میڈیا کی لسانی تبدیلیوں پر منفرد سیمینار

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات میں منعقد ہونے والے سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار ’’میڈیا ٹائزیشن، کلچرائزیشن اور لنگوج الٹریشن‘‘میں مختلف لسانی تبدیلیوں اور لفظی انتخابات کے مسائل زیر بحث آئے۔ اس میں ہندوستان سمیت امریکہ اورنیپال کے اسکالرس،ماہرلسانیات اور نامور صحافیوں نے اپنے مقالات پیش کیے۔ ساتھ ہی لسانیات و صحافت سے جڑے طلبا نے بھی بے باکی سے صحافت میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ پیش کیا۔

سیمینار کے کنوینر اور شعبہ لسانیات کے چیئر پرسن پروفیسر علی رفاد فتیحی کے مطابق ــــ"یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کے ساختیاتی نظام پر تحقیق و مباحثے کی دیرینہ روایت رہی ہے ، تاہم لسانیات کی شکست وریخت اور قابل ذکر تبدیلی کے تناظر میں میڈیا کے اثرات کاابھی تک مکمل جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔اس لیے اس بین الاقوامی سیمینار میں وہ مباحث زیربحث آئے، جومیڈیاکے ذریعہ لسانی منظرنامے پر اثرات مرتب ،اور تبدیلی کے تصورات وامکانات کو واضح کرتے ہیں۔میڈیا کا ایک طرف جہاں لسانی پس منظر ہوتا ہے ، وہیں دوسری طرف تہذیبی فروغ اور نئی تہذیب سے استفادہ کا معاملہ بھی جڑا ہے۔ ا س لیے لسانیات کا تعلق نہ صرف زبان وبیان بلکہ تہذیب وتمدن سے بھی گہرا ہے ۔ امید ہے کہ میڈیا کے لسانی وترسیلی نظام کی تفہیم میں اس سیمینار کے مباحث معاون ثابت ہو ں گے'' ۔

ماہرلسانیات ڈکٹر ایم جے وارثی کے مطابق'' ان دنوں اخبارا ت کی زبان صاف اور سلیس ہورہی ہے۔چند اخبارات کے جملے چھوٹے اور دلکش ہونے لگے ہیں۔ نحوی وصرفی قواعدمیں پیچیدگیاں کم ہونے کی وجہ سے ساختیاتی وترسیلی نظام میں آسانیاں پید اہوگئی ہیں، تاہم لسانی جدت اورحسن کو مرکوز نظر رکھنا ضروری ہے ۔ انھو ں نے آخری سیشن میں مکمل سیمینار کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سہ روزہ سیمینار میں لسانی تبدیلیوں کے ساتھ لفظی انتخابات کی نفسیات اوربدلتے وقت کے تقاضے بھی زیر بحث آئے ہیں ،جس سے نہ صرف میڈیا کا لسانی دائرہ وسیع ہوگا ، بلکہ سماجی ارتباط کا لسانی منظرنامہ بھی صاف ہوگا'' ۔

تلاوت کلام پاک کے بعد افتتاحی نشست میں سیمینار کے سوینئر اور شعبہ لسانیات سے شائع ہونے والے رسالے کا اجرا ہوا۔ اس موقع پر امریکہ کے گرینل کالج سے تشریف لائیں پروفیسر پونم اروڑہ نے کلید ی خطبہ میں میڈیا کے لسانی انسلاکات کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ نسلی امتیازات اب ختم ہورہے ہیں،جس سے لسانی رشتہ مضبوط ہورہا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہورہے ہیں۔ اس ارتبا ط کا اثر میڈیا کی زبان پر بھی ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک زبان کی میڈیا کا لسانی جائزہ ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ مختلف زبانوں کے اثرات ایک زبان کی میڈیا میں نظر آتا ہے ۔ انھوں نے خصوصی طور پر سنیما کی زبان کا ذکر کرتے ہوئے لسانی تبدیلیوں کی نشان دہی کی۔ یو ایس اے کی پروفیسر نینسی برگ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے تہذیب وثقافت اور لسانی تبدیلی کا بھرپور جائزہ پیش کیا ۔

وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین نے کہا کہ لسانی سطح پر سوشل میڈیا کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ادبی تناظر میں جہاں سوشل میڈیا سے زبان کو بہت نقصان ہوا ، وہیں لغات میں نئے نئے لفظوں اور محاوروں کا اضافہ بھی ہوا ۔ کیوں کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیا ہے ، اس لیے بات چیت کے دوران انسان ایک دوسرے کی زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس عمل میں نئے نئے تراکیب سامنے آتے ہیں، جس سے ظاہر ہے زبان کا فروغ ہواہے ۔ ان کے علاوہ پرووائس چانسلربرگیڈ سید احمد علی نے کہاکہ بین معاشرتی اختلاط میں سوشل میڈیاکا قابل ذکر حصہ ہے ، لیکن لسانی سطح پر سوشل میڈیا کی زبان کو قابل اعتنا سمجھ لینا مناسب عمل نہیں ہے کیوں کہ ادبی زبان کے بغیر ، کسی بھی زبان کا فروغ مستحسن اور ممکن نہیں ۔ امریکہ سے تشریف لائے پروفیسر تیج بھاٹیا نے اشتہارات کی زبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اشتہارات سے بہت جلد انسانی ذہن متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں لفظی آہنگ اور انتہائی کم لفظوں میں کسی بھی چیز کا تعارف پیش کردیاجاتا ہے ، اس لیے اس میں جاذبیت پیدا ہوجاتی ہے اور انسان، نفسیاتی تناظر میں بہت جلد متاثر ہوتا ہے۔ پروفیسر صلاح الدین قریشی نے ہندوستان کے مختلف خطوں کو مختلف دائروں میں مخصوص کرکے لسانی بحث کی اور کہا کہ انگریزی کی حیثیت مادری زبان کی سی ہونے لگی ہے ۔

اس سیمینار کی خاص بات یہ رہی کہ میڈیا میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں پر پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد جہانگیر وارثی نے ملک بھر کے نامور صحافیوں اور زبان وبیان کا خاص شعور رکھنے والوں کو ایک بینر تلے جمع کیا اور منفرد طرز پر مباحثہ کرایا۔ اس لیے یہ سیمینار نہ صرف روایتی انداز کا تھا ، بلکہ میڈیا سے جڑے متعدد مباحث سامنے آئے ، جو کہ ڈاکٹر وارثی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پر ہندی کے مشہور اخبار ’جن ستا‘ کے سابق ایڈیٹر اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی(سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز )کے ویزیڈنگ پروفیسر اوم تھانوی نے میڈیا میں ہونے والی لسانی تبدیلی کو مستحسن قرادیتے ہوئے لسانی حسن اور لفظی انتخاب میں معیارکے مسئلہ پر زور دیا ہے۔ جب کہ ولڈ بی بی سی سے متعلق صحافی اقبال احمد نے ترسیلی نظام کے مدنظر ہندی اور انگلش کی قربت (Hinglish)کو خوش آئند بتایااور عارفہ خانم (راجیہ سبھا ٹیو ی )نے سوشل میڈیا کی بڑھتی مقبولیت اور وسیع ہوتے دائرہ کو پرنٹ اور چینلز میڈیا کے لیے مزاحم قرارد یا۔ یہ وہ مسائل ومباحث تھے، جن پر پینل ڈسکشن میں خاصی بحث ہوئی۔پروفیسر غضنفر علی(جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی)کا ماننا تھا کہ میڈیا جہاں سماج پر اثرات مرتب کرتا ہے ،لسانی اور تہذیبی فروغ میں اہم کردار اداکرتا ہے ، وہیں صاحب زبان واسلوب کے ماہرین کو بھی زبان کے ساتھ مزاق کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے لسانی حسن مجروح ہوتا ہے۔ان کے علاوہ پروفیسر آنند پردھان (آئی آئی ایم سی) اور اے ایم یو کے پی آر او نے بھی لسانیات کے بدلتے نظام پر مفید باتیں کیں۔

اختتامی تقریب میں ماہر لسانیات پروفیسر آرسی شرما نے لسانیات اور مختلف موضوعات کے باہمی رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ لسانیات ایک قابل ذکر مضمون کی شکل میں فروغ پارہی ہے اور متعدد سماجیاتی علوم اس کے دائرہ اثر سے باہر نہیں ہیں ۔ چنانچہ لسانیات نہ صرف زبان وبیان کی حد تک اپنا دائرہ وسیع کرتا ہے ، بلکہ تہذیب وتمدن کا بھی اس سے گہرا ربط ہے۔ مشہور ماہر تعلیم اور نامور صحافی فیرو ز بخت احمد نے مثالوں کے ذریعہ ہندی ، اردو اور انگریزی زبانوں کی لسانی خصوصیات کا ذکر کیا، جس سے ہرایک زبان کی لسانی اہمیت ومقبولیت اور انفرادیت واضح ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اردو جہاں اپنے ساختیاتی نظام اور لفظی حسن ومخرج کے تناظر میں قابل توجہ ہے ، وہیں ہندی؛ تلفظ کی ادائے گی کے معاملہ میں بے مثال اور انگریزی فونوٹک اصولوں کے پس منظر میں اپنی اہمیت درج کرواتی ہے۔ا س کے علاوہ انھوں نے لفظوں کے ساختیاتی نظام ، اصول وقواعد اور لفظیات وصوتیات پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ تین روزہ سیمینار جہاں موضوعاتی سطح پر قابل توجہ تھا ، وہیں تکنیکی تناظر میں بھی دلچسپ ۔ کیوں کہ ایک طرف پر جہاں زبان وصحافت کے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، وہیں ان کے متوازی طلبا نے بھی اپنے مقالات پیش کیے ۔ ایسا نہیں تھا کہ ریسرچ اسکالروں کے لیے الگ سے نشست منعقد کرکے ناقابل اعتنا سمجھا گیا ہو ، بلکہ جہاں مقالات کی پیش کشی میں طلبا شریک تھے ، وہیں بحث ومباحثہ میں برابر موجود ۔ اسی طرح اس سیمینار میں جہاں طول طویل صدارتی خطبوں سے دامن بچایا گیا ، وہیں تمام مقالات پر خاطر خواہ سوالات وجوابات بھی ہوئے ۔اس کے علاوہ میڈیا کے ضمن میں نہ صرف اخبارات وٹیلی ویژن زیر بحث آئے،بلکہ تمام وکمال کے ساتھ سنیما، اشتہارات ، مخصوص انٹرویوز کی ساختیات اور لفظی اعداوشمار کے مسائل پر بھی اچھی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ کئی ایک مقالے میں مختلف قابل ذکر اور نامور افراد کے انٹرویوز کے الفاظ کا تجزیہ اور محاکمہ پیش کیا گیا ، جس میں شماریاتی نظام کے تحت مختلف زبانوں کے الفاظ کی فہرست سازی کی گئی ہے اور علاقائی اثرات والفاظ کی شمولیت پر بھی بات چیت ہوئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شعری اظہار اور صحافتی ترسیل کے مابین فرق کو سامنے رکھتے ہوئے صحافتی زبان کی تشکیل ہوسکتی ہے۔ صحافت کے ترسیلی نظام میں عامی ، کم پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ، تفہیم کے معاملہ میں برابرکے حصہ دار ہیں۔ اسی بنیاد پر بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ادب کی زبان سے صحافتی زبان کی تشکیل قدرے مشکل امر ہے۔اس کے علاوہ اردو کے متبادل الفاظ سے نظریں چراکر ٹھیٹھ علاقائی الفاظ کا استعمال ، دائرہ زبان کو محدود کرنے کی کوشش ہے اور ترسیل کا دائرہ بھی سکڑ جاتا ہے۔ مثلاً، ایک علاقہ کا اردو اخبار دوسرے علاقے کے اردو داں کے یہاں سمجھنے میں پریشانی پیدا کردیتا ہے۔ٹھیٹھ اور غیر معروف علاقائی الفاظ سے ترسیلی نظام متاثر ہوتا ہے، مگر اصل زبان کے الفاظ میں معمولی تبدیلی سے لسانی حسن تو متاثر ہوتا ہے،ترسیل میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔جہاں تک لب ولہجہ اوراسلوب پرگہرے علاقائی اثر کاتعلق ہے تو اس میں ترسیل بھی متاثر ہوتی ہے اور لسانی حسن بھی مجروج ہوتا ہے۔بغیر چوں چراں علاقائی الفاظ کا استعمال اسی وقت جائز ہوسکتا ہے ، جب کسی شماریاتی نظام کے تحت علاقائی الفاظ کو اصل زبان میں شامل کرکے متعارف کر ایاجائے۔ ایک صوبہ /علاقہ میں رائج الفاظ کو دوسرے علاقہ میں پھیلا نے کی کوشش جائے۔ملک بھر میں پھیلی اکادمیاں اور این جی اوز اس پر توجہ دے سکتے ہیں۔ سیمینار کے مباحثہ سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہندی اور انگریزی کا ملاپ اپنی جگہ مستحسن تاہم ترسیلی نظام کو بہتر بنانے کے لیے لسانی حسن کو قربان کردینا بہتر نہیں ۔ اسی طرح سوشل میڈیا کی اہمیت کے باوجود بھی پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کی حقیقت مسلم ہے اور رہے گی ۔

خلاصہ یہ ہے کہ 7 ٹیکنکل، 7پلینری ، 1 ڈسکشن اورافتتاحی واختتامی کل 17نشستیں ہوئیں ، جن میں درجن بھر سے زائد مقررین کی شرکت کے علاوہ 40مقالات پیش کیے گیے۔تمام نشستوں کی شاندار مشترکہ نظامت ڈاکٹر جہانگیر وارثی اور بیرم خان نے کی۔ چند مقالہ نگاروں کے نا م کچھ اس طرح ہیں : اے کے سنہا، اے کے گوتم ، ادیبہ زیدی ، دان راج رگمی ، پونم اروڑہ ، تیج کے بھاٹیا ، دیپک کمار گانگولی ، منیشا سنہا ، مریم احمد عثمانی ، نازیہ حسن ، نازیہ سلیم ، نعمان طاہر ، پونم سہائے ، سعدیہ حسنی حسن ، سنسکرتی چٹو پادھیہ، سلمان عبدالصمد ،سید علی الحر کمونپوری ،شاہین پروین ، زہیر احمد ، زہرہ ہماتی وغیرہ ۔

N یہ تین روزہ سیمینار جہاں موضوعاتی سطح پر قابل توجہ تھا ، وہیں تکنیکی تناظر میں بھی دلچسپ ۔ کیوں کہ ایک طرف پر جہاں زبان وصحافت کے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، وہیں ان کے متوازی طلبا نے بھی اپنے مقالات پیش کیے ۔ ایسا نہیں تھا کہ ریسرچ اسکالروں کے لیے الگ سے نشست منعقد کرکے ناقابل اعتنا سمجھا گیا ہو ، بلکہ جہاں مقالات کی پیش کشی میں طلبا شریک تھے ، وہیں بحث ومباحثہ میں برابر موجود ۔ اسی طرح اس سیمینار میں جہاں طول طویل صدارتی خطبوں سے دامن بچایا گیا ، وہیں تمام مقالات پر خاطر خواہ سوالات وجوابات بھی ہوئے ۔اس کے علاوہ میڈیا کے ضمن میں نہ صرف اخبارات وٹیلی ویژن زیر بحث آئے،بلکہ تمام وکمال کے ساتھ سنیما، اشتہارات ، مخصوص انٹرویوز کی ساختیات اور لفظی اعداوشمار کے مسائل پر بھی اچھی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ کئی ایک مقالے میں مختلف قابل ذکر اور نامور افراد کے انٹرویوز کے الفاظ کا تجزیہ اور محاکمہ پیش کیا گیا ، جس میں شماریاتی نظام کے تحت مختلف زبانوں کے الفاظ کی فہرست سازی کی گئی ہے اور علاقائی اثرات والفاظ کی شمولیت پر بھی بات چیت ہوئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شعری اظہار اور صحافتی ترسیل کے مابین فرق کو سامنے رکھتے ہوئے صحافتی زبان کی تشکیل ہوسکتی ہے۔ صحافت کے ترسیلی نظام میں عامی ، کم پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ، تفہیم کے معاملہ میں برابرکے حصہ دار ہیں۔ اسی بنیاد پر بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ادب کی زبان سے صحافتی زبان کی تشکیل قدرے مشکل امر ہے۔اس کے علاوہ اردو کے متبادل الفاظ سے نظریں چراکر ٹھیٹھ علاقائی الفاظ کا استعمال ، دائرہ زبان کو محدود کرنے کی کوشش ہے اور ترسیل کا دائرہ بھی سکڑ جاتا ہے۔ مثلاً، ایک علاقہ کا اردو اخبار دوسرے علاقے کے اردو داں کے یہاں سمجھنے میں پریشانی پیدا کردیتا ہے۔ٹھیٹھ اور غیر معروف علاقائی الفاظ سے ترسیلی نظام متاثر ہوتا ہے، مگر اصل زبان کے الفاظ میں معمولی تبدیلی سے لسانی حسن تو متاثر ہوتا ہے،ترسیل میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔جہاں تک لب ولہجہ اوراسلوب پرگہرے علاقائی اثر کاتعلق ہے تو اس میں ترسیل بھی متاثر ہوتی ہے اور لسانی حسن بھی مجروج ہوتا ہے۔بغیر چوں چراں علاقائی الفاظ کا استعمال اسی وقت جائز ہوسکتا ہے ، جب کسی شماریاتی نظام کے تحت علاقائی الفاظ کو اصل زبان میں شامل کرکے متعارف کر ایاجائے۔ ایک صوبہ /علاقہ میں رائج الفاظ کو دوسرے علاقہ میں پھیلا نے کی کوشش جائے۔ملک بھر میں پھیلی اکادمیاں اور این جی اوز اس پر توجہ دے سکتے ہیں۔ سیمینار کے مباحثہ سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہندی اور انگریزی کا ملاپ اپنی جگہ مستحسن تاہم ترسیلی نظام کو بہتر بنانے کے لیے لسانی حسن کو قربان کردینا بہتر نہیں ۔ اسی طرح سوشل میڈیا کی اہمیت کے باوجود بھی پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کی حقیقت مسلم ہے اور رہے گی ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100746 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More