دل بستگی کے ساماں بہت لیکن کیا کیجیے!

کہنے والے کہتے ہیں کہ دل تو آخر بچہ ہے۔ کسی ناکسی طور بہل ہی جاتا ہے کہ دل بستگی کہ ساماں بہت لیکن ساتھ ہی دل کی سنیں تو دل کے ارماں بھی بہت۔ اب ایسا کیا کیا جائے کہ دل خوش بھی رہے اور مطمئن بھی۔ ہمارے ایک خوش طبع و خوش وضع دوست ، جوکسی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور اکثر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی اور کے ہوجاتے ہیں۔ جب بھی علیحدگی میں ملتے ہیں۔ اپنی تازہ ترین کارستانیاں سنانے کے بعد ، یعنی ہمارا دل جلانے کے بعد پوچھتے ہیں کہ تم بھی توکچھ اپنی سناؤ۔ مجھے توتم چپ چپ سے لگ رہے ہو۔ ہم نے کہا برادر عزیز، سیانے کہتے ہیں کہ خاموش رہنا ، بُردباری کی علامت ہے اور ہمارے معاشرے میں مرد کو بُرد بار ہی ہوناچاہیے۔ ورنہ لوگ رنگیلا کہنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ ہمارے دوست ، ہماری بات سن کر برا مان گئے اور کہنے لگے۔ اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میری غیر موجودگی میں ، آپ بھی مجھ کو رنگیلا ہی کے نام سے یاد کرتے ہونگے۔ ہم نے ترنت کہا ، نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ آپ تو ہماری زبان و بیان سے واقف ہیں۔ ہماری لغت میں اس طرح کے الفاظ شامل نہیں ہیں۔ اگر انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال وقوع پذیر ہوجائے اور نازیبا الفاظ زبان پر آنے کے لیے مچل رہے ہوں تو زبان تالو سے ایسے چپکا لیتے ہیں ۔ جیسے لوگ فیوی کول سے کسی کی تصویر اپنے سینے پر چپکالیتے ہیں۔ ہماری بات سن کر کہنے لگے ۔ پتا نہیں کیسے کرتے ہوگے یہ سب، میرے سامنے تو تمہای زبان ایسی پٹر پٹر چلتی ہے کہ ریل گاڑی کی رفتا ر بھی اُس کے سامنے مدھم لگے۔ قصّہ مختصر، اُن کے آف موڈ کو آن کرنے کے لیے، اپنی طبیعت پر گراں گزرنے کے باوجود دو چار آف دی ریکارڈ لطائف سنانے پڑے۔ جب اُن کے چہرے پر رونق بحال دیکھی تو ہم نے اِس وعدے کے ساتھ اجازت چاہی کہ جلد ہی دوبارہ ملاقات کریں گے ۔ الوداع کہتے وقت ہمارے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے، انتہائی تنبیہی انداز میں ہدایت کی کہ کچھ اپنا بھی خیال کیا کرو ۔ کب تک دوسروں کے غم میں دبلے ہوتے پھروگے ۔ جواں ہو، برسر روزگار ہو ، دیکھنے میں تندرست بھی نظر آتے ہو ۔ یہ الگ بات ہے کہ چہرے پر اکثر بارہ ہی بجے رہتے ہیں۔ چہرے کی رونق بحال کرنی ہے تومیرامشورہ مانو اور ہمیشہ دل کی سنو اور خوش رہا کرو ۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جب بھی آپ کے مشورے پر دل کی سنی ہے اور وقتی طور پر خوش ہوئے ہیں۔ اُس کے بعد اکثر لوگوں کی ہی سننی پڑی ہے۔ پھر برا مان گئے۔ کہنے لگے، تم لاعلاج ہو۔ منہ بسورے پڑے رہنا ، تمہای سرشت میں داخل ہوچکا ہے۔

دوست کے جانے کے بعد، ہم نے سوچا۔ واقعی ہم کو بھی خوش ہونے کا اُتنا ہی حق ہے۔ جِتنا قوم کے دیگر افراد کو ہے۔ لہذا گھر پہنچتے ہی ، سلام و دعا کے بعد ، اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ یار کوئی بامقصد تفریحی فلم ہو تو لگاؤ۔ آج ہمارے پاس وقت ہے۔ وہ بہت خوش ہوا اور حیرانگی کے عالم میں کہا۔ ابھی دوست سے فلم لے کر آیا، آپ ٹی وی آن کریں۔ ٹی وی کھول کر ہم نے سوچا کہ پہلے حالات حاضرہ سے متعلق چند خبریں دیکھ لیں۔ پھر سکون قلب سے بیٹھ کر فلم سے لطف اندوز ہونگے۔ نیوز چینل لگاتے ہی ، سب سے پہلی خبر جو ہماری سماعت و بصارت سے ٹکرائی ۔ وہ معصوم کمسن بچی طیبہ تشدد کیس کے سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی سماعت کے متعلق تھی۔ جس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ معصوم بچی طیّبہ ہی منظر عام سے غائب ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ اُس کے والدین ہونے کے کئی دعوے دار میدان میں آگئے ہیں اور عدالت برہم ہے کہ بچی کہاں غائب کردی گئی۔ اگلی خبر سندھ یونیورسٹی کی ہاسٹل میں رہائش پذیرطالب علم نائلہ رند سے متعلق تھی کہ کیسے نجی کالج کے معلّم نے اس کو اپنے جال میں پھنسا کر، بلیک میل کیا ۔ جس کی وجہ سے اُس نے خود کشی کرلی۔ پھر جو خبر نظر سے گزری وہ سر سیّد ٹاؤن، کراچی کی رہائشی عائشہ کی مبیّنہ خودکشی کے حوالے سے تھی۔ عائشہ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ سسرالیوں نے اُسے مارا ہے۔ اِس کے بعد فوری خبر یہ آئی کہ لودھراں میں پھاٹک کھلا رہ جانے کی وجہ سے ٹرین حادثہ ہوگیا ہے اور کئی قیمتی جانیں، اِس غفلت کی وجہ سے ضائع ہوگئی ہیں۔ ہم نے جب اِس طرح کی خبریں پے در پے سنیں تو دل برداشتہ ہوکر فوری طور پر ٹی وی بند کردیاکہ اب ہم میں اتنی سکت نہیں کہ دل کو شکستہ کرنے والی خبریں مزید سنیں یا دیکھیں۔ تھوڑی د یر بعد ، جب بھائی آیا تو ہم آنکھیں موندے ، تکیے میں منہ دیے لیٹے تھے۔ بھائی کمرے میں داخل ہوتے ہی زور سے چلّایا، فلم لے آیا ہوں چلیں دیکھتے ہیں لیکن ہم تو ٹی وی بند کرچکے تھے اور دوبارہ ٹی وی کھولنا کم ازکم ہمارے بس کی تو بات نہیں تھی۔ لہذا تھکن اور نیند کابہانہ کرکے بھائی کو ٹال دیا کہ کسی اور وقت فلم دیکھ لیں گے۔ بھائی کے جانے کے بعد ہم سوچنے لگے کہ فی زمانہ د ل بستگی کے ساماں تو بہت ہیں لیکن اگر بطور ذی شعور اور حساس طبیعت انسان ہونے کے ناطے، ہم اپنے معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، حادثات اور سانحات پر نظر ڈالیں تو دل شکستگی کے اتنے واقعات نظر سے گزریں گے کہ دل بستگی کے ساماں، دل شکستگی کے واقعات کے سامنے ماند پڑجاتے ہیں۔ اِن حالات میں ذی شعور اور حساس طبیعت کا انسان، دل بستگی کے ساماں ہوتے ہوئے بھی کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ بس یہی سوچتے سوچتے سوگئے ۔ ـ’’دل بستگی کے ساماں بہت لیکن کیا کیجیے‘‘۔
Syed Muhammad Ishtiaq
About the Author: Syed Muhammad Ishtiaq Read More Articles by Syed Muhammad Ishtiaq: 45 Articles with 35685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.