جذبے کسی کے بس میں نہیں (چھٹی قسط)

سمن:کیا ہوا نایاب فاخر یاد آرہاہے یا آفتاب،کیسی قسمت والی ہو ،یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ کیسے قسمت والے ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو کوئی چاہتا ہو۔میرےنصیب میں تو کوئی ایسا آیا ہی نہیں۔
نایاب :آیا نہیں یا آنے نہیں دیا۔اور مجھے کیوں فاخر یاد آنے لگا بھلا اور کچھ دیر بعد نایاب بولی۔آفتاب کو یاد کرنے کی مجھے ضرورت کیا ہے،وہ تو میرا ہی ہے۔اس نے دل میں دوبارہ دہرایا تھا وہ تو میرا ہی ہے،کیا واقعی،وہ اپنے جملے پر غورکر رہی تھی۔
سمن:نہیں یار ویسے فاخر کے ساتھ اچھی نہیں ہوئی کیا کہتی ہو۔وہ پتہ نہیں کیا تھا نہ ملا نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
نایاب:مسکرائی ،نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سمن:فاخر کی شادی پر بڑا مزا آنے والا ہے۔
نایاب:تم بس دوسروں کی شادیوں کے مزے لیتی رہنااور خود کی شادی اس کے آگے خود دیوار بن کر کھڑی ہو۔
سمن:کہاں دیوار بن کر کھڑی ہوں یار کوئی آئے تو میرے دل کو چھونے والا۔
نایاب:دل کو چھونے والے صرف فلموں میں ہوتے ہیں ،سمن جی اصل ذندگی میں معملات مختلف ہوتے ہیں۔
سمن:آفتاب بھائی جیسے کل تمہیں بیٹھ کر دیکھ رہے تھے اس سے تو ایسا نہیں لگتا۔
کہ دل چھونے والے صرف فلموں میں ہی ہوتے ہیں۔
نایاب مسکرا دی ۔آفتاب آئیں تو اس سے کہوں گی آج ہی ڈسچارج کا بولیں ،مجھے یہاں مذید نہیں رہنا۔
سمن:ہاں ہاں ۔کیوں نہیں آفتاب بھائی بھی تو بے چین ہوں گئے کب میری ملکہ عالیہ گھر آئیں اور انہیں باہوں میں اُٹھا کر کہوں ۔۔۔۔۔
نایاب :بس بس تم خیالات کی کھچڑی نہ پکاونا۔اصل زندگی میں یہ سب نہیں ہوتا۔یہ فلم نہیں ہے کہ ۔۔۔۔۔
سمن:مسکرائی اچھا
نایاب ۔جاو تم کیفیٹیریا میں کچھ کھا پی لو۔
سمن:ہاں یار اچھا آیڈیا ہے ،امی کو فون بھی کر لیتی ہوں۔
نایاب :نےاسے جاتے ہوئے دیکھااور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔اس کے ذہین میں فاخر کی باتیں گردش کرنے لگی ۔
فاخر:مجھے تم سے بات کرنی ہے نایاب روکو۔
نایاب :مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔
فاخر :اچھا معاف کر دو ۔اگر تمہیں برا لگا ہے تو ۔مگر محبت کرنا کوئی گناہ تو نہیں ہے نا۔اگر مجھے تم پسند ہو تو ۔۔
نایاب :تم نے پھر الٹی باتیں شروع کر دیں ہیں ۔یہاں تم میرے بھائی سے ملنے آئے ہو یا،دیکھومیں تمہیں پسند نہیں کرتی، کر ہی نہیں سکتی ،اس لیے بے کار کا وقت ضائع نہ کرو۔
فاخر:وقت،ایک لمبی سی آہ بھر کر۔وقت تو وہ برا تھا جب تم میرے دل میں اُتر گئی۔میں نے تمہارے لیے غزل لکھی ،اس نے کاغذ کو نایاب کی طرف بڑھایا۔
نایاب: مجھے نہیں سننی ،اپنے دماغ کے فتور کو اپنے تک ہی رکھو۔
احمر:کس کے دماغ میں فتور آگیا ہے؟بھائی
نایاب:فاخر بھائی کے،اس نے جان بوجھ کر بھائی لگایا تھا۔
فاخر :نے دانت بھینچ کر اس کی طرف دیکھا اور بولا ہاں واقعی۔مجھے محبت ہو گئی ہے۔محبت کو جو نہ سمجھے، وہ اسے دماغ کا فتور ہی تو کہے گا۔
احمر:ہم قدردان ہیں محبت کے آپ ہمیں اپنی محبت کا رازدان بنائیں۔احمر نے بڑے لہک کر فاخر کو کہا تو نایاب کمرے سے نکل گئی ۔


آفتاب :بھابی نایاب کے پاس جاوں گا اب۔بچوں کی انٹری تو منع ہےوہاں تو ہادی کو چھوڑنے آیا تھا۔
ماہم:کیوں نہیں ،میں بہت شرمندہ ہوں ،پر جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے۔
آفتاب:جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے۔
ماہم:میں آپ کے لیے چاہے لاتی ہوں۔
آفتاب :حریم کہاں ہے،دیکھائی نہیں دے رہی۔
ماہم: وہ سو رہی ہے ابھی سوئی ہے۔
آفتاب:اچھا
ماہم:آج ڈسچارج ہوں گی نایاب۔وہ فون پر کہہ رہی تھی۔
آفتاب:نہیں آج تو نہیں ،ایسے ہی کہہ دیا ہو گا اس نے ۔آج تو میرا نہیں خیال ،ابھی جاوں گا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہم:اچھا کہہ کر اندر چلی گئی
آفتاب:ہماری وجہ سے یہ لوگ بھی تکلیف میں آگئے ہیں۔انسان کی زندگی بھی کیا ہے ،پل میں کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔
نایاب :آپ کب آئے ؟
آفتاب :جب تم سو رہی تھی۔
نایاب:دوا کا اثر ہے شاہد وقت بے وقت نیند آجاتی ہے ۔بچے کیسے ہیں۔
آفتاب :ہادی صبح تو بہت رویا ہے پھر بھول گیا تھا۔
نایاب:مجھ سے کبھی اتنے دن دور بھی تو نہیں رہا ۔امی یہاں ہوتیں تو شاہد ،وہ سنبھال لیتی۔
آفتاب:ہاں لیکن ان کی خود طیبعت خراب ہے ،اس لیے انہیں تمہاری طبعیت کا نہیں بتایا عاشر بھائی نے۔عاشر بھائی کہہ رہے تھے کہ وہ چیزیں بھول جاتیں ہیں ۔
نایاب ۔ہاں ،میری بھی بات ہوئی تھی۔عاشر بھائی سے ،وہ کہہ رہے تھے دوسرے ملک سے فوراً آنا بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن اپنوں کے لیے دعائیں تو کر سکتے ہیں۔تم جلد ٹھیک ہو جاو۔میرے لیے پریشان ہو رہے تھے۔
آفتاب: کچھ دیر خاموش رہا۔
نایاب :سمن کہاں ہے؟
آفتاب وہ گھر گئی ہے۔
نایاب :آپ ڈاکٹر کو بولیں نا مجھے آج ہی ڈسچارج کر دیں۔ہادی اور حریم کے بغیر یہاں رہنا عذاب ہے۔
آفتاب:بچوں جیسی باتیں نہ کرو۔ہادی اور حریم بلکل ٹھیک ہیں۔ڈاکٹر جب بہتر سمجھیں گئے خود ہی ڈسچارج کر دیں گئے۔
کچھ چاہیے تمہیں تو بتاو۔
نایاب:کچھ بھی نہیں چاہیے۔
آفتاب :خاموش کچھ دیر بیٹھا رہا۔پھر اپنا موباہل اُٹھا کر کچھ دیکھنے لگا۔
نایاب:کچھ دیر دیواروں کو گھورتی رہی پھر اس نے انکھیں بند کر لیں۔
کبھی کبھی باتیں کتنی قلیل ہو جاتیں ہیں،نہ موضوع ملتے ہیں نہ ہی الفاظ ،یا پھر یوں کہا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ رہتے ہماری زبان منجمند ہو جاتی ہے۔وہ سوچ رہی تھی۔ کسی برفیلے علاقے میں برف کے تودےجس طرح کبھی کبھی ٹوٹ کر گرتے ہیں ۔اسی طرح کچھ لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے الفاط تو ادائیگی کے بعد ایک حدت کا احساس دے کر ختم ہو جاتے ہیں لیکن وجود کسی برف کے بڑے تودے کی طرح نیچے گرتا محسوس ہوتا ہے۔گرنے کے اس احساس سے بچنے کے لیے ہی پھر مذید الفاظ ادا نہیں ہو پاتے۔
وہ بچوں جیسی باتیں نہیں کر رہی تھی بلکہ ایک ماں والی باتیں کر رہی تھی جو اپنے بچوں کو دیکھ بھی نہیں پا رہی۔اسے آفتاب کی بات بری لگی تھی۔
آفتاب :میں ذرا باہر کا چکر لگا کر آتا ہو ،تم جاگ رہی ہو۔نایاب
نایاب:جی،نایاب نے آفتاب کو جاتے ہوئے دیکھا۔دنیا کے سارے عشق ایک ماں کی مامتا کے آگے مانند پڑھ جاتے ہیں۔
ایک ننھا سا وجود جب پہلی بار کسی لڑکی کی گود میں آ کر اسے ماں کہلانے کا حق دیتا ہے تو اس کے وجود میں مامتا جانے کہاں سے آ جاتی ہے ،شاہد رشتوں کے ساتھ ہی کردار جنم لیتے ہیں۔بچہ کی پیدائش گویا ماں کی پیدائش ہوتی ہے۔ایک ایسی عورت کی جو جس کو اپنا آپ مکمل فراموش کر کے صرف بچے کے آرام ،خوشی اور ضرورتوں کی تسکین کا خیال ہوتا ہے۔
نایاب کو یوگی وجاہت کی باتیں یاد آرہیں تھیں جو اس نے کچھ دنوں پہلے ہی یوٹیوب کی ایک ویڈیو میں سنی تھی ،وہ کہہ رہا تھاکہ ماں کا نام آتے ہیں ہمارے نزدیک انسان کا سب سے انمول رشتہ ماں اور بچے کا وجود ذہین میں آتا ہے لیے میرے لیے تو میری بلی بھی ویسی ہی مقدس ماں ہے جو اپنے بچوں کا سب سے پہلے سوچتی ہے۔وہ کہہ رہا تھا کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ میری بلی اپنے بڑے بچے کو جو اب اس سے کافی بڑا لگتا ہے اور بلہ ہے کھانا کھلائے بغیر خود کھانا نہیں کھاتی۔رب نے کیا ہی حیرت انگیز رشتہ بنایا ہے۔اسی سے ہی تو کائنات قائم ہے ،ورنہ ایک ننھے سے وجود کی پرورش کیسے ہوتی۔نایاب
حریم اور ہادی کے لیے رونے لگی۔
آفتاب: کچھ کھانے،پینےکی چیزوں کے ساتھ اندر داخل ہوا۔نایاب کو روتے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آیا۔
نایاب کیا ہوا۔
نایاب۔آنکھیں بند کر کے رو رہی تھی۔ہوں۔کچھ نہیں۔اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔
آفتاب:پریشان نہیں ہو ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔یہ جوس پیو۔کچھ چیزوں کو وقت پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ہے ناں ،اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
نایاب:خاموش رہی۔
ہادی :ماموں پاپا ،ماما کب آئیں گئے،مجھے یہاں نہیں رہنا۔
احمر: جلدی آ جائیں گئے نا بیٹا،آپ کی ماما کو چوٹ لگ گئی ہے ،اس لیے وہ ہوسپٹل میں ہیں۔
ہادی:ماما سے بولا،اب شرارت نہیں کرنی۔
احمر:مسکراتے ہوئے۔یہ بچے بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں نا۔زندگی کی تلخیوں سے بے نیاز۔اس نے ماہم کو دیکھ کر کہا۔
ماہم۔ہاں ،کچھ عرصے میں ایک معصوم ہمارے گھر بھی آنے والا ہے۔

(جاری ہے)
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281030 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More