بہاول پور چڑیا گھر کے ہاتھی کو آنجہانی ہوئے دس
برس سے زائد گزر چکے ہیں، بس ایک ہی ہاتھی تھا، اس کا کوئی ساتھی نہ تھا ،تاہم
وہ سب کا ساتھی تھا۔ ایک روز بیمار ہو گیا، ڈاکٹروں نے اس کا علاج کرنے کی
اپنی سی کوشش کی، مگر اس کی جان نہ بچا سکے، سو وہ دنیا میں اپنے دن پورے
کرکے ملکِ عدم سدھار گیا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا
لاکھ کا ہوتا ہے، ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مرنے سے قبل ہاتھی کی قیمت
کیا تھی، اور بعد میں کیا ہوگئی، مگر لاکھ والا محاورہ تو کافی پرانا لگتا
ہے، اب تو بات کروڑوں کی ہے۔ ہاتھی کے دانتوں کے بارے میں تو سن رکھا ہے کہ
بہت قیمتی ہوتے ہیں، ممکن ہے ان کی کھال وغیرہ کی بھی کافی قیمت ہو، یہاں
تو گدھوں کی کھال کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ہاتھی کی تو بات ہی
کچھ اور ہے۔ کچھ عرصہ قبل گدھے کے گوشت کے کھائے جانے کی خبریں بہت عام ہو
گئی تھیں، ایک ہی خبر گردش کرتی کہ گدھوں کا گوشت پکڑا گیا، کھال اتارتے
ہوئے لوگ گرفتار کر لئے گئے، وغیرہ وغیرہ۔ معمولی سے وقفے کے بعد گدھے کی
کھالیں اتارنے کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر تسلسل آتا جا رہا ہے۔ یہاں یہ
بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ محکمہ شماریات نے جب پاکستان بھر میں گدھوں
کی تعداد کا تخمینہ لگایا گیا تھا تو گزشتہ برس گدھوں کی تعداد اس سے پچھلے
سال سے زیادہ تھی۔
بات ہاتھی سے شروع ہوئی تھی، گدھے تک پہنچ گئی، حالانکہ دونوں جانوروں میں
کوئی مماثلت نظر نہیں آتی، نہ قد میں، نہ کام میں اور نہ ہی نام میں۔ حتیٰ
کہ چڑیا گھر میں بھی ہاتھی تو ہو سکتا ہے مگر گدھا ایسا جانور ہے، جسے چڑیا
گھر میں رکھنا محض خرچہ بڑھانے والی بات ہے، چڑیا گھر سے باہر تو وہ ’’رُوڑیوں‘‘
وغیرہ پر بھی چر کر اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کا اہتمام کرلیتا ہے، یا پھر
اس کا مالک اسے کچھ گھاس یا چارہ وغیرہ دے دیتا ہے، مگر اسے جب چڑیا گھر کی
زینت بنایا جائے گا تو ظاہر ہے اس کی رہائش اور کھانے (یعنی طعام و قیام)
پر خرچہ اٹھے گا۔ گدھا اتنا اہم بھی نہیں کہ لوگ چڑیا گھر کا ٹکٹ بھر کر
اسے دیکھنے کے لئے آئیں۔ ذکر ہاتھی کا ہو رہا تھا، چڑیا گھر والوں نے اب
نئے ہاتھی خریدنے کے لئے مہم کا آغاز کردیا ہے، پہلے تو یہاں ایک ہاتھی تھا،
مگر اب دو کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کے لئے دس کروڑ روپے کی سمری بھی حکومت
کو ارسال کر دی گئی ہے۔ اس میں ہاتھی کی قیمت اور کسی دوسرے ملک سے اس کو
درآمد وغیرہ کرکے لانے کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اب دیکھیں حکومت اس کی
منظوری کب اور کیسے دیتی ہے؟
بہاولپور چڑیا گھر کے باہر بھی کچھ جانور موجود ہیں، جن میں ہاتھی، شیر،
زرافہ، گینڈا اور زیبرا وغیرہ شامل ہیں۔ ان جانوروں کو باہر نکلنے سے روکنے
کے لئے ایک عدد جنگلا لگایا گیا ہے، مگر یہ اتنے سدھائے ہوئے، سیدھے اور
شریف جانور ہیں کہ عام جنگلے سے بھی باہر نکلنے کی کوشش تک نہیں کرتے، حتیٰ
کہ اسی جنگلے کے اوپر سے لوگ اندر آکر اِ ن کے ساتھ سیلفیاں بناتے اور اپنے
بچوں کوا ن کے اوپر بٹھاتے ہیں۔ یہ ساری صورت حال اس لئے پیش آرہی ہے کہ یہ
جانور گوشت پوست کے زندہ جانور نہیں، بلکہ سیمنٹ،سریے اورپلاسٹر وغیرہ سے
بنائے گئے مصنوعی جانور ہیں۔ چونکہ اس چڑیا گھر میں ایک عشرے سے زائد سے
ہاتھی نہیں تھا،اور نہ ہی زرافہ تھا، سو لوگوں نے اپنے بچوں کو بہلانے کے
لئے اسی پلاسٹر والے ہاتھی اور زرافہ پر ہی گزارہ کیا۔ تاہم یہ بھی چڑیا
گھر کی انتظامیہ کی مہربانی اور کرم نوازی سے ہی ممکن ہو سکا۔ جیسے ہاتھی
کے دکھانے کے دانت اور ہوتے ہیں، اسی طرح انتظامیہ نے بھی دکھانے والا
ہاتھی چڑیا گھر کے باہر نصب کردیا۔ اب سنا ہے ہاتھی آجائے گا، (بلکہ آجائیں
گے، کیونکہ سمری جوڑی کے لئے منظور ہوئی ہے)۔ اگرچہ اس طرح کی کوششیں اس سے
قبل بھی کئی مرتبہ ہو چکی ہیں، مگر ہاتھی نہیں آتا، ممکن ہے اس کے لئے مختص
فنڈ کسی اور اہم کام میں استعمال ہو جاتا ہو، کیونکہ لاہور میں بہت سے میگا
پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ اب بھی فنڈز کے منتقل ہونے کا قوی امکان ہے،
چڑیا گھر کی انتظامیہ کوشش کر کے شہر سے کوئی سفید ہاتھی پکڑ لائے، اگر نہ
ملے تو لاہور ، اسلام آباد سے درآمد کر لیں کہ وہاں سفید ہاتھیوں کی بہتات
ہے۔
|