دنیا میں کوئی قوم یاجماعت اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں
کرسکتی جب تک و ہ اپنے حقیقی رہبرورہنما کی حیات سے واقفیت اور عملی مطابق
نہ رکھتی ہو۔بحثییت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سلسلے میں کسی ایسی شخصیت
کا تلاش کریں جس کی زندگی سے ہمیں زندگی کے ہر پہلو کی مکمل رہنمائی حاصل
ہو۔اس حوالے سے ہم اگردنیا میں نظر دوڑائیں تو حضورﷺ کی زندگی کے علاوہ
پوری کائنات میں ہمیں اور کوئی زندگی نظر نہیں آتی کیونکہ آ پ ﷺ کی زندگی
تمام انسانیت کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے۔۔۔
ٰ کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین اخلاقی نمونہ ہے۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
نبی کریمﷺ کی مبارک زندگی کے تمام ادواران کا بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہمارے
لیے بہترین تقلیدی نمونہ ہے۔ رسالت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے آپ ﷺ اپنی
سچائی اور امانت کی بدولت صادق اور امین کے القاب سے پکارے جاتے تھے اور آج
بھی پوری دنیا مین پکارے جاتے ہیں۔ اس لیے آج بھی غیر مسلم نے آپ ﷺ کو دنیا
کی بہترین شخصیت قرار دیا ہے۔ بحثییت شوہر آپ ﷺ ایک محبت کرنے والے مثالی
شوہر تھے۔ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو کبھی آپﷺ سے کوئی شکایات نہ تھی۔
بحثییت والد آپ ﷺ محبت اور شفقت کا مثالی نمونہ تھے۔آپﷺ کی محبت وشفقت تمام
بچوں کے لیے تھی خواہ وہ کافروں کے بچے کیوں نہ تھے۔بحثییت انسان آپﷺ
انسانی فلاح کے جذبے سے سرشار تھے۔ آپ ﷺ قیام خیر رفع شر کے علمبردار
تھے۔آپ ﷺ کی ذات مبارک خوبیوں کا منبع تھی۔بحثییت نبی آپ ﷺ پوری دنیا کے
لیے رحمت بن کر آئے۔ آپ ﷺ کی رحمت کسی ایک قوم اور فرقے ،طبقے یا مخلوق کے
لیے نہ تھی بلکہ پوری انسانیات کے لیے تھی۔
نبی کریم ﷺ بحثییت سپاہ سالار پوری دنیا کے لیے مثال تھے۔ آپ ﷺ نے جنگ میں
بطور سپاہ سالار وہ کام کر دکھائے جو رہتی دنیا تک کوئی نہیں کر پائے گا۔
حضور ﷺ نے جن جنگوں میں شیریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں آپ ﷺ
شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہتے ہیں۔
کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان پہلا معرکہ غزوہ بدر ہوا ۔ جس میں مسلمان
اپنی تعداد اور اسباب کم ہونے کی وجہ سے فتح یاب ہوئے کیونکہ آپﷺ کی سپاہ
سالاری نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
کیونکہ جب مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے مجلس
مشاورت بلوائی اور خطرے سے نمٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔مہاجرین نے
جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سعد بن
عبادہ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲﷺ ہم آپﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ ﷺ کی
تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپﷺ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے
آپ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔یا رسول اﷲ ﷺ جس طرف مرضی ہو
تشریف لے چلیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ ﷺ کو معبوث کیا اگر
آپﷺ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور
ہم میں ا یک شخص بھی باقی نہیں رہے گا۔
مشاورت کے بعد آپ ﷺ نے مجاہدین کو تیاری کا حکم دے دیا ۔ آپﷺ کی سپاہ سالای
میں صحابہ کا ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نو عمر صحابی حضرت عمیر بن
ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر کی وجہ سے آپ کو واپس
نہ بھیج دیا جائے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ سے زیادہ نہ ہو پائی
۔ مگر اس کے باوجود یہ لشکر پوری شان سے نبی کریم ﷺ کی زیر صدارت میدان کی
طرف بڑھ رہا تھا اور یہاں تک کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے ہتھیار ہی نہ تھے
مگر ان کو صرف اپنے نبی ﷺ پر پورا بھروسہ تھا کہ ان کی سپاہ سالای میں ان
کو شکست ہو ہی نہیں سکتی۔ پورے لشکر کے پاس صرت ۷۰ اونٹ اور دو گھوڑے تھے
جن پر صابہ باری باری سواری کرتے تھے مگر ان کے برعکس دشمنوں کا لشکر تین
گناہ زیادہ تھا اور جن میں اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے۔مگر
اس کے باوجود کامیابی نے مسلمانوں کے قدم چومے کیونکہ اس میں حضور ﷺ کی
سپاہ سالاری کے چند اسباب تھے جس کی وجہ سے کامیابی مسلمانوں کا مقدر بنی۔
عزوہ بدر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہیٰ تھا ۔ اﷲ تبارک
وتعالیٰ سے نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے خدا،یہ قریش ہیں اپنے سامان اور
غرور کے ساتھ آئیں ہیں تا کہ تیر ے رسول ﷺ کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اﷲ اب
تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ۔اے اﷲ اگر آج یہ مٹھی
بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی۔ اس
کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے مدد
فرمائی۔
اسلامی لشکر اپنے سالار اعظم محمد ﷺ پر جان چھڑکنے کے لیے تیار تھا۔ ہر شخص
اپنے قائد کے ہر حکم کو بلا چوں چراں مانتا تھا۔ مسلمان حضور ﷺ کے ادنی سے
اشارے پر حرکت میں آجاتے تھے ۔ لہذا ان کا تنظیمی ڈھانچہ اپنے حریفوں سے
بہتر تھا ۔ اس کے برعکس لشکر کفار کئی ایک سرداروں کی کمان میں تھا اور ان
سرداروں میں اتحاد عمل پیدا ہونا بہت مشکل تھا ۔ چنانچہ جب قریش نے مل کر
حملہ کیا تو اسے مسلمانوں نے روک لیا لیکن مسلمانوں کے منظم حملے کو قریش
نہ روک سکا اور وہ شکست کھا گیا اور یہ سب حضورﷺ کی زیر صدارت ہی ممکن ہوا۔
مسلمانوں نے حضور ﷺ کے حکم پر اپنا پڑاؤ بلندی پر رکھا جس کی وجہ سے قریش
ان کی تعدار کا صیح اندازہ نہ لگا سکا ۔ نیز قریش کو لرائی کے وقت سے سورج
سامنے پڑتا تھا جس سے ان کی آنکھیں چندھیا رہی تھی اور وہ ان کی لڑائی میں
رکاوٹ بن رہی تھی ۔ جنگ سے پہلے بارش ہوئی جس نے قریش کے پڑاؤ کے قریب کیچڑ
پیدا کر دیا جبکہ مسلمانوں کا پڑاؤ ریتلی زمیں پرتھااور انہیں اس چیز سے
فائدہ پہنچا کیونکہ اسی کی وجہ سے ریت جم گئی تھی۔ لہذا ان تمام چیزوں سے
مسلمانوں کو بے حد فائدہ پہنچا اور مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی اور یہ سب
حضور ﷺ کی زیر صدارت ہی ممکن ہوا۔
اس کے بعد مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان احد کے پہاڑوں میں غزوہ احد ہوئی
جس میں بھی رسول ﷺ نے بطور سپاہ سالار فرائض سرانجام دیے۔مشرکین کے لشکر کی
قیادت ابو سفیان کے پاس تھی اور اس نے تین ہزار سے زائد افراد کے ساتھ
مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ٹھانی تھی جبکہ مسلمانوں کی قیادت حضور ﷺ کے پاس
تھی۔ اس جنگ میں دونوں طرف شدید نقصان پہنچا اور مسلمانوں کو اس لے شدید
نقصان پہنچا کہ انہوں نے حضور ﷺ کے حکم کو نہیں مانا تھا ۔ حضور ﷺ نے
مسلمانوں کو ہدایت کی کہ آپ نے درہ کسی بھی صورت نہیں چھوڑنا مگر مسلمان یہ
سمجھ رہے تھے کہ شاید ہم جنگ جیت گئے ہیں اور انہوں نے درہ چھوڑ کر مال
غنیمت اکھٹاکرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا۔بہر
حال یہ واضح ہو گیا کہ حضور ﷺ کی ہدایت فراموش کرنے یا عسکری نظم وضبط کو
ترک کرنے کا کیانتیجہ نکل سکتا ہے ۔ لہذا حضور ﷺ نے اس جنگ میں بھی بہترین
سپاہ سالار کے فرائض انجام دیے اور دنیا کو بتایا کہ نظم وضبط کو ترک کرنے
کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ایک اور جنگ غزوہ خند ق ہوئی جس میں بھی
حضور ﷺ نے بطور سپاہ سالار اپنے فرائض انجا م دیے۔ جب حضور ﷺ کو مشرکین کی
شازشوں کا پتہ چلا توآپﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا ۔جن میں سے ایک صحابہ حضرت
سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک دفاعی خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔جو
عربوں کے لیے ایک نئی بات تھی ۔ حضور ﷺ کو یہ مشورہ بے حد پسند آیا۔ چنانچہ
حضور ﷺ نے خندق کی تعمیر کا حکم دے دیا۔مدینہ کے ارد گرد پہاڑ تھے اور گھر
ایک دوسر ے سے متصیل تھے جو ایک قدرتی دفاعی فصیل کا کام کرتے تھے۔ ایک جگہ
کوہ عبیدہ اور کوہ راتج کے درمیان حملہ ہو سکتاتھا اس لیے وہاں خندق کھودنے
کا فیصلہ کیا گیا۔اس خندق کی کھدائی میں حضور ﷺ سمیت تمام لوگ شریک ہوئے
اور پھر یہی خندق مسلمانوں کی کامیابی کا سبب بنی۔
خندق کھودنے کے تین دن بعددشمن کی مدینہ پہنچ گئی اور خندق دیکھ کر مجبورا
رک گئی ۔ ان کی عظیم فوج اس خند کی وجہ سے ناکارہ ہو کر رہ گئی ۔کئی دن تک
ان کے سپاہی خندق کو پار کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر ناکام ہوتے رہے جس کی
وجہ سے مسلمان کامیاب ہوئے۔
کچھ دن کے بعد عمرو ابن عبدود کی قیادت میں پانچ سواروں نے خندق کو ایک کم
چوڑی جگہ سے پار کر لیا۔عمروبن بن عبدود عرب کا مشہور سورماتھا اور اس کی
دہشت سے لوگ کانپتے تھے۔اس نے سپاہ اسلام کی للکار کرجنت کا مذاق بناتے
ہوئے کہا کہ اے جنت کے دعویداروں کہاں ہو۔ کوئی ہے جسے میں جنت کی طر ف
روانہ کر دوں یا وہ مجھے دوزخ میں بھیج دے۔
حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ۔۔ کوئی ہے جو اس کے شر کو ہمارے سروں سے دور کر دے
۔۔ علی علیہ السلام نے آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت حضور ﷺ نے ان کو اجازت نہ دی
اور پھر دوسری اور تیسری دفعہ پوچھا۔۔۔ تینوں دفعہ علی علیہ السلام ہی تیار
ہوئے۔ حضورﷺ نے انہیں اپنا امام اور تلوار عطاء کی اور فرمایا کہ کل ایمان
کل کفر کے مقابلے پر جارہا ہے۔ ایک سخت جنگ جس کے دوران گردو غبارچھا گیا
تھا اور نعر ہ تکبیر کی آواز آئی ۔ حضور ﷺ نے خدا کی قسم علی علیہ السلام
نے اسے قتل کر دیا ہے۔ عمرو بن عبدود کے قتل کی دہشت اتنی تھی کہ باقی سب
فرار ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ روز خندق علی کی ضرب تمام جن وانس کی
عبادت سے افضل ہے۔
یوں مسلمان پھر حضور ﷺکی زیر صدارت جنگ میں کامیاب ہوئے ۔
یوں مسلمان ہر جنگ میں حضور ﷺ کی زیر صدارت ہر مشکل گھڑی اور جنگ میں
کامیاب ہوا۔ حضور ﷺ نے دنیا کو بتایا کہ ایک سپاہ سالار کیسے جنگ میں جیت
سکتا ہے اور تعداد اور وسائل کم ہونے کے باوجود بھی کامیابی کیسے حاصل کی
جاسکتی ہے۔ حضور ﷺ سپاہ سالای میں اپنی مثال آپ ہیں اور تاریخ میں نظر
درائیں تو پوری تاریخ میں ان جیسی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی رہتی دنیا تک
ان جسی مثال کہی ملے گی۔۔۔۔ |