بہت اعلیٰ درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن
آدمی کا بسا اوقات ان سے کم تر درجے کی چیز کھانے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ ایک
مرتبہ‘ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ سب کچھ میسر تھا‘ لیکن مولی
کھانے کے لیے‘ اس کی طبیعت مچل مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گیا۔
منڈی کے دروازے سے ایک بابا جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے پر‘ مولیوں کا گٹھا
اٹھا رکھا تھا‘ نکلے۔ اس میں سے ایک مولی نکلی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے
سے مولی اٹھائی اور بابا جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھا۔ جب اس نے آواز دی
تو بابا جی نے مڑ کر دیکھا۔ جب بابا جی نے مڑ کر دیکھا‘ تو اس نے مولی ان
کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا: بابا جی یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے
اور کہا: تم لے لو۔
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔
پہلے تو اس نے غور نہ کیا‘ اس کے بعد اس نے غور کیا کہ مولیوں کا گٹھا‘ اس
انداز سے بندھا تھا کہ مزید مولیاں گرنے کا قوی امکان تھا۔ پھر وہ چھوٹے
قدموں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کافی دور تک گیا‘ لیکن مزید کوئی مولی
نہ گری۔ اچانک بابا جی نے دوبارہ سے پیچھے مڑ کر دیکھا‘ تو اس نے کہا: بابا
جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے آ رہا تھا۔ یہ سن کر‘ بابا
جی نے بڑے غصے سے اس کی جانب دیکھا۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑٰی سنجیدگی سے
کہا: یاد رکھو اللہ تمہیں اور تمہاری حاجات کو‘ تم سے زیادہ جانتا ہے اور
اس کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔ جب بھی‘ موجود میں مزید کا طمع کرو گے‘ پہلے
سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر اللہ کا شکر ادا کرو‘ تا کہ وہ تمہیں
تمہاری ضرورت کے مطابق عطا فرماتا رہے۔
اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے کان ہو گئے۔
|