نئے تجربات سے آشنائی
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
صبح سویرے اٹھ کر پانی گرم کرنے کی
کوشش کی تو چولہا منہ چڑانے لگا۔ مٹی کے دیئے جتنی آگ بھڑکی، کچھ ہی دیر
بعد معلوم ہوا کہ پانی گرم نہیں ہوا، کیونکہ چولہا ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ بار
بار کی کوششوں سے پانی کی ٹھنڈک ذرا کم ہوئی تو ’’لاہوری نہانا‘‘ نہا کر
دفتر پہنچ گیا۔ بچوں کی سکولوں سے چھٹیاں ہوچکی ہیں، جب بچے سو کر اٹھے، تو
ناشتے کی کہانی شروع ہوئی، مگر کہانی آغاز میں ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی،
کیونکہ ٹھنڈے چولہے پرنہ تو ناشتہ بنتا ہے نہ ہی چائے۔ مجھے طلبی کے
احکامات ملے، وہ بھی ناشتہ باہر سے لے کر آنے کے ساتھ۔ ناشتہ تو میں لے گیا،
مگر چائے اسی ٹھنڈے چولہے پر تیار ہونی تھی، چائے بھی عجیب چیز ہے، ٹھنڈی
پی تو جاسکتی ہے، مگر تیار کرنے کے لئے اسے گرم کرنا پڑتا ہے، اور گھوم پھر
کر بات گیس تک ہی پہنچ جاتی ہے، ناشتہ تو ہوگیا مگر چائے کے بغیر۔ ایک دوست
کے ساتھ چار بجے شہر سے باہر جانا تھا، تین بجے گھر پہنچا تو عجیب منظر
پایا۔ بچے کیا کریں، ٹی وی نہیں دیکھ سکتے، کہ بجلی نہیں ہے، کچھ کھا پی
نہیں سکتے کہ گیس بند ہے، اب مجھے کچھ دیر بعد جانا تھا، مگر کھانے کے لئے
کچھ نہ تھا۔ آسانی کے لئے دال چاول پکانے کا پروگرام بنایا گیا تھا، مگر
دال پکتے پکتے پکتی ہے، سو وہ چار بجے تک نہ پکی، چاولوں کی باری تو اس کے
بعد آنی تھی۔ ہم نے صبر کے گھونٹ پیئے اور دوست کے ساتھ چلے گئے۔ تین گھنٹے
بعد لوٹے تو دال چاول تیار تھے۔ یہ حالت ایک گھر کی نہیں، پنجاب بھر کی ہے۔
سردی سے بچنے کے لئے حکومت کا حکم یہ ہے کہ گرم کپڑوں سے کام چلایا جائے،
اخبارات میں اشتہارات شائع ہوتے ہیں، گیس کب استعمال کریں، کس وقت لوڈ
زیادہ ہوتا ہے، کس وقت پریشر زیادہ ہوتا ہے۔ اور یہ کہ ہیٹر کو تو بالکل ہی
ترک کردیں، کیونکہ اس کے استعمال سے ایک تو آپ لوگوں کو بل آئے گا، ضروری
نہیں، کہ بل اتنا ہی ہو جس قدر آپ نے گیس استعمال کی ہے، اضافی بل کا خیال
بھی دل میں رہے،( کہ یہ بھی معمول کی بات ہے)۔ ہیٹر کا دوسرا ور زیادہ
نقصان یہ ہے کہ ہیٹر لگا کر آپ لوگ سو جاتے ہیں، بعد میں گیس کی لوڈشیڈنگ
وغیرہ کی وجہ سے ہیٹر ایک مرتبہ تو بند ہوجاتا ہے مگر جب دوبارہ گیس آتی ہے،
تو ہیٹر جلنے کی بجائے گیس لیک ہوتی ہے اور کمرے میں بھر جاتی ہے، آکسیجن
ختم ہوجاتی ہے اور دم گھٹنے سے وہ حادثہ پیش آسکتا ہے جس سے انسان گرم کمرے
کی بجائے ٹھنڈی اور ہوا بند قبر میں پہنچ جاتا ہے۔ اس خطرناک صورت کے پیدا
ہونے سے پہلے ہی بہتر ہے کہ گیس کے ہیٹر بند کردیئے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ
حکومت گیس جاری کرتی ہی نہیں، تاکہ نقصانا ت سے بچا جاسکے۔ گرم کپڑوں کے
لئے بھی غریب لوگ تو لنڈے کی طرف ہی رجحان کرتے ہیں، اور آجکل لنڈا خریدنا
بھی آسان نہیں۔ گھر میں بجلی، گیس نہ ہونے کی وجہ سے سب لوگ یوں فارغ بیٹھے
ہوتے ہیں، جیسے اﷲ معاف کرے کسی سوگ میں آئے ہوئے ہوں۔
ہماری حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہیں، وہ اپنی پسند کے منصوبے بناتے ہیں، ان
پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتے ہیں، اپنی منصوبہ
بندی کے خلاف کسی کی تنقید برداشت کرنا تو در کنار سننا بھی پسند نہیں کرتے۔
قوم کو بنیادی ضرورتیں اور ضروری سہولتیں درکار ہیں، حکمران انہیں میٹرو
دینا چاہتے ہیں، عوام کو ابتدائی تعلیم کی ضرورت ہے ، حکمران انہیں دانش
سکول دے رہے ہیں، جن میں 80لاکھ آؤٹ آف سکول بچوں میں سے ایک بچہ بھی داخل
نہیں ہوسکتا، کیونکہ ان سکولوں میں تعلیم ہی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی ہے۔
عوام ان سے مفت تعلیم مانگتے ہیں ،یہ انہیں لیپ ٹاپ تھما دیتے ہیں۔ عوام کو
گیس بجلی کی ضرورت ہے، یہ انہیں لاروں اور وعدوں پر ٹرخانا چاہتے ہیں۔ اب
ہر جگہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہر ے ہورہے ہیں، لوگ جلوس نکال رہے ہیں
، حکومت کے خلاف نعرہ بازی کررہے ہیں۔ شہروں میں لکڑی ، مٹی کا تیل اور گیس
کے سلنڈر مہنگے ہورہے ہیں۔ سی این جی سٹیشن بند ہونے کے باوجود گھروں میں
گیس کی لوڈشیڈنگ کا جواز معلوم نہیں ۔ قوم پریشان ہے۔ کالم ختم کرتا ہوں،
کہ گھر کے لئے لکڑی لے کر جانی ہے، اور بیگم کی باتیں سننی ہیں، کیونکہ اس
کا لکڑی پر کھانا پکانے کا کوئی تجربہ نہیں، حکومت کا شکریہ کہ اس نے عوام
کو نئے تجربات سے آشنا کیا۔ |
|