بے شمار کامیاب ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے والے سینئرفنکار ابراہیم نفیس مرحوم کی یاد میں !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
|
پاکستان میں جن فنکاروں نے ریڈیوسے اپنی
فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا ان میں سے اکثر نے آگے جاکر اسٹیج ،ٹی وی اور
فلم میں بہت نام اور مقام بنایا جن میں اداکار محمدعلی،مصطفی قریشی،قربان
جیلانی،محمود علی،سبحانی بایونس،قاضی واجداور ابراہیم نفیس جیسے ورسٹائل
فنکارشامل ہیں جن کے ناموں سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔یہ دنیا فانی ہے
اوریہاں ہر چیز آنی جانی ہے،ہرجاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ،اس دنیا کو
ہم ایک اسٹیج بھی کہ سکتے ہیں جہاں ہر شخص آکر اپنا کردار ادا کرتا ہے اور
چلا جاتا ہے۔دنیائے فن میں بھی بڑے بڑے فنکاروں نے جنم لیا اور نام ومقام
بنانے کے بعد ایک دن وہ بھی چل بسے ،ایسا صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے اور جب
تک یہ فانی دنیا باقی ہے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔موت برحق ہے اور یہ ایک ایسی
حقیقت ہے جس سے کوئی ذی روح بچ نہیں سکتا۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے
مرجانے کا زخم ہمیشہ تازہ رہتا ہے جیسے پاکستان کے مقبول ترین فلمی ہیرو
عظیم اداکار وحیدمراد مرحوم جن کا انتقال 23 نومبر 1983 میں ہوا تھا لیکن
آج 27 سال کے بعد بھی لوگ انہیں بھلا نہیں سکے۔ایسے ہی ہردلعزیز فنکاروں
میں ایک بڑا نام سینئر اداکار ابراہیم نفیس کا بھی ہے جو بہت اچھے فنکار
ہونے کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے لیکن افسوس اتوار 20 مئی 2012 کو
ابرہیم نفیس اس دار فانی سے کوچ کرگئے اور فن کی دنیا ایک اور اچھے فنکار
سے محروم ہوگئی۔
اداکارابراہیم نفیس جنہوں نے ریڈیو سے اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا اور
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسٹیج ڈراموں اور فلموں کی ضرورت بن گئے ،اداکار
ابراہیم نفیس 1939 میں بھارتی شہر آگرہ کے علاقے ’’شاہ گنج ‘‘ میں پیدا
ہوئے لیکن ابھی وہ چھوٹے ہی تھے کہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے نانا کے گھر
چلے گئے اور انہوں نے اپنا بچپن اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے نانا کے گھر میں
گزارا،ان کے نانابھارت میں بنارس کے قریب واقع ’’جون پور ‘‘میں رہتے تھے ،ابراہیم
نفیس نے اپنی ابتدائی تعلیم جون پور میں ہی حاصل کی انہیں جس اسکول میں
داخل کیا گیا وہ ایک ’’شیعہ‘‘ اسکول تھا جہاں شیعہ ،سنی اور ہندو بچے ایک
ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس اسکول میں فارسی اور عربی کے علاوہ انگیزی
زبان پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی جبکہ اسکول سے پڑھائی کاوقت پورا ہونے
کے بعد یہ سارے بچے اکٹھے ہوکر لاٹھی چلایا کرتے تھے اورقریبی اکھاڑے میں
زورآزمائی کے کھیل بھی کھیلا کرتے تھے جبکہ شعروشاعری اور ادب سے بھی
ابراہیم نفیس کو شروع سے ہی لگاؤ تھا۔انہوں نے جون پور سے میٹرک تک تعلیم
حاصل کی ۔1948 میں ابراہیم نفیس اپنے والد کے ساتھ پاکستان آگئے اور پھر وہ
اپنی خالہ کے پاس پشاور چلے گئے۔پشاور میں رہائش کے دوران ابراہیم نفیس نے
وہاں کے ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے رسالے’’آہنگ‘‘ کا مطالعہ کیا تو
انہیں ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو اند ر سے دیکھنے کا شوق پیدا ہوااور
ایک دن وہ پشاور ریڈیو کے پروڈیوسرقاضی سرور کے پاس پہنچ گئے اور ان سے
خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی ریڈیو پر کام کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کا آڈیشن
لیا گیا اور شومئی قسمت کہ وہ آڈیشن میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے ریڈیو
پشاور سے اناؤنسمینٹ شروع کردی ۔ایک سال تک وہ پشاور ریڈیو پر اناؤنسمینٹ
کرتے رہے اور پھر اس کے بعد اپنے والد کے کہنے پر وہ کراچی واپس چلے
آئے۔پشاور ریڈیو پر کام کرنے کا تجر بہ کراچی میں ان کے بہت کام آیا اور
انہیں بہت جلد ریڈیوپاکستان کراچی میں بھی اناؤنسمینٹ کے لیئے منتخب کرلیا
گیالیکن ان کو صداکاری کا بھی بہت شوق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو ریڈیو
سے نشر ہونے والے ڈراموں میں بھی صداکاری کا چانس دیا جائے اور آخر کار کچھ
عرصے بعد ان کی یہ خواہش ریڈیو ڈرامہ پروڈیوسر شمس الدین بٹ نے پوری کردی
اور ابراہیم نفیس کو ڈرامہ فیسٹیول کے ابتدائی چند ڈراموں میں صداکاری کا
موقع دیا جس سے ابراہیم نفیس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اوریوں وہ ایک صداکار
کے طور پر بھی مشہور ہوگئے۔1957 میں انہیں ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں ڈیڑھ
سو روپے ماہوار پرمستقل ملازمت مل گئی۔جہاں ان کی دوستی حمایت علی
شاعر،ارشادعلی ،محمدعلی اور مصطفی قریشی جیسے نامور لوگوں سے ہوئی لیکن
ابھی ان کو یہاں ایک سال ہی ہوا تھا کہ ان کے والد نے زیڈ اے بخاری سے کہ
کر ابراہیم نفیس کا تبالہ کراچی ریڈیو پر کروالیا۔ابراہیم نفیس نے ریڈیو پر
خود کو ایک بہترین صداکار کے طورپر منوانے کے بعد کئی اسٹیج ڈراموں میں بھی
کام کیا جن میں اکثر نے کامیابی حاصل کی جن میں مشہور اسٹیج ڈرامے،’’مرزا
غالب بندر روڈ پر‘‘،’’بکر ا قسطوں پر‘‘،’’بڈھا گھر پر ہے‘‘،اور ’’بہروپیہ
معین اختر‘‘ شامل ہیں ۔
فلموں میں ان کو سب سے پہلے 1960 میں ہدایتکار اقبال یوسف نے اپنی فلم’’رات
کے راہی‘‘میں ڈی آئی جی کے کردار میں کاسٹ کیا۔اس کے بعد ان کو فلمساز
وحیدمراد نے بطور فلمساز اپنی پہلی فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘ میں درپن اور
شمیم آرا جیسے بڑے فنکاروں کے ہمراہ کاسٹ کیا۔اس فلم میں ابراہیم نفیس کے
ساتھ ریڈیوکے معروف صداکار ایس ایم سلیم کو بھی پہلی بار فلم میں کاسٹ کیا
گیااس فلم کی وجہ سے ابراہیم نفیس کو مزید فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا
اور1962 میں ہدایتکار حسن طارق کی فلم’’بنجارن ‘‘ میں ان کو بنجارنوں کے
سردار کا کردار دیا گیا جس میں انہوں نے نہایت عمدہ اداکاری کرکے فلموں میں
اپنی جگہ بنالی اور فلم بنجارن کی کامیابی کے بعد ان کو متعدد فلموں میں
کاسٹ کیا گیا جبکہ اس دوران فلمساز واداکار وحیدمراد نے بھی ان کو اپنی
مستقل ٹیم کاحصہ بنالیا اور یوں ابراہیم نفیس کا شمار بہت جلد وحیدمراد کے
قریبی دوستوں میں ہونے لگااورپھر وحیدمراد کی اکثرفلموں کی کاسٹ میں
ابراہیم نفیس لازمی طور پر شامل کیئے جانے لگے ،وحیدمراد کے ساتھ انہوں نے
کئی کامیاب ترین فلموں میں کام کیا جن میں وحیدمراد کی فلم’انسان بدلتا ہے‘‘،’’جب
سے دیکھا ہے تمہیں‘‘،جاگ اٹھا انسان‘‘‘، ’’ہیرااور پتھر‘‘،’’پھر صبح ہوگی
‘‘،’’عندلیب ‘‘،’’احسان،’’پھر چاند نکلے گا‘‘،’’دوراہا‘‘،’’وعدے کی زنجیر‘‘،’’چھوٹے
نواب ‘‘،’’آپ کا خادم ‘‘،آواز‘‘اور ’’جب جب پھول کھلے ‘‘،قابل ذکر ہیں خاص
طور پر فلم ہیرااور پتھر میں ابراہیم نفیس نے وحیدمراد کے بڑے بھائی کے
کردار میں نہایت عمدہ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا،ہیرا اورپتھر نے سپرہٹ
کامیابی حاصل کی، وحیدمراد کے ساتھ فلم ہیرا اور پتھر کے علاوہ انہوں نے
فلم احسان،دوراہا،عندلیب اور جب جب پھول کھلے جیسی سپرہٹ فلموں میں کام
کیاجس کے بعد ابراہیم نفیس کو بہت سی فلموں میں کاسٹ کیا گیاجن میں انہوں
نے مختلف النوع کرداروں میں ورسٹائل اداکاری کا مظاہر ہ کرکے داد حاصل
کی۔خاص طورپر فلم ’’جب جب پھول کھلے‘‘ میں ابراہیم نفیس نے پاکستانی سینما
کے تین سپراسٹارز وحیدمراد،محمدعلی اور ندیم کے سامنے ایک ولن کے روپ میں
شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا ۔واضح رہے کہ فلم’’عندلیب ‘‘ ان کی پہلی
رنگین فلم تھی اس سے قبل انہوں نے جتنی بھی فلموں میں کاکام کیا وہ سب بلیک
اینڈ وائٹ تھیں۔1969 میں ابراہیم نفیس کراچی سے لاہور چلے گئے اور وہاں کی
فلموں میں بھی کام شروع کردیا ۔ابراہیم نفیس کو فلموں میں کام کرنے کے ساتھ
فلمیں بنانے اور انہیں ڈائریکٹ کرنے کا بھی شوق تھا جس کی بنا پر انہوں نے
1970 میں فلم ’’دل والے‘‘ کو پروڈیوسر کے طور پرایک اور فلمساز کے ساتھ مل
کرپروڈیوس کی اور اس فلم کی ہدایتکاری کے فرائض بھی خود ہی انجام دیئے اس
فلم کے ہیرو بدرمنیر اور ہیروئن یاسمین خان تھی جبکہ اداکار غلام محی الدین
اور اداکار بہروزسبزواری کو بھی پہلی بار اسی فلم میں کاسٹ کیا گیا تھا ،پہلے
اس فلم کو بنگالی زبان میں ڈبنگ کرکے مشرقی پاکستان میں ریلیز کیا گیا اور
پھر کافی تاخیر سے اس فلم کو اردو زبان میں کراچی میں ریلیز کیا گیا ،
تاخیر سے ریلیز ہونے کی وجہ سے یہ فلم کامیابی حاصل نہ کرسکی ۔ 1973 میں
ابراہیم نفیس کی شادی ہوگئی جس سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے ،ان
کے دونوں بیٹے امریکہ میں رہتے ہیں جبکہ ان کی بیٹی کراچی میں ہی ہے اور اس
نے ایم بی اے کیا ہوا ہے جبکہ اسٹیج ڈراموں کے معروف اور کامیاب ہدیتکار
سید فرقان حیدر،ادکارابراہیم نفیس کے حقیقی سگے بھائی ہیں-
اداکارابراہیم نفیس نے1960 میں ریلیز ہونے والی اپنی پہلی فلم’’رات کے
راہی‘‘ سے لے کر1995 میں اپنی آخری ریلیزز شدہ فلم’’مسکراہٹ‘‘ تک کل108
فلموں میں کام کیا جن میں سے زیادہ تر فلموں نے نمایاں کامیابی حاصل کی،ان
فلموں میں ابراہیم نفیس نے ایک ورسٹائل اداکار کے طورپر مختلف النوع قسم کے
کردار ادا کیئے اور ان کو فلم انڈسٹری کے کامیاب اور مقبول فنکاروں کے ساتھ
کام کرنے کا موقع ملا لیکن سب سے زیادہ کام انہوں نے اپنے دوست اداکار
وحیدمراد کے ساتھ ہی کیااور ان دونوں مقبول فنکاروں کے اشتراک سے بہت سی
کامیاب فلمیں وجود میں آئیں۔
چند سال قبل تک ابراہیم نفیس آرٹس کونسل کراچی سے منسلک تھے اور ایک اہم
عہدے پر فائزہوکر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بہ حسن وخوبی نبھا رہے تھے
لیکن مختلف بیماریوں نے ان کو ایک طویل عرصہ سے گھیرا ہوا تھا جس کی وجہ سے
بہت لاغر اور کمزورہوگئے تھے اور یہی لاغری رفتہ رفتہ اتنی بڑھ گئی کہ آخر
کار وہ آرٹس کونسل کو چھوڑ کر بستر سے جالگے ،وہ تقریباً3 سال سے شدید علیل
تھے جبکہ گزشتہ ایک ماہ سے وہ’’کوما ‘‘میں تھے ورآخر کار اسی کوما کی حالت
میں اتوار20 مئی2012 کو کراچی میں ان کا انتقال ہوگیاجس کے بعد ان کے بیٹوں
کی امریکہ سے کراچی آمد کے فوراًبعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کو
سپرد خاک کردیا گیا۔میں نے چونکہ ابراہیم نفیس صاحب سے ان کے عروج کے زمانے
میں بھی کئی ملاقاتیں کی تھیں اور پھر آخری دور میں بھی مجھے آرٹس کونسل
میں دو مرتبہ ان سے شرف ملاقات حاصل ہوا جس کے دوران مجھے یہ دیکھ کر بہت
دکھ ہواکہ جس ابراہیم نفیس کی صحت کبھی قابل رشک ہوا کرتی تھی وہ اپنے آخری
دنوں میں کسی شاندار عمارت کا کھنڈر دکھائی دیتا تھا،مجھے چونکہ ابراہیم
نفیس جیسے نفیس انسان سے متعدد بار ملاقات کا موقع ملا جس کی وجہ سے میرا
تاثر یہ ہے کہ وہ ایک اچھے اداکار ہونے کے علاوہ بہت اچھے انسان بھی تھے
،مجھ سے وہ جب بھی ملے ان کا رویہ نہایت مشفقانہ رہا ،یہی وجہ ہے کہ جب میں
نے اتوار20 مئی 2012 کی صبح ایک معتبر اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ اداکار
ابراہیم نفیس طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال فرماگئے ہیں تو مجھے ایسا
محسوس ہوا کہ جیسے میرا کوئی قریبی عزیز مجھ سے ہمیشہ کے لیئے جدا ہوگیا ہے
اور ان کی موت کا مجھے شدیددکھ ہوا۔مرحوم ابراہیم نفیس ایک عمدہ فنکار اور
نفیس انسان تھے جنہیں گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے ایک طویل عرصہ تک یاد رکھا
جائے گا۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کے لواحقین کو صبر جمیل عطا
فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام
عطافرمائے۔(آمین) |
|