“ اماں کیا مجھے حق تھا ، کہ میں خود کو جیسا چاہتی بنا
لیتی “ اماں اسکے پاؤں میں دوا لگا دینے کے بعد اب اسکے سر کو اپنی گود میں
رکھ کر اسکے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیر رہی تھی۔ “نیں بیٹا ! یہ اختیار
اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے “ اماں اسکے اس سوال پر تڑپ ہی اٹھی تھی، “تو پھر
مجھے قصور وار کیوں سمجھتے سب کیا میں نے اللہ سے کہا تھا،وہ مجھے کالا
پیدا کرتا ، دادی مجھ سے نفرت کرتی ہیں، سب کزن میرا مذاق بناتی ہے، ابھی
بجو کی شادی پر جب سب کزن تصویریں بنانے لگی تب سب مجھے آوازیں دینے لگی،
کہنے لگی کالی آؤ یہاں ہمارے ساتھ تصویر بنواوں تمہارے ہونے سے ہمیں نظر
نہیں لگے گی۔ وہ روتے ہوئے بمشکل اپنی بات پوری کر سکی ،اور ہچکیوں سے رونے
لگی ،اماں کا دل دھل گیا وہ جانتی تھی اسکی بیٹی کس اذیت سے گذر رہی ہے ۔
اماں نے اسے سینے سے لیا۔
“زرمینہ تمہارے لیے بجو کی شادی پر ایک رشتہ آیا ہے بیٹا!“ کالی نے سر اٹھا
کر حیران نظروں سے ماں کی طرف دیکھا ، اسے ماں کی بات پر یقین ہی نہیں آیا،
جب سے اسے احساس ہوا کے کوئی اسے پسند نہیں کرتا سب اسکے رنگ کا مزاق اڑاتے
ہیں،تب سے اسنے دوسری لڑکیوں کی طرح شادی کے خواب نہیں دیکھے ،اب اماں کی
بات سن کر حیران نا ہوتی تو اور کیا کرتی اسے یقین نہیں آرہا تھا کے کوئی
اسے بھی پسند کر سکتا ہے ۔ اماں نے سر ہلا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
آج صبح بہت نکھری تھی۔کالی فجر کی نماز پڑھ کر باہر آئی تو دادی تخت پر
بیٹھی تیز تیز تسبیح گھما رہی تھی،چڑیوں کی چہچھاہٹ اسے بہت بھلی لگتی
تھی،آج ویسے بھی وہ بہت خوش تھی، آج اسے دیکھنے لڑکے والے آرہے تھے، آج اسے
دادی کا چیکھنا بھی برا نہیں لگ رہا تھا ،آج شام تک اسے خوش خوش رہنا تھا۔
“زرمینہ بیٹا! جلدی سے تیار ہو کے آجاؤ وہ لوگ آ گئے ہیں“ کالی نے ہلکے رنگ
کا فروک پہنا جس میں وہ دمک رہی تھی ،اور اماں کی آواز سن کر وہ جوتا پاؤں
میں ارسا کر وہ مہمانوں کے سامنے جا کر بیٹھ گئی لڑکے نے ایک نظر دیکھا
بس،دوسری نظر اس کے سراپے پر ڈالنا گناہ سمجھا ،کالی سے نظرے اٹھانا محال
تھا ،اس نے ایک نظر بھی نہیں دیکھا لڑکا کیسا تھا،پر ہمت کر کے آنکھوں کو
اٹھا کر دیکھ ہی لیا، لڑکا بھدے نقوش کا تھا ،موٹا سا بس رنگ اسکا سفید
تھا، کالی کا بس رنگ ہی کالا تھا۔نقوش اسکے بہت اچھے تھے،اگر اسکا رنگ سفید
ہوتا تو کسی اپسرا سے کم نا تھی۔لڑکے نے اپنی ماں کے کان میں کچھ کہا جسے
سن کر ماں کا مسکراتا چہرا سنجیدہ ہوگیا۔
“میں نے تو کہا تھا تمہں کہ اس کی شادی کا خیال دل سے نکال دو جب وہ موٹا
اسے نا بول گیا تو اور کون اسکا ہاتھ تھامے گا“ اماں نے کچھ نہیں کہا بس
اپنی بیٹی کی قسمت پر آنسو بہاتی رہی ، دادی کا کام ہی زہر اگلنا تھا وہ
اگلتی رہی۔
“میرے اللہ یہ لوگ تیری بنائی ھوئی مخلوق کو برا کہتے ہے ،اے میرے رب تو
مجھے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے ،مجھے اس رسوائی سے بچا لے میرے اللہ
میری برداشت ختم ہو گئی اب تو اپنے بندے پر برداشت سے زیادہ بوجھ نہں ڈالتا
میں جانتی ہوں میں تجھے کتنی عزیز ھوں کیوں کے تو میرا رنگ نیں میرا دل
دیکھتا ھے میرا دل تو شفاف ھے میں نے تجھ سے کبھی لوگوں کا گلا نیں کیا،اے
میرے اللہ آج میں سب کو تیری رضا کے لئے معاف کرتی ہوں مجھے کسی سے کوئی
گلا شکوا نہیں ،مجھے سکون عطا کر دے میرے اللہ ۔ وہ آج چپ چاپ کمرے میں جا
کر اللہ سے سکون کی دعا کرنے لگ کیئ کیوں کے اسنے دادی کی بات سن لی تھی
اور اللہ نے اسے ہمشہ کے لئے سکوں عطا کر دیا اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا
وہ رات کی سوئی صبح نا اٹھ سکی۔اور ہمیشہ کا سکون پا گئی۔ |