آفتاب :آئی سی یو کے پاس پہنچا ہی تھا کہ
اسے نایاب کے ہوش میں آنے کی خبر ملی۔خوشی کے مارے اس کی آنکھوں میں
آنسو آ رہے ،وہ انکھیں بند کر کے اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہا تھا۔
ڈاکٹر :چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نایاب کے کمرے سے باہر آئے تو آفتاب فوراْ ان
کے قریب آگیا ،نایاب کی خیریت پوچھی ،تو ڈاکٹر نے تسلی دی اور بتایا کہ
کچھ دیر میں نایاب کو وارڈ میں شفٹ کر دیا جائے گا۔
آفتاب :ڈاکڑوں کی ٹیم اب جا چکی تھی۔ آفتاب کا دل اب پرسکون تھا۔آفتاب
آئی سی یومیں داخل ہوا،نایاب کے پاس جا کر خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔کافی دیر
تک اسے دیکھنے کے بعد دھیرے سے اس سے پوچھا ،ذیادہ درد ہو رہا ہے کیا؟
نایاب:بڑی مشکل سے مسکرائی ،نہیں بہت ذیادہ نہیں۔بچے کہاں ہیں؟کیسے ہیں،وہ
کچھ پریشان سی ہو رہی تھی۔
آفتاب :بچے بلکل ٹھیک ہیں ،احمر لے گیا تھا ،اُنہیں ،ماہم ان کا خیال رکھ
رہی ہو گی۔
نایاب :آپ نے کچھ کھایا۔
آفتاب :ہاں ، تمہارے لیے کچھ لے کر آوں؟
نایاب :نہیں،منہ کا ذائقہ بہت بُرا ہے،ایسے لگتا ہے کہ بہت بدذائقہ دوا لی
ہو۔
آفتاب:کس کو تمہارے ساتھ ہوسپیٹل میں رہنے کا بولوں،سمن کو یا فروا
کو،نایاب کی کزنز سے متعلق آفتاب نے اس سے پوچھا ،جن کے ساتھ اس کی بہت
بنتی تھی۔
نایاب :فروا کے تو امتحان ہو رہے ہیں سمن کو کہہ دیں،وہ آ جائے گی۔
آفتاب:اچھا ابھی میں گھر جا رہا ہوں کچھ ضرورت ہو تو بولو۔
نایاب:نہیں کچھ نہیں۔نایاب آفتاب کو کمرے سے جاتا دیکھ رہی تھی،وہ چلا
گیا۔وہ درد کی وجہ سے رونے لگی ،کیا تھا اگر آفتاب کچھ دیر اور اس کے پاس
ٹھہر جاتے مگر وہ کیوں یہاں،،،،،اُسے مذید رونا آ رہا تھا،آفتاب نے ایک
بار بھی اس سے نہیں کہا کہ نایاب تم کیوں میرے آگے آگی ۔کیسا بے حس انسان
ہے وہ دل ہی دل میں اسے خوب کوسنے لگی ،کچھ لوگوں کے سینے میں رب نے دل
رکھا ہی نہیں ہوتا ،ان سے محبت کی امید بے کار ہے،آفتاب کا شمار تو ہوتا
ہی ایسے لوگوں میں ہے جو انسان کی صورت میں ہیں مگر دل و جذبات سے عاری
ہوتے ہیں،اور کرو میڈم نایاب عشق ،یہ صرف تم ہی ہو جو تنہا اگ میں جل رہی
ہو،کسی دوسرے کو تو کچھ بھی فرق نہیں پڑتا،جو آدمی اپنی ماں کی موت پر
نہیں رویا وہ میرے لیے کیا آنسو بہائے گا۔وہ مرد ہے مرد اول درجے کا مرد
جسے درد نہیں ہوتا۔اس کی سوچیں اس کے درد کو مذید بڑھا رہیں تھیں،وہ روتی
جاتی اور سوچتی جاتی،کہ ایک نرس اندر آئی وہ کھانا اور دوا لائی تھی۔
نرس:کیا بات ہے ؟کیا کوئی مسلہ ہے ،آپ ایسے کیوں رو رہی ہیں؟ڈاکڑ کو بلاوں
۔آپ کے شوہر کہاں گئے؟
نایاب:وہ گھر گئے ہیں۔باقی سب سوالوں کو نایاب نے ان سنا کر دیا تھا۔
نرس نےنایاب کا بیڈ اوپر کیا اور اس کی ڈرپ بند کی ۔نایاب نے کھانا کھایا
اور دوا لی۔نرس کمرے سے چلی گئی۔جیسے ہی نایاب گئی احمر اندر آیا۔سمن اس
کے ساتھ تھی۔
سمن:کیا ہو گیا یہ؟
نایاب:کچھ خاص نہیں ہوا،وہ مسکرا دی۔
سمن:گولی لگی کیسے؟
نایاب:جیسے لگتی ہے،وہ بہت کمزوری محسوس کر رہی تھی،سمن کے سوالات اسے بُرے
محسوس ہو رہے تھے لیکن وہ ناراض ہونا،اپنی بات رکھنا ،بہت پہلے ہی چھوڑ چکی
تھی۔
احمر:سمن آپی آپ رہیں ،نایاب آپی کے پاس میں تھوڑی دیر بعد آوں گا،اس
نے نایاب کا موباہل اُسے دیا ،یہ آفتاب بھائی نے دیا تھااور آفتاب بھائی
نے کہا تھا کہ آپ کو دے دوں۔شاہد آپ کو ضرورت ہو۔اب میں نکلوں گا۔آپ کو
اب کیسا محسوس ہو رہا ہے
نایاب :ہاں تم جاو۔میں ٹھیک ہوں۔حریم اور ہادی ٹھیک ہیں،آفتاب بھائی کے
آنے پر ہی ہادی نے تنگ کرنا بند کیاتھا ہاں حریم پرسکون سی بچی ہے وہ
مسکرایا۔نرس کمرے داخل ہوئی
نرس:آپ کو وارڈ میں شفٹ کرنا ہے۔
سمن:بہت درد ہو رہا ہے کیا؟
نایاب:نہیں بہت مزا آرہا ہے،تم نے کھانی ہے گولی ،اس نے مسکرانے کی ناکام
کوشش کی ،اُسے ہادی اورحریم کا خیال آرہا تھا۔اس کی جان اپنے بچوں میں
بستی تھی ،انکے بغیر رہنا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔
سمن:کیا سوچ رہی ہو،نایاب سونے کی کوشش کرو۔نیند آگئی تو درد نہیں ہو گا۔
نایاب:نینید آئے گی تو نا۔
سمن:تمہیں ذرا ڈر نہیں لگا۔آفتاب بھائی کے لیے ،گولی کھاتے،تم تو کہتی تھی
کہ تم بس نبھا رہی ہو تویہ کیا ہے؟
نایاب:کوئی بھی انسان ہوتا اسے گولی لگنے لگی ہوتی میرے سامنے تو میں ضرور
اسے بچاتی۔
سمن:مطلب تم اب بھی انکار کر رہی ہو کہ تم آفتاب سے محبت کرتی ہو۔
نایاب:مجھے نہیں معلوم محبت کرتی ہوں یا نہیں اب تم چپ کرو پلیز۔
سمن:انسان کو اپنے آپ سے چھوٹ نہیں بولنا چائیے۔
نایاب:کچھ دیر خاموش رہی ،پھراپنی سوچوں میں ڈوب گئی،آفتاب سے محبت تو وہ
تب سے کرتی تھی،جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا،خالہ جب بھی آتی ایک دفعہ
ضرور کہتی ،یہ تو میری بیٹی ہے،اسے تو میں لے کر ہی جاوں گی تو نایاب کی
ماں بھی بڑے جوش سے کہتی ،آفتاب کو بڑا تو ہونے دو۔یہ نہ ہو کہ ہمارے خواب
،خواب ہی رہ جائیں،خالہ کہتی نہیں میرا بیٹا میری ہر بات مانتا ہے،جب نایاب
کو خالہ اور امی کی باتیں سمجھ آنے لگی تھی تب سے ہی وہ آفتاب سے متعلق
سوچنے لگی تھی ،لیکن وہ جب آئینہ دیکھتی تو خود سے کہتی ،آفتاب کیوں منع
کرئے گا اسے،خاندان میں کوئی بھی لڑکی تو اس جیسی خوبصورت اور عقلمند نہیں
۔اسے تو شکرگزار ہونا چاہیے کہ میں اگر اسے مل جاوں۔[اپنے خیالات کی وجہ سے
جب بھی آفتاب ان کے گھر آتا وہ اس سے بات نہ کرتی ،اگر کوئی اتفاق سے بات
ہوتی تو وہ یوں ظاہر کرتی کہ اس کی نظر میں آفتاب کچھ بھی نہیں ،ایک دفعہ
بسنت کا دن تھا ،خاندان کے تمام لڑکے لڑکیاں ایک چھت پر جمع تھے ،انہوں نے
دو گروپ بنا رکھے تھے ،نایاب جب تیار ہو کر اوپر آئی تو دونوں گروپ آپس
میں مقابلہ کر رہے تھے،ماہم جو نایاب کی ہم عمر تھی آفتاب کے بلکل پیچھے
کھڑی تھی،وہ اس کی چھوٹی خالہ کی بیٹی تھی۔آفتاب کےلیے ڈور دینے کا کام کر
رہی تھی ،دوسرے گروپ کا لیڈر نایاب کا بڑا بھائی تھا۔نایاب کو آتے دیکھ کر
ماہم نے فوراْ نایاب تم ہماری طرف آجاو،ہم لوگ گروپ میں کم ہیں لیکن پتنگ
ہم ہی کاٹیں گئے۔آفتاب بہت اچھی اُڑاتا ہے۔نایاب کو کس قدر غصہ محسوس
ہوا۔ماہم کو آفتاب کے اتنا قریب کھڑا دیکھ کے اس کی کیا حالت ہو رہی تھی
،اس نے اسے چھپانے کے لیے کہا،تم کہاں جانتی ہو کہ اچھی پتنگ اُڑانا کیا
ہوتا ہے ،ابھی دیکھنا میرے بھائی کیا کرتے ہیں؟
یہ کہہ کر نایاب دوسرے گروپ کی طرف چلی گئی ،جیسے ہی وہ آفتاب کے گروپ کو
کراس کر کے اپنے بھائی کے گروپ میں داخل ہوئی تو ان کی پتنگ کٹ گئی۔سب مذاق
کرنے لگے ،یار نایاب کچھ دیر نہ ہی آتی۔ماہم نے مسکرا کر کہا دیکھا میں نے
کہا تھا نا تمہیں نایاب ہمارے گروپ میں آجاو۔تم نے سوچا ہی نہیں۔آفتاب
بولا سوچتا وہ ہے جس کے سر میں دماغ ہو۔نایاب کو مذید بُرا لگا اس نے
آفتاب کو کہا،اتفاق ہر بار نہیں ہوتے ،کچھ لوگوں کا ذرا سی جیت سے دماغ
خراب ہو جاتا ہے اور وہ جو منہ میں آئے بولتے پھرتے ہیں،آفتاب کو غصہ
آگیا ،اس نے اپنی پتنگ کو اپنے ہاتھوں سے توڑا اور میری بس ہے کہہ کر چھت
سے نیچے اُتر گیا۔
سمن :تم جاگ رہی ہو گیا؟یار یہ ہوسپیٹل کا ماحول بھی کیسا عجیب ہوتا ہےنا؟
نایاب :کیوں کیا ہوا ،سر درد کر رہا ہے یار،آج کل آفس میں بھی بہت کام
ہوتا ہے۔
نایاب :تمہارے رشتے کا کیا بنا ،تم نے بتایا تھا نا؟
سمن :نہیں یار کچھ نہیں بنا،وہ لڑکا کہتا تھا اسے جاب کرنے والی لڑکی نہیں
چاہیے۔
نایاب :تو وہ لوگ آئے کیوں تھے تم جاب کرتی ہو یہ تو سب جانتے ہی ہیں نا۔
سمن:اس امید پر کہ میں رشتے کے لیے جاب چھوڑ دوں گی؟کیسے بے وقوف لوگ ہوتے
ہیں نا۔قصور ایسے لوگوں کا نہیں ہمارے معاشرے کا ہے ،آدمی یہ امید کرتے
ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کٹپتلی کی طرح ان کے اشاروں پر ناچے گی،جو وہ کہیں
گئے کرئے گی ،جیسے قیمت دے کر کوئی ربوٹ لے کر جا رہے ہوں۔
نایاب:تو تم نے انکار کر دیا۔
|