سالِ نَو کس کا؟؟؟
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
رات بارہ بجکر ایک منٹ پر جو ہلّا گُلّا ، دھوم دھڑکا
اور طوفانِ بدتمیزی بپا کیا گیا ، اُس پر تو بعد میں بات کریں گے ، پہلے یہ
تو طے کر لیں کہ عالمِ اسلام کا سال عیسوی سے شروع ہوتا ہے یا ہجری سے؟۔ یہ
تو بہرحال طے ہے کہ ہمارا سال تو ہجری ہے جو حضور ِ اکرم ﷺ کی ہجرتِ مدینہ
سے شروع ہوتا ہے ۔جب مشرکینِ مکّہ کے مسلمانوں پر ظلم و ستم اپنی انتہاؤں
کو چھونے لگے تو اﷲ تعالےٰ کے حکم سے حضورِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ
منورہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہی ہجرت کا سال امیرالمومنین حضرت عمرؓ
کے دَور میں ہجری کیلنڈر قرار پایا۔ یہ سترہ یا اٹھارہ ہجری کی بات ہے جب
صحابہ کرام رضوان علیہم اِس بات پر متفق ہوئے کہ اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرت
کے سال سے کیا جائے ۔ جِن امور کو بنیاد بنا کر اسلامی کیلنڈر کی بنیاد
رکھی جا سکتی تھی ، وہ چار تھے ۔ حضورِ اکرم کی ولادت ، بعثت ، ہجرت اور
وفات۔ اِن چاروں امور پر طویل بحث ومباحثہ کے بعد تمام صحابہ کرام ہجرت پر
متفق ہوئے کیونکہ ولادت و بعثت ، دونوں کے سال کے تعین میں اختلاف کی
گنجائش نکل سکتی تھی جبکہ وفات سے افسردگی اور رنج والم تازہ ہو جاتا ۔
اِسی لیے محرم الحرام سے ہجری سال کی ابتدا کی گئی۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد ہی
اسلامی معاشرہ لفظ ’’اُمت‘‘ میں تبدیل ہوا اور اسلامی حکومت کی بنیاد پڑی ۔
مسلمانوں نے سیاسی و سماجی زاویوں سے اپنے آپ کو مستحکم کیا۔ یہی وہ دَور
ہے جب دینی احکام اور اسلامی تعلیمات کا کھلم کھلا اظہار ہوا ۔اِس لیے اگر
نئے سال کو ’’خوش آمدید‘‘ کہنا بنتا ہے تو صرف یکم محرم الحرام کو۔ ویسے تو
حضورِ اکرم ﷺ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کورَبّ ِ کردگار سے اُمتِ مسلمہ کی
بہتری کی دُعا فرمایا کرتے تھے اِس لیے صرف محرم الحرام ہی نہیں ، ہر ماہ
کی پہلی تاریخ ہمارے لیے محترم ہے۔
جب یہ بات کی جاتی ہے کہ ہمیں یکم محرم الحرام سے اپنے سال کی ابتدا کرنی
چاہیے تو اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو غم کا مہینہ ہے کیونکہ محرم ہی میں
حضرت امام حسین علیہ اسلام کی شہادت ہوئی ۔ دست بستہ عرض ہے کہ حضرت امام
حسین کی شہادت 64 ہجری میں 10 محرم الحرام کو ہوئی یعنی اسلامی کیلنڈر کی
تشکیل کے چھیالیس سال بعد ۔ امام حسینؓ اور اہلِ بیعت سے محبت ہمارے خون
میں رچی بسی ہے لیکن سانحہ کربلا تو ہجرت کے چونسٹھ سال بعد رونما ہوا جب
یزید لعین کی فوج نے حضرت امام حسینؓاور اُن کے اہل وعیال کے خون سے کربلا
کی زمین کو سرخ کر دیا۔ اِس سانحۂ عظیم سے ہجری کیلنڈر تو ختم نہیں ہو جاتا
اوریہ تو بہرحال تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم
الحرام ہی ہے ۔ ہجری کیلنڈر کا پہلا ماہ محرم اور آخری ذی الحج ہے ۔یہ
دونوں امن و سلامتی کے مہینے ہیں جن میں لڑائی جھگڑا اور جنگ و جدل حرام
ہیں ۔ یزید لعین نے اِس ماہ کی حرمت کا خیال نہ کیا اور اب قیامت تک اُس پر
لعنت ہی بھیجی جائے گی۔ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ یکم محرم کو خوشیاں منائی
جائیں ، دھوم دھڑکا ہو اور میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اسلامی
شریعت تو اِس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی
سال کے شروع ہوتے ہی مساجد میں نوافل ادا کیے جائیں ، اپنے گناہوں کی معافی
مانگی جائے اور ملک و قوم کی بہتری کی دعائیں کی جائیں۔ یہ محرم الحرام ہی
ہے جس کو خود اﷲ تعالےٰ نے امن کا مہینہ قرار دیا ۔
اب آئیے ’’ہیپی نیو ایئر‘‘ کی طرف ، جس میں 31 دسمبر کو لوگ رات کو جاگ کر
نئے سال کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور جونہی رات کے بارہ بجتے ہیں ، لوگ
گھروں سے نکل آتے ہیں اور پھر ہا ؤ ہو کی محفلوں میں شراب کے جام لُنڈھائے
جاتے ہیں ، رقص وسرور کی محفلیں جمتی ہیں اور منچلے وہ طوفانِ بدتمیزی بپا
کرتے ہیں کہ الحفیظ و الاماں۔ یہ سارا طوفانِ بدتمیزی ہمیں اشرافیہ کے ہاں
ملتا ہے ، بیچارے نانِ جویں کے محتاج تو یہ بھی نہیں جانتے کہ نیا سال کیا
ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ کِس بات کی
خوشی مناتی ہے ،خالصتاََ غیر شرعی اور غیر اسلامی تقریبات کا انعقاد کیوں
کیا جاتا ہے اور غیرمسلموں کی مشابہت کیوں اختیار کی جاتی ہے ؟جبکہ حضورِ
اکرم ﷺ کا فرمان ہے ’’جِس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی ، وہ اُنہی میں
سے ہے (ابوداؤد) ‘‘۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہم ’’نیوایئر‘‘ منا کرحضورِ
اکرم ﷺ کے فرمان کی صریحاََ خلاف ورزی تو نہیں کر رہے اور کیا ایسی حرکات
بغاوت کے زمرے میں تو نہیں آتیں؟۔ یوں تو ہم نے وطنِ عزیز کا نام ’’ اسلامی
جمہوریہ پاکستان ‘‘ رکھا ہے لیکن تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ میرا وطن اِسلامی
ہے نہ جمہوری۔ اگر یہ اسلامی ہوتا تو حکومت حرکت میں آتی اور اِن ساری
خرافات کو بزورِبازو بند کرواتی لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ پولیس تک بھی
مَنچلوں سے دور دور ہی رہتی ہے اور جو لوگ اِن خرافات کو بند کروانے کی
کوشش کرتے ہیں ، حوالاتیں اُن کی منتظر ہوتی ہیں۔ یہ بجا کہ نیوایئر کی
تقریبات کو بند کروانے کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی صورت میں
درست ہے نہ مناسب لیکن حکمرانوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ کیا ایک اسلامی ملک
میں ایسی غیر اسلامی تقریبات کے انعقاد کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟۔ کیا دینِ
مبیں نے ہمیں خوشیاں منانے کے لیے کوئی تہوار نہیں دیا؟۔
جب حضورِاکرم ﷺ مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اہلِ مدینہ
کو دو تہوار مناتے دیکھا۔ آپ ﷺنے اِن کی بابت دریافت فرمایا تو انصارِ
مدینہ نے عرض کیا کہ یہ اُن کے دو تہوار ہیں جن میں وہ ہنسی مذاق کرتے ،
کھیلتے کودتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اب اﷲ تعالےٰ نے تمہیں
اِس سے بہتر خوشی کے دو دِن دے دیئے ہیں ، یعنی عید الفطر اور عید
الاضحیٰ(سنن نسائی)‘‘۔ یہ وہ تہوار ہیں جن کا تعلق ہمارے نیک اعمال کے ساتھ
ہے ۔ عید الفطرماہِ صیام کے خاتمے کے بعد اور عید الاضحی حج کی سعادت حاصل
کرنے کے بعد منائی جاتی ہے ۔ گویا اِن عیدین کا تعلق شکرانے کے ساتھ ہے ۔
ہم ربّ ِ لَم یَزل کے احکامات کی پیروی کے بعد یہ عیدین شکرانے کے طور پر
مناتے اور خوش ہوتے ہیں ۔جبکہ نیوایئر ہو ، ویلنٹائین ڈے یا اسی قسم کے
دوسرے غیراسلامی تہوار ، یہ سب اِس مادر پِدر آزادمعاشرے کے تحفے ہیں ۔
لیکن کیا کریں غیروں کی نقالی تو ہماری نَس نَس میں سمائی ہوئی ہے ۔ ہماری
تہذیب ، ہمارا تمدن ، ہماری معاشرت ، سب غیروں کی نقالی پر مشتمل ہے۔
اسلامی معاشرے کی تو کہیں جھلک بھی نظر نہیں آتی ۔ شادی بیاہ سے لے کر مرگ
کے سوگ تک ، سب کچھ ہم نے ہندوؤں سے مستعار لیا ۔ یہ مہندی ، یہ مائیوں اور
اُن میں ناچ گانا ، سب ہندووانہ رسم ورواج ہیں ۔ لباس مغربی اور زبان بھی
مغربی کو ہی ترجیح دی جاتی لیکن ہم ہیں پھر بھی مسلمان ۔ |
|