’’اپنے سرخروجانشین جناب منشاء فریدی کے ذوق مطالعہ کے
لیے ۔۔۔!
جی ہاں ۔۔۔ یہ وہ جملہ ہے جو ایک تحقیقی و تاریخی اہمیت کی حامل کتاب پر
میرے استاد محترم فرید ساجد نے اس وقت رقم کیا۔ جب انہوں نے تا ریخی و
تحقیقی کا رنامہ ( اکرم قریشی شخصیت وفن) میرے ذوق کی تسکین کے لیے میرے
حوالے کیا۔یہ جملہ میرے لیے ایک اعزازی شیلڈ اور سند ہے ۔جس کی روشنی میں
بندہ خود کو مسند فخر پر محسوس کرتا ہے ۔ میرے نزدیک کتاب ’’اکرم قریشی
شخصیت و فن ‘‘ تحقیق کے اعلیٰ معیار پر ہے ۔ جس کا ادراک ہر صاحب فن اور
محقق کو ہے ۔مذکورہ تحقیقی کتاب میں تحقیق کے تمام اصول سامنے رکھے گئے ہیں
۔ فرید ساجد جیسی معتبر شخصیت اور ادیب کا خاصہ بھی یہی ہے کہ آپ نے جب بھی
لکھا اعلیٰ ادب لکھا خواہ وہ تنقیدی ہو یا شعری ادب یا پھر نثری و تحقیقی
۔۔۔!
تحقیق کے اصولوں میں یہ باتیں شامل ہیں کہ جس قلم کا ر پر لکھا جائے اس کے
فن و ادب کے تمام تر حوالے دیے جائیں ورنہ تحقیق ادھوری قرار پاتی ہے ۔
کتاب ہذامیں اکرم قریشی کے کوائف اور ان کے خاندانی پس منظر بھی زیر قلم
لائے گئے۔ اکرم قریشی نے سرائیکی اور اردو ادب میں جس تنقیدی معیار کی
بنیاد رکھی اس کی ترشی ادبی حلقوں میں واضح انداز میں محسوس ہونے لگی ۔ اس
نقد تنقید سے کافی شعراء نالاں نظر آنے لگے کیونکہ اکرم قریشی کا طریقہ
تنقید انتہائی معیاری اور دو ٹوک تھا اور اسے بندہ ’’آئینہ ‘‘ کہنے سے
احتراز نہیں کرتا ۔ آئینے میں چہرے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ آئینہ سچ ہی بولتا
ہے ۔ چنانچہ اکرم قریشی کی تنقید اور ان کا فن معتبر اور مستند ہے ۔ جسے
فرید ساجد لغاری جیسے عظیم ادیب نے مکمل و اکمل انداز میں فالو کیا ۔
’’اکرم قریشی شخصیت و فن ‘‘176 صفحات پانچ ابواب پر مشتمل جامع کتاب ہے۔
مصنف نے پہلے باب میں اکرم قریشی کا خاندانی پس منظر کوائف ، منظوم حالات
اکرم قریشی بطور خاص ذکر کیے ۔ دوسرے باب میں ان کے علمی و ادبی کارنامے
اور خدمات کا احاطہ کیا گیا ۔ چوتھا باب اکرم قریشی کے فکر و فن پر لکھا
گیا۔ چوتھے باب میں اکرم قریشی کی معتبر شاعری کا بھی حوالہ ہے جبکہ
پانچویں باب میں شعرائے کرام اور اہل سخن حضرات کا منظوم خراج عقیدت تحریر
کیا گیا ۔ اور آخرمیں حوالہ جاتی کتب بھی درج کی گئیں ۔ جس سے تصنیف ہذا کی
تحقیق مکمل طور پر مستند ثابت ہوئی۔’’ اکرم قریشی شخصیت و فن‘‘ سرائیکی و
ارد و ادب کے لیے گرانقدر خدمات سر انجام دینے والی ادبی تنظیم ’’دامان
ادبی سرائیکی سنگت ‘‘ نے شائع کی ۔ اکرم قریشی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے
مصنف فرید ساجد نے صفحہ نمبر 3پر اپنا فیصلہ کن شعر رقم کیا کہ
فصیح فطرت ادب دے راکھے کروپ کا لیں دے بعد جندن
فرید ساجد ایہ مرد کامل ہزار سالیں دے بعد جندن
اسی طرح اکرم قریشی کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرید ساجد نے ’’ نذر
اکرم ‘‘کے عنوان سے شہکار نظم تحریر کی جو اپنی مثال آپ قرار پائی ۔’’ اکرم
قریشی شخصیت و فن ‘‘پر ڈاکٹر علمدار حسین بخاری ،جاوید احسن خان اور مولانا
منظور آفاقی کی تاثراتی تحریں شامل ہیں۔ ۔معروف ادیب جاوید احسن خان کی
تاثراتی تحریر ’’ادبی دستاویز ‘‘ سے اقتباس جس میں انہوں نے کچھ اس طرح
فرید ساجد لغاری کی اس ادبی و تحقیقی کا وش کو سراہا۔ ’’فرید ساجد مبارک
باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مولانا حالی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اکرم
قریشی مرحوم کے ادبی کارناموں پر قلم اٹھایا اور سرائیکی شعراء کے کلام پر
بھی قابل قدر تبصرے کیے۔ چنانچہ کتاب میں جہاں مختلف موضوعات پر ابواب قائم
کیے گئے ہیں وہاں قریشی صاحب کے تنقیدی شعور کے حوالے سے انتہائی جامع
مضمون لکھا جس میں قریشی مرحوم کی تنقیدی استعداد اور تجزیاتی صلاحیتوں کا
بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔ ‘‘اردو ادب میں معتبر حوالہ منظور احمد آفاقی نے
فرید ساجد کی مذکورہ تحقیقی کتاب پر کچھ یوں تبصرہ کیا ۔ ’’اکرم قریشی
مرحوم کے ایک شاگرد رشید جناب فریدساجد صاحب نے ان کی سوانح عمری اور ان کے
فن پر قلم اٹھایا ہے ا ور مرحوم کی مختلف حیثیتوں پر بھر پور روشنی ڈالی ۔
فاضل مصنف نے اپنے ادنی سفر کا حال بھی بڑے خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے۔
ان کا ادبی ذوق اور تلاش و جستجو کی خواہش اسے کہاں سے کہاں لے گئی یہ سب
کچھ اسی کتاب میں پڑھیں گے ۔ میرے خیال میں مشاہیر کے ان تاثرات سے فرید
ساجد اور آپ کی تحریر و تحقیق کردہ کتاب’’اکرم قریشی شخصیت وفن‘‘ کے سند
ہونے کی دلیل مل سکتی ہے۔مصنف و محقق فرید ساجد نے کتاب ہذا میں شامل اپنے
مضمون بعنوان ’’ اکرم قریشی اہل علم کی نظر میں ‘‘ادباء و علماء کی تحریر
یں اور تاثرات شامل کیے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرید ساجد لغاری بغیر
حوالہ کے لکھی گئی تحریر پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اس مضمون میں راقم الحروف
کا اقتباس بھی شامل کیاگیا۔ مضمون میں فرید ساجدنے جس انداز سے اکرم قریشی
پر تبصرہ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرید ساجداپنے استاد محترم اکرم قریشی
سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں ’’اکرم قریشی ہمہ جہت ادیب و شاعر محقق و موئرخ
، نثر نگار و ناقد اورفرید شناس تھے ۔ آپ کی شاعری روایت کی پاسدار ہونے کے
ساتھ ساتھ موضو عات کے متنوع اور جد ت فکر کا بھی خزانہ تھی۔ تراکیب شیریں
پختہ اور الفاظ موزوں و مناسب ہر حوالے سے پختگی و شستگی ان سب پر مستزاد
تھی ۔ نثر نگاری میں بھی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ میدان تحقیق ان کا
میدان خاص تھا ۔‘‘
مذکورہ کتاب فرید ساجد لغاری کہ جنھیں دنیائے ادب ، تحقیق اور تنقید کا
تابندہ ستارہ کہنے سے عار نہ ہے میدان تحقیق میں سند ہے ۔ اس کا انتساب
صاحب تحقیق اور مصنف فرید ساجد لغاری نے اپنے والد محترم سردار پاندھی خان
نانگری (لغاری) اور اپنے شفیق استاد اکرم قریشی کے نا م کیا ہے ۔ انتساب
میں فرید ساجد کا یہ فقرہ اہمیت کا حامل ہے کہ ’’جنھوں نے میری تعلیم و
تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا ‘‘اکرم قریشی کے تنقیدی و تحقیقی شعور ان کی
شاعری اور ان کے حالات زندگی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کے لیے
یہ کتاب انتہائی ممدو معاون ہے ۔ اور اردو اور سرائیکی ادب میں گراں قدر
اضافہ ہے ۔
|