نفسِ ذکیہ - قسط۔ ۳

ظہر کے وقت ہم کلری جھیل پہنچ گئے۔ بہت بڑی جھیل تھی وہ…… سمندر ہی لگ رہی تھی۔ کناروں پر چھوٹی چھوٹی لہریں بھی اٹھ رہیں تھیں۔ ہوا بھی پر لطف چل رہی تھی۔ وہیں جھیل کے عین بیچ میں نوری جام تماچی کی قبر تھی۔

’’ارے یار یہ کیا ہے بیچ میں؟؟؟‘‘ میں نے دلاور اور مجدی سے پوچھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ یہاں عین پانی کے گھیرے میں ایک قبر بھی ہے۔
’’ہاں…… یہ نوری جام تماچی کا مزار ہے نا!!!‘‘ مجدی بولا۔
’’مزار؟؟‘‘
’’ہاں…… قبر ہے‘‘۔ مجدی نے وضاحت کی۔
’’اچھا…… اس کی کیا کہانی ہے؟؟؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔ کیونکہ اس قسم کی قبروں کے پیچھے کوئی نا کوئی انوکھی داستان ہوتی ہی ہے……

’’یار کوئی مچھیرن تھی…… بہت خوبصورت…… ‘‘
’’……اور یہاں کا پرانا راجہ…… ٹھٹھہ کا…… اسے دیکھ کر اس پر فدا ہو گیا تھا……‘‘
’’شادی بھی ہو گئی تھی ان کی…… ‘‘
’’…… اور کہتے ہیں وہ بہت اطاعت گزار اور عاجز قسم کی بیوی تھی…… اور یہی بات راجہ کو بہت پسند تھی‘‘۔
’’بس وہ اس کی فیورٹ بن گئی‘‘۔
’’ اچھا!‘‘ میں نے غور سے کہانی سنی۔

’’ایسے بیچ میں کیسے اس کی قبر بنا دی ہے!!!‘‘ میں حیرت سے جھیل کے کنارے بیٹھا پانی میں پاؤ ں مار مار کے سوال کر رہا تھا۔
’’پتا نہیں……‘‘
’’پتا نہیں پانی کے بیچ میں کیسے بنا دی ہے قبر؟؟؟‘‘ مجدی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

کچھ ہی دیر میں ایک کشتی والا ہمارے پاس آ کر بولا ، ’’بھائی چلنا ہے مزار پہ؟؟؟‘‘
میں نے دلاور اور مجدی دونوں کی طرف دیکھا۔
’’چلو…… چلتے ہیں‘‘۔ سب یک زبان ہو کر بولے۔

یہ کوئی ایک سو بیس گز کے مکان سے بھی چھوٹی ایک دائرے کی شکل کی خشک جگہ تھی۔پتا نہیں کیسے پانی کے بیچوں بیچ یہ جگہ بنائی گئی تھی۔یا شاید یہ قدرتی طور پر ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔

میں ، دلاور اور مجدی تینوں نوری جام تماچی کے مزار پر موجود تھے۔ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بہت دلفریب تھیں۔

ہم سب نے وہاں بنے کمرے نما مزار کے اندر سورۃ فاتحہ تلاوت کی اور دیوارو ں پر بنے نقش و نگار کا مشاہدہ کرنے لگے۔

اچانک باہر سے کچھ شور شرابے کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائیں۔ ہم سب چونک گئے۔ نا جانے کیا ہوا تھا۔
’’کوئی شور سا ہو رہا ہے نا!!!‘‘ دلاور نے ہماری توجہ شور کی جانب مرکوز کی۔

’’ہاں کچھ ہو تو رہا ہے……‘‘ ہم تینوں مزار سے باہر خشک احاطے میں نکلے۔ آوازیں ہماری پچھلی جانب سے آ رہی تھیں۔ دوسرے بھی کئی لوگ متوجہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ کیا ہو گیا ہے۔

ایک طرف کئی لوگ جمع تھی اور مختلف آوازیں لگا رہے تھے۔ کوئی کشتی الٹ گئی تھی۔ جھیل میں افرا تفری مچ گئی۔ بہت سے مچھیروں اور کشتی والوں نے جھیل میں چھلانگ لگا دی تا کہ ڈوبتے لوگوں کو بچایا جا سکے۔ ہمارا کشتی والا بھی جلدی جلدی کشتی چلا کر وہاں جانے لگا جہاں کشتی الٹی تھی۔

دو تین لوگ جنہیں تیراکی آتی تھی، اپنی جان بچا کر خشکی کی طرف بڑھنے لگے۔ مگر ناجانے کتنے اور افراد ڈوب گئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ہر کشتی میں کوئی بیس سے پچیس افراد کو سوار کیا جاتا تھا۔

’’ارے یار …… اے اﷲ انہیں بچا لے……‘‘
’’یا اﷲ!‘‘
’’یار! وہاں کوئی ڈوب رہا ہے……‘‘ کسی نے چیخ کر کسی کو کہا۔
’’او ہو……‘‘
’’چچ چچ چچ……‘‘ ۔ کئی مرد اور عورتیں جو مزار پہ کھڑے تھے، ایسی ہی باتیں منہ سے نکالنے لگے……سب تماشہ دیکھ رہے تھے ۔
ہم سب بھی بہت پریشان ہو گئے۔ دل بیٹھ سا گیا۔ سب ہی ڈوبتے افراد کی خیریت کی دعائیں کرنے لگے۔ بہت سے کشتی والے اور مچھیرے اب تیر تیر کر ڈوبتے لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان افراد میں دو تین لائف گارڈز بھی شامل تھے۔ کچھ ہی لمحوں میں پولیس بھی آ گئی۔

کوئی پینتالیس منٹ بعد سب لوگ خشکی پر آ گئے۔ کئی لوگ جن کی حالت خطرے میں تھی ، کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

آخر میں خبر ملی کہ ایک چھوٹا بچہ جان کی بازی ہار گیا ہے۔ کم عمری اور چھوٹا جسم ہونے کے باعث وہ نظروں میں نہ آ سکا اور ڈوب گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

مولوی صاحب نے اپنا ریجسٹر زور سے ڈیسک پر مارا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب حاضری لگاؤ اور پھر چھٹی۔ سب بچوں نے فوراََ اپنے اپنے سپارے بند کر دئیے۔ میں نے بھی اپنا قائدہ بند کر دیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب مولوی صوحب میرا نام پکاریں اور میں ’’لبیک‘‘ کہوں۔

میرا نام بھی آ گیا اور حاضری لگ گئی۔ میں خوشی خوشی اٹھ کے مسجد سے باہر بھاگنے ہی والا تھا کہ دفعتاََ میرا دل ڈوب گیا۔ وہ میرے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ اپنے ہاتھ میں مولوی صاحب کی طرح ڈنڈا پکڑے…… میری شکل پہ اداسی چھا گئی۔ اپنے دل پر ایک بھاری بوجھ سا محسوس ہونے لگا۔ کیا حالت ہوتی ہو گی ایک چوزے کی جب اسے بلی دبوچ لے…… بے چارہ کیا کر سکتا ہے۔

’’چلو اوپر چھت پر……‘‘ اس نے ہلکے سے کہا تا کہ کسی اور کو آواز نہ آ جائے۔
’’ صفائی کے لئے جانا ہے……‘‘ میری نظریں فوراََ میرے دوستوں کو ڈھونڈنے لگیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ انہیں کے بیچ چھپ کر مسجد سے بھاگ جاؤں۔ مگر سب بچے پہلے ہی بھاگ بھاگ کر باہر نکل گئے تھے۔ میں نے اپنے آخری دوست کو دور جاتا ہوا دیکھا اور مایوسی سے بہت آہستہ سے مسجد میں بچھائی ہوئی چٹائی سے اُٹھا…… وہ میرے پیچھے اپنی شلوار کے پائنچے اٹھائے کھڑا تھا۔ میں نے کسی امید پر مولوی صاحب کو تلاش کرنا چاہا مگر وہ تو پہلے ہی اٹھ گئے تھے۔

میں آگے آگے اور وہ میرے پیچھے پیچھے تھا۔ جیسے مجھے ہانک کر لے کر جا رہا ہو۔مسجد کی چھت کی سیڑھیاں اس کے بڑے دروازے کے پاس ہی تھیں۔
’’چلو اوپر……‘‘ اس نے حکم دیا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا بھی گھمایا۔
میں لاچار…… مر مر کے ایک ایک سیڑھی چھڑھتا اور جب میں ہلکا پڑتا تو وہ مجھے پیچھے سے مارتا……

مسجد کی چھت پر کاڑ کباڑ پڑا ہوا تھا۔ کوئی وہاں نہیں آتا تھا۔ نہ کو ئی وہاں کسی کو دیکھ سکتا تھا۔
وہیں اس نے میری معصوم روح کو مسلنا شروع کر دیا۔ میں بار بار اسے اپنے آپ سے دور کرنے کی کوشش کرتا اور وہ بار بار مجھے اذیت دیتا……
مجھ میں کہاں اتنی طاقت تھی!!! میری نازک کمزور کلائیاں کہاں ایک نوجوان کا مقابلہ کر سکتی تھیں……
وہ میرے ذریعے اپنی ہوس کی آگ بجھانے کی کوشش کرتا رہا……
’’اوئے…… ‘‘ چھت پر بنے ایک کمرے سے مولوی صاحب نکلے۔ میرا دل ایسے زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر ہی آجائے گا۔
اس نے مجھے اٹھا رکھا تھا۔ یک دم مجھے زمین پر پھینک دیا۔
’’خبیث آدمی……‘‘ مولوی صاحب بھاگتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ میں نے سسکیاں بھر بھر کے دیوار کے ساتھ منہ کر کے رونا شروع کردیا۔ میں اپنا ذلت بھرا چہرہ کسی کو نہیں دکھانا چاہتا تھا۔
مولوی صاحب نے ایک مکا اس کے کاندھے پر دے مارا۔ میری تو جیسے کسی نے جان نکال دی۔ میں ڈر گیا کہ شاید اب مجھے بھی ایسے ہی ماریں گے۔ میں اور سسکیا لے لے کے رونے لگا۔
مولوی صاحب رک ہی نہیں رہے تھے……اور اس پر لاتوں گھونسوں کی بارش کر رہے تھے۔ ’’کیا کر رہا تھا یہ……‘‘
’’بے حیا انسان…… اتنا بھی خیال نہیں کہ یہ مسجد ہے‘‘
’’معصوم بچے پہ ظلم کرتے ہوئے تجھے اﷲ کا خوف نہیں آیا؟؟؟‘‘
’’بے غیرت‘‘ مولوی صاحب نے وہیں کباڑ میں پڑی ہوئی ایک لکڑی اٹھائی اور بنا دیکھے سنے اسے مارنا شروع کردیا۔
’’نہیں…… مولوی صاحب …… میں تو اسے پیار کر رہا تھا……‘‘ اس کے چہرا لال سرخ ہو گیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے بہانے تراشنے لگا۔ مگر مولوی صاحب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔

’’جھوٹ بولتا ہے کمینے …… بے شرم…… بے حیا……‘‘ مولوی صاحب اسے مارتے رہے۔ خوب مار پیٹ کے بعد مولوی صاحب بھی تھک گئے۔ مگر اس ڈھیٹ کی آنکھیں تک تر نہ ہوئیں۔
’’دفعہ ہو جاؤ اور آئندہ ادھر نہیں آنا‘‘ وہ دوڑ کر کئی کئی سیڑھیاں پھلانگتے مسجد سے دفع ہوا۔

’’ادھر آؤ بیٹا……‘‘ مولوی صاحب مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔
’’مت رو بیٹا …… ‘‘ میں اور آہیں بھر بھر کر رونے لگا۔ انہوں نے اپنے بھی اور میرے بھی آنسو صاف کئے اور وہیں میرے ساتھ فرش پر بیٹھ گئے۔

میری سسکیاں بند نہیں ہو رہیں تھیں۔ آنسوؤں سے پورا چہرا بھیگ چکا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا اور مجھے چومنے لگے…… دلاسہ دینے لگے……
میرا دل کچھ مطمئین ہونے لگا۔ میں نے خود کو کچھ سنبھالا اور مولوی صاحب سے چمٹ گیا۔

’’چلو…… نیچے چلو……‘‘ وہ مجھے نیچے مسجد میں لے گئے۔ مجھے وہیں بٹھا کروہ باہر نکل گئے۔
کچھ دیر میں وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک جوس کا پیکٹ ، چند ٹافیاں اور چپس تھے۔
انہوں نے وہیں میرے پاس بیٹھ کر مجھے جوس کھول کر دیا اور مجھے جوس پلانے لگے۔
میں نے مشکل سے جوس کی نلکی منہ میں ڈالی اور ایک گھونٹ حلق سے اتارنے کی کوشش کی۔ حلق بالکل خشک تھا۔ ایک عجیب سی ہلکی سی تکلیف سے میں نے جوس کا پہلا گھنٹ حلق سے اتارا……

مولوی صوحب نے بہت پیار سے مجھ سے سب کچھ پوچھا۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ تین مہینے سے میں یہ اذیت جھیل رہا ہوں۔ سب کچھ بتا دیا۔ مولوی صاحب کی آنکھیں میری کہانی سن کر بار بار بھیگ جاتیں مگر وہ نظریں چرا لیتے۔ انہوں نے مجھے حوصلہ دیا، پیار کیا اور پھر کئی دنوں تک مجھے خود گھر تک چھوڑنے آتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔
فہد اور اس کے چھوٹے چھوٹے خالہ ذاد بہن بھائی اوپر والے کمرے میں بیٹھے تھے۔ فہد اپنے کزنز سے کوئی پندرہ سال بڑا ہو گا…… باقی بچے کوئی پانچ سال کا، کوئی سات سال کا……
نیچے اس کی خالہ کے پڑوس سے کچھ مہمان آئے تھے۔ رضیہ آنٹی اور ان کی بیٹی ریحانہ…… جب بھی خواتین گھر پر آتیں خالہ فہد کو اوپر بھیج دیتیں کیونکہ محلے میں سب ہی پردے کا خیال رکھتے تھے۔

فہد میری دکان پر سیلز مین تھا اور اپنی خالہ کے گھر ہی رہتا تھا۔ اس کا اپنا گھر پنجاب میں تھا۔ خالہ بھی اس مہنگائی کے دور میں بس گزارہ ہی کرتی تھیں۔ انہوں نے فہد سے طے کر رکھا تھا کہ کچھ پیسے بطور کرائے کے ہر ماہ انہیں دے دیا کرے۔ تاکہ خالو بھی خوش رہیں اور کبھی کسی موقع پر خالہ کو طعنہ نہ دیں کہ ان کے رشتہ دار مہینوں مہینوں ان کے ہاں پڑے مفت میں روٹیاں توڑتے رہتے ہیں ۔

رضیہ آنٹی فہد کی خالہ کی منہ بولی بہن بنی ہوئیں تھیں۔ دونوں گھروں کے افراد کا ایک دوسرے سے ایسا ہی رشتہ تھا جیسے حقیقی رشتہ داروں کا ہوتا ہے۔فہد اوپر اپنے کزنز کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا تھا اور نیچے کے کمرے سے عورتوں کے باتیں کرنے کی آوازیں اوپر تک آ رہی تھیں۔ یہ چھوٹا سا دو کمروں کا ہی گھر تھا۔ ایک کمرہ نیچے اور ایک اوپر اور بس…… یہی غریبوں کی جنت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔


سب کا موڈ آف ہو چکا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کیسی پکنک ہے ۔ یہ تو کوئی ٹریجڈی ہے……
کسی نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ سب کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ کوئی چھوٹی بات بھی نہ تھی۔ ایک برا واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک بچے کی جان چلی گئی تھی۔

عصر ہونے میں کوئی دو گھنٹے باقی تھے۔
’’آگے جانا ہے؟؟؟‘‘ مجدی نے بد دل ہو کر پوچھا۔ میں نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
’’دیکھ لو……‘‘ دلاور کو بھی کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ اس کا بھی منہ بنا ہوا تھا۔

کچھ دیر تک سب خاموشی سے اکیلے اکیلے اداس چہرے بنائے جھیل کے کناروں پر کچھ سوچتے ہوئے ٹہلتے رہے۔ سب کے سب ڈوبنے والے افراد اور ان کے گھر والوں کی پریشانی کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔

’’چلو چلتے ہیں……‘‘ مجدی جھیل کے کنارے سے اٹھا۔
’’کہاں ؟؟؟‘‘۔
’’واپس جارہے ہو؟؟؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’چلو اگر واپس چلنا ہے ……؟؟؟‘‘ وہ بولا۔
’’کیا پلان ہے دلاور؟؟؟‘‘ دلاور زرا دور کھڑا پانی کو گھور گھور کے دیکھ رہا تھا۔ میری بات سن کر وہ ہماری طرف آنے لگا۔

’’مکلی چلیں؟؟؟‘‘ میں نے پوچھا۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ہاں میں جواب دے گا یا نہ میں……
’’چلو!‘‘ دلاور نے چھوٹا سا جواب دیا اور سامان سمیٹنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85371 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More