”کافی “سات بیجوں سے پوری دنیا تک کافی کی دریافت کے ساتھ بہت سی دلچسپ کہانیاں منسلک ہیں

یہ کہانی ہے خالدی نامی چرواہے کی ‘جو اسوقت انتہائی حیران نظر آیا جب اسکی بکریاں آس پاس لگی جھاڑیوں کے کچھ بیج کھانے کے بعد اُچھلنے کودنے لگیں ۔ اسی شش و پنچ میں اس نے بھی وہ بیج کھائے اور اسکی اپنی کیفیت بھی یہی ہونے لگی ۔یہ کافی کے بیج تھے جس میں سرور انگیز کیفیات پائی جاتی ہیں‘ اس واقعے کو ہم کافی کی دریافت قرار دے سکتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق 15 ویں صدی میں بابا بودن نامی ایک فقیر عربستان کے ملک یمن سے کافی کے 7بیج کمر بند میں چھپا کر ہندوستان کے شہر میسور پہنچے جہاں سے یہ ساری دنیا میں پھیل گئے۔

ایک دو سری روایت کے مطابق یہ داستان ایتھیوپیا کے پہاڑی علاقوں سے شروع ہوتی ہے جہاں ”کافی عرابیکا “ نامی کافی کے جنگلی پودے پائے جاتے ہیں ۔ آج دنیابھر میں کافی کی کل پیداوار کے دو تہائی حصے ّ اسی قسم کے پودے سے حاصل ہوتے ہیں ۔لوگوں نے کافی کے بیجوں سے مشروب بنانا کب شروع کیا‘ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے ۔

نیدرلینڈز کے چند تاجروں نے 1616ءمیں کافی کے بیج حاصل کئے‘ پھرآج کے سری لنکا اور اور اسکے وقت کے جاوا میںاسکی کاشت شروع کی گئی۔1706ءمیں نیدرلینڈز کے تاجروں نے کافی کا ایک پودا جاوا سے نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم تک پہنچاکر اسکا باغ لگایا۔ یہاں سے چند پنیریوں کو جنوبی اور وسطیٰ امریکہ کے نیدرلینڈز کے زیر حکومت علاقوں تک پہنچایا گیا۔ 1741ءمیں ایمسٹرڈیم کے حاکم نے فرانس کے بادشاہ لوئیس (14)کو کافی کا ایک پودا تحفتاً دیا۔ بادشاہ کے حکم پر اِسے پیرس کے شاہی باغ کے ”گرین ہاوس “میں لگایا گیا۔

فرانسیسی تاجروں نے اسے تجارت کا عمدہ ذریعہ جانتے ہوئے کافی کے بیج اور پودے خرید ے اور یونین نامی جزیرے پر کافی کے باغات لگانے کی ناکام کوشش کی کیونکہ ان میں سے صرف ایک ہی پودا بچا۔ اس پودے سے 15000بیج حاصل ہوئے جن سے 1720ءمیں ایک باغ لگایا گیا۔ اس وقت کافی کے پودوں کو اتنا بیش قیمت سمجھا جاتا تھا کہ جو شخص ایک بھی پوداکاٹتا‘وہ سزائے موت کا مستحق ٹہرتا۔

فرانسیسی بحریہ کے ایک آفیسر گبریئیل میتھیو نے کافی کے ایک پودے کو مارتینیق پہنچا کر اسے وہاں اپنی زمین پر لگانے کا عزم کیا ۔ مئی 1732ءمیں وہ پیرس میں موجود پودے کی ایک پنیری لے کر مارتینیق روانہ ہوا۔گبریئیل نے دوران سفر پودے کو محفوظ رکھنے کیلئے اسے شیشے کے صندوق میں رکھا۔بے شمار مشکلات جھیلنے کے بعد وہ پودا صحیح سلامت مرتینیق پہنچ ہی گیا۔ وہاں کا موسم کافی کی کاشت کےلئے نہایت اچھا تھا لہٰذا اس پودے سے بے شمار بیج اور پنیریاںحاصل کی گئیں ۔ ایک مصنف کے مطابق ”اس ایک ہی پودے کے بیج تقریباً تمام امریکی ممالک میں بھیجے گئے سوائے برازیل‘فرنچ گوئیانا اور سرینام کے۔“ ایمسٹرڈیم والے پودے کی پنیری سے اُگائے ہوئے کئی پودے سرینام میں موجود تھے‘ البتہ اُن پر متواتر پہرا تھا تاکہ اسے چرایا نہ جاسکے۔ 1722ءمیں ایک مجرم سزا سے بچنے کیلئے فرنچ گوئیانا سے سرینام بھاگ گیا‘ وہاں اس نے کافی کے چند بیج چوری کئے۔ اس واقعے کی خبر سن کر فرنچ گوئیانا کی حکومت نے اسے ان بیجوں کے بدلے میں بری کرنے کی پیشکش کی۔ مجرم اس شرط کو مان گیا اور بیجوں سمیت فرنچ گوئیانا لوٹ آیا۔اسوقت تک برازیل کے لوگ کافی کے بیج حاصل کرنے میں ناکام تھے ‘پھر سرینام اور فرنچ گوئیانا کی حکومتوں کے درمیان سرحد کے بارے میں جھگڑا پھوٹ پڑا۔ اس پر برازیل کی حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ معاملہ طے کرنے کےلئے ایک درمیانی کو فرنچ گوئیانا بھیجے ‘لہٰذا میلوپلئےٹا نامی ایک فوجی آفیسر جھگڑا نمٹانے اور کافی کے بیج لانے کی غرض سے وہاں روانہ ہوا ‘میلوپلئےٹا دونوں ملکوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب رہا۔ اظہار تشکر کے طور پر گورنر فرنچ گوئیانا نے میلوپلئےٹاکےلئے ضیافت کا اہتمام کیا۔ گورنر کی بیوی نے کافی کے بیج اور پنیری ایک گلدستے میں چھپاکر اسے تحفتاً پیش کئے ‘جسکے ذریعے 1772ءمیں کافی کی کاشت برازیل میں شروع ہوئی ۔آج برازیل میں کافی کی پیداوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔اس تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں پائے جانے والے کافی کے تمام پودے 1760ءمیں ایمسٹرڈیم لائے جانے والے پودے ہی سے لگائے گئے ہیں۔ 1840 ءمیں پہلی بار ہندوستان کے جنوبی علاقے کرناٹک میں کافی کی زراعت اور پیداوار بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔جلد ہی جنوبی ہند کے دوسرے علاقے تامل ناڈو اور کیرالہ بھی اس میں شامل ہوگئے ‘ 19 ویں صدی میں انگریزوں نے کافی کی اہمیت کے پیش نظر اسکی زراعت میں توسیع کی اور جلد ہی کافی تجارت کا ایک انتہائی اعلیٰ وسیلہ بن گئی ۔

1940 ءمیں ہندوستان میں پہلا کافی ہاؤس وجود میں آیا اور اس مےں تیزی سے اضافہ ہوا ‘پھر 10سال کے بعد یعنی 1950 ءمیں سرکاری پالیسی کے تحت کافی ہاؤس بند ہوگئے اور کام کرنے والے بیکار۔ کچھ عرصے بعد اے کے گوپالن نے تحریک چلاتے ہوئے کافی ہاؤس چلانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ‘یوں ایک بار پھر کافی ہاؤس زندہ ہو گئے۔17 ویں اور 18ویں صدی کے کافی خانے آج کے کافی خانوں سے بہت مختلف تھے۔ یورپ میں انہیں پینی یونیورسٹی کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ یہ ادبی اجتماع اور روشن خیال لوگوں کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔

27 اکتوبر 1957 ءکوہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں پہلے کافی ہاؤس کا افتتاح ہوا جو لوگوں کے میل جول کا محبوب ٹھکانہ بن گیا۔ یہ کافی ہاؤس آج بھی دہلی میں لوگوں کی ملاقات کا مرکز ہے‘ آج ساری دنیا میں جدید طرز کے کافی خانے موجود ہیں ۔

کافی کی مقبولیت کی انتہاءیہ ہے کہ تاریخ میں کئی بار اس کے استعمال پر پابندی کی ناکام کوششیں کی گئیں جیسے کہ1511ءمیں مکہ گورنر خیر بیگ نے عربستان میں کافی پر پابندی لگانے کی ناکام کوشش کی ۔ 1674ءمیں لندن کی خواتین نے کافی خانوں کی مقبولیت کے خلاف آواز اٹھائی کہ یہ کافی خانے مردوں کو لمبے وقت کیلئے گھر سے باہر رکھتے ہیں۔ 1675ءمیں کرسمس سے دو دن پہلے شاہ چارلس نے انگلینڈ میں کافی کے استعمال پر پابندی لگا دی لیکن دو ہفتے کی قلیل مدت میں اسے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

کافی کے چند بیج مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج ساری دنیا میں معروف اور مقبول ہیںیہاں تک کہ چائے کی تہذیب کے مرکز جاپان کے لوگ بھی آج کافی کے دلدادہ ہیں۔آج دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں ڈھائی کروڑ باغات میں کافی کی کاشت کی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دُنیابھر میں کافی کے51 ارب پودے موجود ہیںاور ہر روز کافی کی 2 ارب 86 کروڑ پیالیاں پی جاتی ہیں۔
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.