ہندوستانی علماومفکرین میں شاہ ولی اﷲ محدث
دہلوی(۱۷۰۳ء۱۷۶۳-ء)کو تنِ تنہا یہ امتیازحاصل ہے کہ آج برصغیر کے تقریباً
تمام ہی اسلامی مکاتبِ فکرکے متبعین اپنے آپ کو اُن کے فکری اسکول سے نہ
صرف منسوب کرتے ہیں؛ بلکہ حضرت شاہ ولی اﷲ کے افکار،تصورات اورعلمی متروکات
ہی میں وہ اپنے اپنے مسلک کے لیے تائیدی دلیلیں بھی تلاش کرتے ہیں۔یقیناً
ایسی خصوصیت صرف حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کو حاصل ہے اور اس میں ان کا
کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاہ ولی اﷲ نے ایسے
وقت میں امت میں اتفاق و توافق کی بنیادیں تلاش کیں اوران کی عملی تطبیق کی
کوششیں کیں،جب بطورِخاص متحدہ ہندوستان کے مسلمان ایک جانب عملی کوتاہیوں
اور سیہ کاریوں کا شکار تھے،ان کے معاشرے میں ہندوانہ رسوم ورواج اور
بدعتوں کا دوردورہ تھا اور ان کے طرزِ زندگی میں اسلامی تعلیمات و افکار کا
پرتودِکھنے کی بجاے ہندوستان کے برہمنوں،راجپوتوں اور برادرانِ وطن کی دیگر
برادریوں میں پائی جانے والی وبائیں عام تھیں،تودوسری جانب اہلِ علم وفقہ
کے طبقے اپنے اپنے خول سے باہر آنے کو تیار نہ تھے،ان میں کا ایک طبقہ
ہمیشہ دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے درپے رہتا اور افسوس کی بات یہ تھی کہ وہ
سب کے سب اس مہم میں کامرانی کے لیے شرعی دلائل کا سہارا لیتے تھے،وہ
بیشتراوقات فقہی مسائل اور فروعی نزاعات میں اُلجھے رہتے ،پھر اس اُلجھاوے
کا اثرصرف اُن علما تک ہی محدودنہ تھا؛بلکہ تمام مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں
تھے اور ان کی اصل اجتماعی و ملی حیثیت مخفی و مشتبہ ہوکر رہ گئی تھی؛بلکہ
سیاسی و معاشرتی سطح پر بھی اس قسم کے اختلافات کے اندوہ ناک نتائج سامنے
آرہے تھے۔اہلِ علم وفکر کا ہر طبقہ وفرقہ اپنے اپنے مزعومات کی تصحیح میں
ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگانے میں مصروف تھا اور اس بے جا مسابقت
ومنافست کے ماحول میں اصل علمی و فکری سوتے خشک ہوتے جارہے تھے۔یہ
ہندوستانی مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ تھا کہ اُن تک اسلام توصدیوں پہلے
پہنچ چکاتھا،مگروہ سترہویں صدی عیسوی تک بھی اسلامی علوم و فنون کے اصل
منابع(قرآن وحدیث)سے اعراض کرکے منطقی موشگافیوں ،کلامی جھگڑوں اور فقہی
تنازعات کو علمی اُکھاڑ پچھاڑ کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھے اوراسی کوعلمی
وفکری رسائیوں کی معراج سمجھتے تے۔شاہ صاحب نے علماوعوام کی قرآنِ کریم سے
دوری کو دیکھتے ہوئے اولاً باقاعدہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور پھر ان
میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنے اوراُنھیں کلام ِالٰہی میں تدبر و تذکر کی
دعوت دینے کے لیے ’’فتح الرحمن‘‘کے نام سے فارسی زبان میں قرآن کریم کا
ترجمہ (آغاز۱۷۳۷ء-اختتام ۱۷۳۸ء)کیا،یہ کسی بھی ہندوستانی زبان میں قرآن
کریم کا پہلا ترجمہ تھا،حیرت کی بات ہے کہ بجائے اس کے کہ شاہ صاحب کے اِس
عظیم الشان کارنامے پران کے معاصر علمااُن کی حوصلہ افزائی کرتے اور احسان
شناسی کا ثبوت دیتے،اُن کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ،حتی کہ بہت سے علماے
سو نے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا کہ یہ شخص قرآنِ کریم کا ترجمہ کرکے لوگوں کو
گمراہ کرنا اور بدعت ایجاد کرنا چاہتا ہے،بہت سے بدطینت تو ایسے بھی تھے،جو
ان کی جان کے درپے ہوگئے،مگر چوں کہ شاہ صاحب کا یہ واقعتاً اپنی نوعیت کا
ایک انتہائی منفردکام تھا اورتفہیمِ کلامِ الٰہی کی سمت میں ایک مضبوط ترین
کوشش تھی؛اس لیے دوچار دس’’حرم فروش فقیہوں‘‘کے شوروغوغاسے آپ کی اس
منفردپیش کش کومزید شہرت ملی اور بہت جلد سارا ہندوستان اس اولین فارسی
ترجمے کی افادیت کا قائل اور اس کاقدرشناس ہوگیا۔اسی طرح حضرت شاہ صاحب سے
پہلے حدیث جیسے بابرکت علم کے تئیں بھی عجیب وغریب؛بلکہ افسوس ناک بے
اعتنائی کا ماحول پایا جاتا تھا،پورے تدریسی نصاب میں حدیث کے نام پرصرف
’’مشارق الانوار‘‘پڑھائی جاتی تھی ، جبکہ دوسری جانب منطق وفلسفہ اورعلمِ
کلام کی بیسیوں کتابیں نصابِ درس میں شامل تھیں،حضرت شیخ عبدالحق محدث
دہلوی نے ہندوستان میں علمِ حدیث کورواج دینے کی بڑی جدوجہد کی،مگر وہ رائج
نصاب میں خطیب تبریزی کی’’مشکوۃ المصابیح ‘‘کے علاوہ اورکوئی کتاب داخل نہ
کرسکے۔حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے۱۷۳۱ء میں بغرضِ حج و حصولِ علم حجاز
کا سفر کیا،وہاں تقریباً ایک سال تک مقیم رہے اور وقت کے کبارِ علما و
محدثین سے استفادہ کرکے اگلے سال ہندوستان لوٹے، آنے کے بعد’’مہندیان‘‘دہلی
کے مدرسہ رحیمیہ سے ایک انقلابی نظام و نصابِ تعلیم کا آغاز کیا،ایسا نصاب
،جس میں عربی ادب و نحوسے لے کر حسبِ ضرورت منطق وفلسفہ بھی پڑھائے جاتے
تھے،مگر ان کی درس گاہ میں تفسیر،حدیث،اسرارِشریعت اور تفہیمِ سنت جیسے
موضوعات کو اولیت حاصل تھی،ان کے مدرسے سے فارغ ہونے والا طالبِ علم ایک
ایسا عالم ہوتا تھا،جوواقعتاً مسلمانوں کی ہرشعبۂ حیات میں رہنمائی وامامت
کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوتا تھا۔علمِ حدیث میں اس سے پہلے ’’مشارق
الانوار‘‘ اور پھر’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘کوہی منتہی کتابیں باورکیاجاتا
تھا،مگر حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے حجاز سے واپس آنے کے بعد علمِ حدیث
کی تدریس کا نیا منہج اور نظام شروع کیا اور ان ہی کی بدولت ہندوستان میں
صحاحِ ستہ کی باقاعدہ تدریس کے دورکی ابتدا ہوئی،اسی وجہ سے شاہ صاحب کو
’’مسندالہند‘‘ بھی کہاجاتاہے ،کہ بارہویں صدی ہجری سے لے کراب تک سارے حدیث
پڑھنے اور پڑھانے والوں کے اساتذہ کاسلسلہ اُن ہی سے ہوکرگزرتاہے، بعد کی
صدیوں میں دیوبندکواس نصاب کی ترویج میں خاص شہرت حاصل ہوئی،دیگر تعلیمی
اداروں نے بھی اپنے اپنے طریقے سے حضرت شاہ ولی اﷲ کے رائج کردہ طریقۂ
تدریس کی ہی اتباع کی اور اس طرح ولی اللّٰہی مدرسۂ فکر برصغیر کے اسلامی
مسالکِ فکروتعلیم کا اہم مرجع بن گیا۔
اسی طرح شاہ ولی اﷲ نے فقہ میں افراط و تفریط کی بجاے اعتدال و میانہ روی
کی راہ نکالی اورفقہی مسائل میں ائمۂ متبوعین کے اختلافات میں تطبیق و
توفیق کے لیے ایک خاص نہج کی گویا’’دریافت‘‘کی،جس مسئلے میں متعدد ائمۂ فقہ
کا اختلاف ہو،وہاں انھوں نے یہ موقف اپنایا کہ ان میں اولاً جمع و تطبیق کی
کوشش کی جائے اور اگر ممکن نہ ہو،توکسی بھی مسئلے میں جس امام کاقول یا
مذہب حدیثِ صریح سے اقرب و اوفق ہو،اُسے اختیار کیا جائے۔شیخ اکرام نے شاہ
صاحب کی اس خوبی کوان کی ذہانت ووسعتِ علمی کی علامت قراردیتے ہوئے’’رودِ
کوثر‘‘میں لکھاہے :
’’وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اوراپنی علمی وسعت اور
ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،جس پر
فریقین متحدہوسکیں‘‘۔(ص:۵۸۲)
اس موضوع پرحضرت شاہ صاحب نے باقاعدہ ایک کتاب ’’الانصاف فی بیان سبب
الاختلاف‘‘تحریرفرمائی ہے،اس کتاب میں بنیادی طورپردینی مسائل میں عہدِ
صحابہ سے لے کرتابعین وتبع تابعین اور ائمۂ متبوعین کے زمانے تک پائے جانے
والے اختلافات کے حقیقی اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے،ان میں جمع و تطبیق کی
شکلوں کا ذکر کیاگیا ہے اور ان اختلافات کو بنیاد بناکرمسائل کی تفہیم و
تطبیق میں شدت پسندانہ ماحول پیدا کرنے والے علماپر بھی اور عوام پر بھی
شدید تنقید کی گئی ہے۔اس کے باوجودکہ شاہ صاحب عملی اعتبار سے حنفی المسلک
تھے اوراپنے تعارف میں’’الحنفي عملاً‘‘ضرورلکھاکرتے تھے(شاہ صاحب نے’’فیوض
الحرمین‘‘ میں اپنے فقہی مسلک کے حوالے سے تفصیلی گفتگوکی ہے اورلکھاہے
کہ’’مجھے اﷲ کے رسول کی جانب سے الہام ہواہے کہ اس زمانے میں مذہبِ حنفی
ایک بہترعملی مسلک اورامام بخاری وغیرہ اہلِ حدیث کے زمانے میں جمع کیے گئے
ذخیرۂ احادیث سے قریب ترین ہے․․․‘‘ماہنامہ الفرقان ،شاہ ولی اﷲ نمبر، ص:
۳۶۴،بحوالہ فیوض الحرمین ،ص:۴۸)ایک جگہ شاہ صاحب اختلافِ ائمہ کے تعلق سے
اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بقدرِامکان جمع می کنم درمذاہبِ مشہورہ مثلاً:صوم و صلوٰۃ ووضو وغسل وحج
بوصفے واقع میشودکہ ہمہ اہلِ مذاہب صحیح می دانند وعند تعذُّرِالجمع باقویٰ
مذاہب ازروے دلیلِ موافقتِ صریح حدیث عمل می نمایم‘‘۔(الانصاف،ص:۷۰)
(میں ممکن حد تک مشہور فقہی مسالک میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتا
ہوں،مثلاً:نماز،روزہ،وضو،غسل اور حج کے مسائل میں ایسا موقف اختیار کرتاہوں
کہ جوتمام مسالک والوں کے نزدیک درست ہو اور جب ان میں باہم جمع و تطبیق کا
امکان معدوم ہوجاتاہے،تب میں صریح حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اسی پر عمل
کرتا ہوں)
موجودہ دور میں جب کہ مسلمانوں کے تمام مسالک و مکاتبِ فکر روحانی طورپر
اپنے کو شاہ ولی اﷲ دہلوی سے منسوب کرتے ہیں،اُنھیں فکرِ ولی اللّٰہی کے اس
پہلوپرخاص طورسے غورکرنا اوراسے کسوٹی بناکریہ دیکھنا چاہیے کہ کیاان
کاطرزِعمل اُس پرکھرااترتاہے؟
شاہ صاحب کے زمانے میں ہندوستان میں ایک طبقہ صوفیوں کابھی تھا،ان میں سے
کچھ توواقعی صوفی تھے،جن کی باطن کی دنیا منورو تاب ناک ہوتی اورجن کی
نگاہِ دوررس میں تقدیروں کے بدلنے کی صلاحیت ہوتی تھی،مگرایسے صوفی بہت کم
تھے،البتہ اُن کے مقابلے میں ایسے صوفیوں کی بھرمار تھی،جنھوں نے تصوف
کوکسبِ دنیا کا ذریعہ اور تقشف کوبھولے بھالے عوام کوپھنسانے کا وسیلہ
بنارکھاتھا،ان کی اپنی ایک دنیا تھی اور وہ اس دنیا میں کسی کو اپنا شریک و
سہیم نہیں دیکھنا چاہتے تھے،یہ لوگ ذاتی مفادات کی برآری کے لیے شرعی
استدلالات کا سہارا لیتے اور عامۃ المسلمین کو یہ تاثردینے کی کوشش کرتے کہ
گویاوہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں،ایسے ہی لوگوں کی بدولت مسلمانوں میں
عقیدے کی بے شمارگمراہیوں اور کج رویوں کے ساتھ بدعملیوں کے بھی ان گنت
دروازے کھل گئے تھے۔ الغرض ان دنیا دارمتصوفین نے مذہب و شریعت کوبازیچۂ
اطفال بنارکھاتھا۔شاہ صاحب کے گرد و پیش میں بھی اور ہندوستان بھر کے طول و
عرض میں بھی ایسے پاکھنڈیوں کے ٹولے پائے جاتے تھے،جو مسلمانوں کی دنیا و
عقبیٰ دونوں کی تباہی کا سامان کر رہے تھے؛حالاں کہ شاہ صاحب سے پہلے حضرت
مجددالفِ ثانی شیخ احمد سرہندی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حوالے سے
غیر معمولی جد وجہد کی تھی اور ہندی مسلمانوں کے فکر و عقیدہ کی تصحیح
وتحفظ کے لیے جاں توڑ کوششیں کی تھیں،مگربہت جلد ہی ان کی تعلیمات کے اثرات
معدومیت کی کگار پر پہنچ چکے تھے اور عقیدہ و عمل کی گمراہیوں میں ہندوستان
کے مسلمان بری طرح ملوث تھے ،اس میں اہم رول ان صوفیوں کا تھا،جن کا ظاہر
چمک دار،مگرباطن سیاہ و خوف ناک تھا۔
حضرت شاہ صاحب نے ایسے دنیا دار صوفیوں کے مزعومات کے خلاف جم کر
لکھا،اُنھوں نے شرعی نصوص کی روشنی میں احسان و سلوک کی تعریف و حقیقت
اوراس کے صحیح مصداق کی تعیین کی اور اُن تمام اعمال ،رواجوں اور رسم ہاے
بد کی دھجیاں بکھیر دیں،جنھیں جاہل و نادان مسلمان ضروریاتِ دین یا
کارِثواب سمجھ کر کیا کرتے تھے۔پھرانھیں دین کی حقیقت سے روشناس کرایا،ان
اعمال کی نشان دہی کی،جن کی ادائیگی مشروع ہے اور جن کے کرنے پرواقعتاًثواب
مرتب ہوتا ہے۔
قرآن،حدیث اور عقیدہ و عمل کے تعلق سے حضرت شاہ صاحب کے یہ نمایاں ترین
کارنامے ہیں اوران کو آپ کے تمام ترفتوحات کی ایک جھلک
کہاجاسکتاہے۔ہندوستانی مسلمانوں میں علمی انقلاب ، فکری و عملی بیداری ا ور
اصلاح کی تحریک اٹھانے میں مجددالفِ ثانیؒ کے بعدشاہ صاحب کارول غیر معمولی
اہمیت رکھتا ہے،پھرشاہ صاحب کی اِس تحریک کوان کے خانوادے کے مایہ
نازسپوتوں نے آگے بڑھایا اورحضرت شاہ عبدالقادرؒ، شاہ رفیع الدینؒ، شاہ
عبدالعزیز ؒاور شاہ اسماعیل شہیدؒنے برصغیرکے مسلمانوں پر اتنے احسانات کیے
ہیں کہ سارابرصغیررہتی دنیاتک ان کا قرض نہیں چکاسکتا۔
|