لال روشنائی والی پنسل

 بیشتر بچے خون سے لت پت یا تو زندگی کی جنگ ہار چکے تھے یا موت و حیات کی کشمکش میں ایڑھیاں رگڑ رہے تھے ایک کم سن بچے کی ٹانگ میں گولی لگی تھی ۔تھوڑدی دیر اس پر غش کی حالت طاری رہی۔ دوبارہ ہوش میں آیا تو اس نے نیم نگاہی سے جب ایک دراز ریش ،دراز مو دیو ہیکل ہتھیار بند شخص کو رو برو پایا ۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔جب ہتھیار بند شخص نے یہ دیکھا کہ بچہ ابھی زندہ ہے تو اس نے اس کی طرف کلاشن کوف کی نلی تان دی۔ جسے بچے کی جان نکل گئی۔مگر اس نے اپنے تمام حواس کو مجتمع کر کے اپنی توتلی زبان میں ہتھیار بند شخص سے کہا۔
"انکل ۔۔۔۔۔۔مجھے مت مالو (مارو)
"انگریز کے بچے ! انکل کے بجائے چا چا کہنے میں کیا شرم آرہی ہے تمہیں؟
اس پر ہیبت شخص کے کرجدار لہجے کے باوجود بچے کے دل میں بچنے کی امید جاگی وہ ملتجی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔
"معاف کر دیجیئے چاچا جان۔اب زندگی بھر اس غلطی کو نہیں دہراووں گا۔میری امی نے مجھے بہت ساری چیزیں دی ہیں۔"
یہ کہتے ہوئے بچے نے لرزتے ہاتھوں سے اپنے بستے کو شتابانہ کھول کر الٹ دیا کتابوں اور کاپیوں سمیت کچھ اور چیزیں بھی بستے سے باہر آگئیں۔وہ کتابوں میں سے کچھ چیزیں چن کر الگ کر نے لگا۔جب یہ چیزیں الگ کر چکا تو اس شخص سے مخاطب ہوا۔
"یہ چاکلیٹ ہے یہ چپس کا پیکٹ ہے برفی کی دو تین ٹکیاں بھی ہیں۔ لنچ بکس بھی رکھ لیں۔ یہ کتابیں کاپیاں،پنسل ۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں پورا بستہ رکھ لیں۔میں گھر جا کر امی سے کہہ دوں گا کہ آج کے بعد اسکول نہیں جاووں گا"
حملہ آور دہشت گرد تلملا اٹھا
"خبیث کی اولاد! اپنے جیسا نا سمجھ بچہ سمجھ کر ایک مجاہد کی توہین کرتا ہے۔"
"نہیں نہیں مجاہد چاچا آپ کو میں بچہ نہیں سمجھتا۔ یہ سب آپ کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے دے رہا ہوں۔"اس نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
"مجھے کلمہ بھی یاد ہے اذان اور اقامت بھی "
۔یہ کہتے ہوئے بچے کی زبان پر کلمہ لا الاجاری ہوا ۔ابھی کلمہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ دہشت گرد نے کلاشن کوپ کا ٹرائگر دبایا اور بچے کے سینے کو چھلنی کر دیا ۔بچہ دھڑام سے اپنی کتابوں پر جاگرا۔ اس کے خون سے سب چیزیں لہو رنگ ہو گئیں۔
دہشت گرد نے ان تمام چیزوں پر نظر دوڑائی اور دفعتاًاس کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ جہاد میں تو مالِ غنیمت کو سمیٹ کر لے جانا بھی ایک کارِ ثواب ہوتا ہے بھلے ہی اس کی قیمت کچھ بھی نہ ہو۔ اس نے تازہ خون اگلتے ہوئے اس ننھے سے لاشہ کو ایک طرف دھکیل دیا۔ابھی اس نے ایک ہی پنسل ہی اٹھائی تھی کہ باہر سے گولیاں چلنے کی آواز سے فضا گونج اٹھی۔باقی چیزوں سے توجہ ہٹا کر وہ بھاگ نکلنے کی چارہ جوئی میں لگ گیا۔ اور بالآخر اس کےتمام ساتھی مارے گئے اور وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
بچتے بچاتے وہ شام کو اپنے گھرلوٹ آیا تو اس کے اپنے بچے اس وقت ہوم ورک کرنے میں مصروف تھے اس نے اپنی جیب سے پنسل نکالی اور سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاتھ میں تھما دی۔ بچے نے اس لہو رنگ پنسل کو بغور دیکھا اور یہ کہہ کر اپنے باپ کو واپس دے دی۔
ابا! کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ہمارے اسکول میں نرسری کے بچوں کو لال روشنائی والی پنسل استعمال کرنے کی اجارت نہیں ہے۔
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54398 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.