جب وہ اپنے دوست کو بلانے کے لیے جاتا تھا
تو اس کے گھر کے آنے سے پہلے ایک بھینسوں کی کھرلی کے پاس سے گزرنا پڑتا
تھا ۔لیکن یہاں سے گزرنا کافی مشکل ہوا کرتا تھا کیونکہ اس کھرلی کے نیچے
ایک کتیا لیٹی ہوتی تھی۔ اس کو چھیڑ کے گزرنا تو ایسے تھا جیسے بھڑوں کے
چھتے میں جان بوجھ کے ہاتھ دے دینا۔ مگر وہ پھر بھی چھیڑتا تھا تاکہ کوئی
اسے ڈانٹے۔ وہ کسی کی ڈانٹ سننے کے لیے اس کتیا کو بھی چھیڑ دیتا تھا۔ شاید
اس کے لیے ڈانٹ کسی تعریف سے کم نہ تھی یا ڈانٹنے والے کی آواز۔
وہ اپنے ٹیوشن سینٹر میں پڑھا رہا تھا ۔اس کے تمام طالب علم اپنی پڑھائی
میں مگن تھے۔ وہ بھی ریاضی کی کتاب کو کھولے کسی مسئلے کی گتھی سلجھا رہا
تھا۔ اچانک کسی نے آواز دی کہ ارے تم بھی یہاں پہ ٹیوشن پڑھو گی؟ ریاضی کی
کتاب کا پتہ نہیں چلا کہ کب گر گئی۔ وہ زبان سے اسے مرحبا ،خوش آمد ید کہنا
چاہتا تھا مگر اس وقت اس کی قوت گویا ئی کہاں گم ہو گئی تھی۔ وہ بولنا
چاہتا تھا مگر اسے لگ رہا تھا کہ وہ صرف اس کا تخیل ہے جو صرف چند لمحوں
میں ختم ہو جائے گا۔اتنے میں اس نے کہا سر السلام علیکم! سر میں بھی اس
اکیڈمی میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ جی ضرور ! بس وہ اتنا ہی کہہ سکا۔ یوں تو
خیالوں میں لاکھوں باتیں کر گیا تھا مگر اس کے سامنے کچھ نہ بول سکا۔ اس سے
پہلے وہ اسے بیٹھنے کے لیے کہتا ، امی نے کہا بیٹا اٹھ بھی جاؤ کب تک سوتے
رہو گے۔ یہ شاید پہلا اور آخری خواب تھا جس میں اس نے اپنی چاہت کو اپنے
سامنے پایا تھا۔
نہیں یا ر "اگر میں نے کبھی اپنی چاہت کا اظہار کیا تو اس کو شاید بہت برا
لگے ،جب اسے اچھا نہ لگا تو یقینا ً میری بے عزتی ہو گی ۔ بات گھر تک پہنچے
گی۔ سب سے بڑھ کر میرا دوست کیا سوچے گا۔ میری اتنی گہری دوستی ، پیار
،ہمیشہ ساتھ رہنا ،اس کی خوشی میں خوش رہنا یہ سب ناٹک تھا۔ حقیقت میں تُو
ہماری گھر کی عزت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ تم تو یار مار نکلے ۔تمہارے جتنا
گھٹیا اور ذلیل آدمی کبھی نہیں دیکھا"۔ وہ یہ تمام باتیں اپنے کسی دوست کو
بتا رہا تھا۔
حقیقت یہ تھی کہ وہ اسے اپنانا چاہتا تھا مگر شریعت کے دائرے میں رہتے
ہوئے۔ مگر وہ جس کو اپنانا چاہتا تھا وہ اس کے دوست کے گھر کی عزت تھی ۔وہ
بھی بہت عزت کرتا تھا ۔ کیونکہ جس چاہت میں عزت نہ ہو وہ چاہت نہیں ہوتی
۔اس کی چاہت ایک طرف مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دوست تو بہت مل جاتے ہیں
مگر دل والے دوست دوبارہ کبھی نہیں ملتے اگر ایک دفعہ روٹھ جائیں تو۔
لوگ کہتے ہیں کہ عشق انسان کو نکما بنا دیتا ہے ۔مگر وہ عجیب ہی انسان تھا
۔اسے اس کی چاہت کو حاصل کرنے کا جنون اس کو عروج کی طرف لے کے جا رہا تھا۔
وہ دن رات محنت کر رہا تھا ۔ بس اسی خیال میں کہہ بس اس کی امی جان جب اس
کی چاہت کا ہاتھ مانگنے جائے تو یہ کہہ کر نہ دھتکار دیا جائے کہ تمہارے
بیٹے کے پاس ہے کیا جو تم ہماری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آ گئی ہو۔
ماشا اللہ کتنی پیاری بچی ہے۔تعلیم کا کیا ہے بس اچھا سلیقہ ہونا چاہیے۔
ویسے پتر جی کیا کرتے ہیں ؟ لڑکی کی امی نے دریافت کیا؟لڑکے نے میٹرک پاس
کیا ہے جی ہمارے ۔ماشا اللہ اس کی اپنی دکان ہے جی ویلڈنگ کی ۔ماشا اللہ
ٹھیک ٹھاک کمائی کرتا ہے ہمارا لال۔چار پانچ تو اس نے شاگرد رکھے ہوئے ہیں
۔پانچ پانچ سو دیہاڑی دیتا ہے ان کو ہمارا بیٹا۔ اگر آپ اپنی بیٹی کا عقد
کر دیں نا ہماری بیٹے کے ساتھ۔تو بھاگ کھل جائے گے آپ کی بیٹی کے ۔شہزادی
کی طرح رکھے گا آپ کی بیٹی کو۔لڑکے کی ماں نے اپنے بیٹے کی شان میں قصیدے
پڑھتے ہو بتایا۔
ایسی چاہت ہی کیا جو کسی کو ناکارہ بنا دے۔ اسے پتہ تھا کہ وہ اپنی محبت کو
حاصل نہیں کر سکتا ۔کیونکہ جب ذات پات ،فرقہ بندی کی بات آجاتی ہے تو پھر
ہاتھ مانگنا تو دور کی بات ہے ،ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔اسی لیے اس
نے اپنی چاہت کو اپنے دل میں کہیں دفن کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ معیار پر
پورا اترتا تھا جس کو پرکھ کے ہی بیٹیوں کے والدین کسی کو اپنے جگر کا ٹکڑا
عطا کرتے ہیں ۔ مگر اس کو یہ بات گوارا نہ تھی دنیا میں اِس کو جس سے بے
لوث محبت ملی ہے اسے بغیر کسی جواز کے دھتکار دیا جائے۔ یعنی اس کی امی جان
کو خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔
شادی کی تیاریوں کا سلسلہ جاری تھا۔ سبھی گھر والے بہت خوش اور پر جوش تھے
کیونکہ ان کے گھر میں پہلی دفعہ کسی کے ہاتھ پیلے ہو رہے تھے۔دلہن کے
بھائیوں کے چہرے پہ خوشی اور اداسی کے ملے چلے جذبات تھے ۔خوش اس لیے تھے
کیونکہ وہ اپنی پیاری بہنا کے ہاتھ پیلے کر رہے تھے۔ دکھ اس بات کا تھا کہ
سب بھائیوں کی چہیتی بہن ایک دن بعد ان کا گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔
شادی والے دن بارات آ چکی تھی ۔اب نکاح کا وقت ہو گیا تھا۔ شرائط لکھاتے
وقت دلہے کے باپ نے اچانک جہیز میں کار کا مطالبہ کر دیا ۔دلہن کے بھائیوں
کو یہ شرط سن کر دھچکا سا لگا۔دلہے کے ابا جان بولے !"ایک ہی تو تمہاری بہن
ہے اس کو جہیز میں ایک کار نہیں دے سکتے تو لعنت ہے ایسی جوانی پہ۔تم لوگ
خود اپنی بہن کا گھر بننے سے پہلے اجاڑ رہے ہو"۔یہ بات ایک دوستی کا بھرم
رکھنے والا،اس کی گھر کی عزت کو عزت سمجھنے والا دوست بھی سن رہا تھا ۔وہ
مذاق میں بھی اپنے دوست کی بے عزتی برداشت نہیں کرتا تھا تو آج کیسے کرتا ؟
دلہے کا باپ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے کبھی گاڑی کی طرف ،کبھی گاڑی کی چابی کی
طرف اور کبھی اُس لڑکے کی طرف دیکھ رہا تھا۔جس نے اسے ایک نئی کار کی چابی
تھما دی تھی۔میں ساری زندگی یہی چاہتا رہا تھا کہ میرا دوست زبان سے لفظ
بعد میں نکالے میں اسے پہلے پورا کردو۔کیونکہ دوستی کا قرض ادا کرنا بہت
مشکل ہوتا ہے۔"آج میں یہاں ہو اور آپ کو گاڑی کی چابی دے رہا ہو تو یہ مت
سمجھنا کہ میں دے رہا ،یہ دلہن کا بھائی اور میرا دوست تمہیں چابی دے رہا
ہے ۔کیونکہ میں آج جس مقام پہ ہو اس کے پیچھے میرے دوست کا دیا ہوا ایک
جامع قرض کا ہاتھ ہے۔جس میں سے ایک قسط میں نے ابھی ادا کی ہے"۔
بارات کی روانگی کا وقت ہے لیکن شادی ہال میں نکاح خواں اور کچھ چند افراد
نظر آرہے ہیں ۔ دلہا بمعہ اہل ِ خانہ نظر نہیں آرہاتھا۔ کچھ وقت کے بعد
دلہے کے لباس میں ملبوس وہ شادی ہال میں پہنچا ۔
جب وہ کار میں بیٹھا اپنی دلہن کو عقب والے شیشے سے دیکھ رہا تھا تو اس کے
ذہن میں ایک گانے کے کچھ بول گونج رہے تھے :
اے میرے دل مبارک ہو یہی تو پیار ہے ۔ |