شواہد ناکافی ثابت ہوسکتے ہیں

پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف سپاٹ فکسنگ کے الزامات پر پولیس کی جانب سے جس سخت کاروائی کی توقع کی جارہی ہے اسے شاید عملی جامہ نہ پہنایا جاسکے۔

سپورٹس میں غیر قانونی جوئے کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے کمیشن کے سرابراہ رک پیری کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں مظہر مجید(جنہیں نیوز آف دی ورلڈ کے ویڈیو میں فکسنگ کے لیے بڑی رقم وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے) کے خلاف باقاعدہ مقدمہ قائم کرنے کے لیے پولیس کے پاس کافی ثبوت نہیں ہیں۔

انہوں نے سپورٹس کی ویب سائٹ ’کرک انفو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’میرے خیال میں(اس کیس میں) کوئی ثبوت نہیں ہے۔۔۔اگر اخبار نے نو بالز پر غیر قانونی انداز میں جوا کھیلا ہوتا تو بات اور تھی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے ایسا کیا ہوگا کیونکہ یہ قانوناً جرم ہے۔۔۔لیکن اس کے علاوہ ایسا نہیں لگتا کہ خاص طور پر اس کیس کے حوالے سے کوئی سٹے بازی ہوئی ہے۔ اور اس وجہ سے بال واپس کرکٹ حکام کے کورٹ میں پہنچ جاتی ہے۔‘

جن کھلاڑیوں کے نام آئے ہیں ان میں نئے اور ٹیلنٹڈ بالر محمد عامر کا نام بھی ہے

ان کا کہنا ہے کہ ویڈیو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔

برطانیہ میں سن دو ہزار پانچ میں گیمبلنگ ایکٹ کے تحت پیسے کی خاطر کھیل میں بے ایمانی کو مجرمانہ سرگرمی قرار دیا گیا تھا اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ چونکہ یہ پورا کیس برطانیہ میں ہوا ہے لہٰذا قصوروار افراد کے خلاف عدالتوں میں مقدمہ چلا کر ایک مثال قائم کی جاسکے گی۔

لیکن پیری کے مطابق جب تک مزید شواہد سامنے نہیں آتے، اصل ذمہ داری کرکٹ کے نگراں اداروں پر ہوگی جو سخت کاروائی کا وعدہ کر رہے ہیں۔

’آئی سی سی سپاٹ لائٹ میں ہے، لہٰذا اسے کاروائی کرنی ہی ہوگی۔۔۔کھیل کی ساکھ داؤ پر ہے اور اس سے زیادہ اہم کوئی بات نہیں ہوسکتی۔‘

دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ جو رقم مبینہ طور پر کھلاڑیوں کے کمروں سے برآمد کی گئی ہے، وہ ان کے لیے ویڈیو ٹیپ کے انکشافات سے زیادہ بڑا درد سر بن سکتی ہے کیونکہ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔

جب سن دو ہزار میں ہندوستانی کرکٹ کے کئی بڑے سٹارز کے خلاف بی سی سی آئی نے کاروائی کی تھی تب بھی انہیں کسی کرمنل کیس کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ صرف جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے کے خلاف مجرمانہ سازش اور دھوکہ دہی کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

پردیپ میگزین کے مطابق سی بی آئی نے اپنی رپورٹ بی سی سی آئی کو سونپی تھی جس کے بعد بورڈ نے مزید تفتیش کے لیے مادھون کمیٹی تشکیل دی۔ اس کے بعد ہی اظہر کے خلاف تاحیات اور جڈیجہ کے خلاف پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی تھی۔باقی کھلاڑیوں پر بھی مختلف مدت کے لیے پابندی عائد کی گئی تھی۔

کرکٹ کے سینئر صحافی پردیپ میگزین نے میچ فکسنگ کے اس کیس کی رپورٹنگ کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد اظہرالدین، اجے جڈیجہ، اجے شرما اور منوج پربھاکر، سب کے خلاف الزامات تھے، سب کے خلاف سی بی آئی نے تفصیلی رپورٹ بھی دی تھی، لیکن کسی کے خلاف کرمنل کیس قائم نہیں ہوا کیونکہ ضابطہ فوجداری میں کوئی ایسی شق ہی نہیں تھی جس کے تحت میچ فکسنگ جیسے الزام کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا۔

پردیپ میگزین کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہر قسم کے جوئے پر پابندی ہے اور اب بھی کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت سپورٹس میں میچ فکسنگ کا مقدمہ قائم کیا جاسکے۔

جڈیجہ کے خلاف پابندی دلی ہائی کورٹ نے ختم کر دی تھی جبکہ اظہرالدین نے بی سی سی آئی کے فیصلے کے خلاف دو ہزار تین میں جو مقدمہ دائر کیا تھا وہ ابھی تک زیر سماعت ہے۔

جڈیجہ اب ایک ٹی وی چینل پر کرکٹ کے ایکسپرٹ کامینٹیٹر اور اظہرالدین پارلیمان کے رکن ہیں۔
bashir
About the Author: bashir Read More Articles by bashir: 26 Articles with 63252 views i m honestly and sensory.. View More