بھروسہ

 شرمین میری با ت سنو فون بند مت کرنا ،
تم سب مرد ایک جیسے ہو تے ہو، دوسری طرف روتی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی ۔
پلیز اب میں تمہیں کیسے بتاؤں وہ لڑکی کے ساتھ بیٹھنا میری مجبوری تھی ۔مجھے اپنی ہی آواز کھو کھلی محسوس ہو رہی تھی ۔
افسوس جو تم پر اعتماد کیا ، تم نے میرے بھروسے کا خون کیا ہے ۔ اب کبھی بھی مجھے دوبار فون مت کرنا آج سے میں اور تم میرے لیے مر گئے ہو۔
یہ آخری لفظ تھے دوسری طرف سے لائن منقطع ہو گئی ۔
میں ریستوران میں بیٹھا سیل فو ن سے شرمین کی فوٹو نکال کر دیکھنے لگ گیا یہ ٖغالبا ُ شرمین کی کالج لائف کی تصویر تھی جس میں وہ بے حد دلکش
نظر آرہی تھی شاید وہ اپنی کسی کلاس فیلو کی بات سن کر ہنسی تھی اور اُس کے خوبصورت مسکراتے ہو ئے چہرے کی تصویر کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔
شرمین کی دودھ جیسی سفید رنگت میں بناوٹ کا شبہ تک نہ تھا شرمین کسی پری کی طرح معلوم ہو رہی تھی ۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر سیل فون کو اپنی پاکٹ میں ڈالا ،رات کافی ہو چکی تھی اور میری شفٹ کا ٹائم بھی ختم ہو چکا تھا میں سیدھا منیجر کی طرف گیا اور رخصت ہونے کی اجازت طلب کی ۔منیجر مخدوم صاحب کیشیر سے آج ہونے والی بچت کے متعلق استفسار کر رہا تھا منیجر نے میری طرف دیکھ کر کہا ، انور کل زرا جلدی آجانا کیونکہ جنید بھی چھٹی پر ہے میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور ریستوران سے باہر نکل آیا،سرد ہوا کا ایک تیز جھونکا میرے جسم سے ٹکرایا تو میں نے جیکٹ کی زپ بند کر لی اور تیز تیز قدم اُٹھا تا ہوا سٹاپ پر پہنچا اتنی رات کو کسی بس کا آنا مشکل لگ رہا تھا میں نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ کے کش لیتا اپنے دل کو بہلانے لگا کہیں دور سے ایک موٹر بائک کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔
جب موٹر بائک والا قریب آیا تو میں نے موقعہ غنیمت جان کر اُسے لٖفٹ کا اشارہ کیا خلاف توقع موٹر بائک والے نے موٹر بائک روک لی میں نے قریب جا کر کہا ، جناب ماڈل ٹاؤن کی طرف جانا ہے اگر آپ وہیں جا رہے ہیں تو مجھے بھی ساتھ میں لیتے جائیے ۔ موٹر بائک والے نے چہرے پر ہیلمٹ لیا ہوا تھا اسی وجہ سے اُس کا چہرہ دیکھائی نہیں دے رہا تھا ۔اُس نے کہا بیٹھ جاؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں میں نے تشکّر بھری نظروں سے اُسے دیکھا اور اُس کے پیچھے بائک پر بیٹھ گیا ۔
وہ درمیانی رفتا ر کے ساتھ بائک کو چلانے لگ گیا ۔
کیا کرتے ہو میاں، اُس نے پوچھا ، بس جناب کیا کرنا ایک ریسٹورنٹ میں جاب کرتا ہوں ، میں نے جواب دیا۔اچھا، کیا جاب کرتے ہو، اُس نے دوبارہ پوچھا،میں نے ذرا ہچکچاتے ہوئے جواب دیا ، میں ویٹر ہوں ۔پھر دوسری طرف خاموشی چھا گئی رات کا سکوت بھی بڑھتا جا رہا تھا اچانک ایک نیم تاریک سڑک پر اُس نے بائک روک دی اور کہا، اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو مجھے جھوٹ سننا پسند نہیں ۔کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ تم ایک ویٹر ہو ،میں اُس کی بات سن کر ایکدم خاموش ہو گیا۔
دیکھوبرخوردار میں نے ایک زندگی گزاری ہے یا تو تم بہت بڑے جھوٹے ہو یا بہت بڑے سچے ایک بات تو ہے ،اُس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
میں بائک سے اُتر گیا اور اُسے کہا، جناب آ پ کی مہربانی جو آپ نے مجھے یہاں تک لفٹ دی اور جہاں تک بات سچ یا جھوٹ کی ہے تو ضروری نہیں کہ میں آ پ کو یقین دلاؤں کیونکہ آ پ میرے لیے اجنبی ہیں ،یہ کہہ کر میں نے پیدل چلنا شروع کر دیا میں نے ابھی چند ہی قدموں کا فاصلہ طے کیا تھا کہ بائک والا میرے پیچھے آ گیا اور کہا، چلوبیٹھ جاؤ یار اتنی رات کو کہاں بھٹکتے پھرو گئے تم سے جو میں نے عہد کیا ہے تمہیں تمہاری منزل پر چھوڑنے کا وہ تو پورا کرنا پڑے گا میں چپ چاپ اُس کے پیچھے دوبارہ بیٹھ گیا اور بائک چل پڑی اسی دوران اُس نے کہا، یار معاف کرنا مجھے کوئی حق نہیں اسطرح تمہارے جھوٹ اور سچ کو پرکھنا شروع کروں مگر بات کچھ یوں ہے کہ میں ایک پولیس والا ہوں اور ساری زندگی پولیس میں گزاری اور اب ڈی،ایس ،پی کے رینک پر پہنچا ہوں ہمارا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ لوگوں پہ یقین بہت کم کرتے ہیں اور شک زیادہ۔
بڑے عرصے بعد میرا دل کیا کہ بائک پر تھوڑا گھوموں پھروں تو آج اپنے بیٹے شہریار کی بائک اُٹھا کر مٹر گشت شروع کر دیا یہ کہ کر وہ قہقہ مار ہنسا ، میں نے اندازہ لگایا کہ پولیس میں رہنے کے باوجود وہ بڑا زندہ دل تھا مجھے بھی اُس کی ہنسی میں شامل ہونا پڑا ۔اسی دوران میری منزل آگئی اُس نے بائک روک دی اور سر سے ہیلمٹ اُتار دیا اُس کا چہرہ کافی با رُعب لگ رہا تھا گورا رنگ اور چہرے کی مناسبت سے باریک مونچھیں اور آنکھوں کا رنگ بہت سیاہ تھا اُس کی آنکھیں مجھے جانی پہچانی سی لگ رہی تھی شاید میں نے ان آنکھوں کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔کنپٹیوں پر سفید بال یعنی وہ ڈھلتی عمر کی طرف جا رہا تھا مگر جسمانی طور پر کافی مضبوط لگ رہا تھا ،اُس نے اپنی سامنے والی جیب سے ایک کارڈ نکالا اور مجھے ہاتھ میں دے کر کہا،
برخوردار جب کبھی میری ضرورت پڑے تو یاد کر لینا میں تمہارے لیے ایک پولیس والا نہیں بلکہ تمہارا انکل ہوں مجھے تمہاری سچائی نے بہت متاثر کیا ہے اچھا میاں خدا حافظ۔یہ کہہ کر وہ بائک سٹارٹ کر کہ چلا گیا اور میں نے ایک نظر اُس کے کارڈ پر ڈالی جس پر لکھا ہوا تھا ، ڈی ایس پی ٖفرازخاں اور نیچے اُس کا اڈریس اور کانٹیکٹ نمبر لکھا ہوا تھا میں نے کارڈ کو جیب میں ڈالااور چلتا ہوا ایک اونچی سی بلڈنگ کے پاس پہنچ کر سیڑھیاں کے رستے چلتا تیسری منزل پر پہنچ گیا اور ایک کمرے کے قریب رک کر جیکٹ کی جیب سے کمرے کی چابی نکالی اور کمرے کے لاک کو کھول کر اندر داخل ہو گیا ، لائٹ جلائی کمرا بے تریب سے ہوا پڑا تھا کھانے پینے کی برتن ادھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے ۔میں نے بوٹ اور تسمے اُتار کر بیڈ پر نیم دراز ہو گیا اور ہولے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
اماں کا چہرہ پھر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اماں کی نحیف سے آواز میری سماعت سے ٹکرا رہی تھی ،پتر ماں کی زبان کی لاج رکھنا تیرے مامے کی دھی کا کوئی آسرا نہیں اُسے بے آسرا نہ ہونے دینا۔اماں کے کپکپاتے ہاتھ میرے ہاتھ میں تھے ،اماں پھر بولی ، تو شہر میں کام کرتا ہے نا کیا پتا تجھے گاؤں کی لڑکی پسند نہ آئے پر تیرے مامے نے بڑ ا سہارا دیا تھا تیرے ابا کے گزر جانے کے بعد اب تیرا ماما اب اس دنیا سے چلا گیا ہے تو اب اُس کی دھی کو ہمارے سوا کون سہارا دے گا ۔میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں وعدہ کر مجھ سے میرا بھروسہ تو نہیں توڑے گا ۔ہاں اما ں تیرا پتر تیرا بھروسہ کیسے توڑ سکتا ہے اماں تو جو کہے گئی ویسا ہی ہو گا میں نے تڑپ کر جواب دیا۔ اماں نے مجھے گلے لگا لیا اور پھر اچانک میری آنکھ کھل گئی میں اُٹھ کر بیٹھ گیا اور خود میں ہی بڑبڑا رہا تھا میں نے ایک زور سے چیخ ماری اماں اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا اب کون ہے جو مجھے چپ کرائے گا اماں نے تو اُس وقت ہی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیں تھیں جب آخری بار اُس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا وہ تو شاید وہ وعدہ لینے کے لیے ہی سانسیں لے رہی تھی ۔میں نے بیڈ سے نیچے اُتر کر جگ سے پانی گلاس میں ڈالا اور پی گیا ۔
میری آنکھیں دُکھ رہیں تھیں ناجانے میں کتنی دیر سے روتا رہا تھا ، اماں سے جب بھی میری فون پر بات ہوتی تو وہ کہتی پتر مجھے تیرے پیسے نہیں چاہیے تو بس مجھ سے ملنے آ جایا کر تجھے دیکھ کر ہی تو میں جیتی ہوں ، میں نے کہا،اماں میرا دل تو کرتا ہے ہمیشہ ہمیشہ تیرے ساتھ رہوں پر تجھے تو پتا ہے وہاں گاؤں میں نہ ہماری زمین ہے نہ ہی کوئی کام ہے وہاں میں تجھے اپنے ساتھ شہر رکھنا چاہتا ہوں پر تو مانتی ہی نہیں اب کیا رکھا ہے وہاں کون ہے وہاں اما ں جو تو یہاں نہیں آتی۔تب اماں خاموش ہو جاتی اور پھر کہتی ، انور پترمیرا سب کچھ یہاں ہے اب کونسی اتنی زندگی رہ گئی ہے جو وہاں شہر آجاؤں سب ہی چلے گئے ہیں بس تیری اماں ہی رہ گئی ہے ، میں تڑپ کر بولا ، اماں تو ایسی باتیں نہ کیا کر میں کام چھوڑ کر پکا پکا تیرے پاس آ جاتا ہوں ،تب اماں بولی ،نہ پتر نہ تودل لگا کر کام کر پھر تیرا بیاہ بھی تو کرنا ہے ۔
اماں نے زندگی میں مجھ سے کچھ نہیں مانگا جاتے جاتے میرا دل ہی مانگ لیا ۔پر میرا دل کیا میری زندگی میری جان میرا خون سب اما ں کا ہی تو ہے پر اب اماں نہیں ہے ، یہ سوچ کر پھر مجھے رونا آ گیا۔نہ جانے کب فجر کی آذان سنائی دی میرا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا میں واش روم گیا چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے آنکھیں سرخ سرخ اور سوجھ چکی تھی ، چہرے پر ہلکی ہلکی شیو آ چکی تھی مجھے یاد آ رہا تھا کہ میں جب چھوٹا تھا تب اماں میری اُنگلی پکڑ کر چاچا خیر دین کی پرچون کی دکان پر جاتی پھر اُسے کہتی میرے پٹھان پتر کو چیز دے دو تب چاچا خیردین مجھے ٹافیاں دیتا میں بہت خوش ہوجاتا تب وہ اماں کو کہتا ، باجی فا طمہ تیرا انور پتر تو سچ مچ ہی پٹھان ہے ، میٹرک تک مشکل سے پڑھا پھر گھر کی تنگدستی کو دیکھ کر شہر میں کام کرنے نکل کھڑا ہوا اتفاقا وہاں میری میرے گاؤں کے ایک دوست سے ملاقات ہو گئی جس نے مجھے شہر کے ایک پوش ریسٹورنٹ میں ویٹر کی جاب دلوا دی ۔
میں نے وضو کیا اور پھر فجر کی نماز ادا کرنے مسجد چلا گیا دعا کرتے وقت پھر اماں کی بڑی یاد آئی اور تب پھر میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے مجھ سے دعا نہیں مانگی گئی بمشکل اﷲپاک سے اپنی والدہ کی مغفرت کی دعا کی اورآمین کہا پھر مسجد سے باہر آ گیا۔صبح کا اُجالا ہر سو پھیل چکا تھا میری زندگی ابھی تک اندھیری ہی تھی راستے میں ایک بیکری سے بریڈ لی اور کمرے میں واپس آ کر ہلکا پھلکا ناشتا کر کے ریسٹورنٹ کی طرف روانہ ہو گیا ، ریسٹورنٹ پہنچ کر منیجر کو سلام کیا اور پھر واش روم جا کر ویٹر کا مخصوس ڈریس پہنا او راپنے کام پر لگ گیا لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے میں کھانا سرو کر رہا تھا کچھ لوگوں کو دیکھ کر میں سوچتا کیا لوگ واقعی اتنے خوش ہیں جتنے وہ نظر آ رہے ہیں کیا صرف پیسہ ہی خوشی دیتا ہے میرا دل بہت اُداس تھا ۔
شام کو بریک ہوئی تو منیجر نے بلا لیا اور کہا انور جب تم دن میں کام کر رہے تھے ایک لڑکی یہاں آئی اور یہ پیکٹ دی گئی ہے ، میں نے منیجر سے پیکٹ لے لیا منیجر ایک اچھا انسان تھا وہ مجھ سے میرے پرسنل معاملات کے متعلق نہیں پوچھتا تھا ۔میں پیکٹ لے کر ایک علیحدہ سے بنے روم میں آ گیا جو کہ صرف ریسٹورنٹ کے سٹاف کے لیے محدود تھا وہاں آ کر پیکٹ کو کھولا ، یہ شرمین کے ساتھ کھینچے ہوئے کچھ فوٹوز ، ایک پرفیوم ایک چھوٹا سا تاج محل اور گولڈن کلر کا پین تھا جو میں نے شرمین کو گفٹ کیا تھا ساتھ میں ایک لیٹر تھا میں نے لیٹر کو کھول کر پڑھا جس پر لکھا ہوا تھا ،انور میں تمہیں بھولنا چاہتی ہوں اور تمہارے ساتھ جڑی ہر ایک چیز کو اپنی زندگی سے نکالنا چاہتی ہوں ۔بس اتنا ہی لکھا تھا شرمین نے ۔ میں نے جیب سے سیل فون نکالا ور شرمین کا نمبر ڈائل کرنے لگ گیا مگر دوسری طرف سے پاورآف جا رہا تھا میرے پاس شرمین کا اڑریس بھی نہیں تھا میں شرمین کو بتانا چاہتا تھا کہ میں زبیدہ کے ساتھ کیوں بیٹھا تھا کیوں میں نے شرمین سے اتنا عرصہ رابطہ نہیں کیا کیوں میں نے اتنا عرصہ شرمین کی کوئی کال نہیں سنی کسی میسج کا کوئی رپلائی نہیں کیا یہ سارے سوالات کے جوابات میں اُسے بتانا چاہتا تھا مگر وہ شاید کچھ بھی نہیں سننا چاہتی تھی میں سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت وہ کتنی تکلیف میں ہے مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ میں اُس سے زیادہ تکلیف میں ہوں ۔
یہ میری ویٹر کی جاب کے ابتدائی دن تھے جب شرمین اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ ہمارے ریسٹورنٹ میں آئی تھی شرمین سب سے منفرد نظر آ رہی تھی وہ تھی ہی اتنی خوبصورت کہ کسی کی نظر بھی اُس پر ٹھہر سکتی تھی اُس کا یوں بات بات پہ کھلکھلا کر ہنس پڑنا اور آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک کا آجانا گویا وہ حسن کے تمام تقاضوں پر پورا اُتر رہی تھی میں نے شرمین کی ٹیبل پر جا کر مینو پوچھا تو شرمین نے مجھے دیکھا شاید وہ ایک ایسا لمہہ تھا جب میری اور اُس کی آنکھوں کا ایک عجیب سا ٹکراؤ ہوا ،شرمین نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں کہا، تم ویٹر ہو ، میں نے جواب دیا ،جی میم، اچھا کمال ہے ۔ شرمین کے اسطرح کہتے ہوئے اُس کی ساری کلاس فیلوز نے مجھے دیکھنا شروع کر دیا ۔پھر شرمین گاہے بگاہے ریسٹورنٹ میں آتی رہی اور ہم دونوں کی نگاہیں بھی آپس میں ٹکراتی رہی ۔
یہ ایک شام کی بات ہے جب ریسٹورنٹ میں بہت رش تھا میں بھاگ بھاگ کر کھانا سرو کر رہا تھا کہیں آنجانے میں جگ کا پانی کسی خاتون کے پاؤں پر گر گیا پھر گویا اُس خاتون اوراُس کے میاں نے طوفان سر پر اُٹھا لیا اور میں سوری سوری کرتا گیا مگر انھوں نے شاید مجھے ذلیل کرنے کی قسم اُٹھا رکھی تھی مجھے اتنی باتیں سنائی اتنا بے عزت کیا مجھے اپنی اس تذلیل پر کوئی دکھ نہ تھا میں اپنا مقام جانتا تھا اُس وقت منیجر موجود نہ تھا۔
اتنے میں ایک ٹیبل سے شرمین اُٹھ کر آئی اور اُس خاتون کو آڑے ہاتھو ں لیا اور اُسے کہا ، اگر غلطی سے پانی آ پ پر گر گیا اور وہ بیچارہ معافی بھی مانگ رہا تھا تو آ پ کو چاہیے اُسے معاف کر دوپانی ہی گرا ہے کوئی تیزاب نہیں گر گیا اور خاتون اور اـس کے میاں کی شرمین نے بولتی بند کرادی میں تشکر بھری نظروں سے شرمین کو دیکھنا لگا اور بعد میں اُسے شکریہ ادا بھی کیا ، تب شرمین نے کہا ، کوئی بات نہیں تم مجھے ایک اچھے انسان لگتے ہو اسی لیے میں نے ایسا کیا ۔شرمین کے ساتھ میری قربت بڑھتی گئی ایک دفعہ تو شرمین نے زبردستی مجھے اپنے ساتھ لنچ کرنے پر مجبور کر دیا جو کہ ریسٹورنٹ کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی کہ ایک ویٹر آنے والے کسٹمر کے ساتھ کھانا کھائے مگر منیجر نے مجھے اُس دن صرف وارننگ دی تب میں نے شرمین کو کہا کہ پلیز آیندہ کبھی مجھے کھانے پر فورس نہ کیجئے گا۔
تب شرمین چپ کر گئی پھر شرمین نے مجھ سے میرا نمبر لیا اور ایک دفعہ باہر کسی جگہ بلایا پھر شرمین کے ساتھ میری ملاقاتیں شروع ہو گئیں ، شرمین سے میرا بڑا پاکیزہ سا تعلق بن گیا شرمین جتنی شوخ چنچل سی تھی اندر سے اُتنی ہی زیادہ حساس تھی میری چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت محسوس کرتی مجھے تو کبھی ایسے لگتا تھا کہ شرمین میری حد سے زیادہ کیئر کر رہی ہے وہ مجھے ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتی تھی ،ایک دن ایک شام ہم پارک میں ٹہل رہے تھے میں نے گلابی کلر کی شرٹ اور بلیک جینز پہنی ہوئی تھی اور شرمین وائٹ سوٹ میں تھی تب شرمین بار بار مجھے دیکھ رہی تھی ، میں نے کہا، مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو تب شرمین کھلکھلا کر اپنے مخصوس انداز میں ہنسی اور کہا ، کون کہتا ہے تم ویٹر ہو ، میں نے شرمین کو جوا ب دیا۔شرمین کسی کی شکل و صورت دیکھ کر اُسے پرکھا نہیں جاتا ،خوبصورت ہونے سے زندگی کے اور فکر معاش کے مسائل حل نہیں ہوتے ہمارا معاشرہ کامیاب لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے یہاں غریب مفلس نادار کی نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی وقعت، تب شرمین بڑے لاڈ سے مجھے کہتی ، تمہاری عزت تو میرے دل میں ہے تمہاری سچائی تمہارا خلوص سب سے قیمتی ہے اور جو تمہاری قیمتی چیز میرے دل میں ہے اُس کی کوئی قیمت چُکا نہیں سکتا۔ میں شرمین کی بات سن کر ایکدم ٹہلتے ٹہلتے رک جاتا اور شرمین کو کہتا، شرمین میں ایک تھرڈ کلاس آدمی ہوں تم ایک پڑھی لکھی اچھے گھر کی لڑکی ہو ہم دونوں میں طبقات کا بہت فرق ہے ۔
،شرمین پھر مُسکراتے ہوئے کہتی، تم جانتے ہو میرے پاپا بہت اچھے ہیں انھوں نے صرف مجھے پیار نہیں دیا بلکہ اچھائی اور انسانیت کی قدر کرنے کی بھی تربیت دی ہے انسان کا خون ایک ہی ہے میں ان چیزوں کو کچھ نہیں سمجھتی بس تمہارا ساتھ چاہیے اور کچھ نہیں ،۔شرمین مجھ پر اتنا بھروسہ مت کرو کہیں میں تمہارا بھروسہ توڑ نہ دوں ، میرے اسطرح کہنے سے شرمین کی موٹی موٹی آنکھوں میں ایک پل میں آنسو آجاتے اور وہ کہتی ،انور اب میری واپسی ممکن نہیں اب میں تمہارے ساتھ بہت دور آگئی ہوں اور میں تمہارے سوا کسی اور کی امانت نہیں بن سکتی جب تم نہ ملے تو سمجھنا میرے لیے یہ دنیا اور اس کی زندگی بے کار ہے بے معنی ہے ،تب میں شرمین کے گلابی ہونٹوں پر اُنگلی رکھ ددیتا اور کہتا ، جتنا تم مجھے چاہتی ہو اس سے بڑھ کر میں تمہیں چاہتا ہوں مگر کیا کروں میں نے زندگی میں صرف تلخ تجربات ہی دیکھے ہیں ،
تو ابھی تک تم نے اپنی اماں کو میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا، شرمین نے پوچھا، نہیں ابھی تک تو نہیں میں نے سوچا جب گاؤں جاؤں گا تب اماں سے آرام سے بیٹھ کر اُن کو بتاؤں گا ، شرمین پوچھتی ، تمہاری اما ں مان جائیں گئی، تب میں کہتا،شرمین جس نے خود بھوکا رہ کر مجھے نوالہ کھلایا ہو تو کیسے ممکن ہے وہ میرے دل کی مراد نہ سنے اب میں کل گاؤں جا رہا ہوں تم دعا کرنا، تب شرمین ایک دم بیٹھ گئی اور سر پراچھی طرح دوپٹہ لے کر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے اور اپنی آنکھیں بند کر لیں وہ کتنی معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی پھر کچھ دیر بعد اُس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے مُسکراتے ہوئے کہا، دیکھنا تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گئے ۔ یہ شرمین سے آخری ملاقات تھی جب گاؤں گیا تو اماں کی حالت بڑی نازک تھی بس وہ میرا انتظار کر رہی تھی مجھے سے وعد ہ لے کر اس دنیا سے مُنہ موڑ گئی اماں کے گزر جانے کے بعد میں بہت تنہا ہو گیا تھا پھر اماں کا وعدہ نبھانے دوبارہ گاؤں آیا۔
سیدھا مامی کے گھر گیا مامی باہر صحن میں توے پر روٹیاں بنا رہی تھی مجھے دیکھ کھڑی ہو گئی اور گلے سے لگایا اور کہا، حوصلہ کر تیری اماں کو تجھ پر بڑا مان تھا وہ ہر دم تیری ہی تعریف کرتی رہتی تھی مامی کے اسطرح کہنے پر میری آنکھیں بھیگ گئی میرا دل کیا میں دھاڑیں مار مار کر روؤں مگر شاید پھر بھی غم ہلکا نہ ہو ۔
پھر مامی مجھے کمرے میں لے گئی اور چارپائی پر بٹھایا ، مامی جو کبھی بڑی تندرست تھی اب وہ ویسی نہیں رہی اب بہت کمزور ہو گئی تھی ،میں نے ہچکچاتے ہوئے مامی کو کہا ، اماں نے جاتے جاتے مجھ سے ایک وعدہ لیا ہے یہ کہہ کر میں نے نظریں جھکا لیں ،مامی نے کہا، پتر تو کتناعظیم ماں کا عظیم بیٹا ہے جو اپنا وعدہ نبھانے آیا ہے مگر پتر تجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے ہم سادہ سے لوگ ہیں اور زبیدہ تو بہت ہی سادہ ہے تو سوچ سمجھ لے ، میں نے کہا، مامی سوچ سمجھ کر ہی آیا ہوں مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اب کچھ دیر کرنی چاہیے ، مامی نے کہا، خدا تجھے سلامت رکھے پتر اگلے ماہ زبیدہ کا تجھ سے نکاح کر دیتے ہیں ۔مامی نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا اور پھر میں شہر آ گیا میں نے اپنا نمبر بند کر لیا اور شرمین سے کوئی رابطہ نہ کیا اور اب کس منہ سے شرمین سے رابطہ کرتا اگلے ماہ تک میں شدید ذہنی اذیت میں رہا راتوں کو اُٹھ جاتا اماں میرے خواب میں آتی رہتی اور مجھے ہر لمہے یہی لگتا کہیں میں اماں کا وعدہ نبھائے بغیر اس دنیا سے نہ چلا جاؤں اگلے ماہ زبیدہ کے ساتھ سادگی کے ساتھ نکاح ہوا اور میں اُسے شہر لے آیا ۔
ریسٹورنٹ کے منیجر کو میری شادی کا علم ہوا تو اُس نے مجھے بلایا اور کہا، انور تم ہمیشہ یہاں لوگوں کو کھانا کھلاتے ہو کل تمہار ا اور تمہاری مسز کا کھانا ہمارے ریسٹورنٹ کی طرف سے ہو گا ۔ میں نے واپس آ کر زبیدہ کو کہا کہ زبیدہ جس ریسٹورنٹ میں کام کرتاہوں وہاں کل کے کھانے پر ہمیں منیجر کی طرف سے انوائٹ کیا گیا ہے ،زبیدہ نے کہا۔جیسے آپ کی مرضی آپ کہیں گئے تو چلتے رہیں گئے ۔زبیدہ بہت سادہ تھی بس اُسے اپنے خاوند کی تابعداری کرنی تھی وہ میری کسی بھی بات کا جواب نہ میں نہیں دیتی تھی۔ میں زبیدہ کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور اُس سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک شرمین ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی اُس نے سٹاف سے میرا پوچھا تو اُسے بتایا گیا کہ میں اپنی مسز کے ساتھ یہاں کھانا کھا رہا ہوں وہ سیدھا تیزی سے میری طرف آئی اور مجھے زبیدہ کے ساتھ دیکھ کر چکرا کہ رہ گئی میں اُس وقت اُس کے چہرے پر شدید تکلیف کے تاثرات دیکھ رہا تھا ۔زبیدہ بھی گھبرا گئی کہ آخر ماجرا کیا ہے جو شرمین مجھے قہر بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے شرمین نے منہ سے کچھ نہیں بولا جتنی تیزی سے وہ آ ئی تھی اُتنی ہی تیزی سے واپس چلی گئی اُس کے جانے کے بعد میرا دل بہت بے چین ہو گیا میں پورا پانی کا جگ پی گیا پھر بھی میرے دل میں آگ لگی ہوئی تھی
میں تصور کر رہا تھا کہ شرمین پر اس وقت کیا بیت رہی ہو گئی میں زبیدہ کے ساتھ واپس فلیٹ میں آ گیا میں سوچ رہا تھا کہ شاید زبیدہ مجھ سے شرمین کے بارے میں پوچھے گئی مگر زبیدہ نے ایسا کوئی سوال نہ کیا میں زبیدہ کے چہرے کو بغور دیکھنے لگ گیا ،سانولی سی رنگت ،کالے گھنے لمبے بال اور تیکھی سی ناک اور ایک بڑی سی چادر جو ہمیشہ وہ اپنے اُوپر رکھتی تھی ۔کیا دنیامیں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں میں زبیدہ کو دیکھ کر سوچ رہا تھا پھر میں خود ہی زبیدہ سے مخاطب ہوا اور اُسے کہا، زبیدہ تب زبیدہ نے چونک کر میری طرف دیکھا اور کہا، جی ، میں نے کہا تمہیں پتا ہے وہ لڑکی کون تھی ، اُس کی طرف سے جواب آیا، نہیں مجھے نہیں پتا۔ میں نے تب کہا ، تم جاننا چاہوگئی ۔زبیدہ نے کہا ۔آ پ کی مرضی اگر بتا دیں تو،میں نے کہا۔ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے اور میں اُس سے پیار کرتا ہوں ۔
میرے اس جواب پر زبیدہ نے چونک کر مجھے دیکھا اور سر جھکا لیا شاید وہ کوئی جواب نہیں دینا چاہتی تھی میں کمرے سے باہر نکل آیا اور سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر لمبے لمبے کش لینے لگا اور ایسے ہی سڑک پر یونہی ادھر اُدھر گھومتا گھماتا آدھی رات کے قریب واپس کمرے میں آ گیا زبیدہ جاگ رہی تھی ۔ میں نے زبیدہ کو دیکھ کر کہا۔ تم سوئی نہیں ابھی تک ۔زبیدہ نے کہا۔ نہیں سوئی نیند نہیں آئی آپ کا انتظار کر رہی تھی ۔میں نے پوچھا ۔کیوں مجھ سے کچھ کہنا تھا ،اُس نے کہا۔ نہیں تو ۔آپ نے کچھ کھانا ہے تو بنا دوں
میں نے جواب دیا ۔ہاں ایک چائے کا کپ تب زبیدہ چائے بنانے لگ گئی تھوڑی ہی دیر میں زبیدہ چائے کا کپ ہاتھ میں لیکر آئی میں چائے لیکر پینے لگا پھر اُسے کہا ۔ کل میں تمہیں تمہاری ماں کے گھر چھوڈ آؤں گا کچھ دن وہاں گزاروں میں کچھ دن تنہا رہنا چاہتا ہوں ۔زبیدہ نے کہا۔ جی بہتر
میں بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں اتنے میں اپنی پیشانی پر زبیدہ کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا وہ ہولے ہولے میرا سر دبا رہی تھی میں سوچنے لگا اُسے کیسے پتا ہے کہ میرے سر میں درد ہے ۔دوسرے دن میں صبح صبح ہی زبیدہ کو گاؤں چھوڑ آیا واپس شہر آ کر سوچنے لگا کہ ایک دفعہ شرمین سے ضرور ملوں اور اُسے سب کچھ بتاؤں وہ نہ جانے کتنی غلط فہمیاں اپنے دل میں لیے جل رہی ہے خیر میں روٹین کے مطابق ریسٹورنٹ میں کام کر رہا تھا کہ جنید میرے پاس آیا اور کہا کہ ریسیپشن پر کوئی تمہارا پوچھ رہا ہے وہاں جاؤ میں ریسیپشن پر گیا وہاں ایک دبلا پتلا نو عمر لڑکا کھڑ ا تھا جو مجھے بہت پریشان اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا ،مجھے دیکھ کر کہا۔آپ انور بھائی ہیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، تب اُس نے کہا۔ میں شہر یار ہوں شرمین کا بھائی آپ جلدی سے میرے ساتھ چلیں آپی شرمین نے خودکشی کی کوشش کی ہے اور وہ اس وقت ہسپتال میں ایڈمٹ ہے اور انتہائی سیریس کنڈیشن میں ہے اور صرف آپ کا نام لے رہی ہے ڈاکٹرز کہتے ہیں جس کا نام لے رہی ہے اُسے جلدی لیکر آؤ ۔یہ سن کر میرے دماغ میں آندھیاں چلنی شروع ہو گئیں میں منیجر کو بتائے بغیر جلدی سے شہر یار کے ساتھ باہر نکلا اُس نے اپنی بائک سٹارٹ کی اور تھوڑی ہی دیر میں ایک پرائیویٹ ہسپتال میں شہر یار کے ساتھ دوڑتا ہوا ایمر جنسی وارڈ تک آیا ایمر جنسی وارڈ کے باہرکچھ لوگ پریشانی میں بیٹھے تھے ایک آدمی سر جھکا کر بیٹھا تھا شہر یاد نے جاتے ہی اُسے کہا ۔ ڈیڈی میں انور بھائی کو ساتھ لے آ یا ہوں آدمی نے سر اُٹھایا تو اُسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا اور شاید اُن کی بھی یہ ہی حالت تھی وہ ڈی ،ایس،پی فراز خان تھے جہنوں نے ایک دفعہ مجھے لفٹ دی تھی ،انھوں نے جلدی سے مجھے کہا۔ تم تو وہی ہو نا جو مجھے اُس رات ملے تھے ۔ میں نے کہا۔ جی انکل ۔ تب انھوں نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور کہا، میں اپنی بچی کی زندگی کی تم سے بھیک مانگتا ہوں تم جو کہو گئے میں وہ کروں گا ایک دفعہ میری بچی سے مل لو۔میں نے اُن کے ہاتھوں کوپکڑ کر کہا۔ انکل خدارا مجھے شرمندہ نہ کریں یہ وقت ان باتوں کا نہیں آپ جلدی سے مجھے شرمین کے پاس لے چلیں
وہ جلدی سے مجھے لیکر ایمر جنسی وارڑ روم میں گئے وہاں کچھ ڈاکٹرز موجود تھے ایک بڑی عمر کا ڈاکٹر فراز خان کے پاس آیا اور کہا، ہم نے آپ کی بیٹی کا معدہ واش کر دیا ہے مگر وہ شدید ذہنی تکلیف میں ہے ۔تب فراز خان نے جواب دیا ، میری بیٹی جس کا نام لے رہی ہے یہ ہے وہ لڑکا، ڈاکٹر نے میری طرف دیکھا اور مجھے ایک طرف لے گیا اور کہا، بیٹا تم جو کوئی بھی ہو یہ سمجھ لو یہ ایک زندگی کا سوال ہے اب سب کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے تم اس بچی کو کیسے ڈپریشن سے باہر نکالتے ہو ااور ہاں تم نے اس بچی کو صرف اُمید دینی ہے اور وہ اُمید ہی اسے اُس ڈپریشن سے باہر نکال سکتی ہے میں نے کہا ، جی بہتر، شرمین کو آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا ڈاکٹر کے کہنے پر آکسیجن ماسک اُتار دیا گیا ڈاکٹر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر باہر چلا گیا اور فراز خان بھی ساتھ چلا گیا ۔
شرمین کو اس حالت میں پہنچانے والا میں تھا مجھے خود اپنے وجود سے گھن آ رہی تھی میں رو رہا تھا میرا دل بھی رو رہا تھا جو شرمین میری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیتی تھی آ ج و ہ میر ی وجہ سے اس حالت میں پہنچی تھی میں شرمین کے پاس بیڈ پر پہنچا اور اُسے دیکھا وہ بہت کمزور سی لگ رہی تھی اُس کی آنکھیں بند تھی اور ایک ڈرپ اُسے لگی ہوئی تھی میں بیٹھ گیا شرمین کی یہ حالت دیکھ کر میری روح تک تڑپ رہی تھی میں نے شرمین کو پکارا۔ شرمین مگر خاموشی میں پکارتا رہا پھر شرمین کی آنکھوں میں ہلکی سی جنبش شروع ہو گئی ۔شرمین کی آہستہ سے آواز آئی،انور یہ تم ہو ،میں نے کہا ، ہاں شرمین میں ہوں تمہار اانور۔ کیوں خود کے ساتھ ایسا کیا کیوں شرمین کیوں ۔تب شرمین بولی ۔تم مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے تمہیں میں نے کہا تھا نا کہ تمہارے بغیر میری زندگی بے کار ہے بے معنی ہے ،میں نے جلدی سے جواب دیا۔ نہیں شرمین میں تمہیں چھوڈ کر کہیں نہیں گیا تھا میری جان میری زندگی میں بہت مجبور تھا اتنا مجبور جتنا آج تمہارا ڈیڈی فراز خان تمہاری لیے تمہاری زندگی کے لیے مجبور ہے ۔ میں نے تمہارے بھروسے کا خون نہیں کیا تم جو کہو گئی ویسے ہی ہو گا ۔ تب شرمین کی تیز سانسیں کچھ مدھم ہو گئیں اور اُس نے ہولے سے آنکھیں کھولیں ،شرمین کی آنکھوں سے آنسو تھے جو اُس کے گلابی گالوں پر لڑھکنے لگے میں نے بے قراری سے جلدی سے اُن آنسوؤں کو اپنی ہتھیلی سے روکا اور کہا، شرمین میں بھی تمہارے بغیر نہیں جی سکتا اب تمہیں میں خود سے کبھی دور نہیں کروں گا میں تمہارے بھروسے تمہاری محبت کی قسم اُٹھا کر کہتا ہوں ۔شرمین میری طرف دیکھ رہی تھی تب میں نے شرمین کو کہا۔مس شرمین کیا آپا ایک ویٹر سے شادی کرنا پسند کریں گئی جو ہے تو ویٹر مگر دکھنے میں ہیرو ہے ،میرے اسطرح کہنے پر شرمین کے لبوں پر وہی حسین مُسکان آگئی جس نے مجھے مسحور کر دیا تھا ۔یہ خوشی کے پل تھے اتنے میں دروازہ کھلا اور ڈاکٹر آگیا شرمین کو یوں مسکراتا دیکھ کر اُس نے مجھے تھپتھپایا اور فراز خان اُن کے ساتھ شہریار اورایک خاتون بھی جو شاید شرمین کی ماں تھی وہ بھی اندر ا ٓگئے شرمین کی بہتر حالت دیکھ کر سب کو چین آ گیا شرمین کی والدہ شرمین سے لپٹ گئی اور اپنی بیٹی کا سر چومنے لگی ۔ڈاکٹر نے سب کو کہا، اب یہاں کوئی نہیں روئے گا یہ شرمین کے لیے ٹھیک نہیں ۔
فراز خان کے ساتھ میں باہر آگیا فراز خاں مجھے ہسپتال کی کینٹین میں لے گیا اور چائے منگوا لی اور میری طرف غور سے دیکھا اور کہا۔ بیٹا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے میں نے شرمین کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے اگر شرمین کو کچھ ہو جاتا تو یہ سمجھو ہم سب مر جاتے میں چاہے ایک پولیس والا ہوں مگر میرا دل میری بچی کے لیے دھڑکتا ہے اب تم مجھے سب کچھ سچ سچ بتاؤں اور میں جانتا ہوں تم ایک سچے اور اچھے انسان ہوں تم نے شاید یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا ہو گا ، تب میں نے آنکھیں جھکا لیں اور کہا ، انکل میں قصوروار تو ہوں مگر میری جگہ کوئی بھی زی شعور ہوتا تو وہ یہی کرتا جو میں نے کیا ہے اور پھر میں نے فراز خان کو اماں کے وعدے پھر زبیدہ سے شادی اور شرمین کے ساتھ جو تعلق تھا وہ سب بتا دیا ۔فراز خان میری باتیں سن کر خاموش ہو گیا پھر بولا ،اب تم نے کیا سوچا ہے ۔ میں نے جواب دیا۔ میں وہی کروں گا جو شرمین کے لیے اُس کی زندگی کے لیے بہتر ہو گا تب فراز خاں نے کہا۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لینا ایک بوڈھے باپ کو جو اپنی بیٹی کے بغیر نہیں جی سکتا اُس کی ماں کو جو بیٹی کی موت کا صدمہ نہیں سہہ سکتی اور اس کے بھائی کو جو اپنی بہن کو ٹوٹ کر پیار کرتا ہے میں نے فراز خاں کو کہا ، میرے لیے دعا کیجئے گا پھر میں اجازت لیکر واپس ا ٓ گیا مجھے بہت جلدی کچھ فیصلے کرنے تھے میں کمرے سے سارا سامان لیکر سیدھا گاؤں روانہ ہو گیا ۔
زبیدہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئی اور کہا۔ آپ اتنی جلدی واپس آگئے مجھے لینے ۔ میں نے زبیدہ کو کہا، مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے زبیدہ نے جواب دیا۔ جی کریں ،۔ میں نے کہا اسطرح نہیں تم اپنی ماں کو بھی بلا لاؤں تب زبیدہ پریشان ہو گئی اور کہا،۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو مجھے معاف کر دیں میں نے زبیدہ کو کہا ۔نہیں تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تم میری اماں کا انتخاب ہو اور میری اماں کا انتخاب غلط نہیں ہو سکتا خیر جاؤ اورمامی کو بلا لاؤں تب وہ اپنی امی کو ساتھ لے آئی ، مامی نے مجھے دیکھ کر کہا ، پتر خیر تو ہے ، میں نے کہا، جی خیریت ہے زندگی کا ایک فیصلہ لینے والا ہوں تو آپ سے بھی کچھ مشورہ کرنا ہے ، تب مامی نے کہا ، ہاں پتر ضرور بولو کیا بات ہے ، تب میں نے کہا، مامی اگر ایک انسان مر رہا ہو تو کیا اُسے بچانا چاہیے ، مامی نے کہا ، ہاں پتر زندگی خدا کی طرف سے بہت بڑا تحفہ ہے اگر تمہارے کچھ کرنے سے کسی کی زندگی بچ سکتی ہے تواُسے ضرور بچاؤتب میں نے مامی کو کہا۔میں زبیدہ سے شادی کرنے سے پہلے کسی اور سے محبت کرتا تھا اور پھر میں نے شرمین اور اُس کی موجودہ حالت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا یہ سب باتیں سن کر مامی خاموش ہو گئی تب میں نے کہا ۔ آپ کیا کہتی ہیں ، مامی نے کہا ، پتر تو نیک پتر ہیں مگر میں تو وہی کہوں گئی جس میں میری بیٹی کا بھلا ہو گا بہتر یہی ہے تم جو بھی کرو اپنی بیوی کی رضامندی سے کرو ۔یہ کہ کر مامی اُٹھ کر چلی گئی تب میں نے زبیدہ کو پکارا،زبیدہ میرے پاس آ کر بیٹھو ، زبیدہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میں نے زبیدہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ،زبیدہ میری طرف دیکھوں تب زبیدہ نے میری طرف دیکھا میں نے پہلی دفعہ زبیدہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے میں نے زبیدہ کو گلے لگا لیا اور زبیدہ میرے گلے لگ کر بہت زور زور سے روئی میں نے زبیدہ کو دلاسہ دیا ، زبیدہ مت رو تمہارا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے اگر تمہیں تکلیف ہوئی تو اماں کو تکلیف ہو گئی ، دیکھو زبیدہ میں تم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا مگر یہاں سوال کسی کی زندگی کا ہے اگر میں نے شرمین کو نہیں اپنایا تو وہ مر جائے گئی اور اُس کا قاتل میں ہوں گا چاہے مجھے اُس کے قتل کی سزا نہ ملے مگر میں رہوں گا ایک قاتل ہی تو کیا تم ایک قاتل کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر لو گئی تب زبیدہ نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ۔ خدا نہ کرے میری خوشی آپکی خوشی میں ہے بس مجھے کبھی خود سے دور نہ کرنا ورنہ میں بھی آپ کے بغیر نہیں جی پاؤں گئی میں نے زبیدہ کو گلے سے لگا لیا اور مجھے اتنا سکون ملا جسکا کوئی اندازہ نہیں ، ۔
کچھ ہی دنوں بعد شرمین کے ساتھ بھی میرا سادگی کے ساتھ نکاح ہوا اور اُسے میں لیکر گاؤں آگیا شرمین کو میں نے زبیدہ اور اماں سے لیے گئے وعدے کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا ،شرمین نے شادی کی پہلی رات ہی مجھ سے کہا، انور جس طرح میرا تم پر حق ہے اسی طرح زبیدہ کا بھی ہے اور میں تمہیں زبیدہ کی کبھی حق تلفی نہیں کرنے دوں گئی میں نے کہا ، شرمین میں جانتا ہوں تم اتنی پاکیزہ سوچ کی مالکہ ہواسی لیے تو تمہیں اپنایا ہے مجھے تم پر اور زبیدہ پر ساری زندگی فخر رہے گا جو میری تلخ زندگی میں شادمانی لیکر آئیں ہو ،شرمین نے کہا۔تو اب کیا ہم نے شہر نہیں جانا ، میں نے کہا ، نہیں شرمین میں نے اماں کے بغیر باہر بہت وقت گزارا ہے یہاں میری اماں کی یادیں ہیں اور یہ یادیں مجھے سکون دیتی ہیں یہاں ہر جگہ مجھے اماں دکھائی دیتی ہے یہاں مجھے اُداسی نہیں ہوتی تب شرمین نے کہا، جیسا آپ چاہیں انور میں نے تو اپنی زندگی آپ کے نام کر دی ہے دوسرے دن شرمین اور زبیدہ اکٹھے بیٹھے ہنس ہنس کر باتیں کر رہیں تھیں میں نے آسماں کی طرف دیکھا جو نیلا صاف شفاف لگ رہا تھا میری زندگی کی اندھیری رات کٹ چکی تھی اور اب صاف شفاف آٖغاز ہو چکا تھا میں خود میں بہت مطمئن تھا اماں سے کیا گیا وعدہ بھی نبھایا اور محبت کا بھروسہ بھی نہیں ٹوٹنے دیا۔
 
BabarNayab
About the Author: BabarNayab Read More Articles by BabarNayab: 26 Articles with 26454 views Babar Nayab cell no +9203007584427...My aim therefore is to develop this approach to life and to share it with others through everything I do. In term.. View More