نفسِ ذکیہ - قسط 1

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اس نے زور سے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ وہ مجھ کہیں دور لے کر جا رہا تھا۔میرے محلے سے …… میرے علاقے سے بہت دور……

دوپہر کا وقت تھا۔ لوگ دھوپ سے بچنے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں گھسے ہوئے تھے۔ میں ابھی ابھی مسجد سے قرآنِ مجید پڑھ کر آ رہا تھا۔ اسکول سے واپسی پر کھانے کھانے کے بعد روز امی مسجد سپارہ پڑھنے بھیج دیتی تھی ۔ مسجد کی صفوں پر چٹائی بچھا کر ہم پچاس ساٹھ بچے سپارہ پڑھتے تھے۔ کسی کے بیٹھنے کے لئے کوئی ایک جگہ مخصوص نہیں تھی۔ مگر اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ وہ میرے ساتھ بیٹھے…… اور میں اسے دیکھتے ہی یوں ڈر جاتا جیسے وہ مجھے مار ڈالنے کے در پہ ہو……

وہ مجھ سے کوئی دس سال بڑا ہو گا…… کوئی سترہ سال کا …… اور میں شاید تب صرف سات سال کا…… وہ مولوی صاحب کا پسندیدہ تھا اور عمر میں بھی بڑا تھا۔مولوی صاحب نے اسے سب کا مانیٹر بنایا ہوا تھا۔ اس کی سب بچوں پر چلتی تھی اور سب اس کی بات مانتے تھے۔ مولوی صاحب نے اسے بھی ایک موٹا ڈنڈا دے رکھا تھا۔ اگر کوئی اس سے بد تمیزی کرتا تو وہ اسے دو ڈنڈے لگادیتا……جب بھی مولوی صاحب اسے کوئی کام دیتے اور اسے اپنے ساتھ دوسرے بچوں کی مدد بھی چائیے ہوتی تو وہ مجھے ضرور اپنے ساتھ لے جاتا……

میں دھڑکتے دل سے اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں بہت سہما ہوا تھا۔ نا جانے اُس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔

مجھے تو گھر واپس جانا تھا…… مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے ذہنی طور پر میں اس کی قید میں ہوں…… میری آواز نہیں نکل رہی تھی۔ ڈر لگ رہا تھا کہ اگر میں نے اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کی تو وہ مارے گا…… اور کل مولوی صاحب کو بھی کوئی جھوٹی موٹی شکایت لگا کر مجھے پٹوائے گا……

اندر ہی اندر میرا دل رو رہا تھا۔ ایک سات سالہ بھولا سا بچہ اور کرے گا بھی کیا…… پہلے بھی کئی بار وہ میرے ساتھ بدتمیزیاں کر چکا تھا…… عجیب عجیب گندی حرکتیں…… کبھی اوپر مسجد کی چھت پر مجھے کسی بہانے لے جا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا کر اچھلنے لگتا……
کبھی مجھے اٹھا کر مجھے اپنے آپ سے ملنے لگتا……
کبھی مجھے گھناؤنے گندے طریقے سے چومنے لگتا …… چاٹنے لگتا……
……اور آج نا جانے وہ کیا کرے گا !!!

مجھے تو مسجد جانے سے ہی خوف آنے لگا تھا۔ مگر گھر میں کسی سے کچھ کہتے ہوئے اور بھی خوف آتا…… کہ میں کیا کہوں امی کو…… کیا بتاؤ…… کہ ایک لڑکا مجھے چومتا ہے مجھے اپنی گود میں بٹھاتاہے!!! ایسا تو بہت سے لوگ بچوں کے ساتھ کرتے ہی ہیں……
مگر میں امی ابو کو یہ کیسے بتاتا کہ وہ مجھے کس طرح چومتا ہے ،گود میں بٹھا کر کیا کرتا ہے……
مجھے شرم آتی کے باقی بہن بھائی ہنسیں گے…… اور ڈر بھی لگتا کہ امی ابو کہیں مجھے ہی نہ ماریں…… جھجھک سی ہوتی…… ہمت نہ پڑتی…… اور روز میں اپنے اوپر یہ ستم سہتا……
روز میں مسجد سے واپس گھر آ کر باتھ روم میں گھس کر یا بستر کی چادر لپیٹ کر خوب روتا…… خوب آہیں بھرتا…… بہت ڈر لگتا تھا مجھے…… مجھے اس بات کا بھی ڈر لگتا کہ کہیں کوئی مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے…… امی ابو بہن بھائی کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ میں اتنی اتنی دیر گھر کے کونے کھدڑوں میں چھپ چھپ کر کیا کرتا رہتا ہوں…… وہ تو بس مجھے باقائدگی سے اسکول ، مسجد اور ٹیوشن بھیجتے اور خوش ہوتے کہ میں کتنا اچھا بچہ ہوں …… انہیں تنگ کئے بغیر پڑھنے چلا جاتا ہوں۔

اچانک اس نے میرے بازو پر اپنی گرفت کچھ ہلکی کی…… میں نے بھی کچھ کھل کر سانس لی ۔ آگے ایک دوکان آ گئی تھی۔

’’کیا چیز چائیے؟؟؟‘‘ اس نے دوکان کے سامنے کھڑے ہو کر نرم لہجے میں مجھ سے پوچھا۔
’’مجھے…… ‘‘ ۔میری آوازحلق میں ہی دب کر رہ گئی تھی۔
’’مجھے کچھ نہیں……‘‘ میں نے منع کر دیا کہ میں کوئی ٹافی چاکلیٹ وغیرے نہیں کھاؤں گا۔
’’کچھ تو لے لو…… ‘‘
’’یہ بسکٹ کھاؤ گے؟‘‘ اس نے ایک بسکٹ کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑ کر پوچھا۔
’’نہیں……‘‘ میں نے پھر نہ کر دی۔

’’یہ بسکٹ اور چار چوئنگ گم دے دو یار……‘‘ اس نے دوکان والے سے یہ چیزیں خرید لیں اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا۔

’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟‘‘ میں نے بہ مشکل آواز نکالی۔ ہم ریل گاڑی کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ ویرانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جہاں کوئی آبادی نہیں ہوتی۔
وہ بالکل چپ رہا۔ جیسے بتانا ہی نہ چاہتا ہو کہ مجھے کہاں لے کر جا رہا ہے۔

’’یہ لو‘‘ ۔اس نے مجھے ایک چوئنگ گم نکال کر دی۔ جو میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے لے لی۔
’’ چھوڑو…… میں چوئنگ گم کھا لوں!‘‘ میں نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ چوئنگ گم کا ریپر کھولنے کے لئے اس کا میرا ہاتھ چھوڑنا ضروری تھا۔ میں نے اپنا بائیاں ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ مگر اس نے اسے اور مضبوطی سے پکڑ لیا کہ کہیں میں فوراََ ہاتھ چھڑا کر بھاگ نہ جاؤں۔

’’چھوڑو میرا ہاتھ……‘‘ میں نے التجا کی۔ میں رونے ہی والا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔پَر میری آنکھوں میں آنسو آ ہی گئے جنہیں میں نے اپنی آنکھوں میں ہی جذب کر لیا۔ میرے کمزور سے بازو پر اس کی پکڑ کا لال نشان پڑا ہوا تھا۔ مجھے عجیب گھٹن کا احساس ہونے لگا…… بے چارگی کا…… جیسے کوئی راہ نہ پاتا ہوں…… وہ میرے سامنے ہی کھڑا ہو گیا کہ میں چوئنگ گم کھا لوں اور پھر وہ میرا ہاتھ کَس کے پکڑ لے……

میں بھاگنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں پڑتی تھی…… وہ سامنے ہی کھڑا تھا ،فوراََ مجھے دبوچ لیتا جیسے کوئی بلی کبوتر کو دبوچ لیتی ہے…… میں نے آہستہ آہستہ چوئنگ گم کھولی اور اسے منہ میں رکھ لیا۔ وہ میرا ہاتھ پھر پکڑنے ہی والا تھا کہ میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ بھی پیچھے بھاگا…… جیسے کوئی بھیڑیا کسی بھیڑ کے پیچھے بھاگتا ہے……

مگر میں تو ایک چھوٹا بچہ تھانا!!!کیسے اس سے تیز بھاگتا!!!
تھوڑی ہی دیر میں میں پھر اس کے شکنجے میں آ گیا اور ہار مان لی۔

آخر کار وہ مجھے دور ویرانے میں جھاڑیوں کے اندر لے گیا ۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ اس کا قد مجھ سے بہت بڑا تھا ۔میں نے معصوم نظروں سے سر اٹھا کے اس کو دیکھا کہ رحم کرو!!! جانے دو!!! موٹے موٹے دو آنسو میری آنکھوں سے نکل کر گالوں سے پھسلتے ہوئے گردن تک چلے گئے……مگر وہ تو حیوان بن چکا تھا ۔ اس پر کیا اثر ہوتا۔ میں کسی بے جان جسم کی طرح ساکت ہو گیا۔اس نے ایک ایک کر کے مجھے اور خود کو بے لباس کرنا شروع کر دیا……

۔۔۔۔۔۔۔
آج میں اپنے اسٹور آیا ہوا تھا۔ جوتوں کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ میرا اپنا لوکل برینڈ تھا۔ میں خود ہی جوتے بنواتا اور اس اسٹور میں سیل کرتا…… ایک آفس راشد منہاس روڑ پر نرسری کے پاس تھا اور ایک چھوٹا سا آفس شو اسٹور میں ہی میں نے بنایا ہوا تھا۔ کبھی کبھی یہاں چکر لگا لیتا تھا،جب اسٹور مینجر سے کوئی میٹنگ ہوتی یا اسٹور میں کوئی مسئلہ ہوتا……

’’پچھلے ماہ کی سیل اچھی نہیں ہوئی تھی……‘‘
’’ایسا کیا کریں عید کے بعد کچھ آئٹمز پر سیل لگا لیا کریں‘‘۔ میں نے اسٹور مینجر کو مشورہ دیا۔ ابھی ابھی عید گزری تھی اور لوگوں نے شاپنگ کر لی تھی۔ لہذا عید کے بعد ایک دو ماہ کام بہت سِلو ہو جاتا تھا۔
’’ٹھیک ہے سر…… ‘‘
’’آپ کہیں تو اب ایک ماہ کے لئے سیل لگا دیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ا م م م…… ہاں ٹھیک ہے …… ایک مہینے کے لئے لگا دیں‘‘ میں نے اجازت دے دی۔
’’ پچیس پرسنٹ لگا دیں…… اور ریکارڈ مینٹین کر لیجئے گا‘‘ میں نے بتایا اور اپنا فون اٹھا کر مَجدی کا نمبر ملانے لگا۔

’’ہیلو ذولقر! کیا حال ہے؟‘‘ ویسے تو میرا نام ذولقرنین تھا مگر مَجدی، گھر والے اور دوسرے دوست بھی میرے نام کو شارٹ کر کے ذولقر کہہ دیتے تھے۔
’’الحمد اﷲ بالکل ٹھیک ہو یار…… تم سناؤ …… کل آئے نہیں؟؟؟‘‘ مجدی اور میری بہت گہری دوستی تھی۔ ہم اسکول کے وقت سے ساتھ تھے۔ وہ میرا بہت ہی قریبی دوست تھا۔ ایسا دوست قسمت والوں کو ہی ملتا ہے۔ ہم ہفتے میں تین چار بار تو ایک دوسرے سے ملتے ہی تھے۔ اور جس دن نہیں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو فون کر کے حال چال ضرور پوچھ لیتے تھے۔ اس سے ملنا اور بات کرنا اب روز کے ضروری کامو ں میں سے ایک ہو گیا تھا۔

’’…… یار اتنے دن ہو گئے ہیں کہیں آؤٹنگ نہیں کی…… کوئی پروگرام بناؤ…… ‘‘
’’دلاور کو بھی بلا لیں گے‘‘۔ ویسے تو دلاور میرا پڑوسی بھی تھا اور مجدی کی طرح کلاس فیلو بھی ۔ مگر وہ اپنی مستیوں میں ایسا مگن رہتا کہ مشکل سے ہی ہمیں ٹائم دیتا…… کوئی لاکھوں دوست ہوں گے اس کے…… سب بڑے امیر کبیر بڑی بڑی گاڑیوں والے دوست……
’’ہاں تو ٹھیک ہے…… کوئی پروگرام بنا لو…… سب کو بلا لیں گے‘‘ مجدی نے کہا کہ دلاور کے ساتھ اور بھی کچھ دوستوں کو آؤٹنگ میں شامل کر لیں گے۔
’’میرا خیال سے کوئی فلم دیکھنے چلتے ہیں سینما…… اور پھر رات کو ڈنر کر لیں گے؟؟؟‘‘
’’ کیا خیال ہےٖٖ؟؟‘ مجدی نے مشورہ دیا اور پھر پوچھا۔
’’ام م م …… نہیں یار کہیں پکنک پر چلتے ہیں …… کہیں دور…… ‘‘
’’کہاں دور بھائی……‘‘ مجدی نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ کتنی دور جانا ہے۔
’’ہا ہا ہا…… یار میں بچپن میں مکلی کا قبرستان گیا تھا…… آج تک یاد آتا ہے مجھے……‘‘
’’وہاں چلتے ہیں!!!‘‘۔ مجھے ہمیشہ سے ہی ایسی پرسرار اور انہونی جگہیں بہت پر کشش لگتی تھیں۔ پرانے گھر، حویلیاں، سنسان جگہیں، ویرانے، کراچی کے قدیم انگریزوں کی بنائی ہوئی عمارتیں وغیرہ۔
’’ اچھا ٹھیک ہے…… میں بھی وہاں جانا چاہتا ہوں…… اچھا آئڈیا ہے……‘‘
’’ مگر اس کے لئے پلاننگ اچھی کرنی پڑے گی…… پورے دن کا سفر ہو گا ناٖ‘‘۔ مجدی نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یہ تو ہے‘‘۔ میں بھی اثبات میں سر ہلایا۔
’’ چلو تم کل آؤ نا پھر بناتے ہیں پروگرام ……‘‘
’’……اور اس کو بھی کم از کم میسج کر دینا……‘‘۔ دلاور کے ساتھ کوئی پلاننگ تو ہو نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ اسے آخری لمحے ہی طے کرنا ہوتا تھا کہ کیا کرنا ہے …… کہا ں جانا ہے…… اس لئے ہم عموماََ اس سے رات کو ایسی باتیں پوچھ لیتے کہ دوسری صبح ہمارے ساتھ جائے گا کہ نہیں…… اور وہ بھی کسی شش و پنج میں مبتلا ہوئے بغیر یا تو منہ اٹھا کے ہمارے ساتھ چل دیتا یا اگر کہیں اور عیاشی کا موقع ہوتا تو ہمیں سیدھا سیدھا کَٹا دیتا……

میں نے فون بند کیا اور نماز کے لئے اٹھنے لگا۔ مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔ ایک دو نمازیں میں کوشش کر کے دن میں پڑھ ہی لیتا تھا۔ میں اسٹور میں بنے ہوئے واش روم کی طرف جانے لگا۔ سیما کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ اسٹور کی سیلز گرل تھی۔ بہت خوبصورت تھی۔ اپنے آپ کو بنا سنوار کے بھی رکھتی تھی۔ میری نظریں اسی کو تلاش کرنے لگیں۔ ایک مزہ سا آجاتا تھا اسے دیکھ کر!!!

میں نے واش روم کا دروازہ کھولنا چاہا …… مگر وہ اندر سے بند تھا…… غالباََ وہ اندر ہی تھی۔ اس کی چھٹی کا ٹائم ہو گیا تھا اور وہ گھر جانے سے پہلے ہمیشہ اپنا حال حلیہ درست کر لیتی تھی۔ لپ اسٹک اپنے ہونٹوں پر ایک بار پھیر لینا…… بال سنوار لینا……

میں باہر ہی کھڑا دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے تو وضو کرنا تھا…… مغرب کی نماز میں وقت بھی کم ہوتا ہے تیاری کا……
تھوڑی ہی دیر میں وہ فریش ہوکر واش روم سے نکلی۔ میں نے نگاہ بھر کر اسے دیکھا اور پھر وضو کرنے اندر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

دلاور ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ کوئی بھی لڑکی اسے دیکھ کر اپنی انگلیاں چبانے لگے۔ کس قدر وجیہ اور پر وقار شخصیت تھی اس کی۔ طاقتور جسم ، اونچا لمبا قد…… چمکدار کھلتا ہوا رنگ……وہ اپنے چہرے پر تھوڑے تھوڑے بال بڑھا کر رکھتا تھاجو اس کی مردانہ وجاہت میں مزید اضافہ کر دیتے تھے۔ امیر باپ کا بیٹا تھا۔ کئی دوکانیں طارق روڈ پر کرایہ پر چڑھیں ہوئیں تھی…… ایک دو شو رومز بھی تھے…… فکر نہ فاقہ……

بچپن سے ہی دلاور اور میں ساتھ رہتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی تھے اور اچھے دوست بھی……

’’ماشاء اﷲ ما شاہ اﷲ…… اس وقت کہاں کی تیاری ہو رہی ہے‘‘۔ دلاور نے بلیک پینٹس ، وائٹ شرٹ اور اوپر بلیک کلر کا ہی کوٹ پہن رکھا تھا۔ جب وہ یوں تیار ہو کر گھر سے نکلتا تو ہر کسی کے منہ سے ماشاء اﷲ ہی نکلتا۔
’’ہاہاہا …… بس بھئی جا رہا ہوں……‘‘۔ وہ ہلکا سا ہنسا اور آنکھ ماری۔میں گھر واپس آ رہا تھا اور وہ اپنے گھر سے نکل رہا تھا۔

’’ام م م …… سمجھ گیا…… سمجھ گیا…… ہاہاہا……‘‘ میری بھی ہنسی نکل گئی۔ مجھے پتا تھا اس کے پروگراموں کے بارے میں…… کہاں اس کا دل لگتا ہے…… کہاں گھومتا رہتا ہے وہ……

’’او کے جانی …… میں چلا …… پھر ملیں گے ‘‘ دلاور اپنی ریڈ اسپورٹس کار کی طرف لپکا۔
’’ ارے یار …… سن! مجدی سے بات ہوئی ؟؟؟‘‘ میں نے زور سے کہا۔ وہ رکا نہیں اور ہاتھ سے ہی نفی میں اشارہ کر کے گاڑی میں گھس گیا۔

میں مسکراتا ہوا گھر اپنے گھر میں داخل ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔

رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہم سب گھر والے کھانا وانا کھا کے اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تھے۔ میں بھی اپنے بیڈ پر لیٹا دائیں سے بائیں کروٹیں بدل رہا تھا۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔

آنکھیں بند کر کر کے بھی میں تھک گیا تھا۔ میں سیدھا چھت کی طرف منہ کر کے لیٹ گیا اور آنکھیں کھولیں۔ کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔میرا روم پہلی منزل پر تھا۔ بیڈ کے عین سامنے ہی کمرے کی بڑی سی کھڑکی تھی جو باہر ٹیرس میں کھلتی تھی۔
تھوڑی دیر ہی گزری ہو گی کہ مجھے ایک فرحت بخش خوشبو سی آنے لگی…… اور پھر ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوئی…… مجھے اچھا سا محسوس ہونے لگا۔ خود بخود ہی میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی۔
’’زو و و ……‘‘ کی آواز کے ساتھ ایک ٹھنڈی ہوا کا چھونکا کھڑکی سے اندر آ کر میرے چہرے سے ٹکرا گیا۔

’’یہ تو بارش کے آ ثار لگتے ہیں……‘‘ میں خوش ہو گیا۔ بارشوں کا موسم آنے ہی والا تھا۔ مگر یوں اچانک موسم کا بدلنا ایک خوشگوار بات تھی۔

’’چھم چھم چھم……‘‘ بوندا باندی کی آواز آنے لگی۔ مجھے تو پہلے ہی نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں خوش ہو گیا کہ اوپر چھت پر بارش کا مزہ لوں گا۔

میں نے اپنی چادر ہٹائی اور مسکراتا ہوا بیڈ سے نیچے اتر آیا۔
ہاں، یہ بارش ہی تھی۔ میں نے پہلے گھڑکی میں کھڑے ہو کر دیکھا اور پھر چھت پر چلا گیا۔

بارش تیز ہو گئی تھی۔ سامنے روڈ پر اسٹرٹ لائٹ میں بارش کے قطروں کی دھاریں دلفریب منظر پیش کر رہیں تھیں۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر بارش کے قطروں کو چھوا۔ ایک ٹھنڈک کی لہر میرے جسم سے گزر گئی۔
خود بخود ہی میں خوش ہو گیا …… یہ موسم کا ہی جادو تھا۔ میں نے گہرے گہرے سانس لے کر اس تازہ ہوا کو اپنے اندر سمانا شروع کر دیا۔ یوں لگ رہا تھا میرے اندر ایک نئی جان پڑ گئی ہو۔
ابھی تک میں چھت کے بنے ہوئے چھجے کے نیچے ہی کھڑا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا…… اور میں تیز تیز قدم بڑھاتا بارش میں چلا گیا۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے۔ کوئی اور اپنے گھر کی چھت پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ بارش کے قطروں نے مجھے بھگو دیا تھا۔ جیسے جیسے میں بھیگتا جاتا مجھے اور فرحت محسوس ہونے لگتی۔
ایک انوکھا سا احساس مجھے ہونے لگا۔ یہں لگنے لگا جیسے میں اس کائنات میں اکیلا ہوں۔ اچانک ذور سے بجلی کڑکی اور میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔
میں فرش پر لیٹ گیا۔ آسمان سے بارش کے قطرے مجھ پر برس رہے تھے اور میں ان بوندوں کی لڑیوں کی ابتدا تک دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کہ یہ کہاں سے بن رہی ہیں!!! کہاں سے آ رہی ہیں!!!
جو بھی بوند میرے ہونٹوں پر گرتی میں اسے پی لیتا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سارا آسمان میرے اندر گھل رہا ہے۔ ہر بوند میرے اندر جزب ہو رہی ہے۔ میں ایک گانا گنگنانے لگا۔ میرا دل کیا کہ میں یوں ہی سو جاؤں……

رِم چھِم رِم چھِمِ
رُم چھُم رُم چھُم
بھیگی بھیگی رُت میں
تم ہم ، ہم تم
ہو چلتے ہیں
چلتے ہیں

’’ذولقرنین! ‘‘
’’بیٹا ذولقرنین!‘‘ یہ تو امی کی آواز ہے۔ میں یک دم دوسری دنیا سے یہاں واپس آگیا۔
’’بیٹا نیچے آؤ…… آپ کا موبائیل بج رہا ہے‘‘۔ بارش کے شور میں امی کی آواز بہت ہلکی آ رہی تھی۔ مگر مجھے بات سمجھ آ گئی۔
’’ہیں؟؟ ؟ اس وقت کس کا فون آ گیا!!!‘‘ مجھے تشویش سی ہونے لگی۔ مگر میں فوراََ بھیگے کپڑوں میں اٹھا اور نیچے جانے لگا تا کہ امی کو اوپر آنے کی تکلیف نہ ہو۔

’’فون آ رہا ہے؟؟؟‘‘ امی نیچے سیڑھیوں پہ کھڑیں تھیں۔
’’جی بیٹا …… ‘‘ امی نیند میں ہی تھی، بس جی کہہ کر اندر جانے لگیں۔ میں پیچھے پیچھے گیلے کیڑوں سے اپنے کمرے میں بھاگا۔ موبائیل زور زور سے چیخ رہا تھا۔ میں نے اُچک کر موبائیل پر کال ریسیو کی۔
’’ہیلو…… دلاور کیا ہو؟؟ا‘‘ اتنی رات گئے پہلے کبھی اس کا فون نہیں آیا تھا۔ کوئی ایک بجنے والا ہو گا۔
’’ارے یار! آئی ایم رئیلی سوری……‘‘
’’یار میری گاڑی بند ہو گئی ہے……‘‘ کراچی کی سڑکوں کا تو مجھے پتا ہی تھا۔ تھورڑی سی بارش ہو جائے اور بس پھر ……
’’یار یہاں پانی بہت کھڑا ہو گیا ہے۔ میری گاڑی بند ہو گئی ہے۔ کوئی ٹیکسی وغیرہ بھی نہیں چل رہی تم آ کے مجھے پک کر لو یار!!!‘‘ دلاور شرمندہ سا تھا ۔ اتنی رات کو مجھے زحمت دے رہا تھا۔
’’…… اچھا…… یار میری گاڑی بھی نہ پھنس جائے کہیں……‘‘ میں جانا تو چاہتا تھا پرَ میری گاڑی بھی تو پھنس سکتی تھی پانی میں……
’’یار تم شاہراہ فیصل پر ہی رکنا…… نرسری کے پاس…… میں وہاں تک جاتا ہوں …… تم مجھے وہاں سے پک کر لینا……‘‘ شاہراہ فیصل پر بچ بچا کر میں نر سری تک پہنچ سکتا تھا۔
’’اچھا …… چلو ٹھیک ہے ……میں آتا ہوں……‘‘ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور گاڑی کی چابی اٹھا لی۔

اتنی رات کو کبھی میں بارش میں باہر نہیں نکلا تھا۔ بارش میں ڈرائیو کرنا ویسے بھی تھوڑا خطرناک اور مشکل ہوتا ہے۔
میں گاڑی کے وائپرز آن کرتا ہوا نر سری کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بارش ویسے ہی تیز ہو رہی تھی۔ بجلی بھی چمک رہی تھی۔ میں نے گاڑی کے شیشے چڑھائے ہوئے تھے تاکہ پانی اندر نہ آ جائے۔

عین نرسری پر دلاور کھڑا ہوا تھا۔ مگر اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ میری ماتھے پہ بل پڑ گئے۔ وہ کوئی لڑکی تھی۔ بارش میں مکمل بھیگی ہوئی۔میں نے گاڑی ان دونوں کے سامنے روک دی۔

’’تھینک یو ذولقر!‘‘ دلاور میرا شکریہ ادا کرتا ہوا فوراََ ہی گاڑی میں آگے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس لڑکی نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور وہ بھی گاڑی پیچھے بیٹھ گئی۔
مجھے عجیب سا لگا۔ وہ ایک پتلی دبلی ماڈرن سی خوبصورت لڑکی تھی۔
’’ یہ کس کو دلاور نے میری گاڑی میں بٹھا دیا ہے‘‘ ۔ میں نے دل میں کہا۔
’’یار یہ میری دوست ہے…… افشاں……‘‘
’’افشاں! یہ ذولقرنین…… ہم ان کو ذولقر کہتے ہیں……‘‘
’’ہائی …… ہاؤ آر یو؟؟؟‘‘ اس نے لہک کر ہائی کہا اور میرا حال پوچھا۔
’’ہائی…… آئی ایم فائن…… یو؟؟؟‘‘
’’آئی ایم او کے…… جسٹ دز بارش!!!‘‘ اس نے بارش کا شکوہ کیا۔

’’تم لوگ بارش میں میں کیا کر رہے تھے؟؟؟ میں نے گاڑی آگے بڑھائی۔
’’نہیں یار بارش میں نہیں…… ہم تو ایک پارٹی میں گئے ہوئے تھے‘‘۔
’’بس یہ بارش ہو گئی……‘‘ دلاور نے بھی منہ بنایا۔

’’اچھا انہیں کہاں ڈراپ کرنا ہے؟؟؟‘‘ میں نے آہستہ سے دلاور سے پوچھا۔

’’پی سی ہوٹل……‘‘ دلاور بولا۔
’’ہیں؟‘‘ مجھے لگا میں نے صحیح طرح سنا نہیں۔
’’پی سی ہوٹل چھوڑ دو…… ‘‘ دلاور نے اپنی بات دہرائی۔

میں دل ہی دل میں سوچنے لگاکہ ناجانے یہ کون لڑکی ہے۔ کہاں سے آئی ہے۔ ہوٹل میں کیوں رہتی ہے۔ دلاور اسے کیسے جانتا ہے۔
بہر حال دلاور کی رنگ رلیوں کا تو مجھے پتا ہی تھا۔

تھوڑی دیر میں پی سی ہوٹل آ گیا۔ میں نے گاڑی روک دی۔
وہ لڑکی بھی اور دلاور بھی دونوں گاڑی سے اُتر گئے۔
’’او کے یار …… تھینک یو ویری مچ……‘‘ دلاور گاڑی کے باہر کھڑا ہو کر مجھے جھک کر تھینک یو کہنے لگا۔
میں تو حیران و پریشان سکتے کی سی حالت میں چلا گیا۔
’’تم گھر نہیں جا رہے؟؟؟‘‘ میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دلاور کو دیکھا۔
’’نہیں یار…… میں تو یہیں رکوں گا……‘‘ دلاور نے نظریں چرا کر کہا۔ مجھے اندر ہی اندر شدید غصہ آنے لگا۔ اتنی رات کو اس کمینے نے مجھے بارش میں بلایا …… پتا نہیں کس لڑکی کو میری گاڑی میں بٹھا دیا اور اب میرے ساتھ گھر تک بھی نہیں جا رہا اور اس لڑکی کے ساتھ ہی ہوٹل میں سوئے گا!!!
میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ دلاور کو کچھ اٹھا کر مار دوں……
’’او کے……‘‘ دلاور نے منہ دوسری طرف کر کے کہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مجھے برا لگا ہے۔ مگر وہ ایسی حرکتیں پہلے بھی کئی بار میرے ساتھ کر چکا تھا۔
’’او کے……‘‘ میں نے اسے دیکھے بغیر کہا اورگاڑی چلا دی۔

’’شرم نہیں آتی اس کمینے کو……‘‘ میں اسے خوب گالیاں نکالتا ہوا گھر واپس جا رہا تھا۔
’’کچھ احساس نہیں ہے کہ کسی کو تکلیف ہوئی ہے……‘‘
’’کوئی اتنی رات کو بارش میں نکلا ہے ان کی خاطر…… اور یہ صاحب عیاشیاں کر رہے ہیں……‘‘
’’لعنت ہو کمینے آدمی پر…… ‘‘
’’میں ہی ہمیشہ منہ اٹھا کر چل پڑتا ہوں ……‘‘
’’ ہمیشہ میرے ساتھ ایسے ہی کرتے ہیں لوگ……‘‘ مجھے بے انتہا غصے آ رہا تھا۔ اب بارش میں کوئی کشش محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ بلکہ ہر چیز پر غصہ آ رہا تھا …… ہر چیز بری لگ رہی تھی۔
جونہی گاڑی کہیں پھنستی میرے منہ سے دس بارہ گالیاں نکل جاتیں ۔ میں بھی بہت رَف ڈرائیونگ کر رہا تھا اب……کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کہیں کھڈا ہے کہیں پانی کھڑا ہے کہیں جمپ ہے……اور پھر ایک روڈ پر جہاں پانی ذیادہ کھڑا تھا میری گاڑی بھی بند ہو گئی……

’’اف!!! یا اﷲ! کہاں پھنس گیاہوں!!!
کیوں میں گھر سے نکلا؟ کیوں یہاں آیا؟
مجھے بھی باقی لوگوں کی طرح پتھر دل ہو جا نا چائیے…… اچھا ہوتا کہ منہ پھاڑ کے کہہ دیتا کے میں نہیں آ رہا…… مگر میر اندر اتنی کمینگی کہاں؟؟؟ مجھے تو کوئی بھی کچھ کہے میں منہ اٹھا کے چل پڑتا ہوں۔ کسی اور کو میرا احساس ہو نہ ہو مجھے سب کے اندر گھسنا ہے……
اب میں یہاں بیٹھا سڑ رہا ہوں اور کسی کو کوئی فکر نہیں…… کسی کو نہیں پتا کہ میں اس اندھیری رات میں بارش میں کسی کمینے کی مدد کرنے نکلا تھا اور خود گاڑی پانی میں بند کر کے کھڑا ہوں اب……
نفرت ہو رہی ہے مجھے سب سے…… سو تم سب لوگ مزے سے دنیا والوں…… تمھیں کسی کی کیا فکر ……‘‘

میں گاڑی میں پڑی ایک نوٹ بک اٹھا کر پین رگڑ رگڑ کے اس پر اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 77945 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More