وہ بس اٹھارہ برس ہی کو تو تھی۔عمر کی ساری
جولانیاں اسکے خون میں گردش کر رہی تھیں۔سنہرے مائل بھورے بال خاصے دراز
تھے،کھلتے تو لگتا سنہری ریشم رنگ بدل رہا ہو۔یوگا نے اسکے خدوخال میں
تناسب بھر دیا تھا۔کمپیوٹر گرافکس کے شوق نے اسے اپنے ہم عمروں میں" استاد"
بنا دیا تھا۔اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ فلسفہ زندگی کی ایک شق بھی
اسے معلوم ہوگی حالانکہ اسکی ماں سیما منظر کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنی
اس اکلوتی بیٹی کو زندگی گزارنے اورتسخیر کرنے کے سارے گر سکھا دیں۔بقول
انکے جب محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں عرب کی صحرائی سر زمین سے سندھ
کے دریا کا سفر کر کے معرکہ برپا کر سکتا ہے تو انکی بیٹی کو اٹھارہ تک اس
قابل ہو جانا چاہیئے کہ وہ بھی کوئی معرکہ خیر کی کمان سنبھال سکے۔اس سے
بڑے تین بھائی تھے۔تینوں ہی شادی شدہ تھے منظر صدیقی اور سیما منظر نے اپنے
بچوں کی پرورش میں اس بات کا خیال رکھا تھا کہ سترہ تک پہنچنے تک انکی
زندگی میں کوئی نہ کوئی اہم مثبت کامیابی رقم ہو جانی چاہیئے ۔کوشش انکی
بھرپور تھی لیکن ایسا صرف انکے ایک بیٹے کے ساتھ ہی ہو سکا،سترہ سال کی عمر
تک وہ اپنے رہائشی علاقے میں صفائی کمیٹی کا اہم رکن بن چکا تھا۔بیس سال کی
عمر میں انکے دوسرے بیٹے کو جاپانی قو نصلیٹ کی جانب سے ابتدائی درجہ کی
جاپانی زبان کو قلیل مدت میں سیکھنے پر شیلڈ دی گئی۔
تیئس سال کی عمر میں تیسرے بیٹے نے recycling product " " کے بین الا قوا
می مقابلے کے دس کامیاب امیدوار وں میں اپنی جگہ بنا لی۔بس اب بیٹی تھی
ہانیہ منظر جسکو کسی بھی کامیابی کو منوانے کا کوئی شوق ہی نہ تھا۔سارے کام
وہ بڑی بے نیازی اور ہنستے کھیلتے انداز میں کرتی،دوست پرور تھی،اسلیئے
دوستوں کے ساتھ وقت گزارنااسکا اولین شوق تھا۔سیما منظر اسکے بے حد لاڈ
اٹھاتے مگر تربیت کے معاملے میں منظر صدیقی کی نگاہ کبھی غافل نہ
رہی۔ناممکن تھا کہ چھٹی والے دن ہانیہ کے ہاتھ کی کوئی ڈش کھانے کی میز پر
موجود نہ ہو۔منظر صدیقی کے دو بیٹے ملک کے مختلف شہروں میں تھے۔تیسرا ہی
ساتھ تھا جسکا رہائشی حصہ اوپری منزل تھی۔خود وہ نیچے بیوی اور بیٹی کے
ساتھ رہتے تھے۔ہانیہ کے کمرے کا دورہ بھی وہ اچانک کر لیا کرتے تھے۔اسے
اپنے ڈیڈی کے اچانک چھاپوں سے خاصی کوفت ہوتی تھی لیکن بحرحال ہروقت ترتیب
اور صفائی کے ساتھ کمرے کو رکھنا اسکی عادت کا حصہ بنتا چلا گیا۔ان چھاپوں
میں کبھی بھی انہوں نے اسے درشتگی سے نہ ٹوکا اور نہ بے عزتی کی لیکن اگر
بدنظمی کی کوئی معقول وجہ نہ پتہ چلی تو ٹوکا ضرور۔"ہانیہ بیٹا صفائی نصف
ایمان ہے ،تم اپنا نصف ایمان کیسے بے دردی سے لٹا رہی ہو"۔آوازمیں تحکم کی
جھلک ہوتی وہ اس وقت دوستانہ مزاج رکھنے والے باپ ہوتے،دوست نہ ہوتے۔ہانیہ
انکے چہرے سے جان جاتی کہ باپ کو اسکی حرکت ناراض کر چکی ہے۔تین چار منٹ ہی
وہ اسکے کمرے میں گزارتے اور پھر باہر نکل کر ضرور مسکراتے۔انکی بیٹی ہیرا
تھی وہ جانتے تھے۔لیکن ہیرا بھی اس وقت تک چمکتا ہے جب تک اسکی نگہداشت کی
جائے ورنہ دھول اسکو دھندلا ڈالتی ہے۔
عمر کا اٹھارواں برس ختم ہی ہونے والا تھا کہ ماں باپ نے اسکا نکاح ریان سے
کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ہانیہ سن کر اچھل ہے پڑیـ" اماں آپکا مطلب ہے میں
ریان سے شادی کر لوں ،اماں وہ بالکل ہی مولوی لگتا ہیـ" ۔اسنے دوسرا جملہ
اتنی بے چارگی سے کہا کہ سیما منظر کو بمشکل اپنی مسکراہٹ دبانی پڑی۔ریان
محود انکا پڑوسی ہی تھا۔سارا بچپن اسکا انکے بیٹوں کے ساتھ کھیلتے گزرا
تھا۔پچھلے برس ہی وہ سنگاپور سے انجینیئر نگ کے کچھ کورس کر کے لوٹا
تھا۔ستائیس سال کا داڑھی والا عمومی شکل وصورت کا جوان تھا ۔ہانیہ منظر نے
کم ازکم ریان جیسے انسان کے خواب نہ دیکھے تھے،فضائیہ کے گھبرو جوان اسے
اپنے ہیرو لگتے تھے۔" کہاں ریان اور کہاں ناجیہ کا منگیتر !"اسنے اپنی دوست
کے منگیتر کا موازنہ ریان سے کیا تو اسے ریان مزید برا لگا۔
منظر صدیقی نے ہانیہ کا انکار بہت ہی ٹھنڈے دل سے سنا۔تمہارا کیا خیال ہے
کب تک تمہارا ہیرو مل سکتا ہے؟باپ کے سوال پر وہ سٹپٹا گئی۔" اگر تمہیں
یقین ہو کہ آئندہ ایک آدھ برس میں تمہارا آیڈیل تمہیں مل جائے گا تو چلو ہم
ریان محمود کو چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن اگر تم کو یقین نہیں اور تم صرف گمان پر
فیصلہ کر رہی ہو تو میں تمہیں بطور تمہارا باپ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ایسا
نہ کرو ۔ریان محمود ایسا جوان ہے جسے ہر باپ اپنی بیٹی کے لئے چاہے
گا"۔ہانیہ منظر کو اپنے ڈیڈی کے آخری جملہ سے قطعاََ اختلاف تھا لیکن باقی
تقریر سے وہ سوچ میں پڑ چکی تھی۔ڈیڈی اور اماں کے فیصلے اسکے لئے ہمیشہ ہی
صحیح رہتے تھے اور اب وہ فیصلہ اسکے ہاتھوں میں دے کر اسے مشورہ دے رہے
تھے۔وہ فیصلہ کرنے کی قوت رکھتی تھی لیکن زندگی کو گمان کے حوالے کرنا اسنے
نہ سیکھا تھا۔
اور پھر دو ماہ بعد دسمبر کی ایک خنک شام وہ ریان محمود کی بنا دی گئی۔نکاح
سے رخصتی تک" اکلوتی" کہہ کر وسائل کو نہ لٹایا گیا۔" تین بار قبول ہے کہنے
پر کسی خرچہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔انکل ہم شادی بابرکت بناینگے ،ہاں ولیمہ
ضرور بارونق ہوگا"۔ریان محمود نے منظر صدیقی سے براہ راست بات کی تو وہ
مسکرا اٹھے۔"ہانیہ تم باپ کے فیصلے پر ہمیشہ فخر کروگی"۔ انہوں نے مطمئن
انداز میں ریان محمود اور اسکے ساتھ بیٹھے والد اور بھایؤں کو دیکھا جو
اسکی بات سے متفق نظر آرہے تھے۔
"ہانیہ والدین اولاد کو تخت دینے کی طاقت شاید رکھ لیں ،لیکن بخت دینے کی
ادنیٰ طاقت بھی ان کے پاس نہیں ہوتی اسلیئے تم کو بابرکت ابتدا دینے کی
خواہش میں ہم وہی طریقہ اپناینگے جو بتایا گیا ہے"۔اٹھارہ سال کہ عمر اور
یہ فلسفہ ! ! شوق اور جولانیاں!وسائل کی فراوانی!نور نظر!یہ سب وجوہات منظر
صدیقی اور سیما صدیقی سے اوجھل تو نہ تھیں لیکن اکلوتی بیٹی کی بابرکت
زندگی کا فارمولا کم سے کم خرچ کی شادی تھی۔
نکاح اور رخصتی میں ہفتہ بھر کا فرق تھا۔اس دوران ریان محمود ہانیہ سے
وقتاََ فوقتاََ گفتگو کر کے اسکے دل میں اپنا نام اتنی خوبی سے ثبت کر چکا
تھا کہ اب اسے کسی رنگین دعوت کا دکھ نہ رہا تھا۔شوق کی آنچ میں ناگواری کی
تپش نہ رہی تھی۔نکاح سے رخصتی کا وقفہ اسی مصلحت کے پیش نظر رکھا گیا تھا
تاکہ فریقین میں ایک دوسرے کے فیصلوں کے لیئے بہ خوشی گنجائش پیدا ہو
جائے،اور جب انکی اہم ترین ملاقات ہو تو دل میں کوئی خلش نہ ہو۔اسکی شادی
اسکے پورے خاندان میں اپنی نوعیت کی شادی تھی۔جس میں نہ کوئی عشائیہ مہندی
کے نام پر کیا گیا اور نہ کوئی دعوت طعام بارات کے دن کی گئی۔زعفران ملے
ٹھنڈے دودھ کو آبخوروں میں پیش کیا گیا۔جسکا دل چاہا اسنے پیا نہ پینا چاہا
اسکے لئے کوئی دوسرا انتخاب نہیں تھا۔سب نے منظر اور سیما کی اکلوتی بیٹی
کو ان کپڑوں میں دلہن بنے دیکھا جو برائڈل سوٹ کے نام پر نہ بنایا گیا تھا
بلکہ وہ میکسی نما سوٹ تھا جس کو وہ بہ آسانی آئندہ کئی بار تقریبات میں
پہن سکتی تھی۔نہ اسپر گراں ترین مینا کاریاں تھیں اور نہ منفرد انداز
،انفرادیت تھی تو وہ ماحول کی تھی۔ہانیہ منظر کی دوستیں کھلکھلاتے ہوئے اسے
کچھ سرگوشی کرتیں تو اسکے لب مسکرا اٹھتے ۔لگتا تھا جل پریوں کا گروہ ہے جو
کسی شہزادی کی تقریب میں موجود ہے۔سب ایک سے بڑھ کر ایک طر حدار اور شوخ۔یہ
سب وہ تھیں جو مخلوط محفلوں کی عادی تھیں اور اب یہاں محض خواتین کے مختص
حصے میں شریک تھیں ۔کسی کو یہ پسند نہ تھا لیکن شریک ہو کر انہیں اندازہ
ہوا کہ ایسا انتظام اتنا بھی برا نہیں جتنا انہوں نے سوچا تھا۔کئی دوستیں
ایسی تھیں جنہوں نے مرد اور خواتین کے لیئے جدا حصوں پر سکون محسوس کرتے
اپنے بالوں کو خوب آرائشی انداز دیئے۔انکی انہی سے ماحول میں ساز بج رہے
تھے ۔منظر اور سیما کے خاندان کے لئے خواتین و حضرات کا جداگانہ انتظام نیا
نہ تھا،انکے ہاں تقریبات اسی طرح ہوتی تھیں ۔یہ مختلف تھا تو ہانیہ منظر کی
دوستوں اور ریان محمود کے کچھ مہمانوں کے لئے ۔اس تقریب میں بہت سارے
مہمانوں کے لئے بہت ساری چیزیں کسی نہ کسی نوعیت سے بہت مختلف تھیں۔
اور پھر ہانیہ منظر ریان محمود کے سنگ رخصت کر دی گئی۔فلسفہ زندگی کی وہ
کتاب جسکے ابواب کے مختلف جملے سیما منظر اسے وقتاََ فوقتاََسناتی رہتی
تھیں وہ اب اس کے لیئے کھل چکی تھی۔پہلے اس کی ذمہ داری اٹھائی جا رہی تھی
اب وہ ذمہ داری اٹھانے کے مر حلے اور مرتبہ میں داخل ہو چکی تھی۔ماں باپ کی
وہ ہدایات جو کہیں لا شعور میں سوئی ہوئی تھیں ہڑ بڑا کر جا گ اٹھیں ۔جب
اسے اگلی صبح گہری نیند سے جگایا گیا وہ اٹھنا نہ چاہتی تھی،لیکن اٹھنا
تھا۔یہ اسکے لئے نیا دور تھا ،جسے ریان محمود کے معاملہ فہم انداز نے اسکے
لئے ممکن کر دیا اور پھر باب در باب کھلتے گئے ۔وہ ایک کے بعد دوسرے اور
دوسرے کے بعد تیسرے میں داخل ہوتی گئی۔کئی بار تحریردل پر اسکے آنسو بھی
ٹپکے تو کئی بار ہنسی اور مسکراہٹ سے ہر طرف پھول بھی کھلے نظر آئے۔کئی بار
زندگی ریان محمود کے داخلے پر کوفت بھی ہوئی تو اگلی بار پچھلی سوچ پر
ندامت بھی ہوئی۔پہلا سال اور پھر دوسرا سال ایسے ہی زندگی کے ساتھ ہنستے
روٹھتے ،الجھتے گزر گیا۔تیسرا سال شروع ہوا اور وہ ام حبیبہ بن گئی۔ریان
محمود ابو حبیبہ بن کرا سکو محبوب ہو گیا اور ریان محمود کو بھی وہ پہیلی
سے سہیلی لگنے لگی۔محبت وہ اس سے کرتا ہی تھا ،اب اسمیں احترام آچکا تھا۔وہ
اسکی اولاد کی ماں تھی۔ساری رعنائیاں جیسے اسکے وجود میں سمٹ آئی تھیں
۔زندگی حسین ہو چکی تھی۔"جنت شاید احساس کا نام ہے "وہ سوچتی اور پھر کہتی
تو ریان محمود ہنس پڑتا۔اسکا دل چاہتا وہ کہے" جنت ہمیشگی والی عافیت کا
نام ہے" لیکن ہانیہ کی جھلملا تی آنکھوں سے وہ سحر زدہ ہو جاتا۔اسکا دل
جذبوں سے مچل اٹھتا کتنی خوبصورت اور دلکش رات تھی،ہانیہ نے اس رات خوشبو
والی موم بتیاں اپنے کمرے میں جلایئں تھیں۔ریان محمود کو انجینئرنگ کے کورس
میں شاندار کامیابی ملی تھی۔اسکی کمپنی نے ایک بڑی انعامی رقم تحفتاََ دی
تھی۔کمپنی سے واپسی میں وہ تحائف سے لدا پھندا گھر لوٹا تھا۔ماں باپ سے مل
کر اوپری منزل اپنے رہائشی حصہ میں داخل ہوتے ہی اسے ایکدم خاموشی کا احساس
ہوا ۔ہانیہ اور حبیبہ کو آوازیں دیتاوہ اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ
نرم نرم سی پتیاں جیسے اس پر پھوارکی طرح گرنے لگیں۔نیم اندھیرے کمرے میں
موم بتیوں کے سائے لرز رہے تھے۔ بڑا ہی پرفسوں ماحول تھا، جذبات میں طوفان
اٹھا دینے والا ۔"ہانیہ !"وہ اب کے زور سے بولا تو ہنسی کی آواز کے ساتھ ہی
دو نرم ہتھیلیوں نے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔"میں یہ رہی" اسنے بس
ابھی یہ مدھر سرگوشی ہی سنی تھی کہ یکدم نیچے سے ہنگامے کی آوازیں آیئں
،ریان پلٹ کر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب لپکا۔ہانیہ کی کلائی میں پہنے گجروں
کی پتیاں ٹوٹ کر بکھرتی گیئں۔پتیوں کو روند تی وہ ریان کے پیچھے لپکی۔بس
منٹوں ہی میں منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ریان محمود کو ایسے دبوچا گیا تھا جیسے
گدھ کسی چھوٹے سے جاندار کو اپنے پنجوں میں سمیٹ لے۔سیاہ رنگ میں ملبوس وہ
گروہ جیسے بہرے اور گونگے اجسام تھے۔صرف اپنے ہدف پر توجہ مرکوز کر کے
انہوں نے ریان کے ہونٹوں پر اسی وقت ٹیپ چپکایا اور آنکھوں پر کپڑا باندھ
دیا۔
گھر والے ،بلکتی ماں ،سکتے میں کھڑی بیوی،ہاتھ جوڑتا باپ،بھوک سے روتی بچی
،سارا منظر کسی دل کو موم کر سکتا تھا پتھر کو نہیں اور وہ سب پتھر تھے ،دل
نہیں ۔دل ہوتے تو یقینا کچھ پسیج جاتے۔ ہانیہ سر تا پیر پھولوں میں لپٹی
ہوئی تھی۔پتیاں ٹوٹ کر ایسے بکھر رہی تھیں جیسے اسکی ناہموار سانسیں ،پورا
منظر محض پندرہ منٹ کا تھا لیکن اس قدر دہشت انگیزتھا کہ اسکو اپنی سانسیں
بند ہوتی لگ رہی تھیں ۔وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ریان ! اسکے ہونٹوں پر آخری
لفظ تھا لیکن وہ وہاں کہاں تھا،وہ کہاں تھا اور کیوں تھا یہ تو کوئی نہ
جانتا تھا کس جرم اور کس سزا میں اسے اٹھایا گیا تھا یہ کون بتانے والا
تھا۔
بوڑھے ماں باپ ہر لمحہ جینے اور مرنے کے درمیان معلق رہتے تھے۔لیکن پوری
کائنات میں رب کے سوا کوئی نہ تھا جو انکو سن رہا ہو۔"ریان محمود نے
دہشتگردوں کی سرپرستی کی ہے" بس یہ جملہ! محض یہ جملہ سناکر انہیں گدھوں کے
حملوں کا جواز بتایا گیا تھا۔انہیں تو یہ بھی علم نہ تھا کہ انہیں کس سے
انصاف اور مدد مانگنی چاہیئے ۔رحم سے جڑے تمام الفاظ دنیا کے منظر سے اس
خاندان کے لیئے یکسر غائب ہو چکے تھے۔ظلم اور جبر کی سرخ آندھیاں جیسے ہر
طرف سے بگولے اٹھارہی تھیں ۔ریان محمود کا کچھ پتہ نہ تھا ۔"ملک کے خلاف
ریان محمود نے دہشتگردوں کو تکنیکی مدد فراہم کی ہے"۔اس سے پوچھ گچھ کی جار
ہی ہے۔پھر ایک خبر دی گئی۔یہ مدد کب اور کہاں دی گئی ،نہ کوئی ثبوت تھا اور
نہ ظالموں کو ظلم کے لیئے ثبوت درکارہوتے ہیں ۔وہ کسی کو کوئی بھی بہانہ
بنا کر دبوچ سکتے ہیں ۔
ہانیہ سن ذہن سے اکثر سوچتی کہ کیا وہ کبھی ریان محمود کو دوبارہ دیکھ سکے
گی۔چلتا پھرتا ہنستا مسکراتا۔اسے اپنے باپ کا جملہ یاد آتا تو وہ کرب سے
آنکھیں موند لیتی "ریان محمود ایسا جوان ہے جسے ہر باپ اپنی بیٹی کے لیئے
چاہے گا"۔ننھی حبیبہ غم اور دکھ کی عمر میں فی الحال داخل نہ ہوئی تھی۔ورنہ
وہ دیکھتی کہ وہ گھر جہاں پھول اورخوشبو تھی،جہاں ریان محمود اور اسکا باپ
رہتا تھا،جو اکثر آن لائن انجینئرنگ کو فیض عام کی طرح ہر خواہشمند کو
منتقل کرتا ،بس اس سے یہ کہتا تھا "اس وطن سے وفا کرو کہ یہ مقد س ہے،مقدس
کتاب کی مانند" ۔لوگ اسکے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو تے جا رہے تھے۔باشعور
ذہن ،روشن دل ۔کیا وہ دہشت گرد تھے؟یا ریان محمود دہشت گردوں کی سر پرستی
کر رہا تھا۔
منظر صدیقی اکلوتی بیٹی کو اجڑی حالت میں دیکھتے تو پچھتاوے کی لہر کبھی ان
کے اندر دوڑ جاتی۔"میں نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا!!"وہ بے بسی کے عالم
میں قسمت کی سیاہی پر کراہتے لیکن پھر سیما آگے بڑھتیں۔"منظر یہ امتحان گاہ
ہے،رب سے اسکی رحمت اور عافیت مانگو۔جس نے حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں
زندہ رکھا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"۔منظر صدیقی کے دل پر جیسے کوئی
پھایا رکھ دیتا۔وہ منظر صدیقی جو ہمیشہ حوصلوں کا پہاڑ تھے وہ اولاد کی
تکلیف میں بھر بھرے ہونے لگتے تو وہ سیما جو ہر لمحہ منظر صدیقی کا کندھا
چاہتی تھیں آگے بڑھ آتیں۔
وہ ہانیہ جو طبی لحاظ سے اکیس برس کی تھی۔ریان محمود کے جاتے ہی جیسے کئی
برس آگے کی ذہنی سطح پر چلی گئی شعور و اگہی کے کئی دور اس پر یکدم آتے چلے
گئے۔فلسفے اور گھتیاں اس پر آتی گئیں۔ریان محمود کی جدائی نے اسکی نوخیز
عمر کو سنگلاخ تجربہ گاہ میں دھکیل دیا تھا۔جہاں وہ آبلوں میں ڈھل جاتی اگر
اسکی مادی ضروریات کی فراہمی منقطع ہو جاتی۔مگر رب کی رحمت تھی کہ جسم وجان
کی ضروریات کے لئے اسکو تکالیف نہ سہنی پڑیں۔دل کی اس وحشت اور تکلیف کا
کیا مداوا ہوتا جو اسکے وجود سے لپٹا ہر دم اسے بیقرار رکھتا۔ریان کا دکھ
ریان سے جڑے رشتوں کو کھا رہا تھا جسکا جتنا قریبی وہ اتنا ہی زخمی۔حبیبہ
نہ ہوتی تو ہانیہ شاید لاش ہی بن جاتی لیکن اسکی گہری سیاہ چمکدار آنکھیں
بالکل اپنے باپ کی طرح ہانیہ کو دیکھتیں ،کبھی شوخی اور کبھی گہری سنجیدگی
سے تکتی ۔لگتا تھا رب نے ریان کی تڑپتی ماں،بے چین باپ اور بے قرار بیوی کی
آزمائش کو دھیما کرنے کے لئے حبیبہ کو انکے درمیان رکھ دیا تھا۔
"مجھے تو خواب میں بھی نظر نہیں آتا میرا بچہ!"ریان کی والدہ کی لرزتی آواز
کو چاہے پوتی سمجھتی ہو یا نہیں ننھے ننھے قدم اٹھاتی دادی تک جاتی اور گود
میں بیٹھ جاتی۔آدھی رات کو نیند سے اچانک اٹھ کر ٹہلتی ماں کے چار قدم ہی
اٹھتے اور ننھی حبیبہ کی کسمساہیں شروع ہوجاتیں۔آنسو آنکھ کے کنارے پر ٹکا
ہی ہوتا اور حبیبہ ماں کی توجہ پانے کے لئے آوازیں نکالنے لگتی۔" یا رب
زندگی کیاصرف میرے لئے ہی قید خانہ ہے ؟"ہانیہ کی بہ آواز کراہیں حبیبہ کو
گلے لگاتے کائنات کی وسعتوں میں پھیلتیں تو کہیں سے جواب بہ ظاہر نظر نہیں
آتا۔یہ اﷲ کی رحمت تھی کہ آزمائشوں نے اسے رب سے قریب کر دیا تھا۔کون کہہ
سکتا تھا اوپر سے سنجیدگی اور بردبادی کی تہہ تلے سہمتا اور لرزتا دل ہے۔یہ
وہ سہاگن ہے جو نہ جانے سہاگن ہے بھی کہ نہیں اور اسکا سہاگ کس عالم میں کن
کیفیتوں میں ہے ۔
ظلم ،جبر اور کفر کے غلبہ کے اس دور میں توحید اور رحمان کے رجحان رکھنے
والوں کو دنیا میں بنائے جہنم میں دھکیلا جارہا ہے۔ایک آگ نمرود نے بھڑکائی
تھی،ابراہیم کا توڑ کرنے کے لیئے ،ایک چھوڑ کئی طرح کی آتشی گھاٹیاں زمانہ
کے نمرودوں نے قائم کر دی ہیں اسمیں ریان محمود جیسے تو حید پرست پروانوں
کی مانند گرا رہے ہیں ۔جل رہے ہیں،بھسم ہورہے ہیں ۔ماؤں کے جگر گوشے ہیں جن
کو آلاؤمیں ڈالا جارہا ہے۔ظلم کی تپتی ریت پر انکی چربی پگھل رہی ہے اور
پھر بھی وہ احداِِ احداِِ پکار رہے ہیں ۔ریان محمود بھی عبدا لاحد تھا ۔اس
نے نہ کسی کا حق مارا ،نہ کسی پر ظلم کیا پھر بھی الزام اسکا مقدم ٹہرے،جو
اسکا ہنرتھا۔اور اسکا کمال تھا وہی اسکا جرم ٹہرا ۔اسنے بس مملکت خداد کے
ساتھ وفا ہی تو کی تھی۔اپنی زندگی کا کنارہ رب کے نام ہی تو کیا تھا۔بس یہ
ہی جرم تھا جو اسے دنیا میں روندا جارہا تھا۔وہ اس لڑی کا ایک چمکتا موتی
تھا جو دین اور وطن کے آبرو مندوں اور وفا داروں کی ہے،جسکی چمک اور ہیبت
ید ہیضااور عصائے موسی ٰ کی سی ہے۔
ہانیہ ہر رات اپنی ذات کے ٹکروں کو جوڑکراگلے دن کے لئے اپنے آپ کو تیار
کرتی تھی۔نیم اندھیرے کمرے میں کھڑکی سے آتی مدھم روشنی سے بنتے سائے لرزتے
سے لگتے ، ایسے کپکپاتے ہوئے اسے محسوس ہوتے جیسے اسکا دل۔وہ بیس نومبر کی
رات تھی ۔تاریخ میں لمحوں قبل ہی انیس سے بیس ہوئی تھی۔پچھلے برس اسنے ایسے
ہی لمحات میں اچانک سے کمرے کو روشن کر کے ریان محمود کو "بیس نومبر مبارک
!!"کہا تھا۔چند منٹ قبل نیند میں گیا ریان محمود ہر بڑا کر اٹھاتھا،آج اسنے
آن لائن کلاس بھی نہ لی تھی،وہ سونا چاہتا تھا لیکن سامنے اسکی بیوی کے
چہرے پر ڈھیر شوخیاں رقصاں تھیں۔وہ شاید برا مان ہی جاتا ،کوئی ناگوار جملہ
کہ ہی جاتا لیکن ہانیہ کے جملے نے اسکو بستر پر لیٹنے سے اٹھا دیا "سرتاج
یہ رہی آپکی یو ایس بی،اسے ہی ڈھونڈ رہے تھے نا!" اف یہ تو وہی ہے ہانیہ
ریان محمود کی گمشدہ یو ایس بی جو کئی دنوں سے نہیں مل رہی تھی اور جس میں
اسکی ضرورت کا اہم ترین مواد تھا وہ رات کے اس پہر ہانیہ کے ہتھیلی پر دھرے
تھی۔
اور بس اسکے بعد نیند جیسے کہیں تحلیل ہوگئی اور رات گنگنانے لگی۔حالانکہ
ریان محمود سالگرہ منانے یا یاد رکھنے والا انسان نہ تھا لیکن پچھلے برس کی
بیس نومبر محبتوں کی کہانی اور خوشبو کا فسانہ تھا،اور اب ! ہانیہ کی بہ
آواز سسکی یادوں سے الجھتی ہوئی ابھری تو اسے لگا جیسے اسے کسی نے پکارا
ہو۔ہانیہ ! اسنے اندھیرے میں گھورا ،سائے اس لمحے غائب ہو چکے تھے۔چاند
بادلوں کی اووٹ سے نکل کر روشن چمک رہا تھا۔چاند نی بستر پر روشن تھی۔"لیکن
یہ آواز!وہ سمجھ نہ پارہی تھی،یہ آواز تو ریان محمود کی ہے ،لیکن وہ کہاں
یہاں!!کیا میرا تخیل !!کیا میرا وہم!!وہ اٹھ کر بیٹھ گئی"۔ایک ہیولا سا
ابھرا ،ہاں و ہ ہوبہو ریان محمود کا سا تھا۔وہ ساکت رہ گئی،بس لمحہ بھر کو
ہی ابھرا پھر معدوم ہو گیا۔"بے شک انگارے بچھائے جا چکے ہیں،بے شک انگارہ
خندقیں کھو دی جا چکی تھیں ،بے شک دین پر چلنا اجنبی اور اذیت بنا دیا گیا
ہے۔بیشک دجال کی آمد آمد ہے،سفاکیت پرت در پرت کھلتی جا رہی ہے،لیکن میری
جان میری ہانیہ جنت میری اور میرے پیاروں کی منتظر ہے۔دیکھو یہ دیکھو!"اسنے
آواز کے رخ پر آنکھیں خوب کھول کر دیکھنا چاہا،کچھ نہ تھا بس دودھیا سی
لطیف روشنی اور پھر آواز خاموش ہو گئی۔روشنی بھی غائب ہو گئی!وہ جیسے ایک
پرسکون اور پرکیف کیفیت سے زمین پر واپس آگئی۔جہاں نہ ریان تھا نہ اسکی
آواز۔جہاں نہ جنت تھی اور نہ ہمیشگی۔جہاں کی زندگی بھی عارضی،عیش بھی
عارضی۔فرعون بھی فنا ہو جانے والے ،غرور بھی سمٹ جانے والے۔عاد اور ثمود
بھی تباہ ہو جانے والے۔جاہ وجلال ،قہر اور اکرام بھی گم ہو جانے والے۔ہانیہ
نے برستی آنکھوں سے روشن آسمان کو دیکھا۔اسکے کانوں میں ریان محمود کی آواز
پوری قوت سے گونجی "جنت میری اور میرے پیاروں کی منتظر ہے " اسے لگا آج کے
بعد کسی شب و ہجر کا کوئی تارہ آسمان پر نہ ہوگا یہ یقین اسکے دل میں
گہرایؤں تک سکینت اتار گیا۔ |