طلبہ یونینز کی افادیت اور ہمارا قومی المیہ
(Tanveer Awan, Islamabad)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
طلبہ تنظیموں کے قیام کا مقصد متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق طلبہ کے
مفادات اور حقوق کا تحفظ کرنا ہے ،ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے
اور مثبت سرگرمیوں کے ذریعے جذبہ حب الوطنی کو پیدا کرنا ہے،طلبہ تنظیمیں
جمہوری طرز عمل کے ذریعے نوجوان نسل میں فیصلہ سازی اورمعاملات میں
مؤثررائے دہی کی تربیت کرتی ہیں،جو مستقبل میں سیاسی طور پرباشعور شہری
ہونے میں ممد ومعاون ہوتی ہیں۔طلبہ تنظیموں کی وجہ سے باصلاحیت ،باشعور اور
اہل قیادت قومی منظر نامے پر ابھرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں طلبہ
کونسلز،آرگنائزیشنز،ایسوسی ایشنزاور سوسائیٹیزاپنامؤثر وجودرکھتی ہیں،حکومت
نے ان کے لیے قوانین اور نظام وضع کئے ہوئے ہیں،جن کے تحت طلبہ اپنی
سرگرمیوں کو سرانجام دیتے ہیں اورحکومت ان ہی طلبہ یونینز سے باصلاحیت
نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کو مزید بکھارنے کے مواقع بھی
فراہم کرتی ہیں، مثلاً امریکہ میں سٹوڈنٹ گورنمنٹ اور سٹوڈنٹ سینٹ کے نام
سے طلبہ تنظیمیں کام کررہی ہیں،جن کا مقصد طلبہ کی راہنمائی اورسہولیات کی
فراہمی ممکن بنانا ہے،Student activityکے نام سے مراکز قائم کئے گے ہیں ،جہاں
طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ چین کی
طلبہ تنظیموں میں اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر طالب علم کو ممبر شپ کارڈ
مہیا کیا جاتا ہے ،آسٹریلیا میں قومی سطح پر طلبہ تنظیموں کی نمائندگی "نیشنل
یونین آف سٹوڈنٹس آف آسٹریلیا "کرتی ہے ،یعنی دنیا بھر میں طلبہ تنظیمیں
طلبہ کے مفادات کے تحفظ اور ان کی پوشیدہ قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں
اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔
قیام پاکستان سے آج تک طلبہ سیاسی وقومی منظر نامے میں غیرمعمولی اہمیت
اختیار کئے ہوئے ہیں،مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ،اسلامی جمیعت طلبہ ،جمیعت طلبہ
اسلام،پی ایس ایف اور مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان جیسی کئی مؤقر طلبہ
تنظیمیں اپناوجود رکھتی ہیں۔حالیہ قومی وبین الاقوامی منظرنامے پر کئی
قدآورسیاسی راہنماشخصیات انہی طلبہ تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے ابھر کرنمایاں
ہوئیں ہیں، سیاسی ومذہبی تحاریک میں طلبہ نے مؤثر کردار ادا کیا ہے،یہی وجہ
ہے کہ سیاسی و گروہی جماعتوں نے اپنے باقاعدہ طلبہ ونگ تشکیل دیئے،ان کو ہر
طرح سے پشت پناہی کرکے تعلیمی اداروں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کیا ،
اسلحہ اورپرتشدد احتجاجی مظاہروں کاماحول وجود میں آیا اورسیاسی مقاصد کے
لیے طلبہ کی طاقت کو استعمال کیا جانے لگا،یہی وجہ تھی کہ سیاسی منظرنامے
کی تبدیلی کے لیے طلبہ تنظیموں سے زیادہ مؤثر طاقت اور حیثیت کسی پلیٹ فارم
کو نہیں حاصل تھی ۔وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طلبہ یونین
پر28فروری 1984 ء جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں پابندی لگائی گئی، 1988
ء میں حکومت وقت نے پابندی ختم کی مگر پورے ملک میں رونما ہونے والے
پرتشدد واقعات کی وجہ سے 1992 ء میں سپریم کورٹ نے طلبہ یونینز پردوبارہ
پابندیاں عائد کردیں۔ اسلحہ کلچر ، ماردھاڑ،اغواء ،دھمکیاں اور ہڑتالیں
،1993اور 1996میں طلبہ یونین کے نام پرتعلیمی اداروں کو میدان جنگ میں
تبدیل کرکے یونیورسٹیز کو فتح کرنا،ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جن کی وجہ سے طلبہ
تنظیمیں اپنا مقام اور افادیت کھوچکی تھیں ، تب سے آج تک حکومت پاکستان کی
طرف سے طلبہ یونینز پر عائدپابندی برقرار ہے۔
ہر چیز کی افادیت اور نقصان قانون کی پاسداری یا عدم پاسداری پرمنحصر
ہے،اگرمربوط ضابطہ اخلاق کے تحت ،طلبہ یونینز کوخارجی عناصر کے اثرو رسوخ
اوروابستگیوں سے بالاتر ہوکر مثبت سرگرمیوں کی اجازت دے دی جائے اورمتعلقہ
ادارے کی پالیسی اور حدود میں رہتے ہوئے طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی
یونین و تنظیم سازی کریں تو اس کے حوصلہ افزا ء نتائج سامنے آسکتے ہیں۔اس
میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ طلبہ کونظریہ پاکستان سے ہم آہنگ ، ملک و ملت
اورطلبہ کی فلاح و بہبود ،ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ،اپنے حقوق کے حوالے سے
جدوجہدکا سلیقہ ،معاشرے میں رونماہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے احساس ذمہ
داری اور ان کو نبھانے کا جذبہ اور قدرت کی طرف سے عطاکردہ خداداد صلاحیتوں
کے اظہار کے لیے طلبہ یونینز سے بہترین پلیٹ فارم موجود ہو ، کیونکہ یہی وہ
نرسریاں ہیں جہاں سے ملک وقوم کو نئی قیادت میسر آتی ہے،ان کے ذریعے طلبہ
میں انتظامی اور سیاسی صلاحیتیں پنپتی اور پروان چڑھتی ہیں۔طلبہ یونین کا
افادیت کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سٹوڈنٹس تنظیم کے منتخب طالب علم نمائندوں
میں احساس ذمہ داری پیدا ہو جاتا ہے ،وہ طلبہ کے حقوق ،ہم نصابی سرگرمیوں
کے فروغ اور مسائل کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔
آزادی اظہار رائے کے اس زمانہ میں جب کہ شعور وآگاہی کے حوالے سے ذرائع
ابلاغ تیز ترین صورت میں موجود ہیں ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نوجوان طلبہ
کے لیے ہم نصابی اور صحت افزاء سرگرمیوں کے مواقع مسدود کرنا درست عمل نہیں
ہے ،جہاں یہ طلبہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے وہیں جرائم
اور منفی سرگرمیوں کے لیے ان کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ارباب اختیار کی ذمہ
داری ہے کہ وہ تمام طلبہ یونینز کے لیے ضابطہ اختیار بنا کر عائد پابندیوں
کو ختم کریں تاکہ طلبہ کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد ،سماجی اور ہم نصابی
سرگرمیوں کے مواقع مل سکیں۔
|
|