محبت ہمسفر اک خواب قسط نمبر 3

محبت اک ایسی چیز ہے جس کو سمجھنا اور سمجھا لفظوں میں نا ممکن ہےیہ اک احساس ہے جس کو محسوس کیا جاتا ہے حریم اوضیفہ کے جذبات سمجھننے سے قاصر تھی ا و ضیفه اپنے جذبات حریم کو سمجھا نا سکھا اور حریم بھی نہیں سمجھ سکھی که وہ آس کو تنگ نہیں کررہا بس اسے اپنے جذبات کا احساس دلانا چاہتا ہے یہ

محبت ہمسفر اک خواب

حریم رات پھر جاگتی رہی جب اس کی نظر سامنے لگی گھڑی پر پڑی تو وہ 3.00 بجارہی تھی اس کی ٹک ٹک حریم کو پریشان کر رہی تھی اب میں کیا کرو کیا جو میں سوچ رہی ہو وہ کرنا ٹھیک ہوگا ایسا نہ ہو میری وجہ سے میری پیارے والدین کو کو ئی شرمندگی نہ ہو اگر ایسا ہوا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرو گی دوسرے لمہے سوچ رہی تھی اگر اسکو نہ روکا تو وہ خود تو تباہ ہوگا مجھہ بھی برباد کر دیں گا یہ سوچنا حریم کے لیے جائزتھا کیونکہ حریم اک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی تھی جو عشق معشوقی کو بے غیرتی تصورکرتے تھے یہ بات وہ بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اک بار اگر اوضیفہ کے نام کے ساتھ اس کا نام لیا گیا تو اس کے گھر والوں کی بہت رسوائی ہو گی .. .......
چل حریم ہمت کر خود سے مخاطب ہو کر روم سے باہر ائی .. اس روم کو دیکھ رہی تھی جس کی گھڑکی اوضیفہ کے گھر میں کھولتی تھی اور قدم اگے بڑھاۓ اوضیفہ کے گھر میں قدم رکھا تواندازہ ہوا کہ رات بہت ہو چکی ہے چاروں طرف خاموشی تھی قدم واپس ہی کرے کہ تائی اماں کی آواز ائی حریم بیٹا تم ....
خیریت تو ہے نہ گھر میں سب ٹھیک ہے
ان کے ہاتھ میں جاۓنماز اور تصبی دیکھ کر حریم نے کہا اپ تہجد پڑھ رہی تھی
ہاں بیٹا لیکن تم اس وقت ........
وہ تائی اماں مجھہ اپ سے کچھ بات کرنی ہے
ہاں .. حیرانگی کے ساتھ بےساختہ بولو بیٹا
وہ یہ دیکھیں
یہ کیا ہے حریم
یہ اوضیفہ کی حرکت ہے
مجھہ تو کچھ سمجھ نہیں آرہا یہ کیا دیکھا رہی ہو تم میرے پاس تو چشمہ بھی نہیں ہے کیا ہے تم ھی بتا دوں

تائی اماں میں آپکی بہت عزت کرتی ہو لیکن یہ بولناچاہتے ہو اپکا بیٹا اوضیفہ بہت ہی برا انسان ہے یہ پن ہے جو اس نے مجھہ دیا تھا اور میں نے انکار کر دیا تھا تو اس نے خود ہی میرے بیگ میں رکھ دیااور یہ خط بھی اپ دیکھ لے
حریم یہ کیا بول رہی ....تائی اماں آپ مجھہ جانتی ہے میں جھوٹ نہیں بولتی کیا میں کبھی آپ کے گھر اس سے پھلے ائی ہو
نہیں بیٹا تم تو مہنو ں میں بھی نہیں آتی یہاں

تائی اماں بہت غصہ میں تھی اوضیفہ کی وجہ سے بہت شرمندہ ہوں میں بیٹا اس کو معا ف کر دو وہ آیندہ ایسا نہیں کرے گا
نہیں نہیں آپ شرمندہ مت ہوۓ
بیٹا میں صبح اس سے بات کرتی ہو
حریم آپ ابھی بات کرے میرے سامنے
لیکن .....
بس ابھی
حریم کہاں سمجھنے والی تھی
اچھا بیٹا
اوضیفہ اٹھو
دکھوں ذرا
امی کیا ہوا ہے یہ بول کر بھر سے آنکھیں بند کر لی
اوضیفہ میں بول رہی ہو اٹھو
امی کیا بات .. . بس اتنے ہی لفظ اداکیے تھے کہ نظر سامنے گھڑی حریم پر پڑھی
اوضیفہ اک ھی منٹ میں بلکل ہوش میں آچکا تھا
تم ..... ... چہرے سے رنگ مانوں جیسے ہوا میں اڑ گے ہو اور پیشانی پر ہلکا ہلکا پسینہ رونما ہونے لگا
اک دم تائی اماں نے غصے سے یہ کیا حرکت کی ہے تم نے یہ کیا سن رہی ہو میں
امی کیا بہت معصو میت سے
یہ سب تم نے ھی کیا ہے حریم کی دی ہوۓ چیزیں اوضیفہ کے اوپر ھی دے ماری
نہیں امی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا
اوضیفہ دل میں ھی بول رہا تھا حریم یہ کیا کیا تم نے
امی یہ غلط ہے

حریم اچھا بتاؤ پھر تمیں اپنے ہاتھوں کے آستیں اوپر کرتے ہو ۓ
ہا ں بتاؤ
کیا بتاؤ گی
جب میں نے کچھ کیا ہی نہیں
حریم تائی اماں یہ میرے ہاتھوں سے ضآئع ہو جاۓ گا
اچھا جی اتنی ہمت ہے تم میں
حریم یہ تو تم جانتے ھی ہو میں کیا کیا کر سکتی ہو

اوضیفہ خود کو بچنے کے لیے حریم سے بدتمیزی کرنے لگا اور اسکو اس بات کا احساس تک نہ ہو جس کے سامنے کبھی آواز نہیں نکلتی تھی آج اس کے ساتھ بھیس کر رہا ہے
بات اگے بڑھتی کہ تائی اماں نے ڈانٹ کر دونوں کو چپ کروا دیا
اب اک بھی لفظ نہیں
کوئی نہیں بولے گے
تائی اماں میں جارہی ہو یہ اک گھٹیا انسان ہے میری نظر میں ....بس اس کو بول دو مجھہ سے دور رہے
حریم غصے سے روم سے باہر نکلی
روکوں حریم
اوضیفہ کی آواز پر قدم روک لیے اور پیچھے موڑے بغیر ھی خاموش گھڑ ی ہو گی
اوضیفہ ہاں میں نے ھی کیا ہے تمہارے بیگ میں میں نے ھی رکھا ہے تو بتاؤ کیا کرتا تم تو لینے سے انکار کردیا تھا
یہ بات سنتے ھی تائی اماں نے اک زور دار تھپڑ اوضیفہ کے گال پر دیں مارا
شرم کرو بے حیا میں نے تمیں یہ سب سکھایا ہے جس کے باپ کا کھاتے ہو اس ھی کی بیٹی کی عزت کا تماشا بنانا چاہتے ہو جانتے ہو نہ تمہارے والد کی انتقال کے بعد انہوں نے کیسے تمیں اور مجھہ سنبھالا ہے میں کیا منہ دیکھاؤ گی بھائی صاحب کو نامراد................. ..حریم نے وہاں مزید روکنا مناسب نہیں سمجھا اور اک سیکنڈ میں کسی چھلاویں کی طرح گہر میں پونچھ گی جب کانوں میں اللّہ ہواکبر کی صدا سنی تو فورا نماز کے لیے جاۓنماز پر گھڑی ہو گی اور اللّہ پاک سے رو رو کر دعا مانگنے لگی کیونکہ آج وہ کسی کا دل توڑ کر ائی تھی......................
..................................................دوسری طرف اوضیفہ پر جیسے کوئی قیامت گزری ہو کیونکہ وہ اپنی ماں کی نظروں میں خود کو بہت گرا ہوا انسان سمجھ رہا اتھا اور اپنی ماں کی گو د میں سر رکھ کر بہت رو رہا تھا آنسو تھے کہ روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اک طرح سے اسے بات کا بھی احساس تھا کہ وہ حریم کو گھو چکا ہے یہ اس کی پہلی محبت تھی جس کی خواہش اس کے دل میں بچپن سے تھی اور کچھ دنوں سے اس محبت میں شدت آختیار کر لی تھی ............جاری ہے
Abrish  anmol
About the Author: Abrish anmol Read More Articles by Abrish anmol: 27 Articles with 66948 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.