از راؤ رفاقت علی
تعلیم اپنے وسیع تر معنوں میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی
عادات اور احداف ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔ اپنے تکنیکی
معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنا
مجموعی علم ، ہنر ، روایات اور اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا
ہے؛ عموماً اسکول میں کی جانے والی تربیت۔
تعلیم انسانی زندگی کا بہت اہم جزو ہے. تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و
عورت پر فرض ہے. تعلیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اس کو جتنا حصل کرو گے اتنا ہی
کم ہے لیکن آج کی تعلیم کا دوسرا نام بے روزگاری ہے یعنی تعلیم حاصل کرنے
کے بعد نوکری کے لیے "سفارش یا پھر پیسہ" چاہیے.
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کے مردوں میں خواندگی کا شرح 64
فیصد ہے جب کہ خواتین میں یہ شرح صرف 14 فیصد ہے۔
آج کی تعلیم پہلے کی تعلیم سے بہت مختلف ہے آج کی تعلیم صرف فیشن طاقت اور
ضرورت کے لیے استعمال کی جاتی ہے جبکہ پہلے کی تعلیم نسلیں سنوارنے کے لیے
حاصل کی جاتی تھی. پہلے کی تعلیم سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا مثلا
انبیا کرام اور تاریخ کے متعلق لیکن آج کی تعلیم میں نہ تو دینی معلومات ہے
اور نہ ہی ادب و آداب کے طریقے. پہلے کی تعلیم ہمیں ہماریاسلام کے بارے میں
بتاتی تھی اسلامیات میں چند قرآنی سورتیں ہوتی تھی آج کے نصاب میں وہ نہیں
ہیں. کسی نامور دانا کا قول ہے کہ مغرب کی طرف راغب ہو گے تو ڈوب جاؤ گے
اور آج کی تعلیم ہمیں مغربی دنیا کی طرف دھکیل رہی ہے. تعلیم کا مطلب ہے
جاننا اسلام کے بارے میں تاریخ کے بارے میں اور ہمارے رہنماؤں کے بارے میں.
ہم مسلمان ہیں تو ہمارا مقصد بھی دینی تعلیم حاصل کرنا ہے بعد میں دنیاوی
تعلیم……. لیکن آج کی تعلیم صرف دنیاوی ہیاس میں نہ تو دینی مضامین ہیں نہ
ہی ہمارے اساتذہ کرام ہمیں دینی معلومات دیتے ہیں لیکن چند ایک اساتذہ کرام
جو اپنا فرض احسن طریقے سے نبھا رہیں ہیں. ہمارے اصلی مضامین عربی,اسلامیات
ہیں جن میں عربی تو بہت کم نظر آتی ہیں اب تو عربی ٹیچر بھی کسی سکول میں
ہی نظر آتے ہیں.
سائنس کی جتنی بھی دریافتیں ہیں وہ ہمارے قرآن پاک میں سے اخذ کی گئی ہیں
آج کے دور میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کا پڑھنا اور مطالعہ بہت ضروری
ہے.
|