جذبے کسی کے بس میں نہیں - قسط 10

نایاب :یہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔
آفتاب کہاں جانا چاہتی ہو۔
نایاب:آپ کو کیا ہو ا ہے ،آپ اس لہجے میں کیوں بات کر رہے ہیں مجھ سے۔
آفتاب :نے کھا جانے والی نظروں سے نایاب کی طرف دیکھا۔
نایاب:گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔نہ جانے آفتاب کو کیا ہوا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔کہیں فاخر نے تو کچھ نہیں کہہ دیا آفتاب کو۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
آفتاب: نے گھر کا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔
نایاب:اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئی۔
حریم سو گئی تھی ۔ہادی فورا بولا ماما شادی ہو گئی۔
نایاب ۔نے دھیرے سے حریم کو بستر پر ڈالا۔ہادی کو اپنا موباہل دیا ،اور کہا بیٹا آپ یہاں آرام سے کھیلو میں ابھی آتی ہوں ۔ہادی جب تک میں اندر نہ آوں ۔آپ باہر نہیں آناْ۔ہادی نے موباہل پر فورا گیم لگا لی ۔
ہادی :او کے ماما۔
نایاب: نے آفتاب کو سٹڈی میں بیٹھے دیکھا ۔وہ کمرے میں داخل ہوئی۔دھیرے سے بولی آفتاب کیا ہوا ،آپ کو۔
آفتاب :نے غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔تم نہیں جانتی۔
نایاب:نہیں جانتی۔نایاب نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تو وہ غصے سے اُٹھ کھڑا ہوا،اپنا ناپاک ہاتھ مجھے نہ لگاو۔
نایاب:کو اس کی بات پر بہت غصہ آیا۔کیا ،کیا کہا آپ نے؟
آفتاب:تم بھی سوچتی ہو گی کیسا بے وقوف ہوں ،اس دن ہوسپٹل میں جب میں نے سمن سے پوچھا کہ تم باہر کیا کر رہی ہو تو اسے کہنا چاہیے تھا نا کہ تمہاری بیوی کو اس کے عاشق سے ملنا تھا اس لیے میں باہر کھڑی ہوں۔
نایاب:آپ ہوش میں ہیں۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
آفتاب:نےاسے دھکا دے کر پیچھے کیا۔ہوش ہوش ،میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔تمہارا کردار۔
نایاب:آپ کے منہ میں جو آرہا ہے کہتے جا رہے ہیں۔ کیا ہو اہے؟ میرے کردار کو ،کس نے، آپ سے کیا کہا ہے۔
آفتاب:میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تم دونوں کو ،کیا کہہ رہا تھا۔ وہ تم کہو تو وہ شادی نہیں کرئے گا۔ہاں کہہ دو اس سے شادی نہ کرئے چلی جاو اس کے پاس۔
نایاب: میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آفتاب ،آپ اِتنی گھٹیا باتیں بھی کر سکتے ہیں۔اس سے اچھا تھا کہ میں فاخر کو ہی چن لیتی ۔شادی کے اِتنے سالوں کے بعد بھی آپ مجھے نہیں جانتے۔
آفتاب:تم گھٹیا حرکتیں کرو اور میں بات بھی نہ کروں ۔اِتنا بے غیرت نہیں۔کیا کہا ہے تم نے فاخر کو چن لیتی ،جاو چن لو اُسے۔میری طرح کسی اور کے جذبات سے نہ کھیلوں تم دونوں۔ میں بلاتا ہو ں اُسے یہاں۔ تمہیں لے جائے۔
آفتاب:اپنا فون نکالتے ہوئے۔
نایاب:میں نے آپ سے شادی کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے ۔
آفتاب ۔اچھا غلطی سدھار لو۔چیخ کر آفتاب نے کہا جاو۔۔۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔
نایاب:آفتاب
آفتاب :میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔دفع ہو جاو میری زندگی سے۔
فاخر :کون کون
آفتاب :میں آفتاب ،لے جاو اپنی محبوبہ کو یہاں سے چھوڑ دیا ہے میں نے اُسے۔کہہ کر آفتاب نے فون بند کر دیا۔
نایاب:جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہ گئی ۔اس کو اپنے جسم سے روح نکلنےکا احساس ہو رہا تھا،اسے جیسے کسی نے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دیا ہو۔
آفتاب: تم اس گھر سے جو چاہو لے کر جا سکتی ہو ،سوائے میرے بچوں کے۔وہ کہہ کر غصے سے باہر نکل گیا۔
نایاب: بلکل خاموش تھی۔اسے اپنی سماعت میں آفتاب کی آواز ہتھوڑے کی طرح محسوس ہوئی ،جو اس کے اعصاب کوتوڑتی ہوئی نکل گئی ۔
فاخر :امی میں ایک فون کر کے آتا ہوں۔گاڑی بلکل ہوٹل کے باہر رُکی تھی۔فاخر نے آفتاب کو فون ملایا۔فون کسی نے نہیں اُٹھایا۔فاخر نے گاڑیوں کے پیچھے سے دھیرے دھیرے نکلنا شروع کیا اور ٹیکسی لی ،آفتاب کے گھر کا راستہ ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھانے لگا۔
فاخر :نے دستک دی ۔آفتاب نے دروازہ کھولا۔
آفتاب : کو اسے دیکھ کر غصہ آیا لیکن اس نے اُسے کچھ نہیں کہا۔
فاخر :نایاب کہاں ہے؟
آفتاب :اس کمرے میں ،لے جاو اسے یہاں سے۔طلاق دے دی ہے میں نے اُسے۔
فاخر :کمرے میں داخل ہوا،نایاب کو دیکھ کر چلایا۔یہ نہیں ہو سکتا۔نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔
آفتاب:کمرے میں داخل ہوا،نایاب اپنے ہاتھ کی کلائی کی نس کا ٹ چکی تھی ۔اس کا پورا لباس خون سے بھیگا ہوا تھا۔
فاخر :چلایا،یہ آپ نے کیا کیا؟ میری محبت ،میری زندگی ،وہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا ۔
آفتاب: نے فورا ایمبولنس کو فون کیا ،احمر کو بھی فون کیا۔اُسے ایمرجینسی ہے فوراً میرے گھر آو ۔اتنا ہی بولا۔فون بند کر دیا۔
فاخر :نے غصے سے کہا،اس کو چنا تھا تم نے؟ مجھے چھوڑ کر ،اس کو۔
آفتاب :نے فاخر کی بات سنی تو اسے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہو ا محسوس ہوا۔تم کیا کہہ رہے ہو۔تم چھوٹ بول رہے ہو نا،بولو
فاخر:چھوٹ نہیں ہے یہ ،کاش یہ مجھ سے پیار کرتی ،مگر اس نے کبھی مجھ سے پیار نہیں کیا۔
جس دن آپ کی اور اس کی شادی تھی اس دن بھی، میں نے اس سے کہا تھا کہ میرے ساتھ چلے ۔میں کچھ بھی کر سکتا ہوں اس کے لیے، مگر اس نے مجھے نہیں چنا۔وہ نایاب کا ہاتھ پکڑ کر چوم رہا تھا ،تم نے مجھے کیوں نہیں چنا۔وہ پاگلوں کی طرح رو رہا تھا۔نایاب کا بہت ذیادہ خون بہہ چکا تھا۔
آفتاب:نے دھکا دے کر فاخر کو نایاب سے دور کیا۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ جس بات کو بنیاد بنا کر اس نے نایاب کو طلاق دی تھی۔ وہ حقیقت تھی بھی یا نہیں۔اگر سچ میں نایاب بےقصور ہوئی تو؟اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرئے۔میرے گھر میں یہ گندی حرکتیں نہ کرو۔کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
احمراور ماہم نے دروازے پر دستک دی۔
احمر :کیا ہو ا آٖفتاب بھائی،آپ نے ایسے کیوں کہا کہ فورا گھر آو۔ خیرت تو ہے؟
آفتاب:کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔اس نے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
احمر:فاخر بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟
نایاب کو کیا ہوا،میرے اللہ اِتنا خون۔آفتاب بھائی کیا ہوا ہے؟اس نے فورا نایاب کی طرف آتے ہوئے کہا۔
آفتاب:میں نے طلاق دے دی ہے۔ نایاب کو۔
احمر:کیاَ؟کیوں؟
آفتاب:یہ تم اُسی سے پوچھنا،اس کے لہجہ میں افسردگی بھر آئی تھی۔طوفان آکر تھم چکا تھا ۔اُس نے جو کچھ اُکھاڑنا تھا اُکھاڑ چکا تھا۔
ایمبولنسن آ چکی تھی احمر،فاخر نایاب اور ماہم جا چکے تھے۔آفتاب کو رونے کی آواز سنائی دی۔حریم جاگ چکی تھی۔
ہادی۔گیم کھلتے کھلتے سو گیا تھا۔نایاب کا موباہل اس کے ہاتھ میں تھا۔
آفتاب: نے حریم کو گود میں لیا۔وہ مسلسل رو رہی تھی۔شاہد اِسے بھوک لگی ہے،مگر فیڈر کہاں ہو گا۔وہ باہر آیا۔کچن میں فیڈر ڈھونڈنے لگا ،اسے کچھ نہیں مل رہا تھا۔اس نے فریج کھولا۔ چاکلیٹ کا ڈبہ اسے نظر آیا اس نے ایک چاکلیٹ نکالی اور حریم کو کھول کر دے دی وہ مزے سے چاکلیٹ کھانے لگی۔
اس نے ہادی کے ہاتھوں سے نایاب کا موباہل لیا۔اس کی سماعت میں فاخر کے الفاظ گونج رہے تھے ،تم نے مجھے کیوں نہیں چنا ،تم نےاِسے چنا تھا مجھے چھوڑ کر؟اس نے موباہل کو چیک کرنا شروع کیا ،اس نے کبھی نایاب کا موباہل اس طرح سے چیک نہیں کیا تھا،وہ ایسا جج تھا جو مجرم کو سزا دینے کے بعد اس کے گناہ کے ثبوت ڈھونڈ رہا تھا۔
اُسے کچھ بھی فاخر سے متعلقہ نہیں ملا سوائے سمن کے میسج کے جس میں اس نے لکھا تھا ،یار نایاب تم آرہی ہو کیا ،فاخر کی ڈھولکی پر آج ؟جس کے جواب میں نایاب نے لکھا تھا نہیں میں نہیں آرہی ،تمہیں تو پتہ ہے نا۔مجھے اس کی فضول باتوں سے چڑ ہوتی ہے۔میں تو آخری دن آوں گی ۔ڈھولکی کے جب اس کا سسرال بھی ہو گا۔
آفتاب:سر پکڑ کر رہ گیا۔نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔پھر اس نے سوچا ممکن ہے کہ وہ فاخر سے لیب ٹاپ پر بات کرتی ہو سکائپ کے زریعے۔اِتنے سال سے تو وہ یہاں تھا بھی نہیں ۔اس نے نایاب کا لیب ٹاپ کھولا۔جو پاس ورڈ مانگ رہا تھا۔اس نے سب سے پہلے فاخر لگایا۔جو غلط پاس ورڈ کے ساتھ نامنظور ہو گیا۔
آفتاب سوچنے لگا ،نایاب نے آخر کیا پاس ورڈ منتخب کیا ہو گا۔اس نے ہادی ،پھر حریم پھر نایاب لکھ کر دیکھا لیکن غلط پاس ورڈ ہی ظاہر ہو رہا تھا۔ضرور اس نے لیب ٹاپ میں کچھ نا کچھ رکھا ہو گا۔وہ اپنے کیے کو درست ثابت کرنا چاہ رہا تھالیکن پاس ورڈ کے بغیر ایسا اسے ممکن دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس نے نایاب کے سارے بھائیوں کے نام اس کی امی کا نام سب کچھ پاس ورڈ کےطور پر لگا کر دیکھا،آخر مایوس ہو کر اُٹھنے لگا۔تو پھر اُسے فاخر کی بات سنائی دی ۔تم نے اس کو چنا تھا،مجھے چھوڑ کر، اس کو۔وہ دوبارہ سے بیٹھ گیا۔اے ،ایف ،ٹی ،اے اور پھر دھیرے سے اس نے۔بی کو پریس کیا،وہ حیران ہو گیا یہ ہی پاس ورڈ تھا۔اس نے آفتاب پاس ورڈ رکھا تھا۔آفتاب کو اپنے دل میں عجیب سی ٹھنڈک اُترتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ پہلی دفعہ نایاب کا لیب ٹاپ دیکھ رہا تھا وہ بھی اس لیے تاکہ اس کے گناہ کا کوئی تو ثبوت مل سکے۔مگر جو اس نے پایا ،اسے دیکھ کراُسے اپنی نظروں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

جب اس نے ایک فولڈر کھولا جس کا نام لو لکھا ہوا تھا تو اس میں بہت سے سب فولڈر بنے تھے ،پکچرزفولڈر کو سب سے پہلے اس نے کھولا۔جس میں اس کی بچبن کی تصاویر کی اچھی خاصی کولیکشن تھی،ایسی تصاویر جو دوسری تصاویر سے کاٹ کر الگ کر دی گئی تھی ،کاغذوں پر چپکی ہوئی ،غزلوں اور چھوٹے چھوٹے دل ان پر آویزاں تھے۔اس کی فور اور فائیوکلاس کی پکچرز،میرے اللہ یہ سب کیا ہے،نایاب نے تو کبھی مجھے یہ سب نہیں دیکھایا ،اس نے کب اور کیسے جمع کی۔ یہ تصاویر۔میری تصاویرنایاب مجھ سے محبت کرتی تھی۔ شادی سے پہلے سے وہ مجھ سے ہی محبت کرتی تھی۔
اس نے اپنی سیکنڈ ایر کی تصویر دیکھی جس کو کاٹ کر نایاب نے بڑی نفاست کے ساتھ اپنی تصویر کے ساتھ لگایا تھا۔بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیوٹی فل کپل لکھا تھا۔تصویر کے نیچے لکھا تھا ۔میڈ فار ایچ آدر۔
آفتاب نے اپنی ایک چھوٹی تصویر ایک دل کے درمیان میں لگی دیکھی ،جو کاغذ پر خوبصورتی سے چپکی تھی ،جس کے نیچے شعر لکھا تھا
دل کے دھڑکنے کے لیے کافی ہے تیرا دل میں رہنا
میری نظروں کے لیے مشکل ہے تیرے جلوے سہنا
بہت اچھا ہے کہ نہیں جانتا ہے تو میرے دل کا حال
کچھ باتوں کو تو لازم ہوتا ہی نہیں، لبوں سے کہنا
آفتاب سے مذید تصویریں دیکھنے نہیں ہو رہی تھی۔اس نے فولڈر بند کیا دوسرا سب فولڈر کھولا،جس پر شاعری لکھا تھا۔جب اس نے اسے کھولا۔یہ نایاب کی ڈاہری تھی جس کی تصاویر لے کر اس نے فولڈر میں ہر بیج ایک کے بعد ایک ڈالا ہوا تھا ۔اس میں جو پہلی غزل آفتاب نے دیکھی تھی اس کے شروع میں کچھ اس طرح لکھا گیا تھا۔
صرف آفتاب کے لیے:آگے ڈیٹ لکھی تھی 11۔8۔2008
ہمیں تو معلوم بھی نہیں ہے کہ محبت کیا ہے؟
بس کرتے ہیں، نہیں جانتے کہ عبادت کیا ہے؟
کیوں میرے سجدوں میں بھی تم چلے آتے ہو
غصہ خود پر ہوں کہ یہ میری عادت کیا ہے؟
آفتاب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اِتنے سال ساتھ گزار دیے۔ مجھے بتایا کیوں نہیں تم نے ،یہ کیا کیا ہے تم نے۔اس کا چہرہ اس کے آنسووں سے بھیگ چکا تھا۔اس نے بہت سے پیج بغیر پڑھے ہی آگے کر دیے۔اچانک سے اس کی نظر ایک پیج پر آکر رک گئی جہاں ایک کاغذ پر مہندی سے کچھ لکھاگیا تھا۔آفتاب نے درمیان سے پڑھنا شروع کیا۔
یہ تو ہونا ہی تھا۔آخر مجھے سونپ دیا گیا ہے وہ جسے میں چاہتی تھی۔آج کا دن بہت الگ ہے کہ میں تم سے منسوب ہو گئی ہوں اور تم مجھ سے۔یہ تو بس دنیا کے لیے ہے ورنہ میں تو تمہاری ہی تھی۔ہمشہ سے تمہاری ،ہمارے نام بھی دیکھو کیسے رکھے گئے آفتاب،نایاب آگے دو دل بنے تھے۔
ہم جدا ہی کب تھے جو ملنے لگے ہیں۔
دل میں پھر بھی پھول کھلنے لگے ہیں
جانے کیسا ہو گا تمہاری باہوں میں آنا۔
سوچ کر ہی سارے جذبے ہلنےلگے ہیں
آفتاب نے دوبارہ سے ورق کو شروع سے دیکھا۔جس کی شروعات یوں تھی۔خالہ نے آج مجھے آفتاب کے لیے امی سے مانگ لیا۔اس سے خوبصورت دن میری زندگی میں کوئی نہیں گزرا ۔آج سے وہ میرا ہوا،اب کوئی اسے مجھ سے اور مجھے اس سے جدا نہیں کر سکتا ،مگر یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے نام بھی دیکھو۔
آفتاب کو اپنی آنکھیں خشک ہوتی ہوئی محسوس ہوئی وہ رو بھی نہیں پا رہا تھا۔اس نے کیا کر دیا یہ ،اس نے خود کو تسلی دی۔شاہد شادی کے بعد اس کا دل بدل گیا ہو ،میرے ساتھ رہ کر اسے لگا ہو کہ ۔۔۔۔وہ تیز تیز فولڈرمیں موجود ورق آگئے کرنے لگا تا کہ دیکھ سکے۔شادی کے بعد نایاب نے اس کے بارے میں کیا لکھا ہے

کچھ دیر میں ہی، اسے پیج نظر آ گیا جہاں شادی کے دس دن بعد کی تاریخ تھی۔ان دس دنوں میں آفتاب نے کیا کچھ کیا تھا وہ سوچنے لگا۔مجھے لگتا تھا کہ تین بھائیوں کی لاڈلی بہین میرے سر پر چڑھ کر نہ بیٹھ جائے ،اس لیے اسے کنٹڑول کرنا لازمی ہے ،میں نے تو شروع دن سے ہی اسے سمجھانا شروع کر دیا تھا کہ ۔میرے ساتھ ،اُسے میری شرطوں پر جینا ہو گا۔اس نے اپنے خیالات کو جھٹکا اور ورق مذید آگے کیے۔
اور ایک ورق پر آ کر رُک گیا۔ورق پر کچھ یوں لکھا تھا۔میری زندگی بدل گئی ہے پوری ،کچھ بھی تو ویسا نہیں ہوا جیسا میں چاہتی تھی۔آفتاب تو بلکل ویسا نہیں ہے جیسا میں نے سوچا تھا۔وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ مجھے میری محبت مل گئی۔وہ پتہ نہیں میرے ساتھ ایسا کیوں کرتا ہے۔ نہیں کرتے ہیں ،وہ اگر چاہتے ہیں کہ میں اُن کو تم نہ کہوں بلکہ آپ کہوں، تو ٹھیک ہے ،مگر اپنے خیالوں میں سالوں سے تو میں اُسے ،تم کہتی آئی ہوں ،اب ۔آپ کہنے میں وقت تو لگے گا۔جو کچھ بھی۔ جیسا بھی ہے ،مجھے قبول ہے کہ پھولوں کے ساتھ کانٹے تو ہوتے ہی ہیں۔اُنہیں اچھا لگے یا بُرا وہ میرے ہی ہیں اور اب میرے ہی رہیں گئے۔میری محبت ہم دونوں کے لیے کافی ہے۔
آفتاب سکتے کی سی کیفیت میں بیٹھا تھا۔حریم کی چاکلیٹ ختم ہو گئی تھی وہ پھر سے رونے لگی ۔آفتاب نے ایک اور چاکلیٹ نکالی اور حریم کو دی ۔ساتھ ہی موباہل پر کارٹون لگا کر حریم کو دوسرے کمرے میں موباہل کے ساتھ چھوڑآیا۔
اس نے مذید بہت سے ورق آگے کیے۔پھر اس کی نظر ایک پیج پر آکر رُک گئی۔
آفتاب سے مجھے آج وہ تحفہ ملا ہے کہ میری زندگی بدل گئی ۔کچھ جذبے بیان ہی نہیں ہوتے۔ایسے جذبوں کو بیان کرنے کے لیے لفظ ہی نہیں بنے۔میں ماں بننے والی ہوں۔ماں۔
مجھے لگتا ہے کہ آفتاب بھی میری طرح خوش ہیں مگر وہ کچھ نہیں بولتے۔ہمارے درمیان خاموشی باتیں کرتی ہے ۔ہم خاموش ہی رہتے ہیں۔جب رشتوں میں خاموشی باتیں کرنے لگے تو رشتے عجیب ہو جاتے ہیں۔کاش میں ہی ان سے اظہار کر پاتی کہ میں کتنی خوش ہوں مگر میں بھی ان جیسی ہی ہو گئی ہوں۔ہر بات دل میں رکھنے والی۔اب جب کوئی ہم دونوں سے باتیں کرنے والا یا والی آجائے تو زندگی جانے کیسی ہو گی۔
آفتاب :کا سر درد سے پھٹ رہا تھا،وہ پھر بھی پیج آگے کر کر کے دیکھتا جا رہا تھا۔کہیں بھی فاخر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ہر جگہ وہ ہی تھا کبھی نایاب نے اس کا ذکر خوشی کے ساتھ کیا تھا تو کبھی غم کے ساتھ ،مگر وہ ہی تھا اور کوئی بھی نہیں ،کہیں بھی نہیں۔
میرے اللہ میں نے کیا کیا؟اب کیا ہو گا ۔میرا ،میرے بچوں کا؟اُس کی نظر میں نایاب کی حالت آگئی ۔جس میں احمر اسے لے کر گیا تھا۔اُسے کچھ ہو گیا تو۔اس نے میری جان بچانے کےلیے خود گولی کھا لی ۔اپنی جان کی پروا تک نہیں کی اور میں نے ۔میں نے کیا کیا اس کے ساتھ۔
وہ اونچی آواز میں رو رہا تھا۔
ہادی :پاپا کیا ہوا؟
آپ کو کیا ہوا؟ماما کہاں ہیں ،پاپا لگ گئی کیا؟
آفتاب :ہاں ایسی چوٹ لگا لی ہے خود کو میں نے جس کا کوئی علاج نہیں ،اب میں کیا کروں ،اب میں کیا کروں؟اس نے اپنا چہراصاف کیا۔واش روم میں جا کر منہ دھویا۔اپنا فون اُٹھایا۔
اسلام علیکم احمر:میں آفتاب
احمر :فون کیوں کیا ہے؟
آفتاب :نایاب
احمر:کیا نایاب ۔زندہ ہے یا مر گئی یہ جاننا چاہتے ہو؟احمر نے فون بند کر دیا۔
آفتاب نے ماہم کے نمبر پر فون کیا۔ماہم نے فون اُٹھایا،جی
آفتاب:پلیز فون بند نہیں کرنا۔نایاب کیسی ہے؟
ماہم:آپ نے یہ کیا کیا؟آفتاب بھائی ،آپ نے نایاب کو کیوں طلاق دے دی ،اس کا رو رو کے برا حال ہے ،خون کی بوتل لگی تھی اُسے ۔زندہ ہے۔
آفتاب:مجھے ایک غلط فہمی ہو گئی تھی ۔
ماہم:دور کیسے ہو گئی ۔ایک ہی دن میں
آفتاب :خاموش رہا
ماہم:بچوں کو آپ یہاں چھوڑ جائیں۔شاہد اس کا غم کچھ تو کم ہو گا۔حریم کو تو کم سے کم،میں نے احمر سے کہا تھا کہ وہ بچوں کو آپ سے لے آئیں لیکن وہ بہت غصے میں تھے اور نہیں مانے۔آپ چھوڑ جائیں۔یہاں بچوں کو۔
آفتاب :ہاں میں آتا ہوں۔
آفتاب: نے حریم کو اور ہادی کو لیا اور گاڑی کی چابی لی۔
دروازے پر کھڑے کھڑے آفتاب کو کچھ دیر ہو گئی تو ہادی نے کہا ،پاپا آپ بیل کیوں نہیں دے رہے۔آفتاب نے ہادی کے معصوم چہرے کی طرف دیکھا۔پھر دھیرے سے دستک دی۔ہادی ذور سے چلایا۔ماموں دروازہ کھولیں۔نایاب اندر سے بھاگ کر باہر آئی۔ماہم کیا ہوا نایاب ۔اندر جاو ،تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے ابھی۔
نایاب:مجھے ہادی کی آواز سنائی دی ہے۔وہ رونے لگی۔
ماہم :اچھا افسردگی سے اس کے پاس آگئی،یہ مرد بھی کیسے بے حس ہوتے ہیں۔ان کے سینے میں اللہ نے دل رکھا ہی نہیں ہوتا۔اس نے نایاب کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
دروازے پر پھر سے دستک ہوئی۔ماہم نے جا کر دروازہ کھولا۔ہادی بھاگ کر اندر آگیا ماما ۔۔ماما۔آپ یہاں اکیلے کیوں آگئی ۔
آفتاب :سے حریم کو لیتے ہوئے ماہم،احمر باہر گئے ہیں ،آفتاب فوراً سے اندر آگیا۔اس نے نایاب کو صحن میں کھڑے دیکھا،وہ نڈھال سی لگ رہی تھی ،اس کی انکھیں سوجی ہوئی تھیں۔نایاب
نایاب۔آفتاب کو دیکھ کر کمرے میں چلی گئی۔ہادی اور ماہم بھی کمرے میں چلے گئے حریم کو ماہم نے نیچے اُتار دیا وہ نایاب سے لپٹ کر رونے لگی۔ماہم ،ماہم اسے بھوک لگی ہے ،کپ میں دودھ ،یا بریڈ لا دو۔ماہم کمرے سے چلی گئی۔
آفتاب :مجھے معاف کر دو نایاب ،چلو گھر چلو۔
نایاب:کیا ،آپ مذاق کر رہے ہیں ۔وہ رونے لگی۔آپ نے طلاق دی ہے مجھے ،طلاق۔
آفتاب:غصے میں میں نے بول دیا،کوئی طلاق نہیں دی میں نے گھر چلو۔
نایاب:کاش :ایسا ہی ہوتا آفتاب۔ آپ نے آج پہلی بار مجھ سے معافی مانگی ہے اپنی کسی ذیادتی پر اور میں آپ کو معاف نہیں کر سکتی ۔وہ اور رونے لگی۔
آفتاب:غصے میں بول دیا تھا میں نے ،ہمارے بچے ہیں ،ایسے کیسے۔
نایاب:بچوں کا سوچا کیوں نہیں آپ نے ،اب آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی دنیا کے لیے آخرت برباد کر لوں اور آپ کے ساتھ چل پڑوں ،ایسا نہیں ہو سکتا۔اللہ کو کیا جواب دوں گی میں۔
احمر:آپ کو اندر آنے کی ہمت کیسے ہوئی۔آفتاب کو دھکا دیتے ہوئے۔
آفتاب: احمر یار مجھ سے غلطی ہوگئی ،غصے میں اگر تم بھی میری جگہ ہوتے ،تو
احمر :میں آپ کی جگہ ہوتا تو کسی اور کی غلطی کی سزا اپنی بیوی کو نہ دیتا۔اگر فاخر نایاب کو پسند کرتا ہے تو اس میں نایاب کا کیا قصور۔اگر آپ نے فاخر کو نایاب کا ہاتھ پکڑ کر اظہار محبت کرتے دیکھا تو اندر کیوں نہیں چلے گئے ،اس جگہ ہی فیصلہ ہو جاتا۔ساری بات کا۔اب جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔بہتر یہ ہی ہے کہ آپ یہاں سے چلے جاہیں اور واپس اس گھر میں قدم نہ رکھیں۔
آفتاب :شاہد کوئی حل نکل آئے۔مجھے میری غلطی کی اِتنی بڑی سزا نہ دو۔ماہم،نایاب پلیز وہ پہلی دفعہ اس طرح سب کے سامنے التجاٗ کر رہا تھا۔
احمر:آپ نے کیا کہا،نایاب سے اس گھر سے جو چاہو لے جاو سوائے بچوں کے ،آپ کا وہ گھر ،آپ کا ہوتا ہی نہیں اگر ہم آپ کو بچبن سے سپوٹ نہ کر رہے ہوتے۔آفتاب صاحب بہت ظلم کیا ہے آپ نے اس کی برپائی تو کرنی ہی پڑے گئی۔چپ چاپ کر کے یہاں سے نکل جائیں ورنہ مجبورا میں آپ کو دھکے دے کر یہاں سے نکال دوں گا۔ جس حال میں اپنی بہن کو آپ کے گھر سے لے کر آیا تھا بھولا نہیں ہوں ۔میں احمر کے لہجے کی سختی بڑھ چکی تھی۔
ماہم:آفتاب بھائی آپ جائیں۔ماہم نے آفتاب کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی ۔آفتاب نظریں جھکا کر وہاں سے نکل آیا۔
احمر :نے نایاب کی طرف دیکھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
ماہم:نایاب چلو کمرے میں چلوکہہ کر اسے کمرے میں لے گئی۔ہادی پاپا کہاں جا رہے ہیں ،ماہم ہادی چپ رہو بیٹا۔
نایاب:پھر سے رونے لگی۔کاش آفتاب ایک پل کے لیے اس وقت سوچ لیتے۔ماہم اب کیا ہو سکتا ہے ۔نہ جانے آفتاب کے دل میں کون سا حل ہے۔ویسے لوگ کر بھی لیتے ہیں بچوں کے لیے ۔اللہ معاف کرنے والا ہے ،اگر تم بھول جاو کہ آفتاب نے تمہیں طلاق دی ہے تو میں احمر کو سمجھانے کی کوشش کروں گئی ،اچھی طرح سے سوچ لو نایاب۔
نایاب :ماہم تم کیا کہہ رہی ہو۔
ماہم:آفتاب کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہے ،تم کیا کرو گی۔ساری زندگی پڑی ہے آگے۔اگر سمجھ لو کہ تمہیں طلاق نہیں دی آفتاب نے تو سب پہلے کی طرح ہو سکتا ہے ،ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے تم اچھی طرح جانتی ہو۔ابھی پورا دن بھی نہیں گزرا۔جتنا وقت گزرے گا ،اُتنی باتیں پھیل جائیں گی اور پھر فیصلہ تمہارے اختیار میں نہیں رہے گا۔کسی نےنہیں سنا تمہارے سوا کہ آفتاب نے تمہیں طلاق دی ہے یا نہیں۔
نایاب:تم کہہ رہی ہو کہ میں ساری زندگی گناہ کروں۔جانتے بوجھتے۔
ماہم:میں کچھ نہیں کہہ رہی ۔میں تو تمہاری گود میں اس بچی کے بارے میں سوچ رہی ہوں ۔باپ کے بغیر بچوں کا کیا مستقبل ہوتا ہے ۔آدمی ہزار گناہ کر کے بھی دودھ کا دُھلا ہی رہتا ہے اور عورت پر لگا الزام بھی اسے تمام زندگی کے لیے سماج کی نظر میں گناہ گار بنانے کے لیے کافی ہے۔وہ سب بھولنے کو تیار ہے تو تم کیوں نہیں۔
نایاب:روتے ہوئے تم جاو یہاں سے ماہم۔پلیز چلی جاو۔
آفتاب:اسلام علیکم عارف کیسے ہو۔
عارف:ٹھیک ہوں ،تم آفس کیوں نہیں آئے۔
آفتاب :یار میری تو زندگی ہی بدل گئی ہے۔ایک دن میں،کچھ سمجھ نہیں آرہی کیا کرو۔
عارف:کیا ہوا،خیریت ہے؟
آفتاب:یار غصے میں آکر تمہاری بھابھی کو طلاق دے دی ہے ،اب سمجھ نہین آ رہا کیا کروں؟
عارف :کیا کہہ رہے ہو۔
آفتاب:سچ کہہ رہا ہوں،اسے بہت منایا پر نہیں مانی۔
عارف :ظلاق کو مذاق سمجھا ہے تم نے ،کتنی دفعہ بولا تھا تم نے طلاق کا لفظ۔؟
آفتاب :تین بار ۔
عارف:پھر تو کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تم نے،ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،بچوں کا تو سوچتے،ایسا کیا ہو گیا تھا جو اِتنا بڑا قدم اُٹھا لیا۔
آفتاب:یار بس میرا دماغ خراب ہو گیا تھا۔اب کیا کروں ؟کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
عارف:شام کو تم میری طرف آنا۔میں تمہیں ایک آدمی سے ملاوں گا ،وہ بہت علم رکھتا ہے دین اور دنیا کا شاہد تمہاری کچھ مدد کرئے۔
آفتاب:ہاں ،میں ضرور آوں گا۔
نایاب :ماہم وہ تم احمر سے بولو مجھے فیڈر لا دے دوکان سے اور حریم کے لیے دودھ اور پیمپرز بھی۔
ماہم:ہاں میں کہتی ہوں۔ماہم احمر نایاب کہہ رہی ہے کہ حریم کے لیے پمپرز ،دودوھ اور فیڈر لا دیں۔
احمر:غصہ سے وہ صرف بچے دینے آیا تھا یہاں کمینہ کہیں کا۔
ماہم :کیسی بات کر رہے ہیں ،نایاب سنے گی تو اسے برا لگےگا۔
احمر:مجھے جو لگ رہا ہے اس کا کیا؟جی تو چاہ رہا ہے اس کے بچوں کو اُٹھاوں اور اس کے منہ پر مار کر آوں۔
نایاب:دروازے کے قریب کھڑی یہ سب سن رہی تھی۔اس کا منہ آنسووں سے بھیگ گیا۔مگر اس کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نہ نکلی ،وہ واپس کمرے میں آگئی ،اسے روتا دیکھ کر ہادی اس کے پاس آگیا۔
ہادی:ماما ،کیاہوا ،کیوں رو رہی ہو،اب کو لگ گئی کیا؟
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281059 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More