انسان تمام عمر کامیابی اور
خوشحالی کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ اس کے لیے
انسانوں نے اپنے اپنے مختلف معیار قائم کر رکھے ہیں اور یہ بدلتے رہتے ہیں۔
کائنات کے خالق و مالک کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں دنیا اور آخرت کی
کامیابی اور فلاح کا راستہ بتلانے کے لیے قرآن عظیم نازل فرمایا اور کامیاب
زندگی گزارنے کے لیے جن رہنما اصولوں کی ضرورت تھی ہمیں بتلا دیے۔ معاملہ
قوموں کا ہو یا افراد کا کامیابی و کامرانی کا قرآنی راستہ بتلا دیا گيا۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے۔
اقوام کا معاملہ
سورة الأعراف ( 7 )
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم
بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ وَلَـكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم
بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ {96}
اگر بستیوں کےلوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر
آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا،
لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ۔
سورة المائدة ( 5 )
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُواْ وَاتَّقَوْاْ لَكَفَّرْنَا
عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلأدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ {65} وَلَوْ
أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيهِم
مِّن رَّبِّهِمْ لأكَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۔۔۔
{66}
اگر یہ اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان کی
برائیاں ان سے دور کر دیتے اور ان کی نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش
انہوں نے توراة اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے
رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے
رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔
سورة النور ( 24 )
وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن
قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ
وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا
يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ
الْفَاسِقُونَ {55}
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک
عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے
گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کےاُس دین کو مضبوط بنیادوں
پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن
کی( موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور
میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ
فاسق ہیں۔
ان آیات کی روشنی میں دیکھیے کہ کسی قوم کو کامیابیاں اور خوشحالیاں عطا
فرمانے کے لیے اللہ جل جلالہ کا کیا معیار اور کیا طریقہ کار ہے؟ اللہ کی
طرف سے انسانوں کو ہدایت آجانے کے بعد اگر کامیابی اور سچی خوشحالی کا کوئی
راستہ ہے تو وہ صرف اللہ کی آیات پر ایمان لانا اور تقویٰ کی روش کا اختیار
کرنا ہے وگرنہ دیگر تمام راستے تباہی اور بربادی کی طرف جاتے ہیں۔ اہل کتاب
کا ذکر کر کے یہ فرمایا گیا کہ اگر اللہ کی نازل کردہ کتابوں کو قائم کیا
جائے تو اللہ آسمانوں اور زمین سے برکتوں اور رزق کے دروازے کھول دے اور
زمین اللہ کے حکم سے ایسی اقوام کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دے۔ اور
آخرت میں نعمت بھری جنتوں کا وعدہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ آج کے حاملین کتاب
اللہ ہم مسلمان ہیں اور یقیناً اللہ کا یہ وعدہ ہمارے لیے بھی اسی طرح ہے
کہ اگر ہم اس قرآن کے نظام کو قائم کریں گے اور اللہ کے حکم کے مطابق اللہ
کےنازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے کریں تو۔۔
سورة المائدة ( 5 )
۔۔۔فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللهُ۔۔۔{48}
(پس تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔)
زمین و آسمان سے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے ہمارے لیے بھی کھل سکتے ہیں،
ہم بھی اپنے پاؤں کے نیچے سے کھا سکتے ہیں اور آخرت میں جنتوں کے مستحق ہو
سکتے ہیں۔ ہم اگر اللہ کی راہ میں کوشش کریں تو اللہ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ
وہ ہمیں زمین کی خلافت بخشے گا، ہمارے خوف کو امن میں بدل دے گا اور ہمارے
دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر کے ہماری آنکھیں ٹھنڈی فرمائے گا۔ مدینے
کی مثالی بستی اور خلفائے راشدین کے دور کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رسولﷺ اور
صحابہء کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی چند سالہ جدوجہد کے نتیجے میں
انہیں ایسی خوشحالیاں ملیں کہ مدینے میں زکواۃ لینے والا کوئی نہ ملتا تھا
اور اللہ نے ایسی خلافت عطا فرمائی کہ اسی کی بنیاد پرگئے گزرے مسلم
حکمرانوں نے بھی اپنی تمام خامیوں کے ساتھ دنیا میں اپنی پہچان کے ساتھ ایک
ہزار برس سے زیادہ تک حکومت کی اور یوں اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ یہی وعدہ
ہمارے لیے آج بھی ہے اور آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے کہ عزت کے ساتھ کون جی
رہا ہے وہ جو ڈٹ گئے یا وہ جو ڈر کر جھک گئے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
اور اس کے برخلاف دوسرا راستہ ہے خواری اور اللہ کی شدید پکڑ ۔
سورة البروج ( 85 )
إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ {12}
یقیناً تمہارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے
ہمارے لیے بحیثیت قوم سرخروئی کا ایک ہی راستہ ہےکہ ہم قرآن کے نظام حیات
کو اپنے معاشرے میں قائم و جاری وساری کریں ورنہ ذلت و رسوائی کے سوا ہمیں
دنیا اور آخرت میں کچھ بھی ملنےوالا نہیں۔ یاد رکھیے کہ اللہ کے احکامات
محض آپشنل سفارشات نہیں ہیں بلکہ اللہ کے سامنے ان کی جوابدہی بہت سخت ہے
اور انہی کی بنیاد پر دنیا اور آخرت میں کامیابی کا فیصلہ ہے۔انحراف کی
صورت میں دیکھ لیجیے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور دنیا میں ہماری حیثیت
کیا ہے؟
تقویٰ کی زندگی کا دنیا میں انفرادی انعام
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان و اسلام کے راستے پر چلنے سے انفرادی طور
پر انسان کی دنیا تو ضرور ہی بگڑ جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے حقیقت
یہ ہے کہ جسے سچی عزت و سرفرازی چاہیے وہ اللہ کا ہو جائے۔ ہم آج انسانی
تاریخ کے کن لوگوں کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے
ہیں؟ کن لوگوں کے ماننے والے اور ان کی اطاعت کرنےوالے دنیا میں سب سے
زیادہ ہیں؟ آج بھی دنیا میں اچھائی کا معیار کون لوگ ہیں؟ عیسائی کس کے نام
سے عیسائی کہلاتے ہیں؟ یہود کس کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں؟ ہم
مسلمانوں کے نزدیک انسانیت کی محترم و بزرگ ترین ہستیاں کون لوگ ہیں؟
انبیاءعلیھم السلام اور ان کے سچے پیروکار۔ وہی لوگ ناں جنہوں نے ایمان لا
کر تقویٰ کی روش اختیار کی اور جن کو خدا نے ایسی پاکیزہ زندگیاں عطا
فرمائیں کہ انسانیت کے لیے مشعل راہ بن گئیں۔ سوچیے کہ ہم پیروی کے لیے
فرعون و ہامان، نمرود و قارون و ابو جہل کو پسند کرتے ہیں یا انبیاءعلیھم
السلام، رسولوں اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کو؟ تو کیا ان کی دنیا بگڑ گئی
تھی۔۔۔؟
دیکھیے اللہ رب العزت ان آیات میں ایمان لاکراعمال صالحہ کرنے والوں سے کیا
وعدہ فرماتا ہے:
سورة النحل ( 16 )
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ
فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم
بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ {97}
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن،
اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائيں گے اور (آخرت میں)ایسے لوگوں کو
ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
اس آیت کی تشریح تفیم القرآن سے ملاحظہ فرمائیے:
"اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے ان تمام کم نظر اور بے صبر
لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں یہ سچائی اور دیانت اور
پرہیزگاری کی روش اختیار کرنے سے آدمی کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ حالانکہ
جو لوگ حقیقت میں ایماندار، پاکباز اور معاملہ کے کھرے ہوتے ہیں ان کی
دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بدعمل لوگوں کے مقابلہ میں صریحاً بہتر رہتی
ہے۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے داغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے
وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل
ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے
طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور
ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئي ادنی سا حصہ بھی محلوں
میں رہنے والے فساق و فجر نہیں پا سکتے۔"(تفہیم القرآن۔سید مودودی رحمہ
اللہ)
سورة الطلاق ( 65)
۔۔۔وَمَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا {2} وَيَرْزُقْهُ مِنْ
حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
{3}
جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا
کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا
گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ
اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر
رکھی ہے۔
زندگی میں مشکلات کسے نہیں آتیں؟ کیا آپ یہ نہ چاہیں گے اللہ خالق و مالک
کائنات آپ کو ان مشکلات سے نکالنے کا اور آپ کو پاکیزہ رزق فراہم فرمانےکا
ذمہ لے لے۔ کیا ہمیں پاکیزہ زندگی نہیں چاہیے؟ آئیے ایمان، خدا خوفی اور
اعمال صالحہ والی زندگی اختیار کریں جس کے نتیجے میں ہمیں دنیا میں اللہ کا
نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا، پاکیزہ زندگی، مشکلات سے نجات، پاکیزہ رزق اور
آخرت میں بہترین اعمال کے مطابق صلہ ملنا ہے۔ یقین جانیے یہی کامیابی کا
راستہ ہے وگرنہ چارو ناچار جانا تو اللہ ہی کی طرف ہے مہمان بن کر جائیں یا
مجرم بن کر۔
سورة الإنشقاق ( 84 )
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا
فَمُلَاقِيهِ {6}
اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہےاور اس سے ملنے والا ہے
۔
اللہ کی آیات سے منہ موڑنے، جھٹلانے اور اللہ کو بھلا دینے کا انجام
ہم یہ تو جان چکے ہیں کہ اقوام کا اللہ کی آیات سے منہ موڑنے اور جھٹلانے
کا انجام ذلت و رسوائی اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں البتہ یہ بھی یاد رہے
کسی فرد کے لیے بھی اللہ کے ذکر سے منہ موڑنا اور اللہ کی آیات کو بھلانا
اور جھٹلانا کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ آئیے قرآن حکیم سے اس کا انجام بھی
پوچھ لیتے ہیں۔
سورة طه ( 20 )
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى {124} قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى
وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا {125} قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا
فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى {126}
اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ
زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے"_____وہ کہے گا
"پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں
اُٹھایا؟" اللہ تعالٰی فرمائے گا " ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ
وہ تیرے پاس آئی تھیں، تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھُلایا جا
رہا ہے۔"
واضح ہوا کہ اللہ کے ذکر سے منہ موڑنے کے نتیجہ میں آخرت تو جاتی ہی ہے
دنیا بھی بگڑ جاتی ہے۔ ساری نعمتیں ہوں اور خدا دل کو تنگ کردے اور انسان
ان نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھائے تو کیا فائدہ؟ دولت کے انبار ہونے کے باوجود
ایک ایک روپے پر جان دیتا ہو تو کس کام کے ہیں وہ انبار؟ یا اگر خدا دنیا
ہی کے پیچھے دوڑا دوڑا کر تھکا دے اور حال یہ ہو کہ آرام سے کھانا بھی نہ
کھا سکے اور والدین کو دفنانے تک کا وقت نہ ہو تو یہ تنگ زندگی نہیں تو اور
کیا ہے؟ اور چونکہ دنیا میں اللہ کی نشانیوں کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور
آنکھوں والا ہونے کے باوجود اندھا بنا رہا تو آخرت میں اندھا اٹھایا جائے
گا۔۔کیسا خوفناک انجام ہے؟ نعوذباللہ
کچھ اور آیات ملاحظہ فرمائیے:
سورة الزخرف ( 43)
وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ
لَهُ قَرِينٌ {36} وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ
وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ {37} حَتَّى إِذَا جَاءنَا قَالَ يَا
لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ
{38}
جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے
ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ ِراست پر
آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جارہے ہیں۔
آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سےکہے گا، ‘‘ کاش میرے
اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بُعد ہوتا تُو تو بد ترین ساتھی نکلا۔“
سورة الجن ( 72 )
۔۔۔وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا {17}
اور جو اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑے گا اس کا رب اسے سخت عذاب میں مبتلا کر
دے گا۔
کیا ہم یہ چاہیں گے کہ ہم آیات الہی سے اعراض کریں اور اس کے انجام میں
ہمیں خدا دنیا میں تنگ زندگی دے، شیطان کو ہمارا ساتھی بنائے، آخرت میں
اندھا اٹھائے، ہمیں بھلا دے اور دنیا و آخرت میں ہمیں سخت عذاب میں مبتلا
کر دے؟ یا ہم یہ چاہیں گے کہ ہم ایمان لا کر تقویٰ کی روش اختیار کریں،
اعمال صالحہ کریں اور انعام میں اللہ ہمیں پاکیزہ زندگی عطا فرمائے، مشکلات
میں ہمارا ساتھی بن جائے، ہمیں اپنے سے پاکیزہ رزق عطا فرمائے اور آخرت کی
کامیابی ہمارا مقدر ہو؟ بتائیے کس قوم اور کس فرد کی دنیا اور آخرت بنتی ہے
اور کس قوم اور فرد کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے۔ قرآن نے تو اپنی ہدایت
سامنے رکھ دی ہے اب فیصلہ ہمارے اوپر ہے۔ دونوں راستے اور ان کا انجام علیم
و خبیر ہستی نے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، اپنا راستہ ہم نے خود چننا ہے۔ خدا
کی اطاعت میں دنیا کی بھلائی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی اور نافرمانی
میں دنیا بھی برباد اور آخرت بھی عذاب کا گھر۔ فیصلہ کیجئے۔۔۔۔؟ |