اتّفاق نہیں رکھتی ۔شہر آشوب مثنوی ،قصیدہ ،رباعی ،قطعات،مخمس اور مسدّس کی شکلوں میں بڑی تعداد میں دستیاب ہیں ۔جیسے جیسے عہدِ جدید سے قربت کا مرحلہ سامنے آتا گیا اور نظم گوئی کے امکانات بڑھتے گئے ،شہر آشوب جدید نظم کے قالب میں بھی سماتے چلے گئے ۔شہر آشوب کے مورّخ کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ کسی ایک رنگ یا کسی ایک مضمون اور کسی ایک ہیئت کی تخلیقات کو شہر آشوب کے دائرۂ کار میں محصور کر کے کیوں کر دیکھے ؟ادب کی تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے اس ضمن میں ہمارا رویّہ لچیلا ہونا چاہیے ۔
شہر آشوب کے مورّخین نے اردو کے ادبی سرمایے کے حوالے سے تلاش و تجزیے کا جو ۹۹ فیصد کا م کیا، وہ شمالی ہندستان سے متعلّق ہے ۔دکن کے اردو شعرا کی طرف اس سلسلے سے رجوع نہیں کیا جانا ایک عمومی عدم توجہی سے شاید بڑھ کر ہے ۔یہ بھی اتّفاق ہے کہ سترھویں صدی کے اواخر سے پہلے دو تین سو برسوں تک دکنی معاشرے نے سیاسی ،سماجی اور ثقافتی اعتبار سے بلندی کے ایسے احوال دیکھے تھے کہ وہاں انھیں زوال کے آثار کیسے دکھائی دے سکتے تھے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دکن کے شعرا میں ایک بڑی تعداد ایسے صوفیہ اور خداترس فن کاروں کی تھی جنھیں حکومت کی اُٹھان سے کچھ خاص مطلب نہیں رہا ہوگا۔ اس لیے سولھویں صدی عیسوی کے نامور صوفی اور شاعر برہان الدین جانم کی مثنوی ’سُکھ سہیلا‘ میں سماجی زوال اور اخلاقی گراوٹ کے بیان کے ساتھ عمومی فقیرانہ گفتگو آسانی سے ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ یہ باضابطہ شہر آشوب نہ سہی لیکن مضمون کی ادائیگی کے اعتبار سے برہان الدین جانم کو اردو میں اس انداز کے اشعار خلق کرنے والا پہلا شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔
دکنی شعرا کی آخری نسل میں جو صاحبانِ امتیاز پیدا ہوئے، اُن میں قاضی محمود بحری کی خاص اہمیت ہے جنھوں نے ۱۷۰۰ء میں’ من لگن‘ عنوان سے ایک ایسی مثنوی لکھی جس میں ۲۸ ؍اشعار’ دَر شکایت روزگار‘ عنوان سے شامل کیے گئے ہیں ۔اِن اشعار سے وہی کیفیت اُبھرتی ہے جسے ہم شہر آشوب سے مخصوص جانتے ہیں ۔ معاشرتی زوال اور تہذیبی اتھل پتھل کے احوال ان اشعار میں صاف طور پر رقم ہوئے ہیں۔ بحری نے جس سال یہ مثنوی مکمّل کی، اُسی سال ادبی اور ثقافتی پیامبر بن کر ولی دکن سے دہلی آتے ہیں ۔ادبی مورّخین کا اِس بات سے بہت حد تک اتّفاق ہے کہ دہلی میں ایہام گو شعرا کی نسل کی ادبی تربیت دیوانِ ولی کی زیرِ نگرانی ہوئی ۔اِس کے بعد اِصلاحِ زبان کی تحریک اور عہدِ میر و سودا کے سبب اردو کا فوری طور پر عہدِ زرّیں میں داخل ہونا اردو کی برق رفتار ترقی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ولی کے اثرات اور اُن کی شاعری کی طلسماتی لَے سے کون انکار کرے لیکن اُسی عہد میں شمالی ہندستان میں ایک ادبی جزیرے کے طور پر جعفر زٹلی کی شاعری نظر آتی ہے جس کے بارے میں یہ بات تو یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ وہ شمالی ہندستان کی نئی اردو شاعری کو اپنے اثرات سے با رونق بناتے ہوئے سامنے آتی ہے لیکن اس سچائی سے کون انکار کرے گا کہ اپنی گو نا گوں خوبیوں کے لیے جعفر زٹلی کی شاعری اپنے آپ میں اس قدر وقیع اور توجّہ طلب ہے جس کے مطالعے کے بغیر ہماری ادبی تاریخ نویسی کا کام ادھورا ہی رہے گا ۔
جعفر زٹلی کو عام طور سے ایک طنز نگار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے ۔اسی طنز کی اُنھیں اپنی جان کی قربانی دے کر بھرپائی کرنی پڑی تھی ۔جعفر کی شعری زبان کی قدامت اور اُس کا اَن گڑھ پن اپنی جگہ لیکن موضوعاتی اعتبار سے اُس نے اپنے عہد کے زوال کے آثار جس سلیقے سے اپنے شعروں میں شامل کیے ہیں ،اُس سے اُسے ابتدائی شہر آشوب نگاروں میں خاص اہمیت دی جاسکتی ہے ۔نعیم احمد نے قصیدے کی ہیئت میں تحریر شدہ اُن کے دو شہر آشوب کا ذکر کیا ہے ۔’نوکری نامہ‘نام سے جو شہر آشوب زٹلی نے پیش کیا ہے، اُس سے اُس عہد کی معاشرتی اور اقتصادی زوال کے واضح آثار سامنے آجاتے ہیں۔اس زمانے میں ملازمت ایک مشکل اَمر ہے اور وہ لوگ جنھیں نسل دَر نسل اپنے آپ ملازمت یا حکومت میں مناصب حاصل ہو جاتے تھے،اُن کے لیے ایسی آسانیاں اب نہ بچی تھیں۔ گردشِ زمانہ نے ملازمت عطا کرنے والوں پر ہی وہ بجلی گرائی کہ اُنھی کے لیے عرصۂ حیات تنگ ہو گیا ۔برسرِ کار افواج کی تنخواہیں بند ہیں اور اُن کے اہل وعیال بھوکوں مرنے کے لیے مجبور ہیں ۔مہاجنوں سے قرض تو لیے گئے لیکن اُن کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اب مہاجن ہی قلّاش ہو گئے۔زٹلی نے بالعموم طبقۂ اشراف کی مشکل زندگی کی تصویر وں کے ساتھ پیشے ور اقوام کا بھی ذکر کیا ہے لیکن اُن کے جینے کے لائق حالات سے ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُس عہد کی عمومی جاگیردارانہ عصبیت کا بھی در پردہ اظہار کردیاہے۔ اِس شہر آشوب میں زٹلی نے زوال کے اسباب پر اختصار کے ساتھ لیکن واضح اشارے کیے ہیں اور وہ اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امراو رؤسا اور اکابرِ سلطنت صحیح طریقے سے اپنی ذمّہ داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں ۔
زٹلی کے دوسرے شہر آشوب کے آٹھ شعروں میں ردیف کا ڈھب کچھ ایسا ہے جس میں اپنے آپ شہر آشوب کی واضح کیفیت سامنے آجاتی ہے :’عجب یہ دور آیا ہے‘ ۔معاشرے سے عمومی خصوصیات کا اُٹھ جانا شاعر کے لیے آنسو رُلانے کے لیے کافی ہے ۔ظالم کی طاقت بڑھ گئی ہے ،اخلاص محفل سے زائل ہے،بھائیوں میں وفا ہے نہ یاروں میں یاری ہے ۔محبّت اُٹھ چکی ہے ،سچ بولنے والا کوئی نہیں ،سب جھوٹ کے کاروبار میں مشغول ہیں ۔شرم و حیا کا جامہ اُتار پھینکا گیا ہے ،ہنر مند بھٹکتے پھریں اور لوگوں کے دروازے پر آواز لگائیں،اِس کی تاب زٹلی کو نہیں ۔حالاں کہ یہاں بھی اس کی نسل پرستی اور غیر رواداری کا اظہار اس انداز سے آخری مصرعے میں ہو ہی جاتا ہے :
رَجل تو مے کی بن آئی ،عجب یہ دَور آیا ہے
ایہام گو شعرا میں محمد شاکر ناجی کا شہر آشوب جو مخمس کی شکل میں ہے ،اُس کے دو بند ’آبِ حیات‘ میں نقل ہوئے ہیں۔ مکمّل شکل میں یہ شہر آشوب کسی محقق کو اب تک حاصل نہ ہوا، اس لیے شہر آشوب کے تمام مورّخین اسی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں ۔یہ دونوں بند غالباً آزاد نے مجموعۂ نغز مؤلفہ قدرت اﷲ قاسم سے اخذ کیے تھے ۔حالاں کہ نقل در نقل میں لفظی تصرّف شامل ہو گیا ہے ۔ناجی سپہ گر تھا لیکن تذکرہ نویسوں کی مانیں تو سب کا اِس بات پہ اتفاق ہے کہ وہ مزاج کا خوش طبع اور ظریف تھا ۔پرانے شہر آشوبوں کا اِس مزاج سے تو بہت رشتہ تھا لیکن ناجی کے زمانے میں خوش طبعی یا مزاج کی شوخی کے لیے شاید کسی شہر آشوب نگار کے پاس گنجائش ہی نہیں تھی ۔دونوں بند اِس بات کے گواہ ہیں کہ اُس نے حقیقتِ حال پر گفتگو کا مدار رکھا ہے اور اپنے عہد کی سچی تصویر کشی کو اُس نے فرض سمجھا ۔اِن دس مصرعوں میں شاکر ناجی نے عہدِ قدیم او ر جدید یا عروج اور زوال کے بیچ واضح خطِ فاصل کھینچ دی ہے ۔فوجیوں کے لیے اب جنگ کی مشق ایک بھولی ہوئی کہانی ہے ۔کبھی گھروں میں انواع و اقسام کی شرابیں بھری ہوئی ہوتی تھیں لیکن آج یہ حالت ہے :
نہ پانی پینے کو پایا وہاں نہ کھانا تھا
ملے تھے دھان جو لشکر تمام چھانا تھا
شاکر ناجی کے اِس شہر آشوب یا دس مصرعوں کی اہمیت بتاتے ہوئے سیّد عبداﷲ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاکر کے رنگِ سخن کے اثرات گو نا گوں رہے ۔بعد کے شہر آشوبوں بالخصوص سودا،میر اور نظیر اکبر آبادی کے یہاں سیاسی اور معاشی موضوعات جس سنجیدگی سے شہر آشوب کا حصّہ بنے ہیں یا بعد کے شعرا کے لیے مخمس کی ہیئت شہر آشوبوں کے لیے پسندیدہ قرار پائی ، اسے کہیں نہ کہیں شاکر ناجی کا فیضان تصوّر کرنا چاہیے ۔
ایہام گوئی عہد سے تعلّق رکھنے والے شعرا میں پیر خاں کم ترین کا ذکر تذکرہ نگاروں نے شہر آشوب گو کے طور پر کیا ہے ۔کم ترین نے شاید۷۰۰ ؍ شعر وں پر مشتمل ایک ایسا شہر آشوب لکھا جس میں مختلف پیشے ور اقوام بالخصوص مشعلچن،پکوان والی،خیمہ دوز،فرّاش اور پنکھا فروش وغیرہ کی کچھ اس انداز میں ہجو پیش کی گئی ہے جس کی انتہائی رکاکت اور تہذیب ِ انسانی سے پَرے ہونے سے سب اتّفاق کرتے ہیں ۔ مکمّل شکل میں یہ مثنوی اب تک دستیاب نہیں ہو پائی ہے ۔میر حسن کے تذکرے میں جو پانچ اشعار نقل ہوئے تھے، اُنھیں بھی مطبوعہ ایڈیشن میں حذف کر دینے پڑے ۔اِس شہر آشوب کو بھی جاگیر دارانہ تہذیب کے لوازم کے سبب اور نسلی تعصّبات کی وجہ سے عمومی تذکرے میں جگہ دی جاتی ہے ورنہ کم ترین اپنے ہم عصروں میں مجموعی کمالات کے سبب واقعتاً کم ترین ہی ہے۔
اٹھارویں صدی جس اُتھل پُتھل اور سیاسی، سماجی، تہذیبی و ثقافتی زوال کا عینی شاہد بنی، اسی نے شعراے اردو کو اس بات کے لیے راغب یا مجبور کیا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے جو دنیا لُٹ رہی ہے، اسے وہ اپنے کلام کا حصّہ بنائیں ، آخر کوئی تو بات ہوگی کہ میرؔ کی شاعری کو دل اور دلّی کا مرثیہ کہا گیا۔ سوداؔ کے قصائد اور ہجویات یا نظیرؔ اکبر آبادی کی چشم کشا منظومات سب معاشرتی زوال کی تصویریں کھینچنے کے لیے قابلِ توجہ ہیں لیکن اس عہد کے جن شعرا نے شہر آشوب لکھے، انھوں نے حقیقتاً اپنے کلیجے کا لہو کاغذ پر نکال کر رکھ دیا ہے۔ اٹھارویں صدی کے بزرگ شعرا میں شاہ حاتمؔ ، ان کے شاگرد مرزا محمد رفیع سوداؔ، محمد تقی میرؔ اور نظیر اکبر آبادی کے شہر آشوب بہ غور پڑھ لیے جائیں تو نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور اپنے حکمران کی نااہل قیادت میں پسپا قوم کی کیفیات اپنے حقیقی رنگ میں سامنے آجاتی ہیں۔ شاہ حاتم کے دو مخمس جنھیں وہ بارھویں صدی ہجری کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے وقف کرتے ہیں وہ اردو شہر آشوب کی تاریخ اور ابتدائی نمونوں میں ادبی اعتبار سے غالباً سب سے اہم تسلیم کیے جائیں۔ حاتم نے معاشرتی اتھل پتھل اور زوال کی تصویریں پیش کرنے میں اپنی نگاہ ہر ضروری مقام پر مرتکز رکھی ہے۔ دنیا بدل رہی ہے اور کل جو منصب دار تھا، اس منصب سے انھیں ہٹایاجاچکا ہے۔ اسی اُتھل پُتھل سے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا ایک طوفان اٹھا ہوا ہے۔ حقیقت بیانی میں حاتم نے کہیں کہیں رؤسا ، امرا اور شاہانِ وقت کی کارکردگی پر بھی سوالات قائم کیے ہیں۔لیکن شہر آشوب کی قدیم روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اصحابِ اقتدار کو بار بار نشانۂ طنز بنایا ہے۔ دو بند ملاحظہ کیجیے جہاں طبقہ اشراف کے تئیں اس طرح فردِ جرم عاید کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو:
شہوں کے بیچ عدالت کی کچھ نشانی نہیں

امیروں بیچ سپاہی کی قدردانی نہیں
بزرگوں بیچ کہیں بوئے مہربانی نہیں

تواضع کھانے کی چاہو کہیں تو پانی نہیں
گویا جہاں سے جاتا رہا سخاوت و پیار
یہاں کے قاضی و مفتی ہوئے ہیں رشوت خور

یہاں کے دیکھیو سب اہل کار ہیں گے چور
یہاں کرم سے نہیں دیکھتے ہیں اَور کی اُور

یہاں سبھوں نے بھُلائی ہے دل سے موت اور گور
یہاں نہیں ہے مدارا بغیر دارومدار
لیکن شاہ حاتمؔ طبقاتی تعصب اور شہر آشوب کی روایت کی وجہ سے پیشہ ور اقوام کی ترقی یا معاشی استحکام سے سخت نالاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حالات کی تبدیلی کو ہمارے شعراے کرام معروضی نقطۂ نظر سے کیوں نہیں جائزہ لینا پسند کرتے ہیں۔ ہندستانی مورخین کا یہ متفقّہ فیصلہ ہے کہ مغلیہ عہد میں طبقۂ خواص اور طبقۂ عوام کے بیچ معاشی سطح پر جتنی بڑی کھائی پیدا ہوگئی تھی، اس عہد کی اقتصادی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے اس کے انسلاکات سے انحراف ممکن نہیں۔ امرا اور رؤسا بادشاہوں کی مراعات پر ٹھاٹ سے گزارہ کررہے تھے لیکن جب بادشاہ ہی خالی ہاتھ بیٹھا ہوا ہے تو ٹھاٹ تو جائے گی ہی۔ اس کے برعکس پیشہ ور اقوام قومی ترقی میں اپنے ہنر اور مشقت کی وجہ سے طبقۂ اشراف کے مقابلے ٹھیکری ہی پاتے تھے لیکن جب امرا و رؤسا کی طرف سے رسد ہی بند ہے تو مالی اعتبار سے ٹھیکری پر گزارہ کرنے والے ہی زیادہ معاشی استحکام حاصل کرلیں گے کیوں کہ انھیں سرکاری عطا پر اپنی زندگی نہیں گزارنی تھی بلکہ اپنی مشقت اور ہنر مندی کی انھیں اجرت چاہیے تھی۔ ان کے کام ان حالات میں بھی قومی ترقی کے لیے بلاشبہہ productive تھے لیکن بادشاہوں اور امرا ورؤسا کے حلقے سے متعلق آدمی نے نہ کوئی ہنر سیکھا تھا اور نہ ہی اسے مشقت کی بنیاد پر رزق کے حصول کے لیے بھٹکنا تھا۔
عہدِ مغلیہ کے زوال کی تاریخ کا انصاف پسند تجزیہ ہمارے شعرا بالخصوص شہر آشوب نگار نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ ان کی پیش کردہ تفصیلات میں اس توازن کی باضابطہ کمی دکھائی دیتی ہے جس کے بغیر ادب سماجی اور تہذیبی تاریخ کا بدل نہیں ہوسکا۔حاتمؔ کے ان شہر آشوبوں میں ایسے ایسے مصرعے درج ہیں کہ اگر آج انھیں برسرِ مجلس پیش کردیا جائے تو اردو ایک تنگ نظر سماجیزندگی کی آئینہ دار معلوم ہوگی اور ہندستان کے آئین کے مطابق فوجداری مقدمے بھی قائم ہوجائیں گے کیوں کہ جمہوریت کے عالمی تقاضے اس بات کی آج ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ کوئی شخص نسل اور کام کی بنیاد پر ایک دوسرے کو اونچا نیچا سمجھے اور اس کے باعث ذلیل اورر سوا قرار دے۔ شہر آشوبوں کے مجموعی سرماے کو پرکھتے ہوئے ان سوالوں سے صرفِ نظر کرنا مناسب نہیں۔
شہر آشوب کے مجموعی سرماے سے اگر کسی ایک شاعر کو منتخب کرنے کا ارادہ کیا جائے تو بلاشبہہ مرزا محمد رفیع سودا کا نام سرِ فہرست ہوگا۔ سودا نے قصیدے کی ہئیت میں ایک شہر آشوب کہا اور پھر چھتیس(۳۶) بند کا ایک مخمس شاملِ دیوان کیا۔ قصیدے میں طبیب اور شعرا کے احوال کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دونوں شہر آشوبوں میں سودا کا ہجویہ آہنگ قائم رہتا ہے۔ سودا کی تمام عمر ہجو گوئی کے ماحول میں تربیت ہوئی تھی۔ ہجو گوئی میں بھی سودا کے یہاں شہر آشوب کے مضامین کبھی پُرسوز کبھی ظرافت آمیز اور کبھی غم و غصّے کے ساتھ ان کے مخصوص اسلوب میں ڈھل کر کچھ اس انداز سے سامنے آئے ہیں جیسے وہ زوال کی آسمانی کتاب تیار کررہے ہوں۔ ان کے مخمس سے تین بند ملاحظہ ہوں:
خراب ہیں وہ عمارات کیا کہوں تجھ پاس

کہ جن کے دیکھے سے جاتی رہی تھی بھوک اور پیاس
اور اب جو دیکھو تو دل ہووے زندگی سے اداس

بجائے گل چمنوں میں کمر کمر ہے گھاس
کہیں ستون پڑا ہے کہیں پڑے مرغول
یہ باغ کھا گئی کس کی نظر نہیں معلوم

نہ جانے کن نے رکھا یہاں قدم وہ کون تھا شوم
جہاں تھے سرو و صنوبر اب اس جگہ ہے زقوم

مچی ہے زاغ و زغن سے اب اس چمن میں دھوم
گلوں کے ساتھ جہاں بلبلیں کریں تھی کلول
جہان آباد تو کب اس ستم کے قابل تھا

مگر کبھو کسی عاشق کا یہ نگر دل تھا
کہ یوں مٹا دیا گویا کہ نقش باطل تھا

عجب طرح کسی عاشق کا یہ نگر دل تھا
کہ جس کی خاک سے لیتی تھی خلق موتی رول
سودا کے قصیدۂ شہرآشوب میں اہلِ دہلی کے حالات کمالِ ضبط کے ساتھ قلم بند ہوئے۔ اہلِ ہنر کے احوال سودا کچھ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
اور ماحضر آخوند کا اب کیا میں بتاؤں

یک کاسۂ دال حدس اور جو کی دوناں ہے
دن کو تو بچارہ وہ پڑھایا کرے لڑکے

شب خرچ لکھے گھر کا اگر ہندسہ داں ہے
وہ بیت ٹکے سیکڑہ لکھنے کا ہے محتاج

خوبی میں خط اب جس کا بہ از خطِّ بتاں ہے
دیتا ہے دُم خر سے کوئی شملے کو نسبت

گنبد سے کوئی پگڑی کر تشبیہ کناں ہے
دنیا میں تو آسودگی رکھتی ہے فقط نام

عقبیٰ میں یہ کہتا ہے کوئی اس کا نشاں ہے
سو اس پہ تیقّن کسی کے دل کو نہیں ہے

یہ بات بھی گویندہ ہی کا محض گماں ہے
یاں فکرِ معیشت ہے تو واں دغدغۂ حشر

آسودگی حرفیست یہاں ہے نہ وہاں ہے
کلیم الدین احمد نے سودا کے شاعرانہ مقام کے تعین کے سلسلے سے ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں بحث کرتے ہوئے ان کے قصائد کے مقابلے ان کی ہجویات کو ادبی اعتبار سے زیادہ گراں مایہ تسلیم کیا ہے۔ سودا نے اپنی ہجویات میں نام بنام افراد کا تمسخر اڑایا ہے۔ انھیں نہ انعام کا کوئی لالچ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے خوف میں مبتلا ہوتے تھے۔ ان کے اسی مزاج سے ان کی ان ہجویات میں بھی جو یوں تو کسی شخص یا کسی واقعے پر منحصر ہیں، ایک اعلا ادبی شان پیدا ہوگئی ہے۔ سودا کوتوال کی مذمت کررہے ہیں یا گھوڑے کا مذاق اڑا رہے ہوں لیکن وہ حالات کی پیش کش کچھ اس انداز سے کرتے ہیں جس سے وہ فی الحقیقت اپنے عہد کے نبض پیما بن جاتے ہیں ۔ شیدی فولا دخاں کوتوال کی ہجو میں جو مثنوی سودا نے لکھی ہے، سچائی یہ ہے کہ نفسِ مضموں کے اعتبار سے وہ شہر آشوب ہی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
کیا ہوا یارو وہ نسق ہیہات

لیموں کے چور کا کٹے تھا ہات
شہر میں کیا رہے تھا امن و اماں

کیسی کرتی تھی خلق خوش گزراں
اب جہاں دیکھو واں جھمکّا ہے

چور ہے ٹھگ ہے اور اُچکّا ہے
دمڑی کے سودے کو جوواں جاوے

پگڑی کھو سر کو پیٹتا آوے
سر پر یہ دیکھیں جس کے ا چھی شال

گویا وہ اس کے باپ کا ہے مال
اور سودا کی حاضر جوابی کے پردے میں اٹھارویں صدی کے زوال کے آثار صاف صاف لفظوں میں ملاحظہ کیجیے:
خلق جب دیکھ کرکے یہ بیداد

کرتے ہیں کوتوال سے فریاد
کرتے ہیں مجھ سے اب بجا کر ڈھول

میری پگڑی کا میرے سر پر مول
یارو کچھ چل سکے ہے میرا زور

دیکھو تو ٹک کہاں کہاں ہے چور
مٹ سکے مجھ غریب سے یہ خلل

ہے امیروں کے گھر میں چور محل
دیکھئے گربتاں کو بھی بہ خدا

ہاتھ میں ہے انہوں کے دزدحنا
کس کو ماروں میں کس کو دوں گالی

چوری کرنے سے کون ہے خالی
سودا نے یہاں خون کے آنسو روئے اور صاف لفظوں میں یہ بات کہہ دی کہ امیروں کے گھروں میں ہی چور محل قائم ہوگئے ہیں اور اس زمانے میں کس کسی کو چوری کی سزا دی جائے گی کیوں کہ چوری کرنے سے کون شخص خالی ہے۔ سودا کے شہر آشوب اور ہجویات میں ان کا زمانہ اس فن کاری کے ساتھ پیش ہوا ہے جس سے یہ تحریریں اپنے وقت کا سچا تاریخی رکارڈ معلوم ہوتی ہیں۔اس کے لیے محمد حسین آزاد نے کیا خوب داد دی:’ وہ بے درد ظاہر بیں کہتے ہیں بادشاہ اور دربار بادشاہ کی ہجو۔ غور سے دیکھو تو ملک کی دل سوزی نے اپنے وطن کا مرثیہ کہا۔‘
محمد تقی میر اپنی غزلوں کے سبب اور خاص طور پر ان کی تہذیبی و ثقافتی بنیادوں کے لیے ہماری ادبی تاریخ کے سرخیل ہیں لیکن ان کے دیوان میں بھی چند ایسے مخمسات موجود ہیں جنھیں باضابطہ طور پر شہر آشوب کے حلقے میں رکھا جاسکتا ہے۔ میر تہذیبی زوال کے سب سے بڑے مشاہد ہیں اور نثر و نظم میں ان کے مظاہر طرح طرح سے سامنے آئے ہیں۔ ان کی اکثر و بیش تر مثنویات جو مکمل طور پر عشقیہ نہیں ہے، وہاں بھی زوال کے آثار بڑے سلیقے سے محفوظ ہوئے ہیں۔ میرؔ کی آپ بیتی بھی اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ حسبِ ضرورت انھیں افواج میں بھی حاضری لگانی پڑتی تھی۔ میرؔ کے دو مخمس ایسے ہیں جن میں اس عہد کی فوج کی مذمّت حقیقت بیانی کے آئینے میں کی گئی ہے۔سپاہیوں کی بے سروسامانی اور مفلسی جس انداز کی ہو، اس عہد کے امرا ورؤسا کے حالات کیوں کر مختلف ہوسکتے ہیں؟ میر کے چند بند ملاحظہ ہوں جن سے اس عہد کی اقتصادی ابتری کا صاف ستھرا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

جس کسو کو خدا کرے گمراہ

آوے لشکر میں رکھ اُمید رفاہ
یوں نہ کوئی حذیر ہے نے شاہ

جس کو دیکھو سو ہے بحال تباہ
طرفہ مردم ہوے اکٹھے آہ

خاک اُڑتی ہے صبح سے تاشام

شام سے صبح تک ہے فکر طعام
رحم کی جا ہے حال تنگ انام

ایک دو ہوں تو لوں کسو کا نام
سیکڑوں کے نہیں جگر میں آہ
مفلسی سے رہا ہے کس میں حال

خورش و خواب ہینگے خواب و خیال
چار دن عمر کے ہوئے ہیں وبال

زندگی اپنے طور پر ہے محال
مرگ ملتی نہیں ہے خاطر خواہ

مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش

آئے لشکر میں ہم برائے تلاش
آن کے دیکھی یاں کی طرفہ معاش

ہے لب ناں پہ سو جگہ پرخاش
نے دم آب ہے نہ چمچۂ آش
جُبّے والے جو تھے ہوئے ہیں فقیر

تن سے ظاہر رگیں ہیں جیسے لکیر
ہیں معذّب غرض صغیر و کبیر

مکھیاں سی گریں ہزاروں فقیر
دیکھیں ٹکڑا اگر برابر ماش

میر کی غزلیات کے بھرے پُرے سرماے سے ایسے اشعار منتخب کیے جاسکتے ہیں جن کا مزاج شہر آشوبوں سے ملتا جلتا ہو۔ مسعود حسن رضوی ادیب نے ایسے کچھ اشعار جمع کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ابتدائی شہر آشوبوں کے انداز و اطوار اور مضامین یہاں اپنے خاص اندا ز میں موجود ہیں، کیوں کہ پیشہ ور اقوام اور اہلِ حرفہ کی مذمت میں میر نے بھی کسی سے کم دادِ سخن نہ دی ہو۔
موضوعاتی تبدیلیوں اور نقطۂ نظر کے امتیازات کو سمجھنے کے لیے قائم چاندپوری کا شہر آشوب جو مخمس کے پینتیس (۳۵) بند پر مشتمل ہے، وہ قابلِ غور تحریر ہے۔ قائم سے پہلے شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہمیں دستیاب ہوا ہو جس نے بادشاہِ وقت کو ہی مرکزِ طنز و ملامت سمجھا۔ باقی شعرا کبھی اشارے سے کام لیتے ہیں لیکن اس بنیادی پہلو کی طرف صاف لفظوں میں کچھ کہنے سے گریز کا انداز رہتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قائم کے شہر آشوب میں اردو شاعری پہلی بار سلاطین پرستی کی اندھیری سرنگ سے نکل کر ایمان اور انصاف کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہاں پہلی بار وہ آزاد فضا یا جمہوری اقدار کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ چند بند اور منتخب اشعار ملاحظہ ہوں:

کیسا یہ شہ کہ ظلم پر اس کی نگاہ ہے

ہاتھوں سے اس کے ایک جہاں داد خواہ ہے
لُچّا اک آپ، ساتھ لٹیری سپاہ ہے

ناموسِ خلق سایے میں اس کے تباہ ہے
شیطان کا یہ ظلّ ہے، نہ ظلّ الہٰ ہے
رہتی تھی ایک خلق کے جی میں یہ آرزو

ہووے گا بادشاہ بھی پھر ہند میں کبھو
تا زمرزے وہی ہوں سرِ نو وہی غلو

سو آسماں نے لاکے مسلط کیا تو توٗ
جس کے ستم سے چار طرف آہ آہ ہے

تُو تو خدا کے فضل سے اس باپ کا پسر

جس کا خطاب شاہِ حماقت پناہ ہے
دادا ترا جو لال کنور کا تھا مبتلا

کہتا تھا کشتیوں کے ڈبونے کو برملا
اس خانداں میں حمق کا جاری ہے سلسلہ

دوں دوش کس طرح سے میں تیرے تئیں بھلا
آخر گدھاپن اس کا ترا عذر خواہ ہے
‘ شہر دہلی سے باہر اٹھارویں صدی کے شہر آشوبوں کی جب ہم تلاش کرتے ہیں تو عظیم آباد میں راسخ عظیم آبادی کی شخصیت اپنے شاعرانہ امتیازات کی وجہ سے بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثنوی کی ہئیت میں انھوں نے جو شہر آشوب کہا، اس کا مکمل عنوان کچھ اس طرح سے ہے:’’مثنوی دربیان انقلاب زمانہ و شکایت فلک و مجملاً احوال مقیمان بلدۂ عظیم آباد۔‘‘ اس شہر آشوب میں پیشہ ور اقوام کی بے بسی اور اقتصادی زوال کا گوشوارہ صراحت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔یہ پہلا شہر آشوب ہے جس میں پیشہ ور اقوام کے حالات کی پیش کش میں انھیں نشانۂ تمسخر نہیں بنایا گیا ہے۔ قائم کے شہر آشوب کے بعد یہ ایسی پہلی تحریر ہے جس میں امرا و رؤسا کے مقابلے عام لوگوں کی طرف سے زوال کے احوال قلم بند کئے گئے ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ راسخ سلطنت کے مرکز سے دور بیٹھے تھے اور سلاطین پرستی یا دلّی کی طے شدہ موضوعاتی اور علمی فضا سے لازمی طور پر خود کو اسیر رکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ یہ اچھا ہوا کہ راسخ نے اٹھارویں صدی میں ہی ایسے اشعار کہہ ڈالے جن کی بنیاد پر اردو شاعری کو غیر جمہوری نقطۂ نظر کے الزامات سے محدود پیمانے پر ہی سہی، بچایا جا سکتا ہے۔ یہاں زوال کا ذکرکرتے ہوئے ایک معروضی نقطۂ نظر اپنانے کی کوشش ہوئی ہے جس کی وجہ سے عاشقِ میرؔ اور دلی سے دور افتادہ بیٹھا شاعر راسخ عظیم آبادی اردو شہر آشوب نگاری میں تاریخی اور اصولی اعتبار سے ایک خاص مجاہدہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کامیابی سے اردو شاعری کی تاریخ کی ایک کج دیوار ضرور درست ہوتی ہوئی معلوم پڑتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ پٹنہ عجب دل کشا شہر تھا

طلسمات تھا واہ کیا شہر تھا
تھے صدق صفا پیشہ اس کے مقیم

طریقِ وفا پر بہت مستقیم
اب اس شہر کا طور ہی اور ہے

مقیموں کا اس کے بُرا طور ہے
نہیں نیک نیت کوئی یاں ولیک

اگر ہے تو ہے وہ ہزاروں میں ایک

مشایح جو ذی عزّو تعظیم ہیں

دل ان کے بھی صدمہ کش بیم ہیں
غم قوت ہے یاں تلک ہر زماں

کہ ہیں رشتہ سبحہ ساں ناتواں
لکھوں خوشنویسوں کا میں حال کیا

نوشتے پر اپنے ہیں گریاں سدا
بہت فکر روزی سے ہیں دردناک

قلم غم سے ان کے ہوا سینہ چاک
وکالت کا بازار بھی سرد ہے

وکیل اب جو ہے وہ بڑا مرد ہے
کہاں اب وکالت ہو رونق پذیر

موکّل ہی سب ہوگئے ہیں فقیر
زراعت کا پیشہ بھی بے آب ہے

دُر مدعا یاں تو نایاب ہے
کرے کب یہ پیشہ کسو کو نہال

کہ سر سبز ہونا بہت ہے محال
طبابت میں بھی کچھ نہیں اب حصول

اطبّا ہیں اس عہد میں سب ملول
ہر اک کو مرض مُفلسی کا ہے آج

طبیب اب بچارے کریں کیا علاج
سپاہی کی مٹی بھی ہے اب خراب

کہ تیغا ہوا نوکری کا تو باب
اٹھارویں صدی کے شعرا میں نظیر اکبر آبادی اپنے مخصوص انداز و اسلوب کی وجہ سے امتیاز رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں معاشرتی زوال کے مناظر پورے طور پر سامنے آتے ہیں، پیشہ ور اقوام اور افلاس زدہ افراد کے ماتم میں نظیر کوئی ہجویانہ رویہ اختیار نہیں کرتے۔ ان کا مشہور شہر آشوب ’’جب آگرے کی خلق کاہوروزگاربند‘‘ سماجی زندگی کے زوال کا اعلانیہ ہے۔ نظیر تفصیلات پیش کرتے ہیں اور اس صراحت میں انھوں نے اپنے شہر آشوب میں اٹھارویں صدی اور اوائل انیسویں صدی کے احوال نہایت پُرسوز انداز میں پیش کیے ہیں ۔ صرف دو بند پیش ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ جمہوری مزاج کے اس شاعر نے اپنے عہد کی بے بسی کو کس انداز سے پہچاننے کی کوشش کی ہے:
اب آگرے میں جتنے ہیں سب لوگ ہیں تباہ

آتا نظر کسی کا نہیں ایک دم نباہ
مانگو عزیزو ایسے بُرے وقت سے پناہ

وہ لوگ ایک کوڑی کے محتاج ہیں اب آہ
کسب و ہنر کے یاد ہیں جن کو ہزار بند
صرّاف بنیے جوہری اور سیٹھ ساہوکار

دیتے تھے سب کو نقد سو کھاتے ہیں اب اُدھار
بازار میں اُڑے ہے پڑی خاک بے شمار

بیٹھے ہیں یوں دکانوں میں اپنی دکان دار
جیسے کہ چور بیٹھے ہوں قیدی قطار بند
شہر آشوب نگاروں کے لیے ایامِ غدر اور اس کے بعد کی ہمہ گیر بے بسی ایک ایسا موضوعاتی مرکز ہے جب زوال کی آخری کڑیاں سامنے آتی ہیں۔ لکھنؤ اور دلی سے ہی حکومتیں نہیں رخصت ہوتی ہیں بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ سیاست کی قدیم بساط ہمیشہ کے لیے الٹ جاتی ہے اور ہمارا ملک غلامی کی زنجیروں میں قید ہوجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ آزادی کی تحریک اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کا ایک موہوم ساجذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر مچے اس گھماسان کی قیمت قوم نے اپنی جانوں کی قربانیوں سے چکائی ۔ ان احوال کا بیان شعراے کرام نے شرح و بسط کے ساتھ کیا۔ دلی اور لکھنؤ ہی نہیں بلکہ دوسری جگہ کے شعرا نے بھی خون کے آنسو روئے لیکن بہ قولِ مسعود حسن رضوی ادیب اس عہد میں میں اکثر و بیش تر جو شہر آشوب لکھے گئے، ان پر رنگِ مرثیہ غالب ہے۔ مرقعِ دہلی مرتّبہ کوکب اور انقلاب دہلی مرتّبہ نظامی بدایونی میں ایسی منظومات بڑی تعداد میں جمع کرلی گئی ہیں لیکن روایتی طور پر ان سب کو شہر آشوب کے خانے میں قید کرنے کی ضرورت نہیں۔
شہر آشوب بلاشبہہ بادشاہت کے زوال سے پیدا ہوئی صنف ہے لیکن جب تک شعرا نے اس کے مضامین کو ذہنی تعیش کا اسیر بنائے رکھا، اس وقت تک ادبی اور علمی اعتبار سے اس میں کوئی ایسی شان پیدا نہ ہوسکی جس سے اسے شعر و ادب کا ایک مقصود بالذات حصہ قرار دیا جاسکے لیکن رفتہ رفتہ سلاطین پرستی اور جاگیردارانہ چونچلوں سے اسے آزادی حاصل ہوئی۔ زوال کے تجزیے میں ایک وسیع نقطۂ نظر پیدا ہوا اور تاریخی حقائق کو باریک بینی اور معروضی اندازسے سمجھنے کی لازمیت سامنے آئی۔ چند شعرا نے اپنے شہر آشوب سے تہذیبی ، ثقافتی ، سیاسی اور سماجی زوال کی ایسی تصویریں کھینچی ہیں جن سے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ شہر آشوب اردو زبان کی ایک ایسی صنف ہے جسے ضمنی ہی سہی لیکن لازمی طور پر اپنے علمی سرماے کا حصہ سمجھا جائے گا۔ اسے غزل، قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی کے ساتھ رکھ کر تقابل نہیں کیاجاسکتا لیکن ایک مختصر سی زمین ایسی ہے جو صرف شہر آشوبوں کی بدولت اردو کو نصیب ہوئی۔ ۱۸۵۷؁ء کے بعد نظمِ جدید کے فروغ اور مقبولیت نے بہت ساری موضوعاتی اصناف کو کچھ اس طرح اپنے تن بدن میں سمیٹ لیا کہ شہر آشوب یا اس انداز کی دوسری چیزیں آج لکھی تو جارہی ہیں لیکن انھیں ہم صنفِ نظم کے دائرۂ کار میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 138725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.