نایاب :جلدی سے آفتاب کو فون ملانے لگی ،مگر
نمبرنہیں لگ رہا تھا۔
سمن:کیا ہوا ؟
نایاب :پتہ نہیں ،ماہم نے کچھ بتایا نہیں کیا ہوا،ہادی سے بات نہیں کروائی
،کچھ خاموش سی ہو گئی۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
سمن :فون ملاتے ہوئے،ماہم کیا ہوا ہادی کہاں ہے؟میرا مطلب کیسا ہے؟
ماہم:وہ آپی ہادی کو چوٹ لگ گئی ہے وہ بھاگتا ہوا آیا اور سلپ ہو گیا ،در
اصل اسی نے ہی پانی گرایا تھا اور پھر اسی پانی سے سلپ ہو گیا،کھانے کی میز
سے ٹکرایا اور پھر کرسی سے بھی تو سر پرچوٹ لگی اور ایک دانٹ بھی نیچے کا
ٹوٹ گیا۔اچھا چلو ٹھیک ہے۔
سمن :کچھ بھی نہیں ہوا ۔نایاب تم ایسے ہی رو رہی ہو ہادی تو بلکل ٹھیک ہے
،اس نے نایاب کو تسلی دی۔سمن پھر ماہم سے بات کرنے لگی ،تم نے آفتاب بھائی
کوبتانا تھا نا کہ ہادی تنگ کر رہا ہے ناشتہ نہیں کر رہا نایاب کو کیوں
پریشان کیا ،وہ پہلے ہی ہوسپٹل میں ہے ،کچھ خیال کرنا چاہیے نا۔اب ہادی
کہاں ہے ،کیا کر رہا ہے۔
ماہم:آفتاب بھائی سے بات ہوئی تھی ۔وہ فوراًآ گئے تھے ،ہادی کو ہوسپٹل لے
کر گئے سر پر تین سٹیچیز آئے ہیں۔آفتاب بھائی سے فون پر بات ہوئی تھی
،ابھی ہادی انہی کے پاس ہے۔اچھااچھا،چلو ٹھیک ہے۔
نایاب :کیا ٹھیک ہے ،ہادی سے میری بات کراو۔میرا دل ڈوب رہا ہے پتہ نہیں
کیوں۔
سمن :ہادی بہت شرارتی ہے ،بہت اُدھم مچا رکھا ہے اس نے تم کیسے سنبھالتی ہو
اُسے؟سمن نے اپنے چہرے پر ماہم کی باتوں کے کوئی اثرات نمایاں نہیں کیے۔
نایاب:میری بات کیوں نہیں کروائی ہادی سے؟
سمن:وہ آفتاب بھائی اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں ،ماہم تو یہی کہہ رہی تھی۔
نایاب:دوسرے کے بچوں کو سنبھالنا کہاں آسان ہے،ماہم کے اپنے بچے بھی تو
نہیں ہیں،بے چاری پتہ نہیں کیسے مینج کررہی ہو گی۔بس اللہ کرئے میں جلدی
ٹھیک ہو جاوں۔
سمن:ہو جاو گی ،اب پریشان نہ ہو۔
فروااور نور جہاں دونوں خاموشی سے ساری باتیں سن رہی تھیں۔
فروا:میرے پاس چھوڑ دیتے ہادی کو میری اس سے بہت بنتی ہے۔
نایاب:آفتاب کو فون ملاتے ہوئے۔
سمن:کس کو فون ملا رہی ہو؟
نایاب:آفتاب کو۔
سمن:ہادی سے بات کرنی ہے ۔آفتاب بھائی نے سنبھال لیا ہو گا ،تم یوں ہی
چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہو جاتی ہو۔
نایاب:اسلام علیکم ،کیسے ہیں آپ ؟
آفتاب:ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو؟
نایاب:ٹھیک ہوں ۔ہادی کیسا ہے؟
آفتاب :اب ٹھیک ہے۔
نایاب:میری بات کروائیں۔
ہادی:ماما،ماما آپ کہاں ہو؟
نایاب :کیسا ہے میرا بیٹا؟ماما کی جان،وہ خود رونے لگی ،اس کا بس نہیں چل
رہا تھا کہ اسے چوم کر گود میں اُٹھا لے۔
ہادی۔ماما ماما آئس کریم کھا رہا ہوں۔چاکلیٹ والی،پاپا لائے ہیں۔پاپا نہیں
کھا رہے۔ماما ماما لگ گئی اوپر بھی ،یہاں بھی ،یہاں بھی۔
نایاب:کیا لگ گئی؟
آفتاب:گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے ،وہ میں ہادی کو اپنے ساتھ آفس لے کر
جا رہا ہوں ،واپسی پر آتا ہوں۔
نایاب:آفس میں آپ کو تنگ کرئے گا نا ۔
آفتاب:ماموں کے گھر جانے کو تیار نہیں ہو رہا۔ضد کر رہا ہے کہ اپنے گھر
جانا ہے،آفس ساتھ لے جاتا ہوں ویسے بھی آج تم ڈسچارج ہو جاو گئ۔سب ٹھیک
ہو جائے گا۔
نایاب :جی
آفتاب:اللہ حافظ
نایاب:اللہ حافظ
آفتاب:ابھی بھی درد ہو رہا ہے بیٹا۔نہیں پاپا،اب تو نہیں ہو رہا،میرا دانت
ٹوٹ گیا ماما کو بتایا ہی نہیں۔آفتاب غور سے ہادی کی باتیں سن رہا
تھا،لیکن اس کے دماغ میں نایاب چل رہی تھی ،کیسے ایک عورت اپنی ذات کو بھول
کر اپنے سارے رشتے نبھاتی جاتی ہے۔خود کو مشکل میں ڈال کر دوسروں کے لیے
آسانیاں پیدا کرتی جاتی ہے۔آج اسے نایاب کی اہمیت کا جس شدت سے احساس ہو
رہا تھا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔وہ ہادی کو لے کر آفس جا رہاتھا جبکہ ہادی
موباہل پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔آفس آگیا،آفتاب نے گاڑی کھڑی کی ۔
ہادی:ماما کے پاس آگئے ہیں۔
آفتاب:نہیں بیٹا ماما کے پاس نہیں آئے ہیں پاپا جہاں کام کرتے ہیں وہاں
آئے ہیں۔
آفتاب ہادی کو لے کر اندر چلا گیا۔
نایاب:اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے سب ٹھیک ہے مجھے تو لگا جیسے ہادی کو کچھ
ہوا ہے۔
نورجہاں خالہ:بے چارہ بچہ،ماں کی طرح تو کوئی نہیں دیکھ سکتا نا۔اپنی ماں
کی بات ہی اور ہوتی ہے۔اللہ تمہاری تکلیف دور کرئے بیٹا۔میرا خیال ہے اب
ہمیں چلنا چاہیے۔ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
فروا۔امی کچھ دیر اوردیر رکتے ہیں نا۔ابھی کوئی آیا تو نہیں ہے نا۔جانے کا
کہنے کہ لیے، خیر ہے۔
سمن:دل ہی دل میں شکر کر رہی تھی کہ نایاب کو ہادی کے بارے میں کچھ پتہ
نہیں چلا ۔نہیں تو پتہ نہیں کتنا روتی رہتی۔
فروا۔فاخر بھائی کی شادی کی تیاری چل رہی ہے ،میرے امتحان ختم ہونے کا
انتظار ہو رہا تھا اور اب آپ کے ٹھیک ہونے کا انتظار ہو گا۔کچھ دیر بعد
فروا اور نورجہاں چلی گئیں۔
سمن۔آخر کار خالہ نور جہاں نے منا ہی لیا فاخر کو شادی کے لیے،تمہارے عشق
کا بھوت اُتر ہی گیا اس کے سر سے۔
نایاب:میرے عشق کا بھوت یا پھر آفتاب سے مقابلہ کا بھوت۔
سمن:ایسا تو مت کہو،تمہارے عشق کا بھوت ہی تھا ،تمہاری شادی پر وہ کیسے گھر
سے غائب رہا اور پھر تمہیں کچھ پتہ بھی ہے کتنا خوار ہوا ہے وہ۔اس کا پورا
سال ضائع ہوا ۔ڈاکڑ بھی نہیں بن سکا بے چارہ۔
نایاب:تو کس نے کہا تھا مجنوں بننے کو۔جس سے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوتا وہ
محبت کرنے لگ جاتا ہے تاکہ اپنی ساری ناکامیوں کو اس محبت کے سر ڈال کر بری
الزمہ ہو جائے۔
سمن:تم تو محبت کو بے کار کی چیزکہہ رہی ہو نایاب میڈم جو خود گولی کھا
کربستر پر لیٹی ہو۔
نایاب :بلکل خاموش ہو گئی۔اس کے دل و دماغ میں اک گونج سی سنائی دے رہی
تھی۔
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے ۔۔۔اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر
جانا ہے۔
کیا فرق پڑتا ہے ہم سے کون محبت کرتا ہے یا کون نہیں ۔فرق تو اس سے پڑتا ہے
کہ جس سے ہم محبت کرتے ہیں وہ بھی تو ہم سے محبت کرئے۔ہم انسان بہت خود غرض
ہوتے ہیں ،جس سے ہم محبت کرتے ہیں،اس کے لیے جان دے سکتے ہیں لیکن جو ہم سے
محبت کرتا ہے۔ہم اس سے ہمدردی تو کر سکتے ہیں لیکن محبت نہیں ،جس دل میں
کسی نے پہلے ہی اپنا تسلط قائم کررکھا ہو اس کے دروازے پر دستک دینا بے کار
ہوتا ہے۔دروازے پر بھی کسی دوسرے کا نام لکھا ہو پھر بھی ،فاخر بھی تو ایسا
ہی کر رہا تھا،اُسے میں کیا دیتی جب کہ میرے پاس تو کچھ بھی اپنا نہیں
تھا۔سب کچھ تو آفتاب کا ہی تھا۔آفتاب کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کے لب
کھل گئے اور وہ مسکرا دی۔اس بات سے انجان کہ سمن اسے ہی دیکھ رہی ہے۔ |