سال نو (2017) کا ابتدائی منظر نامہ مخدوم جاوید ہاشمی
اورعمران خان کے مابین غیر مناسب ، غیر شائستہ جملوں کا تبادلہ گویا شکوہ
اور جوابِ شکوہ کی صورت بنی ہوئی ہے۔ آغاز مخدوم صاحب سے کرتا ہوں اس لیے
کہ اس مارا ماری کا آغاز بھی انہوں نے ہی کیا اور وہ عمران خان صاحب سے
سیاست میں اور عمر میں بھی آگے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کو میں نے ان
کی بھر پور جوانی میں دیکھا اور سنا،ان کے اور میرے مابین کچھ مماثلت ہے،
ایک تویہ کہ ہمارے درمیان عمر کا صرف ایک سال کا فرق ہے۔اس کے علاوہ ان کا
اور میرا یونیورسٹی میں طالب علمی کا زمانہ 1971 سے 1973 کا ہے، وہ پنجاب
یونیورسٹی ، لاہور میں اور مَیں جامعہ کراچی کا طالب علم تھا۔ انہوں نے
پہلے بی ایس سی ، ماسٹر اور ایم فل کیا، میں انہی سالوں میں ایم اے کررہا
تھا ، پی ایچ ڈی بہت بعد میں ہمدرد یونیورسٹی سے کی۔وہ جماعت اسلامی کی
طلبہ تنظیم ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ سے باقاعدہ وابستہ تھے ، جب کہ میں
انتخابات میں اسی طلبہ تنظیم کے امید وار کو ووٹ دینے کی حدتک اس کے ساتھ
تھا۔اس کے مقابلے میں این ایس ایف ہوا کرتی تھی پھر ایک لبرل تنظیم بھی
قائم ہوئی اور پی ایس ایف ، اے پی ایم ایس او وغیرہ تنظیمیں بنیں۔ہاشمی
صاحب اپنے وقت کے معروف اور پرجوش مقرر بھی تھے تقریر ہم بھی کر لیا کرتے
تھے۔ سیاسی اعتبار سے یہ زمانہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کے آغاز اور
جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کے زوال کا تھا ۔ ایک جانب مشرقی پاکستان بنگلہ
دیش بننے جارہا تھا۔ ملک میں سیاسی ہل چل عروج پر تھی۔ تعلیمی اداروں میں
اسٹوڈنٹس یونین باقاعدگی سے کام کررہی تھیں، سیاست میں تشدد کا عنصر شامل
نہیں ہوا تھاالبتہ سیاست میں تشدد کا نقطہ آغازضرور تھا۔ تعلیمی اداروں میں
خاص طور پر جامعات میں طلبہ سرگرمیاں اعلیٰ پیمانے پر ہوا کرتی تھیں، جاوید
ہاشمی صاحب اور دیگر طلبہ لیڈر دیگر صوبوں سے جامعہ کراچی آیا کرتے اور اسی
طرح جامعہ کراچی اور دیگر جامعات کے طلبہ پنجاب اور دیگر شہروں میں جایا
کرتے، مقابلوں میں حصہ لینا، تقریریں کرنا ، اپنا نقطہ نظر آزادانہ طور پر
بیان کرنا ، ایک عام سی بات تھی، نہ کسی قسم کا خوف نہ ڈر، اگر طلبہ باہم
دست و گریبان ہوتے بھی تھے تو شامیانوں کے بانس، کرسیاں اور پتھروں کا
استعمال ہوا کرتا تھا۔ دست درازِی کی صورت میں ذہنوں میں دور دور یہ بات
نہیں ہوا کرتی تھی کہ کسی کونے کھانچے سے گولی آجائے گی، کوئی ٹی ٹی یا
کلاشنکوف نکال لے گااور کسی کی جان چلی جائے گی۔ یہی وہ دور تھا جب طلبہ
تنظیموں میں تشدد اور اَسلِحہَ کے استعمال کا آغاز ہوا۔ اس تمہید کا مقصد
یہ بیان کرنا ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کوئی چھوٹے موٹے سیاسی لیڈر
نہیں، وہ طالبِ علمی کے زمانے سے سیاست کے میدانِ کارزار میں ہیں۔ جماعت
اسلامی سے 1985 میں وہ مسلم لیگی پھر’ انصافی‘ بھی ہوئے ، سر دست وہ آزاد
سیاست داں ہیں لیکن کہیں کہیں ان کا جھکاؤ مسلم لیگ کی جانب نظر آتا ہے۔ ان
کی موجودہ سیاست یہ پیغام دے رہی ہے کہ ان کے اندرایک مسلم لیگی دبکا بیٹھا
ہے کسی بھی وقت وہ اپنے گھونسلے میں واپس جاسکتا ہے۔ مخدوم ہاشمی صاحب کی
مسلم لیگ کے لیے بہت قربانیاں ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے مسلم
لیگ کی سربراہی کی، جیل بھی گئے ، نواز شریف کے پہلے اور دوسرے دورِ
حکمرانی میں ہاشمی صاحب مرکزی وزیربھی رہے ، نواز شریف صاحب کے موجودہ دور
میں اختلافات ہوئے اور انہوں نے مسلم لیگ کو خیر باد کہا اور عمران خان کی
تحریک انصاف میں شامل ہوگئے، شامل ہی نہیں ہوئے بلکہ اہم عہدہ پر فائز ہوئے۔
یہ ’ہاں میں باغی ہوں‘ کے خالق بھی ہے اور عمران خان کے سیاسی جلسوں میں
چلا چلا کر اعلان کیا کرتے تھے کہ ہاں میں باغی ہو ں ، ہاں میں باغی ہوں
اور عمران کا ساتھی ہوں۔ پھر کیا ہوا ، اختلافات کی وجوہات اس وقت تو سر
سری طور پرسامنے آئیں۔ اب اچانک ہاشمی صاحب کی یاد داشت نے کام کرنا شروع
کردیا اور وہ عمران خان سے اپنے اختلافات کا پنڈورا بکس کھول بیٹھے۔
ملک کی سیاست میں عمران خان کا دورانیہ مخدوم ہاشمی صاحب کے مقابلے میں بہت
کم ہے۔ عمران نے کرکٹ کھیلی ، ریٹائر منٹ کے بعد کارزار سیاست کا رخ کیا ،
ہاشمی صاحب سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ کی سربراہی بھی
کی،مشکل وقت میں جب میاں صاحبان جدہ سدھار گئے اور متعدد ساتھی مسلم لیگ
(ق) کے ہورہے، کچھ ادھر کچھ اُدھر ہوگئے، کچھ گھر میں بیٹھ گئے، ہاشمی صاحب
ہی تھے کہ انہوں نے میاں صاحباب کی مسلم لیگ کا پرچم بلند کیے رکھا۔ مشکلات
میں رہے، صعوبتیں اٹھائیں۔ اس سے قبل وہ انصاف کی بحالی کی تحریک میں شامل
رہے تھے، جمہوریت کی بحالی کے اتحاد میں فعال کردار ادا کیا تھا، خاص طور
پر نواب زادہ نصراﷲ خان کے ا نتقال کے بعد ہاشمی صاحب بحالی جمہوریت تحریک
کا اہم کردار تھے ۔ کپتان تو ٹہرے کرکٹ کے کھلاڑی، سیاست کو بھی کرکٹ کا
میدان، انتخابی نشان بھی بلا، سکسر مارنے، باؤنسر لگا نے، فیلڈ سے باہر
کرنے ، ٹیم میں شامل کرنے اور ٹیم سے آوٹ کرنے جیسا عمل ان کی سیاست کاخاصا
ہے۔ ان کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں
کہ انہوں نے ملک کی سیاست میں دو سیاسی پارٹیوں اور دو قومی لیڈروں کے ساتھ
ساتھ اپنی پارٹی کو ایک قومی پارٹی بنا نے اور خود کو تیسری سیاسی قوت کے
طور پر سامنے لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ ان کی سیاست کے رنگ
ڈھنگ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک سخت کپتان تھے اب ایک سخت گیر
منتظم اورسخت مزاج پارٹی سربراہ ہیں گویا وہ اپنی پارٹی کے سپر مین ہیں۔
شاید وہ اختلاف کرنے والوں کو پسند بھی نہیں کرتے۔ تب ہی تو جسٹس وجہہ
الدین ان کے ساتھ نہ چل سکے، مخدوم ہاشمی صاحب نے اس وقت اختلاف کیا جب
عمران خان کی جماعت ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دے رہی تھی، ہاشمی صاحب
نے تحریک انصاف چھوڑدی، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی،ہر سیاسی جماعت میں ایسا
ہوتا ہے لوگ آتے بھی ہیں جاتے بھی ہیں۔ خود ہاشمی صاحب مسلم لیگ کو خیر باد
کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی
سے تحریک انصاف میں آئے،مسلم لیگ نواز میں کتنے ہی لیڈر ہیں بلکہ وزارت کے
مزے لوٹ رہے ہیں جو مسلم لیگ (ق) میں تھے ، سندھ کی جماعت متحدہ قومی
موومنٹ کے ٹکڑے ہوئے، کچھ اِدھر گئے ،کچھ اُدھر گئے، کچھ وہیں رہے کچھ یہیں
رہے۔ سیاست میں خاص طور پر پاکستانی سیاست کا حال نہ پوچھیئے کیا ہے۔یہاں
کسی بھی وقت ، کسی بھی لمحہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پاناما لیکس نے اندرونی
ماحول کو کشیدہ، رنجیدہ ، افسر دہ بلکہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر کے
رکھ دیا ہے، دہشت گردی ہے کے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی،ملکی معیشت کا
حال خراب ہے، ملک بیرونی قرضوں تلے دبا چلا جارہا ہے۔ حکومت ہے کہ اسے اپنے
سروائیول کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ سب اچھا ہے سب اچھا ہے ہو رہا ہے۔
ہمسایہ دشمن سرحدوں پر بندوقیں تانے، ٹینک اور توپوں کے رخ ادھر کیے ہوئے
ہیں۔وہ پاکستان کو ختم کرنے کے در پے ہے۔لیکن ایسا کبھی ہوگا نہیں، یہ اس
کی خام خیالی ہے، مودی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا۔ پاکستانی فوج ملک
کے اندر ہونے والی دہشت گردی کا بھی اور بیرونی جارہیت کا مقابلہ کرنے میں
مصروف ہے۔ گویا ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم صبر
و برداشت سے کام لیں، اندرونی حالات کو بہتر کرنے میں حکومت اور عسکری
اداروں کو تقویت پہنچائیں ، عسکری اداروں کی حوصلہ افزائی کریں ، تاکہ وہ
یکسوئی کے ساتھ، بہادری کے ساتھ دشمن کو جواب دے سکیں۔ ہمارا کردار اس کے
برعکس نظر آرہا ہے۔ بھلا یہ کوئی وقت تھا گھڑے مردے اکھاڑنے کا،عدلیہ اور
عسکری اداروں کو برا بھلا کہنے کا، اختلافات کی تفصیل میں جانے کا۔ ہاشمی
صاحب نے عمران خان کے بارے میں جو کچھ کہا ، الیکٹرانک میڈیا نے ہاشمی صاحب
کے بیانات کو اور عمران خان کے جواب دعویٰ کو خوب خوب نمک مرچ کے ساتھ پیش
کیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے ٹی وی چینلز کے پاس کوئی اور موضوع ہی
نہیں ، سوائے مخدوم ہاشمی صاحب کے بیان پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے کے۔ عمران
خان صاحب نے حکومتِ وقت پر وقت ڈالا ہوا ہے، پاناما لیکس کا مقدمہ دوبارہ
شروع ہوچکا ہے۔فیصلہ جس کے بھی حق میں آئے وہ اسے قبول ہوگا، دونوں پارٹیاں
اس بات کا اعلان کر چکی ہیں۔ یہ خوش آیند بات ہے۔ عمران خان کو چاہیے تھا
کہ وہ خاموشی اختیار کر لیتے، ہاشمی صاحب عمر کے اعتبار سے عمران خان سے
بہت بڑے نہیں ، خان صاحب 64کے ہیں تو مخدوم ہاشمی صاحب 70کو چھورہے ہیں۔
عمریں شریف تو دونوں کی کم نہیں البتہ ہاشمی صاحب کی سیاسی عمر کپتان سے
بہت زیادہ ہے، تجربہ زیادہ ہے لیکن عمران خان نے اپنی جماعت کو ملک کی دو
بڑی سیاسی جماعتوں کے برابر لا کھڑا کیا اور خودکو بھی ملک کا قومی لیڈر
تسلیم کرایا۔ مخدوم ہاشمی صاحب سیکنڈ لائن کے کھلاڑی رہے ہیں، مسلم لیگ میں
تھے تب بھی میاں صاحب نے انہیں پھلنے پھولنے نہیں دیا، بعض قلم کاروں اور
تجزیہ نگاروں کا تو خیال ہے کہ اپنے تیسرے دور اقتدار میں میاں صاحب نے
مخدوم ہاشمی صاحب کو کھڈے لائن لگا یا ہوا تھا ، وہ میاں صاحب کے سلوک سے
دل برداشتہ ہوکر عمران خان کی جماعت میں آئے تھے۔ لیکن یہاں بھی دال نہ گلی،
مخدوم ہاشمی صاحب فوج سے نہیں معلوم کیوں کدورت رکھتے ہیں، 2003میں پرویز
مشرف کے دور میں بھی انہیں فوج کے بارے میں متنازع بیان دینے کی پاداش میں
گرفتار کیا گیا تھا ، اب پھر انہوں نے عمران خان کے دھرنوں اور اپنے
اختلافات کے حوالے سے عمران خان کو تو جو کچھ کہا سو کہا، سیاسی لیڈر تو
ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہی ہیں قبلہ ہاشمی صاحب نے عدلیہ اور
عسکری ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ بعض کے تو نام بھی لیے ۔ عجیب
بات ہے ایک جانب ہاشمی صاحب نے کہا کہ ہمارے ٹیسٹ کرائے جائیں ، دوسری جانب
ان کا فرمانا ہے کہ انہوں نے عمران کو کبھی منشیات استعمال کرتے نہیں دیکھا۔
ہاشمی صاحب ملک کے بزرگ سیاست داں ہونے کے ناتے وہ کردار ادا کریں جو نواب
زادہ نصراﷲ خان کیا کرتے تھے، بردباری کا ثبوت دیں ، صلح ، پیار و محبت کی
باتیں کریں۔ بہتر ہوگا کہ وہ بھی نصراﷲ خان مرحوم ، شیخ رشید ، جسٹس (ر)
وجہہ الدین اور دیگر کی طرح اپنی سیاسی جماعت بنا لیں، پارٹی کے سربراہ
کہلائیں گے، روز ٹی وی پر بلائے جائیں گے۔خاندان اور گھر کے بزرگ کاجو
کردارہوتا ہے وہ ملکی سیاست کے بزرگ کاکردار ادا کریں۔ اس وقت انہوں نے جو
پینڈورا بکس کھولا ہے وہ ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بے وقت کی راگنی
معلوم ہوتی ہے۔ (3جنوری2017) |