آفت!

 شادی والا دیہاتی گھر تھا، رسمِ نکاح کا وقت ہوا چاہتا تھا، ہر طرف گہما گہمی تھی، کچے گھروں میں رنگ برنگے کپڑے پہنے بچے بوڑھے اور جوان سب خوش تھے، خواتین اپنے مخصوص انداز میں شادی کے گیت گارہی تھیں۔ مرد حضرات ایک جگہ جمع تھے کہ نکاح پڑھا جائے اور دیگر رسوم ادا کی جائیں۔ شام کا دھندلکا ابھی پھیل ہی رہا تھا، سورج نے اپنی آنکھیں بند ہی کی تھیں، دور افق پر گہری سرخی پھیلی تھی۔ اس علاقے کے دیہات ’’گاؤں‘‘ کی صورت نہیں ہوتے، چار چھ گھر ایک جگہ تو دو چار دوسری جگہ، اگر کوئی بستی آباد ہوگئی تو پندرہ بیس گھروں کا اجتماع قرار پایا۔ یہ بستی بھی چھوٹی سی تھی، مگر شادی کی تقریب کی وجہ سے یہاں رونق تھی، خوشی کے گیت اور جذبات سے پر ایک ہنگامہ سا بپا تھا، چند گھروں پر مشتمل بستی میں بسنے والے سب ہی ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے، اس لئے یہ تقریب کسی ایک گھر کی نہیں بلکہ چھوٹی سی بستی کی تھی۔

سورج کے افق کے پیچھے چھپ جانے کے بعد ابھی تاریکی پھیل ہی رہی تھی کہ مغرب کی جانب ایک زور دار دھماکہ ہوا، ایک شعلہ سا اٹھا اور آسمان کو چُھو آیا، دھوئیں کا بادل نمودار ہوا، اس میں بھی آگ کے شعلے تھے۔ ایک خوفناک آواز تھی، جیسے طوفانی آندھی کی ہوتی ہے، جیسے ہوا درختوں اور دریچوں کو چیرتی ہوئی گزرتی ہے، جیسے کو ئی اژدھا زخم کھانے کے بعد نہایت غصے سے پھنکار رہا ہوتا ہے۔ شوں شوں کی آواز اس قدر بھاری اور تیز تھی کہ دہشت پھیل رہی تھی۔ آگ اور دھویں میں مٹی کی بھی آمیزش ہوگئی تھی، عجیب سرمئی، مٹیالہ اور سنہری رنگ کا بادل اوپر کی طرف اٹھ رہا تھا، اور ہوا اُسے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر ایک طرف کو لے جانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ بستی والوں کو یہ معلوم تھا کہ ان سے چند فرلانگ دور گیس کی بڑی پائپ لائن گزر رہی ہے، کوئی کہتا کہ دہشت گردی ہوگئی ہے، کسی نے پائپ لائن پر بم گرا دیا ہے، اسے دھماکے سے اڑا دیا ہے، کسی نے کہا کہ اس تاریخ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ طوفان آئے گا، سو وہ آگیا ہے، کسی نے اسے شامت اعمال قرار دیا۔ گویا جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں۔

اس ماحول کو دیکھ کر بستی والوں پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ سب کچھ بھول بھال کے ایک طرف کو بھاگ کھڑے ہوئے، خواتین اپنے بچوں کوسنبھال کر بھاگ لیں تو مرد اپنے دیگر بزرگوں کو قابو کرکے بھاگے۔ کسی کو نہ مال کی ہوش تھی نہ سامان کی، مویشی بھی بندھے چھوڑے، گھر بھی بسے چھوڑے، نہ کسی کو آگے کا اندازہ تھا اور نہ پیچھے کی خبر تھی، حتیٰ کہ یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کس اَن دیکھی اور ناگہانی آفت کے خوف سے بھاگے جارہے ہیں۔ اس شدید بھگدڑ میں کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا، کوئی فصلوں میں گر رہاتھا تو کوئی جھاڑیوں میں الجھ رہا تھا، کسی کو اس کا بچہ نہیں مل رہا تھا تو کسی کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی فکر کھا رہی تھی۔ بھگدڑ میں یہ بستی تنہا نہیں تھی، ان سے پچھلی بستی کے لوگ بھی اسی طرح چیختے پکارتے بھاگے آرہے تھے تو ان سے آگے والے بھی اسی طرح خوف کے مارے بھاگے جا رہے تھے، منزل کی کسی کو خبر نہ تھی۔ اتنی دیر میں دھندلکا بھی پھیل چکا تھا، جوں جوں رات کے سائے بڑھنے لگے تھے دہشت اور خوف میں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔ وہ گرتے پڑتے بھاگتے جاتے تھے، پیچھے دیکھتے جاتے تھے۔کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان کی طرف اٹھنے والے آگ ، دھویں اور مٹی کا طوفان کم ہورہا ہے، اس کی پھنکار بھی مدھم پڑ چکی ہے۔ ان کی سانسیں بحال ہونا شروع ہوئیں۔

معلوم ہوا کہ گیس کی پائپ لائن پھٹ گئی تھی، یہ سار اشور شرابہ اسی کاپیدا کردہ تھا، تاہم خوف یہ تھا کہ اگر گیس ہوا کے دوش پر سوار ہو کر آگے بڑھی تو ہر سُو پھیل جائے گی۔ ایک بہت بڑا خطرہ یہ بھی تھا کہ اگر یہ آگ پھیل گئی تو یہ بستیوں کو بھسم کردے گی۔ حجام یہ ساری آنکھوں دیکھی کہانی سناتے سناتے اس قدر جذباتی ہوگیا تھا کہ اس کا ہاتھ کام سے رک گیا تھا اور وہ ہاتھوں اور بازوؤں کے اشاروں سے داستاں سنا رہا تھا، اس کی روداد ختم ہوئی تو میں یہ سوچنے لگا کہ ہم لوگ صرف کاروبار اور پیسہ کمانے کے معاملات پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں، مگر جب کبھی کوئی آفت سر پر آکھڑی ہوتی ہے تو چند سیکنڈ میں ہی یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ مال ودولت اور پیسے کی کوئی حیثیت ہی نہیں، اسی لئے تو مصیبت میں ہم سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473302 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.