علم کی فضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
علم کے ذریعے آدمی ایمان ویقین کی دنیا
آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا
بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتاہے ، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں
امن وامان کی فضا پیدا کرتا ہے۔علم کی فضیلت وعظمت، ترغیب و تاکید مذہب
اسلام میں جس بلیغ ودلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں
نہیں ملتی، تعلیم وتربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے،
کلام پاک کے تقریبا اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم
جل شانہ نے رحمت عالم ﷺ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ اِقر ہے، یعنی پڑھ،
اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی
گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے:’
(1)’پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے
سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا‘‘۔(سورۃ القلم آیت 4،5)
گویا وحی الہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دوعالم ﷺ کے ذریعے نوعِ
بشر کو توجہ دلائی گئی ،وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم وتربیت کے جواہر وزیور سے
انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔حضور ﷺ کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا
گیا ،اس وقت جزیر العرب کی کیا حالت تھی؟ قتل وغارت گری، چوری، ڈکیتی ،قتل
اولاد، زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔
بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ اﷲ کے رسول نے ان کی
تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا ہوگئے۔
جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام
وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔
(2)اﷲ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے، اور جنھوں
نے علم حاصل کیا۔(سورۃ المجادلہ آیت 11)
(3)دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
(اے نبی ﷺ)کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے
ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(سورۃالزمر
آیت9،سورۃالرعد:آیت 16)
(4)ایک اورآیت میں تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو
واضح کیا گیاہے،چنانچہ اﷲ تبارک وتعالی فرماتا ہے:
’’کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھااور دیکھنے والایا کہیں برابر
ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا؟''۔(سورۃالفاطر آیت 19,20)
اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا
ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا
گیا ہے۔
مولانامحمدصدیق میمنی لکھتے ہیں:’’عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو
،چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی، فقہ کی کی ہو یا کلام
ومنطق کی۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی۔ نیچرل سائنس پڑھاہو
یاآرٹس کے مضامین۔ سارے کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ
ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی، مقصد نیک ہو اور اس کا صحیح
استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی ساری نعمت اور دولت حاصل
کرسکتا ہے‘‘۔ (دینی علوم کی عظمت اور فضیلت، اسلامی تعلیمات کی اخلاقی اور
تہذیبی قدریں)
علم کی فضیلت اوراس کوحاصل کرنے کی ترغیب کے حوالے سے کثرت سے احادیث بھی
وارد ہوئی ہیں ،جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب
سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
(1)علم والوں کو دسروں کے مقابلے میں ایسی ہی فضیلت حاصل ہے ،جیسے میری
فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر۔ یقینا اﷲ عزوجل ،اس کے فرشتے اور آسمان وزمین
والے حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے
بھلائی کی دعا کرتی ہیں۔(ریاض الصالحین)
(2)ایک دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے
ہیں:
ایک دن رسول اﷲﷺ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی)میں داخل
ہوئے،وہاں دوحلقے بیٹھے ہوئے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراﷲ
سے دعا کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے
فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اﷲ سے دعا
کررہاہے۔ اﷲ چاہے تو اس کی دعا قبول فرمائے ، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ
تعلیم وتعلّم میں مشغول ہے(یہ زیادہ بہتر ہے)اور میں تو معلم بناکر بھیجا
گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔(مشکوۃ)
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر
فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اﷲ تعالی کی تمام
مخلوق اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،بلکہ ان کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اﷲ
کے رسول ﷺنے انہیں انبیا کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :
(3)جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے،اﷲ تعالی اس کے سبب اسے جنت کی
ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور
یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں
تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے
جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علما ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں
نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے
ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔(منتخب
احادیث)
(4)طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔(مشکوٰۃشریف)
حضرت علی کرم اﷲ وجہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ علم
کاسیکھنا ہر مومن پر فرض ہے اس سے مراد روزہ، نماز ، حلال و حرام اور حدود
و احکام کی معرفت حاصل کرنا ہے۔حسن بن الربیع فرماتے ہیں کہ میں نے ایک
مرتبہ حضرت عبداﷲ بن مبارک سے پوچھاکہ ارشاد نبویﷺ ''علم کا سیکھناہر
مسلمان پر فرض ہے''اس کا مطلب کیاہے؟تو حضرت عبداﷲ بن مبارک نے جواب دیا کہ
اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں جو تم حاصل کرتے ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے
کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلاہو تو اس کے بارے میں پہلے جانکار
لوگوں سے علم حاصل کرلے۔(آداب المتعلمین)
(5)حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے کہ جو
شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک
کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔(مشکوٰۃشریف)
(6)ابوامامہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے کہ ایک
عالم کی برتری ایک عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی
ادنی شخص پر، اور پھر فرمایا کہ اﷲ تعالی اوراس کے فرشتے اور زمین وآسمان
کی ہر شے حتی کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سکھانے
والوں کے لیے دعائے خیر کررہی ہیں۔
(7)پیغمبر اسلام ﷺ نے کیسے بلیغ انداز میں فرمایا ہے: حکمت کو ایک گم شدہ
لال سمجھو جہاں پا اپنا اسے مال سمجھو۔(بخاری،مسلم،ترمذی)
(8)آپ ﷺ نے فرمایا:بلاشبہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(بحوالہ:الرسول
المعلم ﷺ)
(9)آپ ﷺنے فرمایا:قیامت کے دن اﷲ تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں
علما کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم
تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ،جا ؤتم سب کی مغفرت
کردی۔
آنحضرت ﷺ نے جس انداز میں دین اسلام کی تبلیغ فرمائی وہ نہ صرف یہ کہ
انتہائی کامیاب و مثر ہے ۔بلکہ اسمیں تعلیم و تربیت کے ایسے اوصاف بھی
نمایاں ہیں جو متعلمین و مربیین دونوں کے لیے روشن مثال کی حیثیت رکھتے ہیں
۔مسجد نبوی ﷺ کی پہلی درسگاہ اور اصحاب صفہ پر مشتمل طالب علموں کی پہلی
جماعت کے عمل نے جلدہی اتنی وسعت اختیار کرلی جسکی مثال دینے سے دنیا قاصر
ہے ۔آپ ﷺ نے پہلے خود تعلیم و تربیت دی۔ پھر دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے
کے لیے کامل افراد کا انتخاب فرما دیا،چنانچہ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ آپ
ﷺ کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ آپ ﷺ کے منتخب کردہ ، ان تربیت
یافتہ معلمین نے درس و تدریس میں جس مہارت کا ثبوت دیا وہ آپ ﷺ کی ہمہ گیر
تربیت ہی کا نتیجہ ہوسکتا تھا جس کے اثرات تا دیر محسوس کیے جاتے رہے ۔یہی
وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت
وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث
تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی
خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔ |
|