بہترین انتقام

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اتنی بے بسی۔۔۔ دشمن اوپر سے بم برسائے اور ہم کچھ نہ کر سکیں ، ہمارا کام صرف لاشوں کو اٹھانا ،انھیں دفن کرنا اور اپنے گھروں کو تباہ ہوتے دیکھ کر آنسو بھانا ، آخر ہمارا قصور کیا ہے؟۔۔۔ ارسلان اسی سوچ میں گم اپنے پانچ سالہ بیٹے عمر کے ساتھ قریب ہی اسٹور جا رہا تھا، اسی دوران اس علاقے میں بمباری شروع ہو گئی ، یہ جلد ہی اپنے گھر لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا گھر ملیامیٹ ہو چکا ہے ، اس کے گھر والے ملبے تلے دبے ہوئے تھے، چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں ، ارسلان بے بسی کے انداز میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ، اس کی معصوم بیٹی کی ابو ابو کی صدائیں جب اس کے کانوں سے ٹکرائیں تو اس کی چیخ نکل گئی کہ وہ اس ملبے کو ہٹا بھی نہیں سکتا تھا ، رونے کی آوازیں آہستہ آہستہ مدھم ہونا شروع ہوئی اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی، لیکن اس کے بیٹے عمر کا رونا بند نہیں ہوا۔

ارسلان بہت افسردہ تھا ، لیکن اس نے رب کا دامن نہیں چھوڑا وہ اسی سے فریا د کرتااور اسی سے اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ، انتقام کا جوش ابھر رہا تھا ، مختلف تنظیم والوں نے ارسلان سے رابطہ کیا، لیکن اس نے ایک بات ٹھان لی تھی کہ انتقام شریعت کی حدود میں رہ کر وہ لے گا ، اس نے کئی ایک تنظیموں کے طریقہ کار کا بغور جائزہ لیا ، ایک تنظیم کے بارے میں اسے تسلی ہوئی کہ اس میں شامل ہو کر دل میں لگی اپنی آگ کو بجھائے،لیکن اس کی ایک مجبوری یہ تھی کہ وہ اپنے اس پانچ سالہ بیٹے عمر کو کس کے حوالے کرے کہ خاندان کے اکثر لوگ شہید ہو چکے تھے اور جو باقی تھے ان سے اپنے بیٹے کی منفی تربیت کا خدشہ تھا ۔

ارسلان بے چین رہنے لگا ، وہ راتوں کو اٹھ کر اپنے رب کے سامنے گڑ گڑاتا ، اپنے خیر خواؤں سے مشورے لیتا ، اسے ایک اﷲ والے کی یہ بات پسند آئی کی کہ ً مسلمان کی مثال اس دنیا میں پولیس کی سی ہے جہاں پولیس طاقتور ہوتی ہے وہاں جرائم کم ہوتے ہیں لیکن جب پولیس کمزور ہو تو وہاں چور ،لٹیروں کا راج ہوتا ہے ، اس اﷲ والے کی بات سے ارسلان کو اس بات کا تو جواب مل گیا کہ ہمارا قصور کیا ہے، ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں یعنی پولیس مین لیکن کمزور ہیں ، اس لئے اس پولیس مین کو مضبوط بننا ہے تا کہ اس دنیا میں امن رہے، جب ہم مسلمان طاقت ور تھے اور جس علاقے میں فاتح بن کر گئے وہ علاقہ پرسکون بن گیا ، ارسلان کو اپنے اس قصور کا شدت سے احساس ہونے لگا کہ اس کی مالی حالت مستحکم تھی اور اس کے ملک میں بھی مال کی فروانی تھی ، لیکن اسی دھن میں مست رہے کہ میری عمارت فلاں کی عمارت سے بڑی ہو ، میری گاڑی فلاں کی گاڑی سے اچھی ہو وغیرہ اگر یہ دولت اپنے آپ کو طاقتور بنانے میں خرچ ہوتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتے ۔

ارسلان اب اس سوچ میں رہتا کہ کیا وہ اب بھی اپنی قوم کو طاقتور بنانے اور دشمن کو کمزور کرنے کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے؟کبھی یہ سوچتا کہ وہ اپنے بیٹے کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا، یہ اسی سوچ میں گم رہتا کہ یکایک اس کے دل میں یہ القا ء ہوا کہ جس بیٹے کو تم اپنی کمزوری سمجھتے ہو یہی تمھارا اصل سرمایہ ہے، اس کی دل کی آنکھ کھل چکی تھی، اس نے اپنے بیٹے کی بنیاد پر توجہ دی، ابتدائی دینی تعلیم کے بعد دشمن کی واردات کو سامنے رکھتے ہوئے راز داری کے ساتھ اعلی تعلیم کے لئے اپنے بیٹے عمر کو بیرون ملک بھیجا ، وطن واپسی پر اس کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دی، عمر بھی یکسوئی کے ساتھ اپنے مشن میں لگ گیا اور اپنے ملک کے لئے ایسے ہتھیار بنائے کہ دشمن کی نیندیں حرام ہو گئیں، عمر بن ارسلان اپنی قوم کا ہیرو بن گیا ، ارسلان اپنی قوم کو فخر سے کہتے کہ عمر بن ارسلان ، دشمن سے میرا بہترین انتقام ہے۔۔

Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 41 Articles with 39643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.