کامیڈی فلموں کے کامیاب اداکار رنگیلا (مرحوم )کی یاد میں !

پرائیڈ آف پرفارمنس اور 8 نگار ایوارڈ یافتہ ٰٓ جن کی بہت سی سنجیدہ فلمیں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ! جسمانی حرکات کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے والے اداکاروں میں سب سے بڑا نام رنگیلا کا تھا ! رنگیلا وہ پہلے پاکستانی فنکار تھے جنہوں نے کسی فلم میں پہلی بار 4 کردار اداکیئے۔ وہ ایک کامیاب اداکار ہونے کے ساتھ بہت اچھے گلوکار بھی تھے۔
پرائیڈ آف پرفارمنس اور نگار ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلموں کے مشہور کامیڈی اداکار رنگیلایکم جنوری 1937 کو افغانستان کے شہر ننگر ہارمیں پیدا ہوئے اور 24 مئی 2005 کوان کا انتقال ہوگیا ،یوں آج ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے 12 برس گزر چکے ہیں لیکن وہ اپنی یادگار فلموں اور عمدہ فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے آج بھی فلم بینوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور جب تک لولی ووڈ کا وجود باقی ہے ان کانام زندہ رہے گا۔اداکار رنگیلا (مرحوم) کا اصلی نام سعید خان تھا، قیام پاکستان کے بعد ان کے آباؤاجداد افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان میں آکرپشاور میں آباد ہوگئے تھے ،ان کا تعلق پختون فیملی سے تھاانہوں نے اپنے ابتدائی زمانے میں مکینک کا کام بھی کیا جبکہ ان کو پہلوانی کا بھی کافی شوق تھالیکن سعید خان المعروف رنگیلا کو سب سے زیادہ شوق فلمیں دیکھنے کا تھااور وہ مشہور بھارتی اداکار دلیپ کمار کی فلمیں شوق سے دیکھا کرتے تھے جس کی وجہ سے اس کے دل میں اداکار اور ہیرو بننے کا شوق پیدا ہوا اور اس شوق کی تکمیل کے لیئے وہ عالم جوانی میں لاہور چلے گئے اور فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے لگے کہ کسی طرح انہیں کسی فلم میں اداکاری کا چانس مل جائے لیکن ابتدا ء میں انہیں فلموں میں تو کام نہ مل سکا البتہ فلموں کے پوسٹر اور سینماؤں پر لگنے والے بل بورڈ بنانے کا کام مل گیا حالانکہ رنگیلا تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن انہیں فلم بینی کے ساتھ ساتھ مصوری کا بھی شوق تھا اور وہ بہت اچھی پینٹنگ بنا لیا کرتے تھے اور یہی شوق ان کے ذریعہ معاش کا ابتدائی ذریعہ بنا۔اس کام سے رنگیلانے فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنائی اور لاہور کے نامور فلم اسٹوڈیوز میں ان کا آنا جانا شروع ہوگیا جہاں ان کی ملاقات نامور فلمسازوں ،ہدایتکاروں اور اداکاروں سے ہونے لگی اور یہی تعلق بالآخر انہیں فلمی دنیا میں ایک اداکار کے طور پر متعارف کروانے کا سبب بنا انہوں نے ایکسٹرا سے لے کرکامیڈین اور ہیرو تک ہرقسم کے کرداروں میں کام کیا اورپسند کیے گئے اور غیرتعلیم یافتہ ہونے کے باوجود رنگیلا نے نہ صرف ایک اداکار کے طور پر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا شاندار اظہار کیابلکہ فلمساز،ہدایتکار،مصنف،نغمہ نگار ،گلوکاراور موسیقار کے طور پر بھی قابل رشک کارکردگی کا مظاہر ہ کرکے خود کو منوایا۔رنگیلا کو اگر ہم ہر فن مولا فنکار کہیں تو بے جا نہ ہوگا ،فلمی دنیا میں3 سے زائد شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے فنکاروں میں رنگیلا کا نام سرفہرست ہے اس کے علاوہ اداکار وحیدمراد (مرحوم)اوراداکار سیدکمال(مرحوم)بھی وہ عظیم فنکار تھے جنہوں نے لولی ووڈ میں تین سے زیادہ شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور کامیابی حاصل کی۔
عام سی شکل وصورت والے دبلے پتلے اداکار رنگیلا (مرحوم) نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم ’’جٹی ‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کرکے کیاتھالیکن ریلیز ہونے کے لحاظ سے ان کی پہلی فلم1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’داتا‘‘ ہے جس میں رنگیلا نے ایک مختصر کردار ادا کیا تھااس فلم کے فلمساز اور ہدایتکارسید عطااﷲ ہاشمی نے یہ فلم اردو زبان میں بنائی تھی اس لیئے ہم کہ سکتے ہیں کہ رنگیلا کو فلموں میں متعارف کرانے کا سہراہدیتکار سید عطااﷲ ہاشمی کے سر ہے کہ ان کے توسط سے فلمی دنیا کو رنگیلا جیسا باصلاحیت فنکار نصیب ہوا ۔ اس کے علاوہ رنگیلا ایک اور فلم’’نوراں‘‘میں بھی ایک چھوٹے سے کردار میں نظر آئے یہ ایک نغماتی فلم تھی 1963 تک ریلیز ہونے والی بیشتر فلموں میں رنگیلاچھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آتا رہاجن میں فلم ’’چوڑیاں‘‘ اورفلم’’موج میلہ ‘‘ شامل ہیں لیکن 1964 رنگیلا کے لیئے بہت اہم سال ثابت ہوا کہ اس سال فلم’’گہرا داغ‘‘ میں پہلی بار رنگیلا کواہم کردار میں کاسٹ کیا گیاجبکہ 1965 میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی پنجابی پلاٹینم فلم’’جی دار‘‘میں رنگیلاکو پہلی بار بھرپورکامیابی اور شہرت حاصل ہوئی ۔ہرفن مولا فنکاراداکار رنگیلانے اپنے انتقال تک 655 سے زائد فلموں میں کام کیا،یوں تو انہوں نے فلموں میں ہر طرح کے کردار کامیابی کے ساتھ ادا کیئے لیکن ان کو ایک کامیڈی اداکار اور ہیرو کے طور پر زیادہ شہرت حاصل ہوئی بطور کامیڈین انہوں نے مزاحیہ اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔برصغیر کی فلموں میں شرو ع سے ہی دو طرح کے کامیڈین کو پسند کیا گیا ایک وہ جو اپنی شکل وصورت اور اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا کرتے تھے اور ایک وہ جواپنے شگفتہ ،برجستہ اور ذومعنی جملوں سے لوگوں کو ہنسایا کرتے تھے ۔پاکستان میں جسمانی حرکات کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے والے اداکاروں میں سب سے بڑا نام رنگیلا کا تھاجبکہ سنجیدہ کامیڈی اداکاری کرکے اپنے جملوں سے لوگوں کو ہنسانے والے فنکاروں میں اداکار لہری مرحوم کا نام سرفہرست ہے۔قدرت نے ان کو ایسے چہرے،جسمانی خدوخال اور سراپے سے نواز تھا کہ وہ جیسے ہی سینما اسکرین پر نمودار ہوتے تھے تو ان کا چہرہ دیکھتے ہی لوگ ہنسنا شروع کردیتے تھے اور پھر جب رنگیلا اپنی جسمانی حرکات کے ساتھ شگفتہ جملوں کی منفرد ادائیگی کیا کرتے توسینما ہال تالیوں سے گونج اٹھتے تھے ۔ایکشن کامیڈی کرنے والے اداکاروں میں ایسی مثالی شہرت اور کامیابی بہت کم لوگوں کو ملی جیسی رنگیلا کو نصیب ہوئی۔ ایک زمانے میں جب رنگیلا اپنے عروج پر تھے اور ان کی ایکشن کامیڈی کے دلدادہ فلم بین ان کی فلموں کو دیکھنے کے لیئے سینماؤں پر جوق درجوق آیا کرتے تھے اور ان کی فلمیں بڑی بڑی جوبلیاں منایا کرتی تھیں ،رنگیلا نے اپنے وقت کے تقریباً تمام نامور فنکاروں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی فلمی جوڑی سب سے زیادہ اداکار منورظریف مرحوم کے ساتھ کامیاب ہوئی ان دونوں نے بہت سی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا اور پسند کیئے گئے،منورظریف کے بعد ان کی جوڑی اداکار ننھا کے ساتھ بھی مشہور ہوئی لیکن منورظریف کے ساتھ ان کی جوڑی فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔

1969 میں رنگیلا نے اپنے ذاتی فلمساز ادارے کے تحت پہلی فلم’’دیا اور طوفان‘‘بنائی وہ اس فلم کے فلمساز،ہدایتکار،موسیقاراورکہانی نویس بھی تھے جبکہ اس فلم میں رنگیلانے جاندار اداکاری اورعمدہ گلوکاری بھی کی اور اپنی خدادادصلاحیتوں کالوہا منوایا، جس کی وجہ سے ان کی یہ فلم زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی جس کے بعد رنگیلا نے فلم’’رنگیلا‘‘ اور پھرفلم ’’دو رنگیلے ‘‘ بناکر نمائش کے لیئے پیش کیں اور یہ فلمیں بھی سپر ہٹ ہوگئیں اور یوں رنگیلا کو پاکستانی فلموں کا کامیاب اداکار تسلیم کرلیا گیا۔رنگیلا کو پاکستانی فلموں میں شاندار پرفارمنس کی وجہ سے متعدد اداروں کی جانب سے ایوارڈ ز دیئے گئے جن میں پاکستان کا سب سے بڑا سرکاری ایوارڈ’’پرائیڈ آف پرفارمنس ‘‘بھی شامل ہے جو رنگیلا کو ان کی فنی خدمات کے ااعتراف میں2004 میں دیا گیااس کے علاوہ ان کو 8 عدد نگار ایوارڈ بھی دیئے گئے جن کی تفصیل کچھہ یوں ہے کہ رنگیلا کو پہلا نگار ایوارڈ فلم’’رنگیلا‘‘ میں بہترین کہانی نویس کادیا گیا ،دوسرا نگار ایوارڈرنگیلا کو ان کی ذاتی فلم’’دل اور دنیا‘‘ میں بہترین اداکار کا دیا گیا،تیسرا خصوصی نگار ایوارڈ ان کو فلم’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ میں دیا گیا،چوتھا خصوصی نگار ایوار ڈ رنگیلا کو فلم ’’نوکر تے مالک‘‘ میں دیا گیا،پانچواں نگار ایوارڈ ان کو فلم’’سونا چاندی ‘‘ میں بہترین ہدایتکاراوربہترین کہانی نویس کے طور پر دیا گیا،چھٹا نگار ایوارڈرنگیلا کو پلاٹینم جوبلی فلم’’مس کولمبو‘‘ میں بہترین مزاحیہ اداکار کا دیا گیا،ساتواں نگار ایوارڈ ان کو فلم’’باغی تے قیدی‘‘ میں بہترین مزاحیہ اداکار کا ملاجبکہ آٹھواں نگار ایوارڈ رنگیلا کو ڈبل ورژن فلم’’تین یکے تین چھکے‘‘ میں بہترین مزاحیہ اداکار کا دیا گیا۔
اداکاررنگیلا کو یہ انوکھا اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے پاکستانی فنکار ہیں جن کے اپنے نام پر فلم’’رنگیلا‘‘ ،فلم ’’دورنگیلے ‘‘ اور فلم ’’ رنگیلا اور منورظریف ‘‘ بنیں اور بہت کامیاب رہیں۔ان کی کامیڈی فلموں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اگر ہم ان کی خاص خاص فلموں کا تذکرہ کریں تو ان کی شاہکار فلموں میں فلم’’انسان اور گدھا‘‘ ،فلم’’پردہ نہ اٹھاؤ‘‘، فلم ’’میری زندگی ہے نغمہ ‘‘فلم’’رنگیلا‘‘ فلم’’دیا اور طوفان‘‘،فلم’’بھریا میلہ ‘‘،فلم ’’دورنگیلے‘‘،فلم ’’پگڑی سنبھال جٹا‘‘،فلم ’’دوسری شادی ‘‘،فلم ’’باؤجی ‘‘،فلم ’’بدلہ ‘‘ ،فلم ’’بابل دا وہیڑہ ‘‘،فلم’’عورت راج‘‘ اور فلم’’رنگیلا اور منورظریف‘‘ ،وہ فلمیں ہیں جنہیں رنگیلا کی عمدہ اداکاری کی وجہ سے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کی دیگر کامیاب فلنوں میں فلم’’منجھی کتھے ڈاھواں‘‘َ, ہتھ جوڑی ،جگری یار،سنگدل،ثریا،گہرا داغ ،پگڑی سنبھال جٹا،دوستی اور چند دیگر فلمیں قابل ذکر ہیں۔1967 میں ریلیز ہونے والی فلم’’یار مار‘‘ایک بڑی فلم تھی اور اس فلم میں رنگیلا کا ایک مکالمہ ’’اس دنیا نے غرق ہوجانا ہے لشکری‘‘ بڑا مقبول ہوا تھا جبکہ ایک اور یادگارفلم’’دل داجانی‘‘ میں رنگیلا کا کردار’’مسٹر ہانگ کانگ‘‘ اور اس فلم میں اداکیا ہوا اس کا ایک مکالمہ ’’کم ازکم ہانگ کانگ میں تو اتنا ہاضمہ کسی کا نہیں تھا‘‘ اتنازیادہ مشہور ہوا کہ اگلے سال ریلیز ہونے والی ایک شاہکاراردو فلم’’سنگدل‘‘میں بھی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ دہرایا گیا ،اس فلم میں رنگیلا کا سپر ہٹ ہونے والامکالمہ کچھ یوں تھا کہ :’’ میں نے تین سال تک ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہے کوئی حقہ نہیں پیا‘‘۔اسی زمانے میں رنگیلا نے ایک فلم’’لال بجھکڑ‘‘ میں پہلی بار ٹائٹل رول اداکیا۔معروف افسانہ نگارشوکت تھانوی کے ایک افسانے ’’الٹی گنگا‘‘ کو رنگیلا نے ’’عورت راج‘‘ کے نام سے فلم کے قالب میں ڈھالا اس فلم میں رنگیلا نے اپنے دور کے نامور اور کامیاب سپر اسٹاروحیدمراد اور سلطان راہی کوپہلی بار زنانہ کرداروں میں کاسٹ کرکے ایک انوکھا تجربہ کیا جو کامیاب رہا اس فلم میں رنگیلا کی اداکاری اور ہدایتکاری بے مثال تھی جبکہ اردوفلموں کے پہلے سپر اسٹار اداکار وحیدمراد اور پنجابی فلموں کے بے تاج بادشاہ سلطان راہی نے بھی زنانہ کرداروں میں نہایت عمدہ پرفارمنس کا مظاہر ہ کرکے داد حاصل کی ،خاص طور پر اس فلم میں اس فلم کے ہیرو سپر اسٹار وحیدمراد کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔عورت راج کا شمار رنگیلا کی مشہور اورکامیاب فلموں میں کیا جاتا ہے۔اسی طرح رنگیلا کی فلم’’پردہ نہ اٹھاؤ‘‘ میں رنگیلا نے4 کرداروں میں اپنی صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کرکے داد حاصل کی ۔رنگیلا وہ پہلے پاکستانی فنکار تھے جنہوں نے کسی فلم میں پہلی بار 4 کردار اداکیئے ،رنگیلا نے اس فلم میں دادا،بیٹا،پوتا اور پڑپوتا کا کردار ادا کرکے ایک منفرد ریکارڈ قائم کیااس فلم میں رنگیلا اور دیگر فنکاروں پر فلمایا ہوا سپرہٹ گانا’’ دادا جی اپنے بیٹے کو سمجھاؤ‘‘ ایک اسٹریٹ سونگ تھا جو آج بھی شوق سے سنا جاتا ہے۔رنگیلا نے ایک گلوکار کے طور پر بھی نمایاں شہرت اور کامیابی حاصل کی اور بہت سی یاد گار نغمہ بارفلموں میں نہایت عمدہ گلوکاری کرکے ثابت کیا کہ ایک عام سی شکل وصورت کا کم تعلیم یافتہ شخص بھی بغیر کسی سفارش کے محض اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پردنیائے فن کا ایک نامور ستارہ بن کر لاکھوں دلوں پر راج کرسکتا ہے۔ر نگیلا نے گلوکاری کی ابتداء 1966 میں ہدایتکار ایم اکرم کی فلم’’بانکی‘‘میں گلوکارہ آئرن پروین اور منورظریف کے ہمراہ ایک پنجابی گانے سے کیا اس کے بعدرنگیلا نے ہدایتکار ایم اکرم کی ایک اور فلم’’چن چودھویں دا‘‘ میں منورظریف کے ہمراہ ایک پیروڈی گانا’’جگر زخمی ہے سر چکرا رہا ہے‘‘ گایاجبکہ ایک گانا انہوں نے فلم’’میں زندہ ہوں ‘‘ کے لیئے بھی گایا۔لیکن ایک گلوکار کے طور پر رنگیلا کی شہرت اور کامیابی کا آغاز ان کی ذاتی فلم’’دیا اور طوفان ‘‘ سے ہوا جس میں رنگیلا کے گائے ہوئے گیت’’گا میرے منوا گاتا جارے ‘‘اور ’’ بتا اے دنیا والے یہ کیسی تیری بستی ہے ‘‘کو بے حد پسند کیا گیا اور یوں انہوں نے ایک گلوکار کے طور پر شاندار کیرئیر کا آغازکیا جو ایک طویل عرصہ تک جاری رہا۔ رنگیلا کے گائے ہوئے یوں تو تقریباً تمام ہی گانے مقبول ہوئے لیکن غمزدہ گانوں نے زیادہ شہرت حاصل کی جس کی وجہ یہ تھی کہ رنگیلا کی آواز میں ایک خاص قسم کادرد اور سوز تھا جس کی وجہ سے غمگین گانوں میں جان پڑجایا کرتی تھی۔رنگیلا کے گائے ہوئے یوں تو سارے ہی گانے مشہور ہوئے لیکن ’’ گامیرے منوا گاتا جارے جاناہے ہمکا دور‘‘،’’یہاں قدر کیا دل کی ہوگی یہ دنیا ہے شیشہ گروں کی‘‘ ، ’’ہم نے جو دیکھے خواب سہانے ‘‘ ،’’تیرا کسی پہ آئے دل تیرا کوئی دکھائے دل ‘‘اور’’میرا محبوب میرے پیار کا قاتل نکلا‘‘،جیسے سدا بہار گانوں کا شمار رنگیلا کے گائے ہوئے ناقابل فراموش گیتوں میں کیا جاتا ہے۔
پاکستانی فلموں کے کامیڈی اداکاروں میں یوں تونذر،ظریف ، منورظریف،آصف جاہ ،ننھا، نرالا، لہری ،علی اعجاز،عمرشریف اور جان ریمبوکوبھی بہت زیادہ شہرت اور کامیابی حاصل ہوئی لیکن رنگیلاکی طرح فلم کے بہت سے شعبوں میں ایک ساتھ کام کرنے کا ریکارڈ کوئی دوسرا فنکار آج تک نہیں توڑ سکا۔اداکار رنگیلا محض اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ایک عام کامیڈی اداکار سے ہیرو کے کرداروں تک پہنچے۔ان جیسا کوئی دوسرا کامیڈین نہ ان کے دور میں تھا اور نہ ہی آج تک لولی ووڈ ان کا کوئی نعم البدل پیدا کرسکی ہے،اپنے اسٹائل کو وہ واحد فنکار تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے 11 سال بعد بھی فلم بین ان کی کمی محسوس کرتے ہیں ۔رنگیلا نے لاہور سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا اور اسی شہر میں مئی 2005 میں ان کا انتقال ہوگیا۔انہوں نے 3 شادیاں کیں جن سے ان کے 12 بچے پیدا ہوئے لیکن ان کے بچوں میں سے صرف 2 بچوں کا تعلق شوبز سے ہے جن میں ان کے ایک صاحبزادے اور صاحبزادی فرح دیبا کافی فعال ہیں ،رنگیلاکے بیٹے فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کررہے ہیں جبکہ رنگیلا کی بیٹی فرح دیبا اپنے والد سے منسوب ادارہ’’رنگیلا فاؤنڈیشن ‘‘ کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہیں یوں رنگیلا کا فنی سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ان کی اولاد اپنے ہردلعزیز فنکار باپ کے فنی سفر کو جاری و ساری رکھنے کا فریضہ احسن طرقے سے انجام دے رہی ہے۔آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ رنگیلا مرحوم کی مغفرت فرماتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین)
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125628 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More