شک

اس نے اپنے اعمال کی سیہی اپنی بیٹیوں کے وجود سے رگڑ کر صاف کرنے کی سعی کی اور آخر اک دن وہ سیہی تو نہ اتر سکی مگر وہ وجود ضرور مٹانے میں کامیاب ہو گیا -
ان کے گھرانے کا ماحول بہت سخت تھا ابا نے ان بہنوں کو بدقت تمام موبائل فون لینے کی اجازت دی تھی جو فارحہ کو اسکی سہیلی میرب نے بطور تحفہ دیا تھا کیونکہ اسی کا فارحہ سے چند پل بھی بات کیے بنا گزارہ نہ ہوتا وہ اس کی بچپن کی سہیلی ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی معلم بھی تھی کہ اساتذہ کے سمجھائے اسباق کبھی اسکے ذہن میں نہ گھستے تھے گھنٹوں فارحہ سے مغز ماری کروانے کے بعد ہی کچھ اسکے پلے پڑتا تھا اور یہ تقریبأ اس کا روز کا معمول تھا مگر فارحہ کو رات کے وقت موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی وہ سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سیڑھیاں پر وقار انداز میں عبور کرتی گئی تھی اک زمانہ اسکے کردار کا معترف تھا مگر وہ آج بھی اپنے باپ کی نظروں میں شرف قبولیت نہ پا سکی تھی وہ کبھی اسکی وجہ سمجھ نہ پائی مگر ہر بار شک کی سولی چڑھنے کے بعد وہ نئے سرے سے اپنے باپ کی نظروں میں عزت و محبت دیکھنے کے لیئے کوشاں ہو جاتی مگر آج کچھ ایسا ہوا تھا جس نے اسکی تمام تر عمر کی ریاضت کو خاک میں ملا دیا تھا اسے بے گنہ ہوتے ہوئے بھی بالآخر ابا کا شک کا ناگ ڈس گیا تھا
"فارحہ صبح پرچہ ہے مجھے کچھ نہیں آتا مجھے تیاری کرواؤ -" رات نو بجے تھے جب اسکے موبائل کی میسیج کی بپ بج اٹھی
"میرب تمہیں پتہ ہے ناں ابا رات کے وقت موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے - صبح جلدی سینٹر پہنچ جانا میں آکر تمہیں سمجھا دونگی-"
"یار فاری پلیز مجھے بس دو چار سوال سمجھا دے مجھے سچ میں کچھ نہیں آتا جاتا میں فیل ہوجاؤنگی-" آخر میرب کی منت سماجت سے مجبور ہو کر وہ کتاب اور موبائل اٹھائے سیڑھیوں میں آبیٹھی
"رات کے اس پہر یہاں بیٹھی کس سے گپیں مار رہی ہو- "
وہ کام کرنے میں اتنی منہمک تھی کہ اسے ابا کی آمد کا پتہ ہی نہ چلا اور وہ بھی اتنی قوت سے دھاڑے کہ موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹتا چھوٹتا بچا ادھر میرب نے خوف سے کانپتے کال ڈسکنیکٹ کر دی ادھر ابا نے اپنی آخری تسلی کے طور پر فون کان سے لگایا مگر دوسری طرف کی مسلسل خاموشی نے انکے شک کے سایوں کو حقیقت کا روپ دے دیا-

اک نفس کے مارے انسان نے جوانی کے جوش میں آکر اک غلط قدم اٹھاتے ہوئے کسی شریف ماں باپ کی بیٹی کو شب کی تاریکی میں بھگانے کا فیصلہ کر کے انکو زندگی اور موت کے بیچ منجدھار میں تو لٹکا دیا تھا مگر اسکے بعد کبھی بھی اس شب کے گھناؤنے سائے اسکی زندگی سے نکل نہ پائے تھے وہ ساری زندگی اس سیہی کو اپنی بیٹیوں کے وجود سے رگڑ رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کرتا رہا اور آج بالآخر اس نے وہ ساری کالک فارحہ کے وجود پہ تھوپ دی تھی اسی رات سے اسکے اپنے مستقبل کے متعلق دیکھے اونچے اونچے خواب مٹی کا ڈھیر بن گئے اور اس کی قسمت کا فیصلہ کرتے ابا نے اپنی تمام تر سفاکیت کی حد کر دی تھی کہ اپنے دسویں فیل بدقماش بھتیجے کو اس کے سر منڈھ دیا گیا تھا اسکی تعلیم کا سلسہ تو وہ پہلے ہی ختم کر چکے تھے میرب کی بعد میں انکے سامنے کھائی قسموں کو بھی وہ ڈھونگ ہی سمجھے تھے اور اسے یقین ہو چلا تھا کہ اب وہ ہمیشہ بے یقین ہی رہے گی کیونکہ مرد کے اس معاشرے میں کوئی کمزور مرد گنہ کے بعد جب پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے تو اپنی شرمندگی کم کرنے کی خاطر وہ دوسروں کو بھی شک کی نگہ سے دیکھنے کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ دھندلی عینک اسے کبھی صحت مند مناظر نہیں دکھاتی اور وہ اپنے ساتھ کئی دیگر زندگیوں میں بھی زہر گھولتا چلا جاتا ہے-
Farheen Naz Tariq
About the Author: Farheen Naz Tariq Read More Articles by Farheen Naz Tariq: 32 Articles with 34750 views My work is my intro. .. View More