بعوض خاندان

بعوض خاندان کی خوشی ، عزت اور غیرت قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے،

ماجد ہاؤس کو مکمل زویا کرتی تھی وہ جگمگاہٹ تھی اس گھر کی- اپنی ماما کی لاڈلی ، پاپا کے لیے وہ چابی والی گڑیا تھی جو چل پڑتی تھی تو رکنا بھول جاتی تھی، دادی اور تائی امی کی چہیتی، چاچوں کی باربی ، چچی کی دلاری، دادا کو بھی بے حد پیاری مگر وہ سخت میزاج ظاہر نہیں کرتا تھا، وہ اپنے سارے کزنوں کی دوست شوخ بزلہ سنج حاضر جواب اور زندہ دل زویا۔۔۔۔۔ زویا حسن بے حد پیاری اور سچی کھری لڑکی تھی جس کا دل آئینے کی طرح شفاف تھا جو مسکراتی تھی تو لوگ کہتے تھے اس کی بڑی بڑی خونصورت آنکھیں بھی اس کے سنگ مسکراتی ہیں جو اپنی زات میں مگن ہوتی تھی تو لوگ اسے مغرور سمجھتے تھے اور جو بولنے پر آتی تھی تو درمیان میں ٹھرنا بھول جاتی تھی--- وہ بولتی مینا تھی،،، ہر دم بولنے والی مینا،،،،، تین سال پہلے ہما اور حرا آپی کی اکھٹے بڑی پھوپھو کے بیٹوں سے شادی ہوئی تھی دونوں بیاہ کر دبئی چلی گئیں تھیں --- اور اب ماجد ہاؤس میں ہی لڑکی بچی تھی اور وہ تھی زویاحسن۔۔۔۔ اس کی حشیشت گھر میں شروع دن سے واضع اور مستحکم تھی -- بقول دادی اس گھر کی ساری رونق زویا کے دم سے ہے لڑکے تو ہر وقت باہر نکلے رہتے ہیں - اس گھر کے سارے لڑکے اس سے چھوٹے تھیں - ان سارے کزنوں کی زویا سے خوب بنتی تھی ، معیز ، یاسر، زولقرنین ، سفیان ، اور ہمدان، کے ساتھ خوب کھیلا کرتی تھی - کبھی بیڈ منٹن، کبھی کرکٹ، کبھی سائکلینگ ، تو کبھی فٹ بال ، ہر وقت وہ ان سب کے ساتھ غل غپاڑہ مچائے رکھتی تھی ۔ کبھی کبھی زولقرنین وغیرہ کو پتنگ اڑاتے دیکھتی تو پھر اس کو بھی پتنگ بازی کا شوق لاحق ہو جاتا تھا اور ان کے جان کھانے پہنچ جاتی تھی کہ مجھے بھی پتنگ بازی کا ہنر سکھائے---- دادا اکثر بولتا بے- اے کی سٹوڈنٹ ہے اور یہ حرکتیں دیکھوں ۔۔۔۔۔ تب دادی اس کی حمایت میں بولتی ، کرنے دو اس کو یہ سب اس کے دم سے تو اس گھر میں رونق ہے -----
اس کی زندگی بے حد خوشگوار گزر رہی تھی اور پھر اس خوشگوار زندگی میں ناخوشگوار ہوا کا جھونکا تب آیا جب چھوٹی پھپھو نے آوارہ بیٹے غازان کے لیے اس کو مانگا اور حیرت اور صدمے کی بات یہ کہ دادا نے اس سے پوچھے بنا اس پرپوزل کو فورا قبول بھی کیا-- گھر کے سارے فیصلے دادا کرتے تھیں اس نے کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی تھی- گھر میں سوئی بھی زویا اپنے پسند سے لاتی تھی اور سب اس کے پسند کو اہمیت بھی دیتے تھیں اور اب اس کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اس سے پوچھے بنا کیسے کر لیا--- اور وہ بھی ایک بد کردار انسان سے ---- اس نے جب سنا تو صدمے سے اس کا برا حال ہوا سیدھی دادا کے کمرے میں گئی اور غازان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا----
زویا--------- دادا کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا تھا
اس نے حیران نظروں سے دادا کو دیکھا -- پاپا اور چاچو بھی وہیں آگئیں --
آپ لوگ کچھ بھی کرو میں غازان سے کسی بھی صورت شادی نہیں کرو ں گی -- سنا آپ سب نے---- اس نے بے خوفی سے کہا - اس نے تو ہمیشہ ان سب کا پیار ہی دیکھا تھا یہ روپ تو اس کے نیا تھا--
زویا ---- دادا ڈھاڑے ---- زویا ڈر سی گئی ---
حسن لے کر جاؤ اس بے شرم کو یہاں سے ---- دادا نے پاپا سے کہا تھا-- اس کا غصہ بڑھنے لگا تھا---
تم جاؤ زویا -- پاپا نے اس سے کہا---
پاپا آپ سب ایسے کیوں کر رہے ہو --آپ سب جانتے ہو غازان کو--- پھر بھی --- پھر بھی میری شادی اس سے کر رہے ہوں --- وہ وہاں سے جانے والی نہیں تھی - وہ پاپا کی طرف مڑی ---
زویا تم اس وقت جاؤ یہاں سے --- اس بار پاپا نے تیز لہجے میں کہا اور وہ چلی گئی نا چاہتے ہوئے ہی سہی-- مگر پیچھے سے جا کر لان کی کھڑکی کے ساتھ کان لگا کر کھڑی ہوگئی--
دادا پاپا اور چاچو سے کہہ رہے تھے زویا کو سمجھاؤ مجھے اس کا انکار نہیں سننا -- غازان کے علاوہ سارے خاندان میں زویا کے جوڑ کا کوئی نہیں ہیں -- تم سب جانتے ہو کہ ہم خاندان سے باہر اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں غازان میں کیا کمی ہے ایم ،بی، بی ،ایس ڈاکٹر ہے شکل سے بھی اچھا اور سب سے بڑی بات ہمارے خاندان کا ہے اور اس نے خود ہی زویا کا نام لیا ہے وہ زویا کو خوش رکھے گا مجھے یقین ہے دادا کے باتوں سے سب متفق ہوئے تھیں اب کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا اس کی انکار کو کسی نے کوئی اہمیت ہی نہ دی تھی-- اس کے بڑوں کے خیال میں وہ تو ابھی بچی تھی اس کو کیا پتا دنیا کا---
شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئی حالانکہ اس غازان سے شادی نہ کرنے کا سب سے کہا -- ایک ایک سے کہا-- پھپھو سے بھی اور کس کس سے کہتی؟؟؟
رو رو کر اس کا برا حال تھا-- جانے اس وقت سب کا لاڈ پیار کہا غائپ تھا اس سب کی لاڈلی روتی رہی تڑپتی رہی
اور اس سب کو عزت اور غیرت کی پڑی تھی غیر خاندان میں شادی کرنا اس کے شان کے خلاف تھا -- سب کو پتا بھی تھا کہ غازان کتنا رنگین میزاج ہے اس نے آمریکہ میں ایک شادی کر چکا تھا جو کہ بعد میں ٹوٹ گیا تھا دادا کو آچھی طرح سب پتا تھا مگر اب دادا بولتا تھا کہ وہ شادی تو اس نے وہاں کی نیشنلٹی کے لیے کی تھی---
وہ ان دنوں روتے ہوئے ماما سے بولتی ---- ماما مجھے بتاؤ کیا میٰں بدکردار ہوں جو میری شادی سب غازان سے کر رہے ہوں ؟؟ ماما قرآن پاک میں بھی اس بات کا زکر ہے کہ بدکردار مرد کے لیے بد کردار عورت اور اچھے مرد کے لیے اچھی عورت---- تو پھر میرے لیے سب نے غازان کا انتخاب کیوں کیا ہے؟؟؟؟؟؟
ماما کو خود یہ رشتہ پسند نہیں تھا وہ اور تائی امی چپکے چپکے سے زویا کے لیے روتی تھی مگر گھر کے مردوں کے سامنے ان عورتوں کی کہاں چلتی تھی خود زویا کی نہیں چلی جو ان سب کی لاڈلی تھی تو پھر ان بے چاریوں کی کہا چلتی--- ایک ماہ بعد اس کی شادی تھی -- جہیز کی تیاریاں شروع کر دی گئی تھی - دادا اور باقی سب چاہتے تھیں کی زویا کے جہیز میں کسی بھی چیز کی کمی نہ ہو اور وقعی کوئی کمی نہیں رہنے دی گئی تھی-- گھر-- گاڑی سب کچھ--- ایک ایک چیز زویا کی پسند کے مطابق خریدا گیا--- جہیز کو دیکھ کر زویا کو ہنسی آتی تھی ان منافق لوگوں پہ ---- زندہ دل زویا ان چند دنوں میں ہی بدل گئی تھی اس کا دل مردہ ہوا تھا اب نہ اس کے لبوں کے سنگ اس کی آنکھیں مسکراتی تھی اور نہ ہی اسے بے تحاشہ بولنے کی عادت رہی تھی وہ چپ چاپ روتی تھی بس--- اور یونہی روتے روتے نکاح کا دن آگیا تھا-
نکاح کے وقت پتا نہیں کس نے اس کے اوپر سفید بڑی سی چادر ڈالی -- اسے کچھ پتا نہ تھا کمرا یکدم سے لوگوں سے بھر گیا تھا اس کے گود میں رجسٹر رکھا گیا - اس کے ایک طرف پاپا بیٹھ گئے دوسری طرف دادا-- سامنے مولوی صاحب بیٹھ گیا-- اور پھر مولوی صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کر دیا--
زویا بنت حسن شازیب آپ کو غازان ولد اسماعیل احمد اپنے نکاح میں قبول ہے؟
آنسو ٹپ ٹپ اس کے آنکھوں سے گرنے لگے تھیں وہ غازان کو قبول نہیں کر رہی تھی سب کو پتا تو تھا نا پھر یہ ڈھونگ کیوںِ؟؟ کس لیے؟؟؟
قبول ہے نکاح خواں کو پھر سے کہنا پڑا---
کمرے میں موجود سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تھیں مولوی صاحب بھی اب کچھ کچھ سمجھ گئے تھے- پاپا کا دل کسی انہونی سے لرزنے لگا تھا-
زوہا بنت حسن شازیب آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟؟؟؟
بولوں زویا قبول ہے-- دادا کی آواز میں غراہٹ تھی -- دھمکی تھی ---
پاپا نے اس کے سر پر تھپکی دی زویا بیٹا بولوں قبول ہے----
جی قبول ہے بعوض خاندان والوں کی خوشی عزت اور غیرت قبول ہے -- قبول ہے---
اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی کتنا درد تھا غازان کو قبول کرتے وقت اس کی آواز میں اس کے لہجے میں -- سب کانپ گئے تھیں کتنی بے چارگی تھی پاپا ساکت ہوگئے تھیں -- دادا نے اس کے گود سے رجسٹر لیا اور مولوی کو لے کر کمرے سے باہر چلے گئیں اور وہ ماما کے گلے لگ کر چیخ چیخ کر رونے لگی تھی
umama khan
About the Author: umama khan Read More Articles by umama khan: 22 Articles with 52271 views My name is umama khan, I love to read and writing... View More