رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار ،غزوات اور جنگوں کا احوال -20

علی علیہ السلام فاتح خیبر
قلعے یکے بعد دیگرے فتح ہوگئے صرف دو قلعے باقی رہ گئے اور یہودی ان قلعوں کے اوپر سے مسلمانوں پر بڑی تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو لشکر کی سرداری دے کر قلعہ فتح کرنے کے لئے روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں میں پرچم دیا، لیکن وہ بغیر پیش قدمی کئے شکست کھا کر پلٹ آئے۔ دوسرے دن پیغمبر نے پرچم لشکرحضرت عمر کے حوالہ کیا لیکن وہ بھی پیش قدمی نہ کرسکے اورشکست کھا کر واپس آگئے۔ تیسرے دن رسول خدا نے پرچم کو سعد بن عبادة کے حوالہ کیا لیکن وہ بھی شکست سے دوچار ہوئے خود وہ اور ان کا لشکر بھی زخمی ہوگیا اور وہ بھی بیٹھ رہے۔ اس پر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ ”کل میں علم اس کے حوالے کروں گا جس کو خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہوگا اور وہ بھی خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے، خدا اس کے دونوں ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔ رات ختم ہوئی صبح نمودار ہوئی۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے علی ان ابی طالب علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا آپ، آنحضرت کی خدمت میں تشریف لائے جبکہ آپ کی آنکھوں میں درد تھا چنانچہ فرمایا ”حضور نہ میں دشت کو دیکھ پا رہا ہوں اور نہ کوہ کو“ پھر آپ پیغمبر کے قریب پہنچے آنحضرت نے فرمایا ”اپنی آنکھیں کھولو“ رسول خدا نے اپنا لعاب دہن علی کی آنکھوں میں لگایا تو آنکھیں شفایاب ہوگئیں۔ پھر آپ نے پرچم علی ابن ابی طالب کو دیا اور ان کی کامیابی کےلئے دعا کی۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام قلعہ کی طرف روانہ ہوگئے۔حضرت علی علیہ السلام کی سرکردگی میں جب لشکر قلعہ کے نزدیک پہنچا تو مرحب کے بھائی حارث نے اپنے مشاق اور تیز رفتار شہ سواروں کےساتھ لشکر اسلام پر حملہ کیا۔ مسلمان بھاگے علی ابن ابی طالب تنہا اپنی جگہ جمے رہے، علی علیہ السلام کی تلوار کی ضرب نے اپنا کام کیا اور حارث ان کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ یہودیوں پر خوف و وحشت طاری ہوگیا، وہ قلعہ کے اندر بھاگ گئے اورقلعہ کے دروازہ کو مضبوطی سے بند کرلیا۔ مسلمانوں نے جب یہ منظر دیکھا تو پھر میدان میں پلٹ آئے، ایسے موقع پر خیبر کا مشہور پہلوان حارث کا بھائی اپنے بھائی کی موت سے بے تاب ہوگیا۔ اسلحہ میں غرق، غصہ میں بھرا رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر کود پڑا۔وہ کہہ رہا تھا ”خیبر مجھے جانتا ہے میں مرحب ہوں اسلحہ میں غرق، آزمودہ کار پہلوان ہوں، کبھی میں نیزے سے وار کرتا ہوں کبھی شمشیر سے جب شیر غصہ کے عالم میں ہوتے ہیں اس وقت بھی کوئی میری ممنوعہ جگہ سے قریب نہیں ہوتا۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۵۳،۵۴)

اس پر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا”میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے میں بہادر ہوں اور کچھاروں کا شیر ہوں۔“ (ارشاد مفید ص۶۷)

اس کے بعد زبردست جنگ شروع ہوئی، شمشیر علی مرحب کے سر میں در آئی اس کی سپر پتھر کے خود اور اس کے سر کو دانتوں تک دو ٹکڑے میں تقسیم کر دیا۔ یہ ضربت ایسی خطرناک تھی کہ اس کو دیکھ کر یہودیوں کا ایک گروہ بھاگ کھڑا ہوا اور قلعہ کے اندر جاچھپا اور بقیہ افراد علی علیہ السلام کے ساتھ دست بدست جنگ میں مارے گئے۔علی علیہ السلام نے شیر کی طرح یہودیوں کا پیچھا قلعہ کے دروازہ تک کیا پھر قلعہ کے دروازہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے اکھاڑ لیا اور اس کو جنگ کے اختتام تک سپر کی طرح استعمال کرتے رہے پھر اس کو اس خندق کے اوپر رکھ دیا جو قلعہ کے چاروں طرف کھدی ہوئی تھی۔(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۵۵)

یہ دروازہ اتنا بھاری تھا کہ لشکر اسلام کے8 سپاہی اس کو نہ اٹھاسکے حضرت علی علیہ السلام اس اعجازی قوت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ”میں نے ہرگز بشری قوت سے اس کو نہیں اکھاڑا بلکہ خداداد قوت کے زیر اثر اور روز جزا پر ایمان کی بنا پر یہ کام کیا ہے۔“ (بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۶)

علی علیہ السلا کی شجاعت، بہادری اور ان کے ہاتھوں کی طاقت سے خیبر کی فتح اور دوسروں کی ناطاقتی کے بارے میں بہت سی حدیثیں اہلسنّت کی کتابوں میں موجود ہیں ان ماخذوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

طرفین کے خسارے کا تخمینہ
آخری قلعہ کی فتح کے بعد یہودی ہار گئے، لشکر اسلام کی جیت ہوئی اس جنگ میں یہودیوں کے 39سے زیادہ بڑے بڑے، جنگجو ہلاک ہوئے جبکہ شہداء اسلام کی تعداد102رہی، اس طرح قلعوں میں حملہ کے نتیجہ میں کچھ یہودی لشکر اسلام کی اسیری میں آئے۔

اسیروں کے ساتھ اچھا برتاؤ
قلعوں میں سے جب ایک قلعہ فتح ہوا تو حی ابن اخطب کی بیٹی صفیہ اور ایک دوسری عورت اسیر ہوئی تو بلال ان دونوں کو رسول ﷺ کی خدمت میں لائے۔ جہاں یہودیوں کے مقتولین کی لاشیں پڑی تھیں۔ پیغمبر اٹھے اور انہوں نے صفیہ کے سر پر عبا ڈال دی اور ان دونوں عورتوں کے آرام کے لئے لشکر گاہ میں ایک جگہ معین فرما دی پھر بلال سے سخت لہجہ میں کہا ”کیا تمہارے دل سے بالکل مہر و محبت ختم ہوگئی ہے کہ تم نے ان دونوں عورتوں کو ان کے عزیزوں کے پاس سے گزارا“ صفیہ کے دل پر پیغمبر کی محبت نے بڑا اثر کیا بعد میں صفیہ پیغمبر کی باوفا بیویوں کے زمرہ میں شامل ہوئیں۔(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۷۳)

کامیابی کے بعد درگزر
تاریخ کے فاتحین نے جب بھی دشمن پر کامیابی حاصل کی تو انہوں نے شمشیر انتقام سے اپنے کینہ کی آگ کو بجھایا اور دشمن کی تباہی میں بڑی بے رحمی کا ثبوت دیا لیکن خدا رسیدہ افراد نے کامیابی کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ نہایت لطف و محبت کا سلوک کیا ہے۔ فتح خیبر کے بعد، خیبر کے جن افراد نے زیادہ مال صرف کر کے احزاب کی عظیم شورش برپا کی تھی اور اسلام کو خاتمہ کے دہانہ پر لاکھڑا کیا تھا ان کے سرداروں پر پیغمبر رحمت کے لطف و عطوفت کا سایہ رہا، آپ نے ان کو یہ اجازت دی کہ وہ لوگ سرزمین خیبر کی آمدنی کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں۔ آنحضرت نے فتح کے موقع پر نیزہ کے زور سے ہرگز ان پر اسلام مسلط نہیں کیا یہاں تک کہ آپ نے ان کے مذہبی شعائر اور رسوم کی ادائیگی پر بھی کوئی پابندی عائد نہ کی۔ (حوالہ سابق)

خیبر کی غنیمتیں
قلعہ خیبر فتح کر لینے اور یہودیوں کو خلع سلاح کرنے کے بعد کافی مقدار میں ہتھیار اور جنگی ساز و سامان، یہودیوں کے جمع کئے ہوئے خزانے کہ جن میں بہت زیادہ زیورات، کھانے کے برتن، کپڑے بہت سے چوپائے اور کھانے پینے کا دوسرا بہت زیادہ سامان ہاتھ لگا جو کہ لشکر اسلام کو غنیمت کے طور پر ملا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ سپاہیوں میں سے ایک شخص جانبازان اسلام کے درمیان اعلان کرے کہ ”ہر مسلمان پر لازم ہے کہ مال غنیمت کو بیت المال میں لاکر جمع کر دے۔ چاہے وہ ایک سوئی اور تاگا ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ خیانت ننگ و عار ہے اور قیامت میں اس کی سزا آگ ہے۔“ (مغازی واقدی ج۲ ص ۶۸۰)

پھر عادلانہ تقسیم کے لیے تمام مالِ غنیمت ایک جگہ جمع ہوا اور آنحضرتﷺ نے حکم دیا کہ اس میں سے کچھ نقد کی صورت میں لوگ تبدیل کر لائیں۔”فروہ‘ جو مالِ غنیمت بیچنے کے کام پر مامور کئے گئے تھے۔ انہوں نے مالِ غنیمت میں سے ایک دستار دھوپ سے بچنے کے لیے اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔ وہ فراغت کے بعد بے خبری کے عالم میں اپنے خیمے میں چلے گئے وہاں ان کو ایک دم دستار کا خیال آیا تو فوراً ہی خیمے سے باہر نکلے اور اس دستار کو مالِ غنیمت کے ڈھیر میں رکھ دیا۔ جب رسول خدا کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا ”یہ آگ کی ایک دستار تھی جو تم نے اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔“ (حوالہ سابق)

مالِ غنیمت میں خیانت کی سزا
سپاہیوں میں سے ”کرکرہ“ نامی ایک شخص رسول خداﷺ کے مرکب کی نگہبانی پر مامور تھا لوٹتے وقت اس کو ایک تیر لگا اور وہ جاں بحق ہوگیا۔ رسول خدا ﷺ سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا ”کرکرہ“ شہید ہے؟
آپ نے فرمایا ”وہ بھی مالِ غنیمت میں سے عبا چرانے کے جرم میں اب آگ میں جل رہا ہے۔“اس موقع پر ایک شخص نے پیغمبر سے کہا کہ ”میں نے بغیر اجازت کے ایک جوڑا جوتا مالِ غنیمت سے لے لیا ہے۔“آنحضرت نے فرمایا ”واپس کر دو ورنہ قیامت میں آگ کی صورت میں یہ تمہارے پیروں میں ہوگا۔“ (حوالہ سابق)

جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112067 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More