نومبر 1998ء کی ایک شام گھر کے ڈرائنگ روم
میں کیپٹن علی رؤف مگسی ،پاک بھارت جنگوں کے عظیم ہیرو اور اپنے والد کرنل
(ر) سردار عبدالرؤف خان مگسی سے پوچھ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی
تیسری جنگ کب ہوگی۔ کرنل (ر) سردار عبدالرؤف خان مگسی نہ صرف پاک فوج کے
بارے میں بے شمار معلومات رکھتے ہیں بلکہ وہ قومی اور بین الاقوامی حالات
کے اتاراور چڑھاؤ کے بارے میں بھی مکمل طور پر آگاہ رہتے ہیں ۔عسکری
معاملات ہوں یا سیاسی ، دونوں پر وہ بھر پور گرفت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا
علی بیٹا مجھے تو دور دور تک پاک بھارت جنگ ہوتے دکھائی نہیں دیتی ۔ اس کی
وجہ شاید یہ ہے کہ اب دونوں ملک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اور دونوں ممالک کی
قیادتوں کو اس بات کا علم ہے اگر جنگ ہوئی تو فتح دیکھنے کے لیے شاید کوئی
نہ بچے ۔ اس لیے اختلافات کسی بھی نہج بھی کیوں نہ پہنچ جائیں ،جنگ کی نوبت
نہیں آ سکتی ۔ کیپٹن علی نے مایوس لہجے میں کہا ابو میں تو فوج میں شامل ہی
اس لیے ہوا تھا کہ بھارت سے دو دو ہاتھ کروں ۔ اگر بھارت کے ساتھ جنگ نہیں
ہوتی تو فوج میں آنے کا مقصد ختم ہوجاتاہے ۔بیٹے کی بات سن کر کرنل مگسی نے
کہا بیٹا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ،اب بھی ایک علاقہ ایسا ہے جہاں پاکستان
اور بھارت کی فوجی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں ۔ کیپٹن علی نے تجسس بھرے لہجے میں
پوچھا وہ کونسا علاقہ ہے ۔کرنل مگسی نے بتایا کہ سیاچن کا محاذ اب بھی گرم
ہے جہاں 1984ء سے آج تک دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں اور دن
میں کئی بار گولہ باری کاتبادلہ بھی ہوتا ہے ۔ پاک فوج کے غیور افسراور
جوان دشمن کی پیش قدمی روک کر انہیں مطلوبہ پہاڑی چوٹیوں سے پیچھے دھکیل کر
اس کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملارہے ہیں ۔اور کتنے ہی Mission Imporsible
رونما ہوچکے ہیں جن کا ذکر دنیا کی عسکری تاریخ میں سنہرے لفظوں سے
لکھاگیاہے۔
یہ سنتے ہی کپیٹن علی نے والد سے التجا بھرے لہجے میں کہا ابو پھر آپ میری
پوسٹنگ سیاچن کروادیں میں دنیا کے کسی بھی حصے میں بھارتی فوج سے لڑنے کے
لیے تیار ہوں ۔ کیپٹن علی کی یہ گفتگو کرنل مگسی اور قریب ہی بیٹھی ہوئی
علی کی والدہ کی سمجھ سے بالاتر تھی ۔ کیونکہ باپ اور ماں کی حیثیت سے وہ
علی کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے ۔اس کے برعکس کیپٹن علی اپنی
بات پر مسلسل اصرار کررہا تھا ۔ بیٹے کے جذباتی فیصلے نے والدین کو پریشان
کردیا ۔باپ نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا کہ بیٹا ایک مرتبہ پھر سو چ لو
کیونکہ تم نے صرف سیاچن کا نام سنا ہے اس کی قہر اور حشر سامانیوں کا شاید
تمہیں اندازہ نہیں ہے ۔ سیاچن دنیا کا برف میں ڈھکا ہوا بلند ترین اور مشکل
ترین محاذ جنگ ہے ۔جہاں لڑی جانے والی جنگ دنیا کی دیگر جنگوں سے بہت مختلف
ہے۔ بیس سے چھبیس ہزار فٹ بلندی پر واقع سیاچن کامیدان جنگ ، صحراؤں ،
پہاڑوں ، جنگلوں اور سمندروں کے جنگی میدانوں سے ہٹ کر ہے ۔آج تک دنیا کے
کسی سورما ، کسی فاتح ،کسی سکندر اعظم ،کسی چنگیزخان ، کسی نپولین ، کسی
رومیل، کسی میکارتھر نے ایسی جنگ لڑنے کا تصور بھی نہیں کیا۔ یہ جنگ ایسی
کھڑی سنگلاخ چٹانوں پر لڑی جارہی ہے جہاں جنگ لڑنا تو درکنار ناقابل عبور
برفانی ڈھلوانوں کو دیکھ کر ان پر چڑھنے کے تصور سے ہی پسینہ آجاتاہے ۔کرنل
مگسی نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کرنل مگسی نے کہا کہ سیاچن پر لڑی جانے
والی جنگ پاکستان آرمی کی قائدانہ صلاحیتوں کی جنگ ہے ۔یہ سرفروشوں کی رگوں
میں دوڑتے ہوئے گرم لہو کی جنگ ہے ۔یہ ملک و قوم کی عظمتوں کے تحفظ کی جنگ
ہے ۔ سیاچن ایسا مقام ہے جہاں فنا سے بقا کی نوید ملتی ہے اور شہادتوں سے
عظمتوں کے چراغ جلتے ہیں۔
بات کو ٹوکتے ہوئے کیپٹن علی نے والد سے پوچھا ابو.... کیا یہ واقعی بہت
مشکل محاذ جنگ ہے جس کے تصور سے ہی انسان کو جھرجھری آجاتی ہے ۔کرنل مگسی
نے کہا ہاں یہ ایسا مقام ہے جہاں حدنگاہ تک برف ہی برف ، زندگی ناپید ،
سانس لینادشوار بلکہ قدم اٹھانا بھی محال ہے ۔جہاں موت ، زندگی سے قبل اور
بیماری تندرستی سے پہلے پہنچ جاتی ہے ۔ جہاں انسان ،پانی اور خوراک کو
ترستا ہے جہاں قدم قدم پر سانس رکتی ہوئی اور خون رگوں میں جمتا ہوامحسوس
ہوتا ہے۔ سیاچن میں گیارہ مہینے برف پڑتی ہے ۔برفانی طوفان آتے ہیں ۔جو
خیموں کو اڑا کر لے جاتے ہیں یا برف کی گہری تہوں میں دفنا دیتے ہیں ۔یہاں
ہزاروں فٹ کی بلندی سے اچانک پھسلنے والے برف اور مٹی کے تودے اپنے راستے
میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابو دکردیتے ہیں ۔ یہاں ایک طرف جمی ہوئی
برف کی دیواریں ہیں تودوسری طرف انسانوں کو نگل جانے والی گہری کھائیاں ہیں
جو برف کی ہلکی پرت سے ڈھکی ہوئی اپنے شکار کی ہر لمحے منتظر رہتی ہیں ۔
یہاں فطرت اپنی پوری قہرسامانیوں کے ساتھ انسان کی قوت برداشت ،اعصاب ،
حوصلے ، صبرو تحمل ، جذبہ ایثار ، حب الوطنی اور اس کے شوق شہادت کاکڑا
امتحان لیتی ہے ۔ یہاں خاص قسم کے جوتے اورتہہ درتہہ جرابیں پہننے کے
باوجود زیادہ دیر ٹھہرنے سے پیروں کی انگلیاں سردی کی شدت سے فراسٹ
بائٹ کا شکار ہوکر گل جاتی ہیں ۔ کاٹ دیناہی ان کا واحد علاج ہے ۔ سیاچن کے
موسم کی ستم ظریفاں کتنے ہی سرفروشوں کو ان کے جسمانی اعضا سے محروم کرچکی
ہیں اور کتنے ہی پاک فوج کے جانباز برفانی طوفانوں میں گھر کر جام شہادت
نوش کرچکے ہیں ۔
کرنل مگسی کا یہ خیال تھا کہ ان باتوں کو سن کر بیٹا علی خوفزدہ ہوجائے
گااور سیاچن جانے کا ارادہ ترک کردے گا لیکن انہیں اس وقت حیرت کا
سامناکرنا پڑا جب ان کی باتوں نے کیپٹن علی کے دل و دماغ میں سیاچن جانے
کااشتیاق مزید بڑھا دیا ۔کیپٹن علی کے ارادے پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہوگئے
ہیں۔شاید وہ پیدا ہی ایسے خطرات سے کھیلنے کے لیے ہوا تھا۔ پھر جس مگسی
قبیلے سے ان کا تعلق تھا ۔خوف اور ڈر ان سے چھوکر بھی نہیں گزراتھا۔ مگسی
قبائل کے لوگوں نے انگریز فوج کے خلاف جرات اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے
کہ ان کے مقابل انگریز فوج بھی شکست کھاگئی ۔کیپٹن علی کی رگوں میں بھی
مگسی قبیلے کا جوان خون تھا۔ وہ کیسے خوفزدہ ہوجاتا وہ توایسے مقامات پر
دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہا تھا۔
کیپٹن علی کے شدید اصرار پر کرنل مگسی نے سیاچن پر پوسٹنگ کروانے کی حامی
بھر لی ۔اس مقصد کے لیے جی ایچ کیوکے جس افسر سے بات کی جاتی وہ حیران
ہوجاتاکہ یہ کیسا باپ ہے جو اپنے لخت جگر کو دنیا کے سرد جہنم میں خود بھیج
رہاہے ۔ حسن اتفاق سے بلوچ رجمنٹ کو سیاچن جانے کے احکامات مل گئے ۔اس طرح
کیپٹن علی کی سیاچن جانے اور وہاں بھارتی سورماؤں سے دو دوہاتھ کرنے کا
بہترین مواقع میسر آگیا ۔ ان کے کمانڈنگ آفیسر کرنل کامران رضا ، کیپٹن علی
کی پیشہ ورانہ خدمات پر بہت خوش تھے ۔جس کا ذکر کیپٹن علی اکثر اپنے
گھروالوں کو لکھے ہوئے خطوط میں کرتے رہے ۔لیکن کیپٹن علی کا حقیقی آئیڈیل
کرنل صبح صادق تھے ۔
اسی دوران ایک ایڈونچر ہوئی جس میں کیپٹن علی نے دشمن کی ایک چوکی پر قبضہ
کرکے گیارہ بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا ۔ بعد ازاں کئی ریسکیو آپریشنز
بھی کیے اور مشکل ترین حالات میں اپنے ساتھیوں کی جانیں بچائیں ۔آپ حاجی
پوسٹ جیسی سخت ترین پوسٹ دو بار تعینات ہوئے ۔ ایک رات کیپٹن علی ان برف
پوش وادیوں میں رات کے پچھلے پہر ڈیوٹی پر مامور تھے کہ فضا میں اذان کی
صدابلند ہوئی ۔آپ حیران تھے کہ رات کے اس پہرجبکہ دور دور تک کوئی انسانی
وجود دکھائی نہیں دے رہا تھا پھر یہ اذان کی آواز کہاں سے آرہی ہے ۔ابھی
حیرانگی اور تجسس کے احساسا ت کم نہیں ہوئے تھے کہ ان کے دل میں خیال آیا
کہ شاید کوئی شخص تہجد کی اذان دے رہا ہے ۔ یہ جان کر انہوں نے بھی اس
برفانی سطح پر نماز تہجد کی نیت باندھ لی ۔ دوران نماز کیپٹن علی نے محسوس
کیا جیسے ان کے ساتھ اور بھی لوگ نماز تہجد اداکررہے ہیں ۔اس احساس کے ساتھ
جب دائیں جانب سلام پھیرا تو انہیں تاحدنظر سفیدلباس والے لوگ نماز پڑھتے
ہوئے دکھائی دیئے ۔یہ حیرت انگیزاور پر اسرار منظر دیکھ کر ان پر خوف طاری
ہوگیا ۔ تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے آپ اپنے خیمے "ایگلو"میں پہنچے اور
بدحواسی کے عالم میں اپنے ساتھیوں کو یہ واقعہ سنایا۔تو انہوں نے مسکراتے
ہوئے کہا سر یہ منظر آپ کو آج نظر آیا ہے لیکن ہم تو روزانہ کوئی نہ کوئی
ایسا واقعہ دیکھتے ہیں ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس برف پوش بلندو
بالا وادیوں میں پاک فوج کے ان شہیدوں کی روحیں نظر آتی ہیں جنہوں نے دفاع
وطن کا فریضہ انجام دیتے ہوئے یہاں شہادت کے جام پیئے ہیں ۔ ساتھیوں نے
بتایا کہ سیاچن آنے والا ہر شخص یہاں شہیدوں کی بازگشت بہت شدت سے محسوس
کرتا ہے بلکہ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتاہے کہ ہم کسی ایسی جگہ پر پہنچ
جاتے ہیں جس سے چند قدم کے فاصلے پر برف سے ڈھکی ہوئی گہری کھائی ہوتی ہے
۔تو شہید رہنمائی کرکے ہمیں جانی نقصان سے بچا لیتے ہیں ۔
چھبیس ہزار فٹ بلند چوٹیوں سے واپس آئے ہوئے آپ کو زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ
سیاچن کی خضر پوسٹ پر ڈیوٹی دینے والے کیپٹن بلال کا یونٹ میں بار بار فون
آنے لگا ۔ دراصل کیپٹن بلا ل کی بہن کی شادی تھی اس لیے وہ متبادل مانگ رہے
تھے جبکہ اس وقت کیپٹن بلال کا متبادل بننے کے لیے کوئی افسر بھی موجود
نہیں تھا سب اپنی اپنی پوسٹوں پر دشمن کے سامنے برسرپیکار تھے ۔ اس کے
باوجود کہ کیپٹن علی بلندترین پوسٹ پر اپنا مقررکردہ عرصہ گزار چکے تھے
لیکن انہوں نے اپنے ساتھی آفیسر کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے خود ساتھیوں سمیت
خضرپوسٹ پر جانے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے کمانڈنگ آفیسر کو سیلوٹ کرکے برف
پوش پہاڑی چوٹیوں پر چڑھنے لگے ۔ جب آپ لبیک پوسٹ پر پہنچے تو پوسٹ کمانڈر
نے کیپٹن علی کو کہا آپ دن کی بجائے رات کو باقی سفر طے کرلیں ۔ دن کے
اجالے میں دشمن دیکھ کر گولہ باری شروع کردیتاہے ۔ کیپٹن علی نے رات
کاانتظار کیے بغیر ہی دن کے اجالے میں اپنا سفر جاری رکھا ۔ دشمن کی گولہ
باری کا خوف ان سے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا ۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے
ہوں گے کہ دشمن نے گولہ باری شروع کردی جس سے لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ شروع
ہوگیا ۔ بدقسمتی سے ایک منوں بھاری برفانی تودہ کیپٹن علی اور ان کے
ساتھیوں پر آگرا ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے کیپٹن علی نے ایک
پتھر پر اپنا نام لکھا تھا ۔قدرت کا کرشمہ دیکھیں جہاں کیپٹن علی نے اپنا
مقام شہادت کے طورپر نام لکھا تھا وہیں فرشتہ اجل نے ان کی روح قبض کی ۔
کیپٹن علی شہید کی میت جب ان کے گھر واقع اقبال پارک ڈیفنس روڈ لاہور کینٹ
پہنچی تو ان کا چہرہ پرسکون اور نہایت ترو تازہ تھا۔ شہید کی میت کو دیکھنے
والا ہر شخص یہی سمجھ رہا تھا جیسے وہ سو رہے ہیں ۔شہید تو زندہ ہوتا ہے جس
کی گواہی قرآن و حدیث میں دے رکھی ہے ۔ اسی شام انہیں ڈیفنس قبرستان میں
پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیاگیا ۔جس میں اس وقت کے کور کمانڈر
سمیت اعلی ترین فوجی افسر شریک ہوئے ۔
اس کے باوجود کہ کیپٹن علی رؤف مگسی شہید ہوکر اس جسمانی طور پر اس دنیا سے
رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کے حوالے سے بے شمار واقعات کی بازگشت سنی اور
دیکھی گئی ۔ مجھے کرنل مگسی کے ہمراہ کیپٹن علی کے ساتھی افسروں اور جوانوں
سے بالمشافہ ملنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان سے شہید کے بارے میں گفتگو کی ۔ ایک
جوان نے بتایا کہ کیپٹن علی کی شہادت کے بعد ہمیں کئی مرتبہ ایسا محسوس
ہواجیسے کوئی ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔ بے شمار مرتبہ ہمیں غیب سے کیپٹن
علی کی آواز سنائی دی ۔خبردار آگے مت بڑھنا آگے گہری کھائی ہے۔ جو آپ کی
موت کا سبب بن سکتی ہے ۔ ہم نے رک کی جائزہ لیا تو کیپٹن علی کی بات سو
فیصد درست نکلی ۔ ایک رات برف کا بہت بڑا طوفان آیا جس کے ساتھ ایک بہت بڑا
برف کاتودہ اس کیمپ پر آن گرا۔جس میں اس پوسٹ کے افسروں اور جوانوں کے لیے
راشن موجود تھا۔تودہ گرنے سے کھانے پینے کی اشیاء سمیت انسانی استعمال کی
تمام چیزیں تودے کے نیچے دب گئیں ۔ موسم خراب ہونے کی بناپر مددکی توقع
نہیں کی جاسکتی تھی چنانچہ اس پوسٹ پر تعینات جوانوں کی موت یقینی تھی ۔ایک
شخص نے کیپٹن علی کی شہادت کا واسطہ دے کر دعا کی تو برفانی طوفان تھم گیا
اور ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ برفانی تودہ نے کروٹ بد لی اور نیچے کی جانب گرگیا
۔ یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ کیمپ میں موجود ہر چیز اپنی جگہ صحیح
سلامت تھی ۔یہ بھی ایک معجزہ تھا ۔
کیپٹن علی شہید کاایک دوست آرمی ایوی ایشن میں پائلٹ تھا۔ ایک دن جب وہ
جہاز اڑا رہا تھا تو اچانک انجن میں خرابی پیدا ہوئی اور جہاز لڑکھڑا کر
زمین کی جانب آنے لگا ۔پائلٹ پر موت کی غنودگی طاری ہوگئی ۔ زمین سے کچھ ہی
فاصلے پر پہنچ کر جہاز نے ایک بار پھر بالکل ٹھیک حالت میں اڑنا شروع کردیا
۔ اس لمحے ایک غیب سے آواز آئی جس نے پائلٹ کو چونکادیا کہ اٹھو اوراپنا
جہاز کو سنبھالو ۔ پائلٹ نے گردن گھما کر پیچھے دیکھاتو کیپٹن علی شہید
کھڑا تھا ۔ اسی طرح کاایک واقعہ کرنل مگسی کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ ایک بار
لاہور سے اسلام آباد جارہے تھے گاڑی سڑک پربہت تیز دوڑ رہی تھی ۔اچانک ان
کے سامنے ایک ٹرک آگیا ۔اس سے بچنے کے لیے جب بریک لگائی تو بریک فیل ہوگئی
اب ان کی موت یقینی ہوچکی تھی ۔ کرنل مگسی نے کلمہ شہادت پڑھ لیا ۔ اچانک
ان کی گاڑی خودبخود رک گئی سامنے کیپٹن علی شہید کھڑا مسکرا رہاتھا ۔ایک
اور واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ایک علی الصبح شہیدکاایک جگری دوست اپنے ہاتھ
نوٹوں سے بھرا شاپر لے کر کھڑا تھا ۔ گھنٹی بجنے پر کرنل مگی نے دروازہ
کھولا تواس نے آگے بڑھ کر نوٹوں سے بھرا وہ شاپر پیش کردیا ۔کرنل مگسی نے
پوچھا بیٹااس میں کیا ہے ۔دوست نے بتایا کہ انگل اس میں کرنسی نوٹ ہیں یہ
علی کی بہن کی شادی کے لیے ہیں ۔آپ شادی کی تاریخ آگے نہ بڑھائیں ان پیسوں
سے شادی کرلیں جب آپ کے پاس ہوں گے واپس کردیجیئے گا۔ رات کو کیپٹن علی
شہید نے مجھے سونے نہیں دیاکہ میری بہن کی شادی پیسے نہ ہونے کی بناپر
ملتوی رہی ہے تویہاں پیسے پر سانپ بن کے بیٹھے ہو۔ کرنل مگسی نے بتایا کہ
کل شام ہم میاں بیوی اس فیصلے پر پہنچے تھے کہ شادی فی الحال ملتوی کردی
جائے ۔ جب پیسے ہوں گے تب شادی کی تاریخ رکھ لیں گے ۔کرنل مگسی حیران تھے
کہ بہن کی شادی کی فکر شہید ہونے کے باوجود کیپٹن علی کو کتنی ہے ۔ ایک اور
واقعہ شہیدکی بہن نے سنایا کہ اسے آپریشن کے سلسلے میں آپریشن تھیٹر میں
لیجایا جارہا تھا ۔میں نے ہوش و حواس میں دیکھا کہ کیپٹن علی شہید میرے
ساتھ ساتھ آپریشن تھیٹر میں داخل ہوئے ۔ جب تک آپریشن ہوتا رہا وہ مجھ سے
بات کرکے بہلاتے رہے ۔ آپریشن کے بعدجب ہوش آئی تو میں نے پوچھا علی بھائی
کہاں ہیں ،وہ دکھائی نہیں دے رہے ۔ والدہ نے کہا بیٹی تمہارے علی بھائی تو
شہیدہوچکے ہیں۔ بہن نے کہا میں قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ وہ آپریشن تھیٹر
میں بھی میرے ساتھ باتیں کررہے تھے ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ شہیدکے والدکرنل (ر)سردار عبدالرؤف خان مگسی بھی
قومی ہیرو ہیں ۔ وہ بلوچ قبیلے "مگسی " سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے نہ صرف
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں داد شجاعت دکھائی بلکہ 1971ء کی جنگ میں بھی
لاہور کے محاذ پر اور بعد ازاں کنٹرول لائن پونچھ سیکٹر میں بھارتی فوج کے
چھکے چھڑا دیئے ۔ ان کی جرات اور بہادری کی کہانی ایک الگ داستان کی حیثیت
رکھتی ہے لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے ان کا ذکر یہاں کرنا اس لیے بھی
ضروری ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وہ کمانڈنگ آفیسر رہ
چکے ہیں۔ یہ شاید 1980ء کی بات ہے ۔
بہرکیف کیپٹن علی مگسی 25 دسمبر 1973کو 10ویٹ مین روڈ مغلپورہ لاہور میں
پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کیتھڈرل سکول سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان فیڈرل
گورنمنٹ سکول لاہور کینٹ سے پاس کیا ۔ فرسٹ ائیر فیڈرل گورنمنٹ کالج
سیالکوٹ سے کیا۔ ۔ایف ایس سی کرنے کے بعد آئی ایس ایس بی کا امتحان پاس
کرکے 10 مئی 1993ء کو پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول کو جوائن کیا ۔ جہاں دو
سال تک تربیتی مراحل طے کیے اور میڈل حاصل کیے ۔شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ
ہو گا جس میں علی نے نمایاں پوزیشن حاصل نہ کی ہو ۔ اپر یل 1995 کوپاس آؤٹ
ہوکر 40 بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے ۔یاد رہے کہ اس یونٹ کی بنیاد ہی کرنل سردار
عبدالرؤف خان مگسی نے رکھی تھی اور جب علی پیدا ہوئے تو کرنل مگسی اسی یونٹ
کے کمانڈنگ آفیسر تھے ۔ چنانچہ40 بلوچ رجمنٹ میں شامل ہونے والا دوسری نسل
کا یہ پہلا آرمی افسر تھا ۔شہید کے بارے میں کرنل (ر) مگسی نے بہت خوب کہا
کہ کیپٹن علی شہید ایک محبت کرنے والا بیٹا ، اچھا سپاہی اور مستند مسلما ن
تھا۔ وہ تو پیدا ہی شہادت کے لیے ہوا تھا اس کی والدہ اور بہنیں آج بھی گھر
میں اس کی کسک محسوس کرتی ہیں جیسے وہ اسی گھر میں ان کے ساتھ رہتا ہو لیکن
نظرنہیں آتا ۔
بے شک شہید زندہ ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا
|