بچوں کے نام اور لوگوں کے عجیب تصورات
(Syed Abdul Wahab Sherazi, Islamabad)
جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو سنت
طریقہ یہ ہے کہ ساتویں دن تک اس کا نام رکھ کر عقیقہ کردیا جائے۔ لیکن
ہمارے معاشرے میں ایک عجیب بیماری یہ بھی پائی جاتی ہے کہ لوگ ایسا کوئی
نام رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جو پہلے سے کسی اور نے رکھا ہوا ہو۔
چنانچہ خاص طور پر عورتیں کئی کئی مہینے بچے کو بغیر نام کے پال رہی ہوتی
ہیں اور اس تلاش میں رہتی ہیں کہ ہمیں کوئی نیا، انوکھا نام مل جائے جو کسی
اور نے نہ رکھا ہوا ہو۔ بعض لوگ تو زیادہ اسلامی بننے کے چکر میں قرآنی نام
رکھنے کے لئے خود ہی قرآن اٹھا کر پڑھنا شروع کرتے ہیں اور پھر پڑھتے پڑھتے
جو لفظ اچھا لگے تو اسے بچے کا نام رکھ لیتے ہیں، چنانچہ ایسا ہی ایک صاحب
نے کیا جب بچہ کافی بڑا ہوگیا تو بعد میں پتہ چلا کہ اس بچے کا جو نام رکھا
گیا ہے وہ تو جہنم کی وادیوں میں سے ایک وادی کا نام ہے۔اسی طرح بعض لوگ
آنکھیں بند کرکے قرآنی صفحے پر انگلی رکھتے ہیں، انگلی کے نیچے جو لفظ
آجائے وہی نام رکھ لیتے ہیں۔
البتہ اب کچھ شعور اور تعلیم عام ہوئی ہے تو لوگ نام کا معنی بھی دیکھتے
اور پوچھتے تو ہیں لیکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ نام ایسا ہونا چاہیے جو ہم
نے کبھی بھی اپنی زندگی میں نہ سنا نہ دیکھا ہو۔ چنانچہ اگر مجھ سے کوئی
نام پوچھے تو میں جو بھی نام بتاتا ہوں لوگ کہتے ہیں نہیں نہیں یہ تو فلاں
کا ہے، یہ تو ہمارے پڑوسی کا ہے، یہ تو دبئی میں ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں
ان کے بچے کا ہے، کوئی ایسا نام بتائیں جو کسی کا نہ ہو تو پھر میرا جواب
ہوتا ہے وہ نام ابلیس ہی ہے جو کسی انسان کا نہیں ہے۔
ناموں کے سلسلے میں شریعت کی طرف سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہےوہ یہ ہے کہ
ایک تو ساتویں دن تک نام رکھ دیا جائے۔ دوسرا انبیاء اور صحابہ کرام کے
ناموں میں سے کوئی سا نام رکھ دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ
اور عبدالرحمن ناموں کی تعریف فرمائی ہے۔چنانچہ یہ دو نام ایسے ہیں جو
مسلمانوں خصوصا صحابہ وتابعین کے بچوں میں بہت عام ہوتے تھے۔اسی طرح لوگوں
میں ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے کہ بچے کا نام محمد نہیں رکھ سکتے۔ حالانکہ
ایک حدیث میں اس نام کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے جسے لوگوں نے اس طرح حاصل
کرنا شروع کردیا ہے کہ ہر نام سے پہلے محمد لکھ دیا جاتا ہے، یہ بھی اچھی
بات ہے لیکن فضیلت صرف اسی بچے کے لئے ہے جس کا نام صرف محمد ہو۔ اسی طرح
بعض نام لوگوں میں غلط العام بھی ہوگئے ہیں، مثلا شُرَحْبِیْل کئی
صحابہ،تابعین اور محدثین کا نام ہے۔لیکن آج کل یہ نام غلط ہو کر شرجیل
مشہور ہوگیا ہے۔
اچھا نام ضرور رکھا جائے لیکن اچھے کے چکر میں نئے نام کے لئے اتنی تلاش نہ
کی جائے کہ کئی کئی مہینے گزر جائیں۔ اچھا نام اگرچہ آپ کے محلے یا برادری
میں کئی بچوں کا ہو آپ بھی بلا جھجک رکھ سکتے ہیں، یہ کوئی معیوب بات نہیں
ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ ایسے پسندیدہ نام بلا
جھجک رکھ دیا کرتے تھے جو پہلے سے اپنے محلے کے کئی کئی بچوں کا ہوتا
تھا۔چنانچہ آج یہ حقیقت بھی جانیے کہ جنگ بدر میں صرف 313 صحابہ کرام نے
شرکت کی تھی اور ان تین سو تیرہ میں کئی اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جن کا
نام ایک ہی تھا۔ چنانچہ یہ نام پڑھتے ہوئے حیران ہوں گے کے اس وقت کے
معاشرے میں کیسے لوگ ایک ہی نام رکھا کرتے تھے۔
ایک نام والے بدری صحابہ کرام:
2 ایاس، 2 جابر، 2 حاطب، 2 حمزہ، 2 خالد، 2 خباب، 2 ربیع، 2 سالم، 2
سُراقہ، 2 سنان، 2 سواد، 2 ضحاک، 2 عباد، 2 عبدالرحمن، 2 عثمان،2 عمارہ، 2
کعب، 2 محرز، 2 معبد، 2 معن، 2 معوذ، 2 وہب
3 اوس، 3 تمیم، 3ثعلبہ، 3 حارثہ، 3 زیاد، 3 سلمہ، 3 طفیل، 3 عتبہ، 3 قیس، 3
معتب، 3 منذر
4 خلاد،4 رفاع، 4 سلیم، 4 عاصم، 4 عقبہ
5 ثابت، 5 رافع،5 عبید،5 عمیر،5 معاذ
6 زید،6 سہل،6 مسعود،6 یزید
7 نعمان
8 عامر،8 مالک
11 عمرو
12 حارث
13 سعد
26 عبداللہ
32 نام ایسے ہیں جو ابو سے شروع ہوتے ہیں۔
یہ بات دبارہ ذہن نشین کرلیجیے کہ یہ تعدادصرف تین سو تیرا میں سے ہے
ہزاروں میں سے نہیں۔ یعنی تین سو تیرا میں سے 231 صحابہ کرام ایسے ہیں جن
کے ایک جیسے نام تھے اور 32 صحابہ کرام ایسے تھے جن کے نام میں ابو آتا ہے،
اور صرف 48 صحابہ کرام ایسے ہیں جن کا الگ سے نام تھا۔ یہ 48 نام بھی بالکل
مختلف نہیں ہیں صرف ایک آدھ لفظ کا ہی فرق ہے مثلاجابر،جبر،جبار،جبیر وغیرہ
صحابہ اور تابعین کے دور میں تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ جو نئے آنے والے بچے
کا نام ہے وہی اس کے باپ کا نام ہے اور وہی اس کے دادا کا نام ہے۔ مثلا
محمد بن محمد بن محمدبن محمد۔
موجودہ زمانے میں تبلیغی جماعت کے بزرگ مفتی زین العابدین رحمہ اللہ نے
اپنے چاروں بیٹوں کا نام یوسف رکھا ہوا تھا جنہیں یوسف اول دوم سوم چہارم
سے فرق کیا جاتا تھا۔
|
|