شازمہ بیٹا ایک آپ ہی ہو ،،،،،جو ہمیں اس
مشکل گھڑی میں رسوائی سے بچا سکتی ہے۔ میری ماں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ
دیئے ان کے پاس زیادہ ٹائم نہیں تھا،،کیونکہ انہیں سیریس قسم کا ہارٹ اٹیک
آیا تھا میں سمجھ چکی تھی وہ مجھ سے کیا چاہتی ہیں ۔میں انہیں اور رسوا
ہونے نہیں دوں گی اس لئے میں نے ان کی بات مان لی۔
اگلے دن میں دلہن بن کر شعبان کے ساتھ اسکے گھر کی زینت بن کر رخصت ہو گئی،،،،،“اب
تم یہ سوچ رہی ہوگی کہ جو انسان ماہم سے شادی کرنے والا تھا،اس نے مجھ سے
کیسے کر لی؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ بابا کے دوست کم اور بھائی زیادہ تھے
اور اپنے گھر کی ہی بات سمجھ کر انکل نے ہی بابا کو یہ مشورہ دیا تھا کہ
ماہم کی جگہ شازمہ کو رخصت کر دیا جائے ایسے برادری کا منہ بھی بند ہو جائے
گا۔بابا کو یہ تجویز پسند آئی اور آپی کی جگہ میرا نصیب شعبان کے ساتھ جڑ
گیا،جو بہت اچھے انسان اور بہترین ہمسفر ثابت ہوئے۔
“پھر “ حسنہ اپنی ماں کی اس خودغرضی پر بے حد شرمندہ تھی،اور اس نے دھیمے
سے پھر کہا وہ جلدی سے جاننا چاہتی تھی کہ اسکے بعد ماما کا کیا ہوا ۔“ پھر
“ شازمہ چلتی ہوئی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور آسمان کی طرف دیکھنے
لگی جہاں سے پرندے اڑتے ہوﺀے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے جس کا مطلب تھا کہ
شام ہونے میں بس تھوڑا وقت ہی رہ گیا تھا،،،وہ پرندوں کو دیکھتی ہوئی گویا
ہوئی،،“ پھر دو دن بعد میری ماما کا انتقال ہو گیا‘ حسنہ کا جھکا ہوا سر یہ
سن کر مزید جھک گیا۔ پھر کچھ ماہ بعد زندگی معمول پر آگئی ،،میں بابا کی
طرف ہی آئی ہوئی تھی کہ ہمارے ارمو بابا بھاگے بھاگے آئے انہیں ایسے آتا
دیکھ بابا اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے میری ارمو بابا کی طرف پیٹھ تھی،میں اور
بابا گھر کے لان میں شام کی چائے پی رہے تھے۔ تب بابا کو دیکھ کر میں بھی
کھڑی ہو گئی اور جب میں نے مڑ کر ارمو بابا کی طرف دیکھا تو وہ ہانپ رہے
تھے ۔۔۔۔۔(جاری ہے) |