‘“ارے او کالی کہا مر گئی ہے، کب سے آوازیں
دے رہی ھوں “ کالی جو ابھی کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹی تھی۔اندھا دھند
بھاگتی دادی کے پاس پہنچی ، بھاگتے ہوئے اسکا پاؤں بھی کسی چیز سے ٹکرا کر
زخمی ہوگیا ،وہ ایک پل کو پاؤں کو سہلانے کے لیے رکی پر دادی کے ڈر سے رستے
خون کی پرواہ کیے بغیر وہ دادی کی مخسوس جگا براندے میں بچھے تخت کے سامنے
جا کر ہی رکی ۔
“کہاں مرگئی تھی، کب سے آوازے دے رہی تجھے، چل میرے پاؤں دبا۔ دادی نے منہ
میں پان ٹھونستے ہوئے پاؤں اسکے آگے کیا۔ دادی نے ایک نظر اسکے پاؤں سے
بہتے خون کو دیکھا اور نظر انداز کردیا وہ چپ چاپ پاٰؤں دبانے لگ گیئ، کیوں
کے اسے صبر کرنا آگیا تھا ۔
وہ جب اس دنیا میں آئی تھی ،تب اسکا کالا رنگ دیکھ کر دادی نے بہت واویلا
کیا تھا۔ ہائے ہائے کالی ہمارے خاندان میں کہاں سے آگئی۔کیوں کہ ان کے
خاندان میں کوئی بھی کالا نیں تھا، مگر ماں، ماں ہی ہوتی ہے، اس نے کالی کا
نام زرمینہ رکھا، مگر زرمینہ ماں کے ّعلاوہ کوئی نئی کہتا تھا،ماں باپ کا
وہ آنکھ کا تارہ تھی۔
زرمینہ کا نمبر بہن،بھائیوں میں تیسرا تھا،سب سے بڑی ایک بہن پھر بھائی پھر
زرمینہ تھی۔بچپن میں جب دادی دوسرے بہن بھائیوں کو بھینچ بھینچ کر پیار
کرتی وہ بھی اپنے ننھے ننھے قدموں سے چل کر دادی کے پاس جاتی پر دادی اسے
دھتکار دیتی تو وہ روتے ہوئے ماں سے جاکر لپٹ جاتی ۔
پر اب وہ بچی نہی رہی تھی ،وہ لہجے محسوس کرنے لگی تھی، اور احساس کمتری کا
شکار ہونے لگ گئی تھی ۔وہ دوسروں کے سامنے جانے سے ڈرنے لگی تھی کیوں کے سب
اسے کالی کالی بول کر اسے احساس دلاتے تھے کے وہ کالی ھے بدصورت ھے ۔۔۔۔
زرمینہ بیٹا تمھارے پاؤں سے تو خون نکل رہا ہے آؤ میں پٹی کردو ،کالی نے بے
بسی سے دادی کی طرف دیکھا ،،،،ہاں جاؤ جاؤ میں نے کب روکا ہے ارے کچھ نہیں
ھوا اسے ، تم نے فضول میں اسے سر چڑھا رکھا ھے “،،،دادی زہر اگلنے سے باز
نہیں آئی ۔ماں سنی ان سنی کرتی اسے اپنے ساتھ لے گئی ،،،،دادی کی بربراہٹ
نے اندر تک انکا پیچھا کیا،،،(جاری ہے) |