غیرمسلموں کا قبول اسلام اور کفریہ طاقتوں کی بوکھلاہٹ !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
پاکستان میں رہائش پذیر ہندوخاندانوں کے قبول اسلام پر خصوصی تحریر |
|
اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جس کی حقانیت
اور سچائی کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب ایک غیرمسلم
انگریز رائٹر نے دنیا کی ایک سو بہترین شخصیات پر کتاب لکھی تو اس نے ان
100 شخصیات میں سب سے پہلے رحمت العالمین حضرت محمد ﷺ کانام شامل کیا اور
اس بات کو تسلیم کیا کہ حضرت محمد ﷺ دنیا کے سب سے بہترین انسان تھے اس کے
علاوہ بہت سے ہندو اور سکھ شعرا نے بھی اپنے اشعار میں محسن انسانیت حضرت
محمد ﷺ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور اب آپ کسی بھی غیرمسلم ملک کے بارے
میں معلومات کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہاں کے لوگوں میں مسلمانوں سے
شادیاں کرنے کارجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے جس کی واضح مثال امریکہ اور
بھارت ہیں جہاں اسلام قبول کرنے کا رجحان سب سے زیادہ ہے ،امریکہ کی سڑکوں
اور بازاروں میں اب آپ کو برقع پوش خواتین کی بڑی تعداد نظر آئے گی جن میں
مسلمان گھرانوں کی خواتین کے ہمراہ وہ غیرمسلم خواتین بھی شامل ہیں جنہوں
نے اپنا مذہب چھوڑ کراسلام قبول کیا ہے ،آج کل امریکہ میں غیرمسلم خواتین
بہت تیزی کے ساتھ اسلام قبول کررہی ہیں اور مسلمان مردوں سے شادی کرنا ان
کی اولین ترجیح ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں بھی ہندو مر د وں اور
خواتین کی مسلمانوں میں شادیا ں عام ہوچکی ہیں ،خواہ وہ بھارت کی فلم
انڈسٹری Bolly Wood کے فنکار ہوں یا عام ہندوسب میں ہی مسلمانوں سے شادی کا
رواج فروغ پا رہا ہے ۔
دین اسلام کو دین حق تسلیم کرتے ہوئے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے
افرادکی کثیر تعدادقرآن مجید کے مختلف زبانوں میں کیئے جانے والے تراجم
کامطالعہ کررہی ہے اور قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے طورطریقوں
میں تبدیلی لا رہی ہے جس کی واضح مثال امریکہ کی خواتین میں پاکستانی لباس
اوربرقعہ کی مقبولیت ہے۔اخباری رپورٹس اورانٹرنیٹ پر فراہم موادسے بھی اس
بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ انگریز عورتوں میں مسلمان ہوکر مسلمان مردوں سے
شادیا ں کرنے کا رجحان زوروں پر ہے اور امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد میں
بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اور امریکہ ہی کیا پڑوسی ملک بھارت میں بھی اب
ہنوو لڑکیاں شادی کے لیئے مسلمان مردوں کا انتخاب کرتے ہوئے نظر آتی ہیں
عام لوگوں کے علاوہ بھارت کی فلم انڈسٹری Bolly Wood میں بھی اس رجحان کے
مطابق شادیا ں ہورہی ہیں جس کی ایک مثال بھارت کے مسلمان اداکا ر سیف علی
خان کے ساتھ بھارتی اداکارہ کرینہ کپور کی شادی ہے ۔اس کے علاوہ بھارت کے
چند مشہور اداکار بھی قرآن پاک کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ کرکے یہ جاننے
کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر دین اسلام میں ایسی کیا بات ہے کہ لوگ دائرہ
اسلام میں داخل ہونے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
اسلام کی حقانیت اور اس کے دیئے ہوئے حقوق سے متاثر ہوکر مسلمان ہونے والی
خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے کفریہ طاقتیں پریشان ہیں اسی وجہ سے وہ
اسلام اور اسلام لانے والوں کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈے میں مصروف رہتی
ہیں اور اپنے اس مضموم مقصد کے لیئے وہ دنیا بھر میں بھاری رقوم خرچ کرتی
ہیں۔
قارئین !جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ اخبارات و رسائل میں اکثر ایسی ہندو
خاندان کی خواتین کی کہانیاں اور تذکرے شائع ہوتے رہتے ہیں جنہوں نے اپنی
مرضی سے اسلام قبول کرکے مسلمان مردوں سے شادیاں کیں لیکن جب ان کے مسلمان
ہونے کے بارے میں انتہا پسند ہندؤں کو پتہ چلا تو انہوں نے ایک طوفان کھڑا
کرکے نومسلم خواتین کا جینا دوبھر کردیا ۔ہمارے علمائے کرام نے اس بارے میں
واضح فتویٰ دے دیا ہے کہ ان نومسلم خواتین کو جو اپنی مرضی سے اسلام قبول
کرکے مسلمان مردوں سے شادیا ں کررہی ہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیئے
اور انتہاپسند متعصب ہندؤں کو شر پسندی سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی
چاہیئے۔انتہاپسند ہندؤں اور بیرونی سرمائے پر پلنے والی بعض این جی اوز کی
جانب سے آج کل یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کو
زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے جس کا سب سے بڑا
ثبوت ہندو خاندانوں میں مسلمان ہونے کا رجحان اورہندو لڑکیوں کی بہ
رضاورغبت مسلمان مردوں سے شادیا ں ہیں جن پر نام نہاد تنظیموں کی جانب سے
بلاوجہ واویلا مچایا جارہا ہے جس کی سرپرستی ہندو انتہاپسند لیڈر اور کچھ
غیرملکی فنڈز پر چلنے والی این جی اوز کررہی ہیں جس کی عوامی اور حکومتی
سطح پر حوصلہ شکنی اور روک تھام ہونے چاہیئے اور ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان
ہونے والے نومسلم خاندانوں کو مکمل تحفظ فرہم کرتے ہوئے منفی پروپیگنڈے کا
جواب بھی دینا چاہیئے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔اسی تناظر میں نومسلم
ہندو خاندانوں کے قبول اسلام کے حوالے سے راقم الحروف نے یہ کالم تحریر کیا
ہے تاکہ عوام الناس کو بھی یہ معلوم ہوسکے نومسلمین کے حوالے سے حقیقی
صورتحال کیا ہے اورانہیں یہ بھی پتہ چل سکے کہ اس حوالے سے کتنے ہی مخلص
مسلمان نام ونمود اور نفع ونقصان کی پرواہ کیئے بغیر اسلام کے فروغ میں
خاموشی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرکے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے میں
مصروف ہیں اوراس مفاد پرست دور میں جب کہ ہر شخص جائز وناجائز طریقے سے
دولت کمانے کی ہوس میں مبتلا ہے یہ اﷲ کے بندے نیکیاں کماکر آخرت میں کام
آنے والے سکے جمع کررہے ہیں۔
پاکستان میں غیرمسلم بڑی تعداد میں آباد ہیں جن میں مغربی اور مشرقی ممالک
کے باشندے ایک طویل عرصہ سے یہاں رہتے چلے آرہے ہیں اور مسلمانوں کا حسن
سلوک ان کی منفی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کررہا ہے جس کی وجہ سے یہاں مقیم
سینکڑوں غیر مسلم اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوچکے ہیں۔پاکستان میں آباد
ہندؤں کی بڑی تعداد صوبہ سندھ میں رہتی ہے جو بہت تیزی کے ساتھ اسلام کی
طرف راغب ہورہی ہے،خاص طورپر سندھ کے علاقے’’میرپور بٹھورو‘‘میں آباد کئی
ہندوخاندان اسلام قبول کرچکے ہیں اس سلسلے میں کئی ایسی شخصیات اور تنظیمیں
ہیں جو نمودونمائش سے بالا تر ہوکر خاموشی کے ساتھ غیرمسلم آبادیوں میں
اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں اور یہ ادارے اورافراد یہ نہیں چاہتے کہ ان
کے ان کاموں کی کوئی Publicity کی جائے ۔ بہت سے نیک لوگ سندھ کے علاقے
’’میرپوربٹھورو‘‘میں دین اسلام کی تبلیغ اورمسلمان ہونے والے ہندؤں کی
کفالت اور دیکھ بھال اورنومسلمین کے لیئے مختلف سہولتوں کی فراہمی کو ممکن
بنانے کے لیئے دن رات کوشاں ہیں اور اس نیک کام میں ان کو بہت سی مخیر
شخصیات کا تعاون بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے فلاحی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری
وساری ہے، خاص طورپر نومسلمین کی فلاح وبہبود اور دیکھ بھال کے حوالے سے
بعض گمنام لوگ سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی نیکیاں کمانے میں مصروف
ہیں۔ اخبارات میں غیرمسلموں کے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ منفی
پروپیگنڈہ کیا جاتاہے اس لیئے نومسلم ہندوؤں کے حوالے سے اصلی حقائق کو
میڈیا اور اخبارات کے ژریعے عوام الناس اوران کفریہ طاقتوں تک پہنچایا جائے
جو یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ ہندؤں کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے ۔ایک
فلاحی ادارے کی جانب سے سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح میر پور بٹھورو سندھ
میں بھی نومسلم خاندانوں کے لیئے مساجد اور مدرسے کا قیام بھی عمل میں آ
چکا ہے جہاں یہ نومسلم ہندو دین اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ قرآن
مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور ان نومسلم خاندانوں کے بچوں میں قرآن پاک
کو حفظ کرنے کا شوق بھی پایا جاتا ہے۔ مجموعی طور پرکئی ہزار ہندو اب تک
سندھ میں مسلمان ہوچکے ہیں جن میں سے 1000 ہندوں کا تعلق صوبہ سندھ کے
علاقے میرپور بٹھورو سے ہے جبکہ دیگر ہندو کراچی اور دیگر شہروں سے تعلق
رکھتے ہیں۔واضح رہے کہ میرپوربٹھورو اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ
تمام ہندو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے مسلمان ہوئے ہیں اور ثابت قدمی کے
ساتھ اپنے فیصلے پر جمے رہنا چاہتے ہیں ۔لیکن مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
اور غیرمسلموں میں اسلام قبول کرنے کا رجحان دیکھ کر یہ کفریہ طاقتیں
بوکھلاہٹ کا شکار ہوکرمنفی ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے پر اتر آئی ہیں کیونکہ
مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے خاص طور پر
غیرمسلم خواتین میں مسلمان ہونے کا رجحان دنیا بھر میں اپنے عروج پر ہے جس
کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دین نے جو حقوق اور تحفظ عورتوں کو دیے ہیں وہ کسی
اور مذہب میں انہیں حاصل نہیں ہیں،ایک عورت کے اسلام لانے کامطلب ہے کہ ایک
خاندان نے اسلام قبول کرلیا بس یہی وہ حقیقت ہے جو کفریہ طاقتوں سے برداشت
نہیں ہوپارہی اور انہوں نے جو غل غپاڑہ مجایا ہوا ہے وہ خود اس بات کی دلیل
ہے کہ کفریہ قوتیں اب کمزور ہوتی جارہی ہیں اور اپنی کمزوری کو شورشرابے
میں چھپانا چاہتی ہیں۔
یوں توپاکستان بھر میں ہندو تیزی کے ساتھ اسلام قبول کررہے ہیں لیکن خاص
طور صوبہ سندھ کے علاقے میرپور بٹھورو میں رہنے والے ہندوؤں میں اسلام قبول
کرنے کا رجحان بہت تیزی کے ساتھ فروغ پار ہا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے قبل
اس علاقے کے 22 خاندانوں کے180 ،افراد اپنی مرضی سے ہندو مذہب کو چھوڑ کر
دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور پھریہاں بڑی تیزی کے ساتھ نومسلمین کی تعداد
میں اضافہ ہونے لگا جن کی تعداد اب بڑھ کر 1000 ہوچکی ہے ۔میرپوربٹھور سندھ
میں نومسلمین کی تعلیم وتربیت اور اسلامی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیئے
یہاں پر ایک مسجد اور مدرسہ بھی قائم کردیا گیا ہے جہاں یہ لوگ مذہبی رسوم
اور نماز کی ادائیگی پرسکون ماحول میں انجام دیتے ہیں ان نومسلم خاندانوں
کو سستا اور آسان روزگار فراہم کرنے کے لیئے بھی یہاں کئی فلاحی کاموں کا
آغاز ہوچکا ہے ۔واضح رہے کہ یہ صوبہ سندھ کے ایک علاقے میرپور بٹھورو کے
نومسلم خاندانوں کی تفصیل ہے اگر پورے پاکستان میں اسلام قبول کرنے والے
ہندؤں کی تفصیل جمع کرکے شائع کی جائے تواس کے لیئے کئی صفحات درکار ہوں
گے۔
پاکستان میں ہندوؤں میں قبول اسلام کے واقعات کی بہتات یہ بات ثابت کرتی ہے
کہ ہمارا مذہب اسلام ہی دنیا کا واحد برحق دین ہے جس کی سچائی اور تعلیمات
سے متاثر ہوکر ہندواور دیگر غیرمسلم قوموں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد
اپنی مرضی سے دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں،لیکن ہمارے ملک میں ذرا ذرا
سی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بات کابتنگڑ اور
رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے کچھ ایسا ہی اس وقت نومسلمین کے معاملے میں ہورہا
ہے لیکن اس’’ ہاٹ ایشو‘‘ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو ہندو بہ
رضاورغبت اسلام قبول کرکے مسلمان ہوچکے ہیں اب انہیں ہندو برادری کی جانب
سے شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ انتہا پسندہندواس بات کو برداشت کرنے کو
تیار نہیں ہیں کہ ہندو قوم کا کوئی فرد دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے یہی
وجہ ہے کہ پاکستان بھر میں اور خاص طور پر صوبہ سندھ میں رہنے والے نومسلم
ہندوؤں کو اپنی جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے شدید خطرات لاحق ہیں اور اب
نوبت یہ آگئی ہے کہ اسلام قبول کرنے والے بیشترہندو اس بات کو چھپانے لگے
ہیں کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں کیونکہ ان سب ہندوؤں کا شمار عام لوگوں میں
ہوتا ہے جو بہت غریب اور کمزور ہیں اور کسی بھی قسم کے دباؤ کو برداشت کرنے
کے قابل نہیں ہیں اسی لیئے وہ نیک لوگ جو ان نومسلمین کی سرپرستی اور دیکھ
بھال کررہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اس بات کی پبلسٹی کی جائے کیونکہ اس کے
نتیجے میں فائدہ کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے اورمسلمان ہونے والے کمزور
ہندوؤں کو اپنی جانوں کے لالے پڑ جائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ نوسلمین کے مسلمان
ہونے کی خبروں کو زیادہ نمایاں کرنے کو علمائے کرام بھی منع فرماتے ہیں کہ
اس سے غیرمسلموں میں قبول اسلام کے رجحان کو نقصان پہنچے گالہذا موجودہ
صورتحال میں چونکہ مسلمان ہونے والے ہندوؤں کی جان و مال کو شدید خطرات
لاحق ہوسکتے ہیں لہذا مناسب یہی ہے کہ اس نیک کام کو نام ونمود اور کسی بھی
طرح کے مفاد سے بالا تر ہوکر نہایت خاموشی کے ساتھ جاری رکھا جائے کیونکہ
جب تک حکومت وقت کی جانب سے نومسلم ہندوؤں کومکمل تحفظ فراہم نہیں کیا
جاتاکسی بھی طر ح کی پبلسٹی ایک اچھے کام کوروکنے کا سبب بن سکتی ہے۔میں
ایسے کئی لوگوں اور علماء کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو میر پور بٹھورو میں
اسلام قبول کرنے والے نومسلموں کی کفالت اور رہنمائی نہایت خلوص کے ساتھ
انجام دے رہے ہیں ۔کراچی کے ایک ممتاز عالم دین ہر ماہ کے ایک اتوار کو
اپنی دینی مجلس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے نومسلمین کے ایمان کی تجدید
کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ نام ونمود سے بالا ہوکر نہایت خاموشی کے ساتھ کیا
جارہا ہے تا کہ جو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں انہیں کسی بھی جانب سے
کسی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے یہی وجہ ہے کہ اس کالم میں اسلام قبول کرنے
والے ہندوؤں کے نام اور جو لوگ ان نومسلمین کی دیکھ بھال اور رہنمائی کر
رہے ہیں ان کے نام شائع نہیں کیئے جارہے ہیں تاکہ جو ایک اچھا کام شروع ہوا
ہے وہ کامیابی کے ساتھ جاری رہے ورنہ یہ سلسلہ مصلحتوں اور سیاست کا شکار
ہوکر رک بھی سکتا ہے ۔یہ خصوصی کالم تحریر کرتے وقت راقم پر یہی سوچ غالب
رہی کہ کیا یہ تحیریر لکھ کر ان نومسلم ہندوؤں کے کسی کام آیا جارہا ہے یا
یہ کالم ان کے لیئے مشکلات پیدا کرنے کاسبب بن سکتا ہے؟لیکن مسلمان اور
پاکستانی ہونے کے ناطے یہ ہر پاکستانی کافرض ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کیئے
گئے منفی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے اس کا جواب ضرور دیا جائے کیونکہ
اگر منفی پروپیگنڈے کا جواب نہ دیا جائے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو الزام
لگا رہا ہے وہ ہی سچا ہے حالانکہ ہم اور آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سچ
کیا ہے؟ اور ویسے بھی اگر ہم عظیم اسلامی رہنماخلیفہ راشد حضرت عمر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کے زمانے
میں اسلام کس تیزی کے ساتھ پھیلا اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک بہادرحکمران تھے جن کے دورحکومت میں مسلمانوں کو بے
پناہ طاقت اور فتوحات حاصل ہوئیں ان کے زمانے میں پہلی بار مسلمانوں نے
سرعام آزان دے کر نماز پڑھی لیکن اگر ہم آج کے حکمرانوں کو دیکھیں تو وہ
ہمیں اخلاق اور کردار کی پستیوں میں گرے ہوئے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج
ایک مسلمان ملک میں اسلام قبول کرنے والے نومسلم ہندوؤں کو اپنی جان و مال
کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کفریہ طاقتیں ہمارے حکمرانوں کی ڈرپوکی،مصلحت
پسندی اور نا اہلیت کی وجہ سے ہمارے ہی ملک میں رہتے ہوئے ہمیں آنکھیں دکھا
رہی ہیں ،ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں مذہب اسلام
سے محبت پیدافرما تاکہ وہ کفریہ طاقتوں سے ڈرنے کے بجائے بہادری کے ساتھ ان
کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں۔مجھے امید ہے کہ میری یہ تحریر اپنا مذہب
چھوڑ کر اپنی مرضی سے مسلمان ہونے والے نومسلم خاندانوں کے لئے طاقت حاصل
کرنے کا ذریعہ بن کر کفریہ طاقتوں کے منہ پر ایک طمانچہ کی طرح لگے گی جو
یہ منفی پروپیگنڈہ کررہی ہیں کہ پاکستان میں ہندؤں کو زبردستی مسلمان کیا
جارہا ہے۔اور اس کے ساتھ ہی میں امید کرتا ہوں کہ صاحب اقتدار اور صاحب
اختیار قوتیں ان کمزور ہندوؤں کے تحفظ کے لیئے آگے آئیں گی جو مسلمان تو
ہوگئے ہیں لیکن ان کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو
تیار نہیں اور اگر ان نومسلمین کو ہندو برادری یا مذہبی وسیاسی قائدین کی
جانب سے خطرات لاحق ہوئے تواس وقت ان کی جان ومال کوبچانے کے لیئے کون آگے
آئے گا؟یہی وہ سوال ہے جو میں اس تحریر کے ذریعے ،عام پاکستانیوں، اخبارات
و رسائل ،میڈیا چینلزاورپاکستان کے حکمرانوں سے کرنا چاہتا ہوں ۔کیونکہ اگر
ان نومسلمین کو تحفظ نہ دیا گیا توان کے مرتد ہونے کا امکان بڑھ جائے گاجس
کی ذمہ داری ان سب پر عائد ہوگی جو ایسے مواقع پر خاموش رہتے ہیں۔ |
|