محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیارحمۃ اﷲ علیہ:حیات ،خدمات اور تعلیمات
(Ataurrahman Noori, India)
عرس محبوب الٰہی کے موقع پر خصوصی تحریر
صوفیائے کرام کی تعلیمات اور خانقاہی نظا م ہی میں مادیت پرستی اور مفاد پرستی کاعلاج ہے
|
|
|
حضرت خواجہ نظام الدین اولیارحمۃ اﷲ علیہ
کا اصل نام سید محمد نظام الدین، والد کا نام سید احمد بخاری ہے۔ آپ کے
القابات نظام الاولیاء، محبوب الٰہی، سلطان المشائخ،سلطان الاولیاء اور زری
زر بخش وغیرہ ہیں۔آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ کے جانشین
ہیں۔آپ کے جد امجدمع اہل وعیال بخارا سے ہجرت فرماکر لاہوراور پھرصوفیوں
اور عالموں کے مرکز بدایوں تشریف لائے تھے۔پانچ سال کی عمر میں والد کا
انتقال ہوگیاتھا، آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی
زلیخا نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔ آپ نے قرآن کریم
کا ایک پارہ مقری بدایونی سے پڑھا ،اس کے بعد مولانا علاؤالدین اصولی سے
مختصر القدوری پڑھی۔ مشارق الانوار کی سند مولانا کمال الدین سے حاصل کی۔
اس کے بعد دہلی آکر خواجہ نجیب الدین متوکل سے صحبت رہی۔ یہیں شمس الدین
خوازمی سے تحصیل علم کی۔آپ نے تمام علوم ظاہری یعنی فقہ،حدیث،تفسیر کلام،
معانی ،منطق، حکمت ،فلسفہ ،ہیئت ،ہندسہ، لغت، ادب اور قرأت وغیرہ میں کمال
حاصل کیا،ساتوں قرأتوں کے ساتھ قرآن شریف یاد کیااورمحدثین سے اسنادحاصل
کیں۔اسی کمال وخوبی کے باعث آپ علماوفضلا کے طبقے میں ’’نظام الدین بحاث
محفل شکن ‘‘کے خطاب سے مشہورہوئے۔آپ نے اجودھن(پاکپتن) میں حضرت بابا
فریدالدین گنج شکر کے دست حق پر بیعت کیں۔آپ نے زندگی بھر شادی نہیں کی اور
تمام عمر تجرد میں گزار دی۔آپ کو اپنے پیر ومرشد سے انتہائی درجہ کی محبت
تھی۔ آپ کا اخلاص، فرمانبرداری اور حسن اعتقاد آپ کی سعادت کی دلیل ہے اور
اسی کی بدولت پیرومرشدنے آپ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔آپ نے چند دن قضاء
کے عہدے کو زینت بخش کر ترک وتجرد اختیار کیا۔
آپ کاابتدائی زمانہ بہت ہی عسرت اور تنگدستی میں گذرا۔ ایک دن ایک فقیر نے
آپ سے کھانے کے لیے کچھ مانگا،آپ نے ہانڈی سامنے کردی،فقیر نے کھانے کے بعد
ہانڈی زمین پر دے ماری اور حضرت محبوب الٰہی سے مخاطب ہوکرکہا کہ
’’مولانانظام الدین !نعمت باطنی سے تم کو بابافریدالدین نے سرفراز کیاہے
اور تمہارے فقر ظاہری کی ہانڈی میں نے توڑ دی۔‘‘اس روز سے فتوحات اس قدر
شروع ہوئیں کہ شماروحساب سے باہرہیں۔حضرت بابافرید علیہ الرحمہ نے آپ کو
دعاتھی کہ ’’خداکرے ستّر مَن نمک روزانہ تمہارے باورچی خانے میں خرچ
ہو۔‘‘آپ کے پیرومرشد کی یہ دعا مقبول ہوئی۔آپ کے باورچی خانے میں روزانہ
ستّر مَن نمک خرچ ہوتاتھا۔ ستّراونٹ پیاز ولہسن کے چھلکے روزآپ کے باورچی
خانے سے نکلتے تھے۔آپ کی سخاوت کا یہ حال تھاکہ جوکچھ آتاشام تک سب خرچ
ہوجاتا۔ایک مرتبہ غیاث پور میں آگ لگی،بہت سے مکانات جل گئے ،حضرت محبوب
الٰہی کولوگوں کی اس تکلیف اور بربادی سے صدمہ ہوا۔آپ نے خواجہ اقبال کوحکم
دیاکہ جن لوگوں کے مکانات جل گئے ہیں ان کو دوخوان کھانا،دو پانی کے مٹکے
اور دواشرفیاں پہنچادی جائیں۔سیرالاولیاسے منقول ہے کہ آپ نماز جمعہ سے قبل
خانقاہ کے انبار خانوں میں جو کچھ ہوتا،تقسیم فرمادیتے،جھاڑودلوادیتے اور
پھر نمازجمعہ کے لیے تشریف لے جاتے۔آپ کے یہاں سے بہت سے لوگوں کی پرورش
ہوتی تھی اور بہت سے طلبااور حافظوں کو مدد ملتی تھی۔آپ کی سخاوت اور
دریادِلی پر شاہان وقت کو تعجب ہوتاتھا۔آپ دن میں اﷲ کی مخلوق کی خدمت کرتے
اور پوری پوری رات عبادت الٰہی میں گذارتے۔رات کو جاگنے کی وجہ سے آپ کی
آنکھیں ہمیشہ سُرخ رہتیں۔حضرت امیر خسرو کایہ شعر اسی طرف اشارہ کرتاہے
توشبانہ می نمائی بیرے کہ بودی امشب
کہ ہنوز چشم مستت اثرخماردارد
آپ نے کتاب ’’راحت القلوب‘‘میں اپنے پیرومرشد کی مجالس کے حالات اور
ملفوظات قلم بند فرمائے ہیں۔آپ کی تعلیمات اسرار الٰہی کے اشارات ہیں۔یہ
ایسے غیبی جواہرات ہیں جو بہت قیمتی اور انمول ہیں۔آپ نے فرمایا:٭ہمت
بلندرکھنی چاہیے، دنیاکی آلائشوں پھنسنا نہیں چاہیے اور حرص وشہوت چھوڑ
دینی چاہیے۔٭اگرکوئی شخص روزہ رکھے،رات کو جاگتارہے اور حاجی بھی ہوتب بھی
اصل اصول یہ ہے کہ دنیاکی راستی اس کے دل میں نہ ہو۔٭صدقے میں پانچ شرطیں
ہوتوصدقہ ضرور قبول ہوتاہے۔عطاسے پہلے کی دوشرطیں یہ ہے کہ جوکچھ دے حلال
کمائی سے ہو،دوسرے کسی ایسے نیک بندے کو دے جو اسے بُرے کام میں خرچ نہ
کرے۔عطاکے وقت کی دو شرطیں یہ کہ اول تواضع اور ہنسی خوشی سے دے دوسرے
پوشیدگی سے دے اور بعد کی شرط یہ ہے کہ جو دے اس کا نام تک نہ لے بلکہ بھول
جائے۔٭صبراس کانام ہے کہ جب کوئی خلاف طبع بات بندے کو پہنچے تو اس کی
شکایت نہ کرے لیکن رضااس بات کا نام ہے کہ مصیبت سے کسی طرح کی اسے کراہت
نہ ہو۔ایسامعلوم ہوکہ گویااس پر مصیبت نازل ہی نہیں ہوئی۔٭دعاکے وقت دونوں
ہاتھ کھلے رکھنے چاہئیں اور سینے کے برابر اور ایسی شکل اختیارکرناچاہیے کہ
ابھی کوئی چیز ملے گی۔٭حق تعالیٰ پر بھروسہ رکھناچاہیے اور اس کے سواکسی سے
اُمید نہیں رکھناچاہیے۔اصل کام یادِ حق ہے اور اس کے سواجو ہے سب یادِ حق
کا مانع ہے۔٭اصل دانائی یہ ہے کہ دنیاکوترک کیاجائے۔٭درویش کو چاہیے کہ نہ
خوشی سے خوش ہو،نہ غمی سے غم ناک ۔٭جب ایک مرتبہ پیٹ بھرجائے تو پھر اور
نہیں کھاناچاہیے ۔البتہ دو لوگوں کو اجازت ہے،ایک وہ جس کے یہاں مہمان آئے
اور دوسراوہ جو روزہ رکھتاہے اور سمجھتاہوکہ سحری کے وقت شاید کچھ نہ مل
سکے۔٭ہر ایک کا ظلم سہناچاہیے مگر اس سے بدلہ لینے کی نیت نہیں کرناچاہیے۔
18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو طلوعِ آفتاب کے وقت آپ نے وصال فرمایا۔آج
بھی آپ کا مزارپُرانورمرجع خاص وعام ہے۔(حوالہ:دلی کے بائیس خواجہ،از:ڈاکٹر
ظہورالحسن شارب،سوانح حضرت نظام الدین اولیاء،از:شیخ محمد بلاق دہلوی ) |
|