گمشدگی

وہ قافلے سے جدا ہو کے بھٹک چکا تھا
۔اس کا مال اسباب وہیں رہ گیا اب کیا کروں اس نے پریشانی میں سوچا ۔ہر طرف تا حد نگاہ ریت ہی ریت تھی ۔سورج نے آنکھیں ملتے ہوئے جھک کے اس کو دیکھا اسکے ہونٹوں پہ زرد پپڑیاں جم گئیں۔چہرے پہ ڈوبتے سورج کی سی زردی تھی آنکھیں ان وحشت ذدہ گدھوں پہ جمی تھیں جو اس کے گرنے کے منتظر تھے۔وہ ٹانگیں گھسیٹتے چلا جا رہا تھا اچانک ٹھوکر لگی اور وہ زمیں بوس ہو گیا۔اک گدھ خوشی سے چلایا اس کی خشک چونچ اس کے جوان اور گرم خون سے غسل کرنا چاہتی تھی۔گدھ کی تیز آواز نے اسے ہمت کرنے پہ مجبور کر دیا وہ موت سے خوفزدہ تھا اپنا جسم نوچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔اسے اٹھتے دیکھ کر گدھ کا اضطراب بڑھ گیا کچھ دیر بعد سہی۔ گدھ نے دانت نکوستے ہوئے کہا۔اب اس نے مغرب کا راستہ پکڑا .شاید منزل تک لے جائے ۔دور اسے کالی زمین نظر آئی اور ہلکا سبزہ بھی۔آہ میں بچ گیا آبادی قریب ہوگی یقیناًاب میں پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں گا اس نے پپڑی ذدہ ہونٹوں پہ زبان پھیری ۔سبزہ قریب آگیا اس نے بے ساختہ قدم بڑھائے ۔گڑپپپ گڑپپپپ کی آواز اور اس کے نیچے سے زمین کھنچ لی گئی ۔اس کی اور گدھ کی آنکھوں میں تحیر ٹھہر چکا تھا۔