اوضیفه بھائی اپ بھئی کھیلؤ ں نہ اپ اپنی
آپی کو تو روک لو پھر ہم مل کر کھیلتۓ ہے نہیں با ۓ میں جا رہئی هو میرے
بابا مجھہ یاد کر رہے ہونگے اوکے با ۓ یہ کہہ کر حریم گھر کی طرف چلنے لگی
اسے بہت غصه آرہا تھا اک بار پھر اوضیفه کی وجہ سے اسے اپنا کھیل
ادھورچھوڑنا پڑا تھا یہ کئی بار هو چکا تھا گھر میں کوئی فنكشن ہوتا یہ
کوئی اور تقریب اوضیفه کئی موجودگی اس کو ڈسٹپ کرتی تھی اور وہاں سے ہمیشہ
چلی جاتی تھی جہاں اوضیفه ہؤتا تھا جاتا دیکھ کر یک دم بول پڑا بات سنو
حریم اس،کی آواز پر حیران تھی کیونکہ یہ دونوں اک دوسرے سے بات نہیں کرتے
تھے حریم اوضیفه کو بہت ناپسند کرتی تھی اک حیرانگی سے اس کے چہرۓ کی طرف
دیکھنے لگی .........
کیاہے لحجہ میں بہت تلخی تھی جیسے اس کے کانوں میں اوضیفه کی نہیں کسی توپ
کی آواز ائی هو بولو کیا ......
وہ یہ ........ دھمیۓ لہجے سے تمہارے لیے....... پن کو اس کے سامنے کرتے
هوے
کس لے لے .......جسے ابھی اس کو گولی مار دےگی
وہ یہ بہت اچھا لگا مجھہ تو سوچا تمیں دے دو تم بہت پڑ تھی هو .......،.کیا
میں نے کہا تھا مجھہ اس کی ضرورت ہے ......
نہیں تم نے تو نہیں کہا تھا .......
تو پھر کس خوشی میں .....
حریم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا منہ ہی توڑ دیں
5 منٹ گزر چکے تھے حریم پن کو دیکھ رہی تھی جو اوضیفہ کے ہاتھ میں تھا
بات سنو میرے پاس بہت ہے اور مجھہ یہ اچھا بھی نہیں لگا یہ تم مریم کو دے
دو وہ خوش هو جا ے گی مریم اوضیفہ کی چھوٹی بہن تھی ....یہ بات اوزضیفہ کو
ناگوار گزری لیکن خوش رہنا بہتر سمجھا ..،
حریم غصے میں منہ میں ہی بڑ بڑا رہی تھی پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو
پاگل کہی کا ...اور گھر پونچھ کر ابو کے پاس بیٹھ گی ابو اپ کے لیے چاۓ بنا
دوں نہیں بیٹا میں نے چاۓ پی لی ہے دیکھو اس لڑکی کو جب کام هوتا ہے تب
نخرے کرتی ہے اور اب .........
آرے میری بیٹی کو کچھ بھی نہیں بولو یہ میری پیاری بیٹی ہے حریم با با اپ
امی کو ٹھیک سے بتا دیں یہ بات ......ہا ہا ہا ہا اچھا بیٹا ٹھیک ہے آپی
مجھہ ریاضی کے سوال سمجھا دیں حریم سارا دن تم کھیلتی هو رات میں مجھہ تنگ
کرتی هو آپی پلیز .....بھت معصؤمیت سے اچھا اؤ .. سوال سمجھ کر حریم سو گی
اور کچھ دیر بعد سب گھر والے بھی سو گے .............
اٹھو حریم جلدی اٹھو بہت دیر هو گی ہے یہ آواز اسکی امی کی تھی اچھا امی
..................ناشتہ کیا اور حسب معمول اسکول کے لیے روانہ ہوگی بابا
بھی اس کو چھوڑ کر ڈیوٹی پر چلے گے ......،. اسکول سے واپسی پر اوضیفہ اس
ہی جگہ بیٹھا دیکھ جہاں وہ ہمیشہ اس کے انے کا انتظار کرتا تھا ...
حریم غصے سے لال پیلی ہوتی اس کو اگنور کر تی هو گھر کی طرف موڑ گی میں اس
انسان کا کیا کرو یہ کیوں میرے پیچھے پڑا ہے یہ کیا چاہتا ہے سوال حریم
اپنے اپ سے کر رہی تھی اسلام وعلیکم ..... کیا بات ہے جناب مونڈ تو ٹھیک ہے
اتنی خاموشی آپی کے پوچنے پر ہاں ٹھیک ہے بس سر میں درد ہے اچھا تم سو جاؤ
تمہار ا بیگ میں رکھ دیتی هو .......آپی نے بیگ اس روم میں رکھ دیا جس روم
کی گھڑکی اوضیفه کے گھر میں کھولتی تھی اور ہمیشہ کھولی ہی رہتی تھی
........
آپی میرا بیگ کہاں ہے میں ہوم ورک کرلو ...کرلینا لیکن ابھی کچھ کھالو نہیں
آپی بھوک نہیں ہے مجھہ حریم بیٹا کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے نہ امی اپ
پریشان مت هوۓ میں ٹھیک ہوں حریم دل میں سوچ رہی تھی کہ وہ اوزضیفہ کو کیسے
سمجھاۓ وہ اس کو تنک نہ کرے کیا یہ سب بھائی کو بتا دو نہیں نہیں زھن کو
جھٹک دیا ..........بیگ کھولا کوپی لی جیومیٹری بوکس کھولا تو نظر خوبصورت
پنوں پر پڑی ارۓ یہ کہاں سے اۓ یہ میرے تو نہیں ہے امی اور آپی تو پھر کس
کے ہے حریم پتہ نہیں امی شاید میری دوست کے ہونگے صبح دے دونگی ...... پن
کے ساتھ اک خط بھی رکھا دیکھا جس پر شاعری لکھی تھی ساتھ لکھا تھا اللّه
کرے کوئی حریم کو مجھہ سے جدا نہ کرے وہ دیکھ کر حریم سمجھ گی یہ حرکت کس
کی ......آج تو یہ گیا چھوڑو گی نہیں اس کو یہ اس کا اخری دن ہے .....،
حریم کیا بول رہی هو یہ کس کا اخری دن ہے امی کچھ نہیں ٹیسٹ کو آخری دن ہے
.........
حریم بہت خاموش تھی سارا دن مونڈ بہت خراب تھا آرام سے اپنے بیڈ پر لیٹ گی
سب کو لگا سو گی ہے لیکن وہ سب گھر والوں کے سونے کا انتظار کر رہی تھی
کیونکہ اس کو آج اوضیفہ نام کا چھیپٹر کلوس کرنا
تھا........................جاری ہے |