جِن سُو JIN SUEایک کورین بچی تھی ، یہی
کوئی بارہ برس کی، اور اس سے کوئی دو برس چھوٹا اس کا بھائی ۔زمانے کے
حالات نے ان سے باپ چھین لیا تھا اور وہ دونوں اپنی ماں کے ساتھ ایک پرانی
کھٹارہ گاڑی میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے ۔یہ چھوٹی سی
گاڑی ہی ان کا بیڈ روم تھا ،یہی ڈرائنگ روم اور یہی ڈائننگ ہال ۔یہ کھٹارہ
گاڑی چلتی بھی اپنی مرضی سے تھی ۔ ان حالات سے آپ اس گھرانے کی غربت کا
اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں ۔ جیسے تیسے کر کے جِن سُو کی ماں اپنے بچوں کی
زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی تھی ۔جن سو کو بہت شوق تھا کہ ان کا اپنا گھر ہو
جہاں وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلے کودے اور مزے سے زندگی گزارے لیکن وہ
غربت کے ہاتھوں مجبور تھی ۔ کہتے ہیں افلاس انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے
(افلاس یا بہت زیادہ غربت کا یہ کفر صرف اسلام کے لئے مخصوص نہیں بلکہ ہر
مذہب کے لئے ایک جیسے اثرات رکھتا ہے)۔ جن سو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا
۔ ایک دن اس نے منصوبہ بنایا کہ ایک امیر کبیر عورت کا کتا چوری کر لیا
جائے اور جب وہ عورت اس کتے کی تلاش میں ماری ماری پھرے تو اس سے انعام میں
رقم بٹوری جائے۔ یہ انعامی رقم اس قدر خطیر بھی ہو سکتی تھی کہ اس سے جن سو
کا اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجاتا۔گھر کے خواب کو پورا کرتی جن سو
نے اپنی جان پر کھیل کر ایک رئیس عورت کا کتا چوری کر لیا اور اس عورت نے
شہر میں اس بات کی منادی کرادی کہ جو کوئی اس کا کتا ڈھونڈ کر لائے گا اس
کو ایک خطیر انعامی رقم سے نواز اجائے گا۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ اس کتے کو
کیسے اس عورت تک پہنچا کر انعامی رقم وصول کی جائے ، رئیس عورت کا لالچی
مینجر بھی اس تلاش میں تھا کہ کتا اسے مل جائے اور وہ عورت سے اپنی منہ
مانگی رقم وصول کرے ۔ بچے ناسمجھ ضرور ہو سکتے ہیں لیکن اچھی تربیت اپنا
رنگ ضرور دکھاتی ہے ۔ جن سو کی ماں نے بھی برے حالات کے باوجود اپنے بچوں
کی تربیت مثبت طرزوں میں کی تھی اور اسے اپنے دونوں بچوں سے انتہا کی محبت
تھی ۔ غربت اور افلاس نے اسے اپنے بچوں سے اور زیادہ قربت بخشی تھی ۔ اس کی
اچھی تربیت کا ہی اثر تھا کہ ایک دن جن سو کو یہ احساس ہوا کہ اپنے گھر کا
خواب پورا کرنے اور اپنی غربت مٹانے کے لئے اس نے ایک غلط راستہ چنا ہے ،
سو اس نے ایک فیصلہ کیا اور کتے کو ساتھ لئے رئیس عورت کے گھر پہنچ گئی ۔
اس سے پہلے کہ وہ عورت اس سے پوچھتی کہ یہ کتا اسے کہاں سے ملااور اسے
انعامی رقم کی پیش کش کرتی جن سو نے اسے صاف صاف سارا ماجرا کہہ سنایا۔
رئیس عورت بچی کی دیانت اور صاف گوئی سے بہت متاثرہوئی ، اس نے جن سو سے
کہا کہ وہ روزانہ اس کے گھر آئے اور کتے سے کھیلا کرے جس کے بدلے میں اسے
کچھ سوئیٹس بھی ملیں گی ۔ جن سو یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور اپنی ماں کے پاس
واپس چلی گئی ۔ خدا نے اس کے ذہن میں ایک منصوبہ ڈالا اور اس نے اپنی ماں
سے کہا کہ وہ اس گاڑی میں کھانے کی موبائل دکان شروع کرتے ہیں جس سے ان کی
غربت بھی دور ہو گی اور وہ اپنا گھر خریدنے کے قابل بھی ہوجائیں گے ۔ یہ
منصوبہ بے شک ایک مشکل کام تھا لیکن حیرت انگیز طور پر جن سو کی ماں نے جب
گاڑی کی چابی گھمائی تو وہ فورا سٹارٹ ہو گئی ۔ اس چھوٹے سے خاندان کے لئے
یہ ایک خوشی کا مقام تھا انہوں نے اسے خدا کی غیبی مدد جانا اور محنت کے
ساتھ اس گاڑی میں ایک چھوٹا سا موبائل ریسٹورنٹ کھولا ۔ اس ریسٹورانٹ کی
آمدنی کی بدولت جن سو کی فیملی کے حالات تیزی کے ساتھ بدلنے لگے اور جن سو
کو احساس ہو اکہ زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ، بلکہ خدا بھی ان
کہ ہی مدد کرتا ہے جو محنت اور خلوص کے ساتھ اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتے
ہیں۔
قارئین یہ کوریا کی ایک فلم HOW TO STEAL A DOG کی کہانی ہے ۔ پاکستان میں
کوریا کا سفارت خانہ ہر برس اسلام آباد میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس
میں ایک فلم دکھانے کا اہتمام کرتا ہے ۔
دوہزار سولہ کے آخر میں پاکستانیوں کو یہ فلم دکھائی گئی ، کوریا کی طرف سے
یہ فلم دکھانے کا مقصدپاکستانیوں کو اپنے رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت سے
روشناس کرانا یا مارکیٹنگ بھی ہوسکتا ہے لیکن میں اس فلم کو دیکھنے کے بعد
اس لئے افسردہ تھا کہ پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما زوال کا شکار ہو چکا
ہے ۔ بڑے بڑے شہروں میں جو چند اچھے سینما ہاؤسز ہیں وہاں بھی پاکستانی
فلمیں دیکھنے کو میسر نہیں ۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں
اور دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک ہمیں یہ دعوت دے رہے ہیں کہ ہم ان سے کچھ
سیکھ لیں ۔ فلمی صنعت کے لوگو ں سے بات کی جائے تو وہ حکومت کے نام کی
دہائی دیتے ہیں ۔ لیکن میر ا سوال یہ ہے کہ ستر ، اسی اور نوے کی دہائی میں
جب فلمی صنعت اپنے عروج پر تھی اس وقت حکومت اس صنعت کی کیا مدد کرتی تھی ۔
آج تو حالات بہت بدل چکے ہیں ، دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن چکی ہے ، بے شمار
موضوعات میسر ہیں اور جدید ٹیکنالوجی بھی ، اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو
سرمایہ کار بھی میسر ہو سکتے ہیں ،پھر کیوں نہیں فلمی صنعت کی بحالی کا دم
بھرنے والے ان خطوط پر کام کرتے ، ہرکام کا بوجھ حکومتوں کے کندھوں پر
ڈالنے کا صرف ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم تو کچھ نہ کریں گے آپ کچھ کر
لیں تو آپ کی مرضی، لیکن فلمیں بنانا حکومتوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔
حکومت آپ کو سازگار ماحول میسر کر سکتی ہے اور بات چیت کی جائے تو یہ بھی
کوئی اتنابڑا مسئلہ نہیں ۔ لیکن فلمی صنعت کے بزرجمہروں کو شائد صرف بیانات
اور اخبارات کی سرخیوں کا ہی شوق ہے اور اند ر سے ان کا بھی فلم بین مر چکا
ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زمانے کے حالات کے مطابق نئے موضوعات چنے جائیں
دستیاب وسائل کے ساتھ سرمایہ کار تلاش کئے جائیں اور جدید ٹیکنا لوجی کا
استعما ل کرتے ہوئے فلمیں بنائیں جائیں اگر یہ راہ اختیار کی جائے تو کیوں
نہ ہماری فلمی صنعت عظمت رفتہ کو بحال کر پائے ۔
ہاں مگر حکومتوں کے کرنے کا بھی بہت کچھ ہے ، میڈیا کی جنگ کے اس دور میں
کسی دوسرے ملک کی طرف سے کئے گئے کچھ اقدامات ایسے ہو سکتے ہیں جن کا منفی
اثر آپ کے معاشرے پر پڑ سکتا ہے اور اس منفی اثر کو زائل کرنے کے لئے
حکومتوں کو اپنی کوششیں ضرور بروئے کا ر لانی چاہئیں ۔ موجودہ دور میں جو
چیز ہمارے بچوں اور نسلوں کو متاثر کر رہی ہے وہ بھارت میں ڈب کئے جانے
والے کارٹون ہیں ۔ ٹام اینڈ جیر ی اب بھی مقبول ہیں لیکن ڈورے مون کارٹون
آج ہر بچے کا پسندیدہ ہے ۔ بھارت میں ڈب کئے جانے والے ان کارٹونز سے ہمارے
بچے اس لئے متاثر ہو رہے ہیں کہ ان کارٹونز کی ڈبنگ بھارتی سماج کوسامنے
رکھ کر ہندی زبان(اردو سے ملتی جلتی ہے) میں کی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے جب بچے
ہندی زبان میں بنے کارٹون دیکھیں گے تو وہ اردو نہیں سیکھیں گے بلکہ ان کی
زبان میں ہندی در آٖئے گی اور وہ اپنے سماج میں رہتے ہوئے بھی بھارتی سماج
سے زیادہ قریب ہو جائیں گے ۔ کمرشل ازم کے اس دور میں ان کارٹونز کو اچھے
خاصے اشتہار بھی مل جاتے ہیں اور یہ بہت بڑے کماؤ پوت ہیں ۔ کیونکہ بچے
بلاناغہ کارٹون دیکھتے ہیں اور ظاہر ہے ابلاغ کے اس دور میں اس کے منفی
اثرات کو روکنے کا اور کوئی طریقہ نہیں کہ پاکستان خود یہ کام کرے ،مقبول
کارٹونز اردو زبان میں ڈب کر کے چلائے جائیں اور اپنے سماج کے مطابق بچوں
کو تعلیم اور تربیت دینے کے نقطہ نظر سے مثبت طرزوں پرنئے کارٹون بھی تخلیق
جائیں ۔ اطلاعات کی وزیرمملکت مریم اورنگ زیب ایک نوجوان اور متحرک وزیر
ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان میں ایک نئے کارٹون چینل کے آغاز کے
لئے وزیراعظم سے بات چیت کریں ۔ پاکستان میں کسی بھی کارٹون چینل کا آغاز
اسے شروع میں ہی ایک منافع بخش کاروبار ثابت کر دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ
ہم اپنے بچوں کو جہاں غیرملکی ثقافتی یلغار سے بچا لیں گے وہیں جدید زمانے
کے اصولوں کے مطابق غیر محسوس انداز سے ان کو اپنے سماج کی قدریں بھی سکھا
لیں گے ۔ |