رفیق سندیلوں کی نظم نگاری کا فکری و فنی جائزہ

مورخیں کے حرف شاہوں کی کشیدہ کاری اور حاشیہ برداری سے جڑے رہتے ہیں۔ شاہوں کا اترن اور ان کی پھینکی ہڈی انہیں ہمیشہ خوش آئی ہے۔ پاپی پیٹ کی سیری کے لیے وہ دن کو رات اور رات کو دن کہتے آئے ہیں۔ گلیوں میں بھوک پیاس کا عریاں رقص ان کی بےدید آنکھیں کبھی دیکھ نہیں پاہیں۔ شاہ کی جئے جئے کار کی مستی میں وہ ضمیر کی آواز کبھی سن نہیں پائے۔ بستیوں پر مختلف روپوں میں شاہ کا قہر و غضب اور بےبس لوگوں کے زخم انہیں کبھی دکھ ہی نہیں پائے۔ انہوں نے طاقت کے غضب کو ہمیشہ انصاف اور معاشی معاشرتی توازن کا قابل تحسین کارنامہ قرار دیا۔ معاشی و معاشرتی تنزل کو ترقی کا نام دیا۔
قصیدہ کاروں نے شاہ اور شاہ والوں کو زمینی مخلوق نہ رہنے دیا۔ گویا غلط ان سے سرزد ہوتا ہی نہ تھا۔ وہ جو کرتے تھے حق اور سچ کرتے تھے۔ بڑے دیالو کرپالو اور رحم دل ہوا کرتے تھے۔ انہیں رعایا کی بہبود کی چنتا لگی رہتی تھی۔ ذات کے لیے شاہی خزانے سے مطلق خرچ نہ کرتے تھے بل گزر اوقات ٹوہیاں سی کر کھاتے اور پہنتے تھے۔ غلطی تو ان سے ہوتی ہی نہ تھی۔ یا یوں کہہ لیں زیادتی اور غلطی تو ان کی سرشت میں داخل نہ تھی۔ کسی سے سرزد ہونے والی غلطی یا زیادتی برداشت نہ کرتے تھے۔ ہاں اگر رعایا شاہ سے زیادتی کرتی تو وہ وہاں فراخ دلی کا مظہرہ کرتے۔ درگزر اور برداشت میں شاید ہی کوئی ان کے تول کا ہو گا۔
آتے وقتوں میں شاہ ہی نہیں یہ چوری خور مورخ اور قصیدہ کار لوگوں کے ہیرو ٹھہرے۔ انہیں دیوتاؤں کا اوتار سمجھا جانے لگا۔ ان پر عزت و احترام کے دروازے کھول دیے گیے۔ ذہنی اور جذباتی وابستگی ان کے حصہ میں آئی۔ ان کے خلاف کچھ کہنے والا مجرم قرار پایا۔ موت اور جیل اس کا مقدر بنے۔ مثلا بہت پہلے کی بات نہیں‘ ہٹلر کو گورا بہادر نے سفاک ظالم اور سنگدل قرار دیا اور وہ آج تک سنگدل ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہم برصغیر والے بھی اسے اسی لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا۔
گورا بہادر نے پہلی جنگ عظم میں دنیا اور جرمن کی کیا حالت بنائی اس کا کبھی ناکبھی ردعمل تو سامنے آنا ہی تھا۔
برصغیر میں وہ یا اس کی فوج کبھی نہیں آئی۔
دونوں بڑی جنگوں میں ان حد بےگناہوں کا خون بہا۔
١٨٥٧
میں گورا بہادر نے برصغیر میں خون کے دریا بہا دیے۔
بخت خان انگری فوج کا صوبےدار تھا نکالے جانے کے ردعمل میں اس نے اس جنگ کا آغاز کیا۔
جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد روپوش ہو گیا۔

لوگ تو لوگ ان کشیدہ کاروں کے ہاں ہنر مند‘ دست کار اور ذہین و فطین لوگ دور تک نظر نہیں آتے۔ کسی سے پوچھو تاج محل کس نے بنایا تو کہے گا شاہ جہان نے۔ وہ بادشاہ تھا‘ مستری نہیں تھا۔ یہ ہی صورت سوم ناتھ کے مندر کی ہے۔ محمود غزنوی نے سترہ حملے کیے‘ ایک کا ٰیک طرفہ حال ملتا ہے باقی سولہ کے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ آخر ان چوری خوروں کو لوگ کیوں نظر نہیں آتے۔ حالیہ تاریخ بھی سابقہ کی طرز پر لکھی یا لکھوائی جا رہی ہے
ادب اپنی اصل میں انسانی تاریخ ہے۔ ادب کے پاس اپنے عہد کے شخص اور اس سے متعلق معاملات کی شہادتیں موجود ہوتی ہیں۔ وہ جو اور جیسا کو پیش کرتا ہے۔ ہاں البتہ ناگواری سے بچنے کے لیے شاعر اور ادیب مختلف حربے اطوار اختیار کرتے ہیں۔ باطور ثبوت کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے
ہر گھر صحرا کا نقشہ ہے
رحمان بابا

چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی اسی تو نہ تھی
ظفر
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حقائتٰیں نہ شکائتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
فیض
تم اٹھائے پھرتے ہو دستار فضلت
لوگ رہتے ہیں یہاں سر بریدہ
مقصود حسنی
یہ شعر ١٩٦٩ یا ١٩٧٠ سے علاقہ رکھتا ہے۔ اس شعر سے عصری قوت کی اجارہ داری کے حوالہ سے بہت کچھ سمجھنے کو ملتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ لوگوں کی اس معاشرت میں کیا حیثیت و اوقات تھی۔
رفیق سندیلوی جدید اردو نظم کے نامور شاعر ہیں۔ انہوں نے اول تا آخر زندگی کو ہی رقم کیا ہے۔ ان کے ہاں عصری زندگی کے حساس ترین پہلو پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ہاں البتہ انہوں نے زندگی اور اس کے اور اس سے متعلق معاملات کو اوروں سے ہٹ کر بیان کیا۔ ان کا یہ الگ سے اسلوب بھی دل حساس کے تاروں کو بڑے سلیقہ سے چھڑتا ہے۔ بہ ظاہر وہ کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن اس کچھ اور مٰیں کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ غور و فکر کے بعد جب اصل بات کھلتی ہے تو قاری یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ رفیق سندیلوی اور قسم کے شاعر ہیں۔
زندگی کے حساس معاملات کے اظہار کے لیے عموما داستانی انداز اختیار کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی فوق الفطرت اور عجیب سی کہانی کہہ رہے ہیں۔ حالاں کہ وہ فوق الفطرت اور عجیب سی کہانی رواں زندگی سے متعلق ہوتی ہے۔ ان کا
یہ علامتی استعاراتی اور خلائی طور ساخت شکنی کی دعوت دے رہا ہوتا ہے۔ قرآت میں آنے والی ساخت کو رد کرنے کے بعد ہی حقیقی مفاہیم کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس عجیب سے لباس میں زندگی کا سمندر رواں دواں نظر آنے لگتا ہے۔ اپنی اصل میں یہ ہی کسی شاعر کے حقیقی شاعر ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ قاری بھی وہ ہی کامیاب قاری ہے جو پردوں میں پوشیدہ بھید کھوج نکالنے کا گر جانتا ہو۔
اگرچہ ان مشکل گزار مقامات پر سے گزر کر حقائق تک رسائی عام کام نہیں لیکن شعر ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے یہ دماغ سوزی لطف کا ذریعہ ہے۔ دوسری جانب شاعری کا بھی یہ ہی حقیقی وصف ہے۔ مثلا

سورج کو روک لو
شہر عشق کو جانے والا
کوئی سر سلامت نہیں رہا
احمقانہ سی بات ہے۔ غورکرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ مغرب میں امریکہ ہے اور امریکہ کی دوستی موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ دوسرا سورج جو روشنی کا سب سے بڑا اور مضبوط ذریعہ ہے مغرب میں جا کر بےنور ہو جاتا ہے۔
رفیق سندیلوی کے ہاں آفاقی اور آغاز سے چلے آتے اصولوں کو نہایت خوب صورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں ان کا اطلاق اسی طور سے ملے گا۔ دکھ درد تکلیف اور غم کی حالت میں آدمی کو کھانا پینا بھی بھول جاتا ہے۔ بل کہ بھوک مر جاتی ہے۔ سامنے سونے کے نوالے بھی پڑے ہوں ان کو دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ یہ حقیقت ہر دور اور ہر جگہ سے تعلق رکھتی ہے۔ رفیق سندیلوی کے ہاں اس حقیقت کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں:
سوگ میں کھایا نہیں جاتا
غذا توہین ہے غم کی
نظم: یہ ماتم کی شبِ سوئم

ایسے میں لوگ متاثرہ کو کچھ کھلانے پلانے کا چارہ کرتے ہیں تا کہ اس کی انرجی بحال رہے۔ متاثرہ کو وہ چیزیں اور لوگوں کی یہ حرکت اچھی نہیں لگتی۔ من مانے گا تو ہی کھانے کی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھے گا ورنہ وہ کچھ بھی نہ کھا پی سکے گا۔ اس امر کی رفیق سندیلوی نے کچھ یوں عکاسی کی ہے:

یہ کیا کھانے سجا کر لائے ہو تم طَشتری میں
………..
مجھ ایسے سوگ واروں سے تمہیں ملنا نہیں آیا
اُٹھا لو یہ مُزیّن طشتری
مشروب کا کوزہ ہٹا لو میرے آگے سے
نظم: یہ ماتم کی شبِ سوئم
سب کچھ میسر ہوتے کھایا پیا نہیں جا سکتا:

ابھی کچھ تھوڑا سا گیہوں مرے گھر میں پڑا ہے
اور چوکی پر رکھی کچی صراحی میں
ابھی سوکھا نہیں
چشمے کا نتھرا شہد سا پانی
نظم: یہ ماتم کی شبِ سوئم

زندگی کے عمومی چلن کی عکاسی دیکھیے:

ایڑی میں کانٹا چبھے
تو بدن تلملاتا ہے
دل ضبط کرتا ہے روتا ہے
جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے
........
وہ زرد ہوتا ہے
چکی کے پاٹوں میں دانے تو پستے ہیں
........
پانی سے نکلے تو مچھلی تڑپتی ہے
........
طائر قفس میں
گرفتار ہوں تو پھڑکتے ہیں
........
بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں
بجلی چمکتی ہے
برسات ہوتی ہے
........
نظم: درد ہوتا ہے

سب کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ دکھ درد کی کیفیات اس سے قطعی مختلف نہیں ہوتیں۔ یہ کیفیات محسوس سے تعلق رکھتی ہیں اور احساس کے زندہ ہونے پر دال ہیں۔ دکھ دینے والے پر واضح کرتی ہیں کہ دکھ اور تکلیف میں جسم و جان پر کیا گزرتی ہے۔ مطمع نظر کو واضح کرنے کے لیے انہیں دلیل و وکالت کا نام دیا جا سکتا ہے۔
جب کسی کو بےگناہ مصلوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس رویے کے خلاف نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس کی شکتیوں میں ہرچند اضافہ ہوتا ہے نتیجہ کار اس کی جانب سے شدید مزاحمت سامنے آتی ہے۔ وہ آخری سانسوں تک لڑتا ہے۔ اس کی یہ مزاحمت وقت کے اوراق پر شہادت کے طور پر رقم ہو جاتی ہے۔ اس ذیل میں جناب حسین ابن علی کی مثال سامنے رکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ظالم کے سامنے جھکنا گوارہ نہیں کیا۔ جھکنا گویا یہ مان لینے کے مترادف ہوتا ہے کہ فریق ثانی حق پر ہے۔ فتح علی ٹیپو اکیلا رہ گیا تھا۔ زندگی بچانے کے لیے اسے جھک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ آخری دم تک لڑا اور اس کی یہ لڑائی سچائی کو شکتی دان کرتی ہے۔ رفیق سندیلوی کے ہاں اس آفاقی سچائی کا اظہار ملاحظہ ہو:

مری بے گناہی کی تصدیق کرکے
اگر تم نے مجھ کو صلیبوں پہ کھینچا
تو میں آخری سانس تک تم سے لڑتا رہوں گا
نظم: انتباہ

رفیق سندیلوی نے عصری قوت کے رویے اور اطوار کو کمال خوبی سے لفظؤں کا بانا عطا کیا ہے۔ یہ بانا اسے اس عہد کے حق گو شعرا میں داخل کر دیتا ہے۔ عصری قوت کے اس رویے کے سبب زندگی پر کیا بیت رہی ہے اس کی عکاسی بھی خوب کی گئی ہے۔ لفظوں کی نشت وبرخواست احوال کو کھولنے میں اپنا کام دیکھا رہی ہے۔ یہ لائینیں ملاحظہ ہوں:

روپوش معمار کے حکم پر
ایک لاشکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی
اوپر اٹھتی ہوئی
گول دیوار کے
خشت در خشت چکر میں محصور ہے
نظم: خواب مزدور ہے

نظم کی یہ لائنیں بہ یک وقت چار امور کو واضح کر رہی ہیں:
١- کیا اور کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے۔
٢- یہ کام روپوش قوت انجام دے رہی ہے۔
٣- لوگوں کی مرضی اور منشا اس میں داخل نہیں اور نہ ہی ان کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔
٤- مقامی اقتداری قوت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں وہ محض ایک کٹھپتلی اور خاموش تماشائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
تنہائی کی صورت میں کیا حالت ہوتی ہے اور ذات پر کیا گزرتی ہے اس کی عکاسی ملاحظہ ہو:

تنہا ذات کے مندر میں
سن کر بھجن اندھیرے کے
دھاڑیں مار کے روتے ہو
اپنے حسن کے سونے کو
بھربھری مٹی کہتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
نظم: تم بھی جاناں کیسے ہو
۔تنہائی کی یہ کیفیت کسی ایک شخص تک محدود نہیں۔ لوگوں میں شخصی خصوصیات پر گفتگو ہوتی ہے لیکن جب کوئی دیکھنے والا نہ ہو گا سونا بھی سونا نہیں مٹی ہے۔ رفیق سندیلوی نے اس آفاقی سچائی کو بڑے خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔
مقتدرہ قوت کا فرض ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی سی کوشش کرتی رہے۔ جب اسے اپنی ذات سے فرصت نہ ہو گی یا اس سے منہ پھر لے تو ترقی کا خواب شرمندہءتعبیر نہ ہو گا۔ ایسی صورت میں بےسری اور بےراہروی کی راہیں دراز ہو جائیں گی۔ جو کچھ ہو گا گزرتے حالات کے مطابق ہو گا۔ رفیق سندیلوی نے بااختیار اقتداری قوت کی اس بےحسی کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے۔

عجب ملّاح ہے
سُوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
………..
کتنے ٹاپو راہ میں آئے
مگر ملّاح
خشکی کی طرف کھنچتا نہیں
نظم: عجب پانی ہے
نظم: عجب پانی ہے

طاقت حواس پر میں کا تخت بچھا دیتی ہے۔ مزید کی ہوس حیات کے تقاضوں کو زبح کر دیتی ہے۔ تاریخ اٹھا دیکھیے طاقت نے کتنا اور کس قدر لہو بہایا۔ کتنے سر کاٹے کتنی بستیاں خاک و خون میں ملا دیں۔ کتنے بچے یتیم کیے۔ کتنی عورتوں کے سر سے کس بےدردی سے دوپٹا چھینا۔ پھل دیتے باغوں اور اناج دیتی فصلوں کو نیست و نابود کر دیا۔ آبادیاں ویرانوں اور کھنڈروں میں تبدیل کر دیں۔ لوگ انہیں فاتحین کا نام دیتے آ رہے ہیں۔ ان کے کارناموں کو پرتحسین نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا نام فخر سے لیتے ہیں۔ طاقت اپنی اصل میں قصابی فطرت کی مالک ہوتی ہے۔ اسے زندگی سے کم گوشت اور کھال سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی اپنی نظم ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ میں اس کڑوی حقیقت کو وارننگ اور آگہی کے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:

سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو
یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ
تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا ہے
فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت
کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے ہوئے دیکھنے کی تمنا
یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو
سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو
نظًم: ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ

رفیق سندیلوی نے طاقت کے اس چلن کو ناپسدیدہ انداز میں لیا ہے اور سے باز رہنے کی تبیہ کی ہے اور اس کے انجام کو بھی واضح کیا ہے۔
شخص زندگی کی وی آئی پی آکائی ہے۔ زندگی کی روانی اسی سے عبارت ہے۔ اگر یہ خوش حال آسودہ اور پرسکون ہے تو زندگی کی جملہ آسائشیں میسر رہتی ہیں۔ اس کی بدحالی جرائم کے دروازے کھول دیتی ہے۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سب کچھ ہوتے برصغیر کا شخص کبھی بھی آسودہ حال اور پرسکون نہیں رہا اس کے برعکس اس کی محنت پر ترکیب و تشکیل پانے والے شاہ اور اس کے ادارے کبھی بدحال نہیں رہے۔ ان کے منہ میٰں ہمیشہ چوپڑی رہی ہے۔ وہ عیش و عشرت کی گزارتے آئے ہیں۔ عملی طور پر انہیں یہاں کے عوام کی فکر لاحق نہیں ہوئی ہاں زبانی کلامی انہوں نے عوام کے لیے بہت کوشش کی ہے اور ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اہل دانش کی پذیرائی کی بجائے انہیں مصلوب کیا جاتا رہا ہے۔ حق اور سچ کی کہنے والوں کی گردنیں اڑتی آئی ہیں۔ شاہ اور اس کے ادارے ظلم وستم کے طوفان توڑ کر بھی ہل پر نہائے تاریخ کے اوراق پر نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کے لباس میں بھی وہ بدمعاش اور بدقماش عوام کی گردنوں پر سوار ہوئے ہیں۔ یہاں ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا جو عوام کی آسودگی خوش حالی اور سکون کا رہا ہوں۔
شاہ اپنا قبلہ درست کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے بل کہ انہوں نے عوام کا قبلہ درست کرنے کی اوٹ میں اپنے دشمنوں کو دار پر لٹکایا ہے۔ انصاف کے قیام کے حوالہ سے بھی اپنے کھیسے بھرے ہیں۔
بیرونی عناصر کی فتح و نصرت یہاں کی دھرتی کے دلالوں کے سر رہی ہے۔ انہوں نے دھرتی اور اس کے لوگوں سے غداری کرکے عیش کی گزاری ہے۔ انعام و اکرام ہی نہیں بڑے بڑے لقب بھی وصولتے رہے ہیں۔ عبوری حاکمیت بھی ان کے ہاتھ آتی رہی ہے۔
ان کی اس بدمعاشی اور بدعنوانی کے زیر اثر جرائم نے جنم لیا ہے۔ چوری ہیرا پھیری ملاوٹ جھوٹ دغابازی وغیرہ یہاں کی معاشرت کا جزلازم رہے ہیں۔ شاہ اور شاہ والے کھوہ سے بوکے ضرور نکالتے آئے ہیں لیکن کھوہ سے کتا کبھی نہیں نکالا۔ اگر کھوہ سے کتا نکال دیتے تو زندگی کچھ اور ہی ہوتی۔ لیکن کتے کو نکالتا کون اور کس طرح نکالتا۔ کتا ہی تو یہاں کے جملہ کاروبار کا مالک و وارث رہا ہے۔ پانی نکالنا درحقیقت کتے کے سانسوں کو آسودہ کرنا تھا۔ ان کے سانسوں کی آسودگی ہی تو جرائم کی آسودگی تھی۔
شخص کی حالت زار دیکھ کر ایک حساس شاعر کا کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے حالاں کہ وہ بھی ان ہی کیفیات سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنا دکھ بھول کر ان دکھی انسانوں کے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ وہ انہیں اپنی ذات میں محسوس کرتا ہے۔ ان کا دکھ درد اس کا اپنا دکھ درد بن جاتا ہے۔ ایسے میں وہ دکھ درد اور بےبسی کی آواز بن کر اپنے عہد کی شناخت بن جاتا ہے۔
رفیق سندیلوی کی نظموں میں بھی کچھ ایسی ہی صورت دکھائی دیتی ہے۔ وہ شخص کے دکھ درد کے اظہار کے لیے مختلف چلن اختیار کرتا ہے۔ کبھی استعاراتی طور اختیار کرتا ہے تو کبھی تمثالی چلن کا سہارا لیتا ہے۔ اس کے ہر چلن میں ایک کرب ایک بےبسی اور بےچارگی کی صورت صاف نظر آتی ہے۔ اس کا اس ذیل میں ہر چلن دل و دماغ پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس ضمن میں رفیق سندیلوی کا استعاراتی انداز ملاحظہ فرمائیں:

طَعام گاہوں کی
بچی کچھی غِذاپہ پَل رہا تھا
نَم زدہ شگافوں
گھن لگے درازوں میں
چھپا ہوا
...............
جو شروع دِن سے
مَوت اور زندگی
صفائی اور گندگی
نکاسی ٔوجود
خیروشر
روانی و جمود کے معاملات میں گھِرا ہوا تھا
نظم: لال بیگ

یہ لال بیگ کیا ہے ایک کم زور بےبس اور گربت سے مارے شخص کا استعارہ ہے۔ کم زور شخص کی زندگی اس سے مختلف نہیں ہوتی۔
رفیق سدیلوی کی نظم ۔۔۔۔۔۔ مگرمَچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ میں مگرمچھ کون اور کیا ہے۔ برے حالات ہیں یا شاہ اور شاہ والوں کا منہ بولتا استعارہ ہے۔ کم زور طبقے روز اول سے روز آخر تک اس مگر مچھ کے منہ میں زندگی کرتے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ذرا یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں کم زور اور مجبور و بےکس طبقے کا جینا کھل کر سامنے آ جائے گا۔


اِک جنینِ ناتواں ہوں
جس گھڑی رکھّی گئی بنیاد میری
اُس گھڑی سے
تیرگی کے پیٹ میں ہوں
نظم: مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہواہے

محنت کش طبقے کی حالت زار کو اجاگر کرنے کے لیے رفیق سندیلوی نے ایک تندور والے کا انتخاب کیا ہے جو بہت سووں کا پیٹ بھر کر اپنی بھوک مٹانے کا بندوبست کرتا ہے۔ بھوک مٹانے کے لیے دہکتی آگ کے منہ میں بیٹھ کر کٹھور مشقت کاٹتا ہے۔ وہ پھر بھی اس پر مطمن ہے اور اس کے منہ میں گلہ کے شبد نہیں ہیں۔ ان سطور کو دیکھیے ایک محنت کش کی مشقت اور حوصلہ مندی سامنے آ جائے گی۔ یہ بھی کہ محنت کش کی جہنم ناک زندگی کا احوال بھی کھل جائے گا۔

ابھی میرا تندور نیچے سے اُوپر تلک تَپ رہا ہے
طباقوں میں دو بوری گوندھا ہوا
نرم آٹا پڑا ہے
جسے روٹیوں میں مجھے ڈھالنا ہے
اَزل سے مجھے اس جہنم سے روٹی مِلی ہے
مدور کناروں سے
اُٹھتی ہوئی بھاپ میں زندگی ہے
سُنو، یہ جہنم نہیں ہے
نظم: تندور والا

مقتدرہ طبقے ہوں کہ مذہبی مین یا جعلی پیر صاحبان انسانی تقسیم میں برابر کے شریک رہے ہیں ہر ایک کا مقصد زیادہ سے زیادہ دھن اکھٹا کرنا رہا ہے۔ ان کی اس سازش کے باعث انسان تقسیم در تقسیم ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی اصل شناخت ہی گم ہو گئی ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک خطے طبقے یا مذہب سے ًمخصوص نہیں رہا بل کہ اس کی جڑیں پوری انسانی برادری میں پھیلی ہوئی ہیں۔ برصغیر ہی کو لے لیں‘ گورا ساب بہادر نے اس کے لیے کتنے حربے اختیار کیے ہیں۔ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہو گئے ہیں۔ بات یہاں تک ہی نہیں رہی وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہی۔ ایک دوسرے سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔ وہ اس ضمن میں تمام انسانی تقاضوں کو پش پشت ڈال چکے ہیں۔ طبقاتی عصبیت کے ناگ چار سو رقص کرتے نظر اتے ہیں۔
رفیق سندیلوی نے تقسیم کی اس لعنت کو بڑے فن کارانہ انداز میں بیان کیا ہے جو اساس و احساس کی نازک تاروں کو انتہائی سلیقہ سے چھڑتا ہے۔ اس کاز کے لیے اس نے حقائی طور اختیار کی ہے۔ شاعر اپنے علاقے کے شخص اس شخص کی زمین اور اس سے متعلق معاملات کو آتے کل کو ماضی کی شہادت پیش کرتا ہے۔ اس کا کام آگہی میسر کرنا ہوتا ہے۔ مستقبل کے لیے آگہی کے دروازے کھولنا ہی اس کا کرتوے ہے۔ اگر وہ اس ذیل کسی رو رعایت یا ڈںدی مار رویہ اختیار کرتا ہے تو بہت بڑی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر ماضی کا ادب ماضی کے شخص اور اس کے معاملات کو کھولتا نہیں تو وہ محض یاوہ گوئی ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ اس کے شبدوں کی بددیانتی کے تحت مستقبل اپنے ماضی کے احوال سے آگاہ نہیں ہوتا۔ ماضی کے غلط تجربوں کو استعمال میں لا کر اپنی اور آتی نسلوں کی لٹیا دبو کر رکھ دیتا ہے۔ ماضی کی درست ترسیل مستقبل کے بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی کا یہ کمال ہے کہ اس نے گزرتے آج اور گزرے کل کی دیانت داری سے عکاسی کی ہے۔ اس کی نظم برادہ اڑ رہا ہے کی یہ لائنیں ملاحظہ ہوں:

المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی
اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے
ہم جڑواں تھے
اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی
سینے سے سینہ
دل سے دل
ماتھے سے ماتھا منسلک تھا!
…………
کیا بتاؤں
وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر
تیز رو آرا چلایا تھا
ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا
اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے
پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
برادہ اڑ رہا ہے
میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے!!
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

گزرے کل اور گزرتے آج کی اس سے موثر انداز میں کتھا پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس بیان میں انسانی درد بھی ہے اور انسانی خلوص بھی۔ ہر لفظ شاعر کی گداز قلبی کو واضح کر رہا ہے۔
دکھ اور تاسف ہی ان سطور کا حاصل ہے۔ دوبارہ سے قرآت فرمائیں میرے کہے میں صداقت نظر آئے گی۔

رفیق سندیلوی بڑا حساس اور باریک بین شاعر ہے۔ شخص ہے دکھ سے کبھی اس کا سینہ پھٹ جاتا ہے اور قلب و درد کاغذ کی زمین پر اتر آتے ہیں اور وہ فکر و نظر کی ساری روشنائی اس میں آمیزش کر جاتے ہیں۔ میرے کہے کی گواہی اس کی نظم ۔۔۔۔۔ یہ کیسی گھڑی ہے ۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ ہر لفظ اس عہد کی زندہ تصویر ہے۔ اس نظم میں آج کے ہوتے کو بغیر کسی ابہام کے بیان کر رہا ہے۔ شاید ہی کوئی لفظوں کا مصور اس نوع کی تصویر بنا سکے گا۔ اس نظم میں اس نے پہلے کائنات کی جانب مراجعت کی ہے اور سب کچھ اکٹھا کرکے ذات کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اس کے حساس وجود نے اس انبار کو چبایا ہے اس کے بعد ہی یہ نظم تشکیل پائی ہے۔ ذرا یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں:

مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر
مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے
ہر اک شیشۂ پاک باز و صفا کی سماوی رگوں میں
کسی عکس فاجر کی مٹی بھری ہے
منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں
کوئی نوک تیغ نجاست گڑی ہے
خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے
نظم: یہ کیسی گھڑی ہے
عمومی اصول و ترکیب و تشکیل حیات کی ذیل میں اس کی ںطم ۔۔۔۔ مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں ۔۔۔۔ خصوصی مطالعہ کا تقاضا کرتی ہے۔ اس نظم کی ہر لائین حیرت کے دروازے پر دستک دیتی نظر آتی ہے۔ جس طرح زندگی کی گرہیں بڑی پچیدہ ہیں اس طرح اس ںطم کے لفظوں کی گرہیں عام یا سرسری قرآت سے حقیقی مفاہیم تک رسائی ممکن نہیں۔ اس نظم میں زندگی کو جس طور سے لیا گیا ہے یہ زندگی اصلی اور ہو بہو کی مصوری ہے۔ ان سطور کو قرآت میں لائیں زندگی کو سمجھنے اور جاننے کے حوالہ سے بڑی معاونت میسر آئے گی اور اس کی پچیدگی کا حوالہ بھی سامنے آ سکے گا۔

لہو کی کونیات میں
صفات اور ذات میں
عجب طرح کے بھید ہیں
یقین و ظن کی چھلنیوں میں
سو طرح کے چھید ہیں
نظم: مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

رفیق سندیلوی عصری زندگی اور اس کی مصروفیت کی بڑے خوب صورت انداز میں عکاسی کرتے ہیں۔ عصری زندگی سے تعلق رکھتا شخص ذات کے حصار میں مقید ہے کدھر کیا ہو رہا ہے اس سے وہ لاتعلق ہو گیا۔ ان کی نظم ۔۔۔۔ ٹیلے سے قبرستان تک ۔۔۔۔ ملاحظہ کریں کہ زندگی بےچارگی اور شخصی بےحسی کی گرفت میں ہے۔ اس نظم میں اس نے لفظی مصوری کے سارے حربے اختیار کرکے شاہکار شعر پارہ اردو ادب کو دیا ہے۔

میتوں کے زرد چہروں پر جمی تھی
موٹے بھدے چاند کی مریل نکھٹو روشنی
ایک ماتم تھا کہ جس میں منہمک اشجار تھے
صحن تھے خاموش سکتے میں در و دیوار تھے
ایک کالی رات تھی جو شہر میں آباد تھی
اپنی اپنی موت ہی ہر ذی نفس کو یاد تھی
راستہ بے ہوش تھا ٹیلے سے قبرستان تک
گورکن نوحہ کناں تھے، زندگی نرغے میں تھی
الوؤں کے غول اڑتے تھے دریچوں کی طرف
شہر سے باہر سمندر گونجنے میں محو تھا
نظم: ٹیلے سے قبرستان تک

رفیق سندیلوی کی نظم ۔۔۔۔۔ ماتھوں پہ سینگ ۔۔۔۔۔ عصری حیات پر گزرتے حوادث انسانی پشمانی اور حالات کی گھٹن کی ایک کامیاب تصویر ہے۔ اسے پڑھ کر آتا کل گزرے کل کی خوف آلود زندگی کو جان سکے گا اور گزرے کل کی بےبسی و بےچارگی کو پہچان سکے گا۔ نظم پڑھیں میری کہی ہوئی بات کی تصدیق ہو جائے گی۔

وہ طلسم تھا جو تمام بستی پہ قہر تھا
کوئی زہر تھا جو رگوں میں سب کی اتر گیا
تو بکھر گیا وہ جو بوریوں میں اناج تھا
کوئی ڈاکو لوٹ کے لے گیا جو دلہن کا قیمتی داج تھا
وہ سماج تھا کہ سبھی کے دل میں یتیم ہونے کا خوف تھا
کوئی ضعف تھا کہ جو آنگنوں میں مقیم تھا
وہ رجیم تھا کہ تمام بستی پہ آگ تھا
کوئی راگ تھا جو سماعتوں پہ عذاب تھا
وہ عتاب تھا کہ سبھی کے ماتھوں پہ سینگ تھے
نظم: ماتھوں پہ سینگ

رفیق سندیلوی صورت احوال رقم کرنے کے ساتھ ساتھ ناصحانہ انداز بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ تمثالی چلن اپناتے ہیں۔ ان کے اس چلن میں کسی ناکسی سطع پر کوئی ناکوئی عصری رویے کی نشاندہی ہو رہی ہوتی ہے ہے تاہم اس پر اؤل تا آخر ناصحانہ طور کا غلبہ رہتا ہے۔
رفیق سندیلوی کی نظم ۔۔۔۔ اسی آگ میں ۔۔۔۔۔ فکری اعتبار سے تو ہے ہی کمال کی لیکن زبان و بیان کے حوالہ سے بھی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ لفظ بڑے جوش و خروش سے ادھر ادھر سے لاتعلق ہو کر اپنے کاز کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں۔ رفیق سندیلوی نے اپنی اس نظم میں شخص کو ایک درس دیا ہے۔ ان کے مطابق کاز کی حصولی کے لیے مشقت کی آگ میں جلنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس مشقت کی آگ میں بھی سرخروئی کا لطف پنہاں ہوتا ہے۔ بلا مشقت کی آگ میں جلے سرخروئی حاصل نہیں ہو سکتی۔
نظم کے چند ٹکڑے باطور نمونہ ملاخظہ فرمائیں:

اسی آگ میں
مجھے جھونک دو
وہی آگ جس نے بلایا تھا
.......
دم شعلگی
ہمیں جو مسرت رقص تھی
تمہیں کیا خبر
اگر آگ تم کو عزیز تھی
تو یہ جسم کون سی چیز تھی
جسے تم کبھی نہ جلا سکے
وہ جو راز تھا پس شعلگی نہیں پا سکے!
.......
کسی اور طرز کی آگ میں
مرا جسم جلنے کی آرزو میں اسیر تھا
مگر ان دنوں میں نہ جل سکا
میں نہ جون اپنی بدل سکا
مگر اب وہ آگ
کہ جس میں تم نے پناہ لی
جہاں تم جلے
جہاں تم عجیب سی لذتوں سے گلے ملے
اسی آگ میں مجھے جھونک دو
نظم: اسی آگ میں








رفیق سندیلوی کی نظمیں جن سے استفادہ کیا گیا

یہ ماتم کی شبِ سوئم
درد ہوتا ہے
انتباہ
خواب مزدور ہے
تم بھی جاناں کیسے ہو
عجب پانی ہے
ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ
لال بیگ
مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہواہے
تندور والا
برادہ اڑ رہا ہے
یہ کیسی گھڑی ہے
مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں
اسی آگ میں
ٹیلے سے قبرستان تک
ماتھوں پہ سینگ













رفیق سندیلوی کی نظم نگاری کا فنی جائزہ

جدید اردو نظم ایک عرصہ تک‘ اردو کے شعری ادب کی‘ متنازعہ صنف شعر رہی ہے لیکن اپنی شان دار کار گزاری کے تحت‘ آتے وقت نے ناصرف اسے تسلیم کیا‘ بل کہ اسے پذیرائی بھی بخشی۔ اس صنف شعر کے شعرا نے‘ بڑی دیانت داری سے اپنی بہترین صلاحیتوں سے‘ اس کی آبیاری کی ہے۔ اب جدید نظم اردو ادب کا بہترین سرمایہ ہے اور انسانی زندگی اور اس کے معاملات کی نمائندہ ہے۔
رفیق سندیلوی‘ جدید اردو نظم کے اہم ترین شعرا میں ہیں۔ انہوں نے ناصرف اردو کے شعری ادب کو نئی زبان عطا کی ہے‘ بل کہ عصری حیات کو بڑے کامیاب اور شفاف انداز میں‘ بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری آتے وقتوں میں‘ اپنے گزرے کل کی‘ دو ٹوک اور سچی تاریخی شہادت ہو گی۔ آتا کل اپنے گزرے کل کو‘ ان کی شاعری کے حوالہ سے جان اور پہچان سکے گا۔ اپنی اصل میں‘ ان کی شاعری شاہوں کی کشیدہ کاری نہیں بل کہ اکثریتی طبقے کی مظلومیت کا نوحہ اور بدترین گزرتے حالات کی بےباک کتھا ہے۔ اگر ان کی شاعری شاہوں کا قصیدہ ہوتا تو بھولے سے بھی میرے قلم سے‘ ان کے یا ان کی شاعری کے لیے‘ ایک لفظ بھی نہ نکلتا۔
ان کی شاعری مظومیت کی شاعری ہے۔ وہ انسان کے دکھ‘ درد اور وڈیرہ شاہی کے ظلم و ستم کو‘ قریب اور بڑی باریکی سے ملاحظہ کرتے ہیں‘ تب ہی تو اردو ادب کو نئی زبان‘ نیا طور اور نیا اسلوب دے پائے ہیں۔ ان کی شاعری ماہرین لسانیات کے لیے نایاب اور ان مول تحفہ ہے۔ ان کے الفاظ اور ان کی معنویت‘ تادیر صاحبان قلم کے لیے حوالہ رہیں گے۔
پیش نظر سطور میں رفیق سندیلوی کی نظم کا‘ اطوری و لسانیاتی تجزیہ کرنے کی ناچیز سی کوشش کی گئی ہے‘ شاید اہل فکر اور اہل ذوق کو یہ تجزیہ خوش آئے اور اس کے مطالعاتی اطوار ان کے لیے کام کی چیز نکلیں۔
رفیق سندیلوی نے قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف انداز و اطوار اختیار کیے ہیں۔ یہ فطری اور متعلقہ نظم کی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ چند اک مثالیں باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔

آپ بیتی کا انداز

جتنا زاد سفر میرے ہم راہ تھا
میں نے سب رکھ دیا
اب میں آزاد تھا
اور طلسمیں پڑاؤ کا ہر اسم بھی یاد تھا
میں نے دیکھا
مرے چار جانب جھکا تھا
نظم: مگر وہ نہ آیا

ابد کا اک جڑاؤ تاج میرے سر پہ رکھا تھا
بڑا پر ہول رستہ تھا
کوئی برق شباہت آرزو بردار میری آگ میں تھی
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا

بیانیہ طور

چھوٹا بڑا کرنے کے چکر میں
بندھی رہتی ہیں نظریں
ایک قبہ دار منظر میں
ازل سے جانتی ہیں
بلبلہ سی
پتلیوں کی سرد محرابیں
نظم: گنبد نما شفاف شیشہ

لہو کی کونیات میں
صفات اور ذات میں
عجب طرح کے بھید ہیں
یقین و ظن کی چھلنیوں میں
نظم: مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

تلخ نوائی

گل خواب کی پتیاں
دھوپ کی گرم راحت میں گم تھیں
مرے جسم پر
نرم بارش کی بوندیں بھی گھوڑے کا سم تھیں
نظم: مگر وہ نہ آیا

جس گھڑی رکھّی گئی بنیاد میری
اُس گھڑی سے
تیرگی کے پیٹ میں ہوں
خون کی ترسیل
آنوَل سے غذا
جاری ہے
کچی آنکھ کے آگے تَنی
مَوہُوم سی جھِلّی ہٹا کر
نظم: مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے



استدائیہ طور

میری وحشت کے بکھرے ہوئے
سنگ ریزوں کو چن
اے چراغوں کی لو کی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سن
میرا ادھڑا ہوا جسم بن
نظم: جھلملاتی ہوئی نیند سن

میرا کاندھا تھپک
آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا
اک تسلسل میں لا
نظم: جھلملاتی ہوئی نیند سن



حقائی انداز

پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے
زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کرکے ساتوں آسماں آئے
مسلسل چل رہا تھا میں
ہوا میں ڈھل رہا تھا میں
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا

جمالیاتی انداز

ایک زنجیر
کسی پھول کسی شبد
کسی طائر کی
ایک زنجیر کسی رنگ کسی برق
کسی پانی کی
زلف و رخسار
لب و چشم کی پیشانی کی
نظم: جاؤ اب روتے رہو

رپورٹنگ اطوار

چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے
مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر
مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے
ہر اک شیشۂ پاک باز و صفا کی سماوی رگوں میں
کسی عکس فاجر کی مٹی بھری ہے
منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں
کوئی نوک تیغ نجاست گڑی ہے
نظم: یہ کیسی گھڑی ہے

عزیزوں نے
بچوں نے
تالی بجائی
مبارک مبارک ہوئی
کیک کا ایک ٹکڑا
مرے منہ میں ٹھونسا گیا
نعل کی شکل کا
نظم: کہیں تم ابد تو نہیں ہو

اسجاببہ انداز

عجب ملّاح ہے
سُوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
نظم: عجب پانی ہے


مخاطبیہ انداز

پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا
اے ہوا
تو جانتی ہے
راز سارا
دو الگ طرزوں کی مٹی
ایک برتن میں ملا کر
گوندھنے کا!!
نظم: یہ سجیلی مورتی

حقائی انداز

پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے
زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کرکے ساتوں آسماں آئے
مسلسل چل رہا تھا میں
ہوا میں ڈھل رہا تھا میں
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا

استفامیہ انداز

پھر آنکھ کیسے کھل گئی
بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہٹ گیا
خبر نہیں کہ ہڈیوں کے جوڑ کس طرح کھلے
دہن فراخ ہو کے پیچھے کیسے کھنچ گیا
نکیلے دانت کس طرح نکل پڑے
نگاہیں کیسے شعلہ رو ہوئیں
نہ جانے کیسے دست و پا کی انگلیاں مڑی
کمر لچک سی کھا کے کیسے پھیلتی گئی
یہ جلد کیسے سخت کھال میں ڈھلی
یہ گپھے دار دم کہاں سے آ گئی
وجود کے کچھار میں
دہاڑتا ہوا
زقند بھر کے میں کہاں چلا گیا
نظم: مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

سنو کثرت خاک میں بسنے والو
سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو
یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ
تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا ہے
فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت
کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے ہوئے دیکھنے کی تمنا
یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو
نظم: ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ


امیدیہ انداز

پتلیوں کی سرد محرابیں
جب اس گنبد نما
شفاف شیشے سے گزر کر
ایک مرکز پر
شعاعیں جمع ہوں گی
سامنے جو چیز ہوگی
جل اٹھے گی!!
نظم: گنبد نما شفاف شیشہ

تاریخی انداز

نڈر پیادہ تھے
اور بزدل
اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر
جنگ لڑ رہے تھے
گناہ گاروں نے سر سے پا تک
بدن کو براق چادروں سے
ڈھکا ہوا تھا
ولی کی ننگی کمر چھپانے کو
کوئی کپڑا نہیں بچا تھا
عجیب ما فوق سلسلہ تھا
نظم: عجیب ما فوق سلسلہ تھا

علامتی انداز

کیا بتاؤں
وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر
تیز رو آرا چلایا تھا
ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا
اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے
پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
برادہ اڑ رہا ہے
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

ماورائی انداز

اک اڑن طشتری بن گئی سائباں
میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں
ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لف
میں گیا اس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم
درمیاں جس کے
تنہا مری ذات تھی
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

رفیق سندیلوی کو منظر کشی میں مہارت حاصل ہے۔ ان کے ترتیب دیئے مناظر دل و دماغ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑتے ہیں اور اپنے قاری کو ایک نئی دنیا سے متعارف کراتے ہیں۔ مثلا

ابر سوار سہانی شام
اور سبز قبا میں ایک پری کا جسم
سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے
پھولوں جیسے اسم
رنگ برنگ طلسم
جھیل کی تہہ میں ڈوبتے چاند کا عکس
ڈھول کی وحشی تال پہ ہوتا
نیم برہنہ رقص!
کیسے کیسے منظر دیکھے
نظم: غار میں بیٹھا شخص

شب ارتقا اور صبح حریرا کا تازہ عمل رائیگاں ہو رہا ہے
چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے
مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر
مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے
نظم: یہ کیسی گھڑی ہے

:آپ بیتی کے انداز میں منظر کشی ملاحظہ ہو

کیا بتاؤں
وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر
تیز رو آرا چلایا تھا
ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا
اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے
پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
برادہ اڑ رہا ہے
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

اس اقتباس کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رفیق سندیلوی ایک اچھے منظوم کہانی کار بھی ہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظموں کے کردار انسان اور انسانی زندگی کے نہایت کامیاب نمائندہ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت سے زندگی کا کرب اور استحصالی قوتوں کی بدمعاشیوں کو واضح کرتا ہے۔ اس ذیل میں وہ علامتی اور استعارتی زبان کو تصرف میں لاتے ہیں۔ ان کا یہ لسانیاتی طور قاری کے سوچ کو متحرک کر دیتا ہے۔ باطور نمومہ دو کرداروں کی کارگزاری ان کی اپنی زبان میں ملاحظہ فرمائیں:

عجب ملّاح ہے
سُوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے ٹاپو راہ میں آئے
مگر ملّاح
خشکی کی طرف کھنچتا نہیں
نظم:عجب پانی ہے

مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
اِک جنینِ ناتواں ہوں
جس گھڑی رکھّی گئی بنیاد میری
اُس گھڑی سے
تیرگی کے پیٹ میں ہوں

اُگلنے کے کسی وعدے نے
صدیوں سے
مجھے جکڑا ہوا ہے
مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہواہے
نظم: مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے

اس کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رفیق سندیلوی ایک اچھے منظوم کہانی کار بھی ہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظموں کے کردار انسان اور انسانی زندگی کے نہایت کامیاب نمائندہ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت سے زندگی کا کرب اور استحصالی قوتوں کی بدمعاشیوں کو واضح کرتا ہے۔ اس ذیل میں وہ علامتی اور استعارتی زبان کو تصرف میں لاتے ہیں۔ ان کا یہ لسانیاتی طور قاری کے سوچ کو متحرک کر دیتا ہے۔ باطور نمومہ دو کرداروں کی کارگزاری ان کی اپنی زبان میں ملاحظہ فرمائیں:
رفیق سندیلوی کی نظمیں غنا اور موسیقیت سے عاری نہیں ہیں۔ وہ آہنگ کی حصولی کے لیے مختلف شعری اطوار اختیار کرتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں:
قوافی کا استعمال

اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں
مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا
میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے
زر نگار و منقش بہت ہی بڑا
ایک در خواب کا
مہرباں فرش کے
مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا
نظم: مہرباں فرش پر

آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا
اک تسلسل میں لا
شب کے اک تار پر
چھیڑ دے کوئی دھن
اے چراغوں کی لو کی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سن
میرا ادھڑا ہوا جسم بن!!
نظم: جھلملاتی ہوئی نیند سن

درزی سے کپڑے ایک جیسے سل کے آتے
ایک سے جوتے پہنتے
بوندا باندی میں اکٹھے ہی نہاتے
ہم جدھر جاتے ہمیشہ ساتھ جاتے
رات جب ڈھلتی
تو سنتے تھے کہانی
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

میں پرندہ بنا
میری پرواز کے دائرے نے جنا
ایک سایہ گھنا
کشف ہونے لگا
میں ہرے پانیوں میں
بدن کا ستارہ ڈبونے لگا
اور اک لاتعین سبک نیند سونے لگا
……
میں گیا اس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم
درمیاں جس کے
تنہا مری ذات تھی
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی
ہم صوت الفاظ کا استعمال

میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی
کس کی انگلی کا تھا
اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر
کون سی تھی بات
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

تکرار لفظی

میں گیا اس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

دِھیرے دِھیرے اُس کے
نظم: لال بیگ

رہتے رہتے تنگ آگیا تھا
نظم: لال بیگ
جیسے ڈوبتی،اَب ڈوبتی ہے
نظم: جیسے ڈوبتی،اَب ڈوبتی ہے

تکرار حرفی

کف چشم پر میں نے اس کے لیے
نظم: مگر وہ نہ آیا
…….
خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے
پہاڑ اور آئنے سائے گرے پیڑوں کے پتے
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا

پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے
نظم: مگر وہ نہ آیا
ردیف کا استعمال

کس درد کی پرچھائیں تھی
جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی
دھند جو دیوار کے دونوں طرف تھی
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی
اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے
ہم جڑواں تھے
اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

شعری آہنگ کے حصول کے لیے انہوں نے مختلف شعری صنعتوں کا استعمال بھی کیا ہے۔ مثلا

صنعت فوق النقط کا استعمال

اوس کا قطرہ
مصفا حوض کے مانند
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا

ہزاروں سال سے
اک غم زدہ عورت
مرے وعدے کی رسی
نظم: سواری اونٹ کی ہے

غذاؤں کی لذت میں سرشار ہوں
درد ہوتا ہے

صنعت تحت النقط کا استعمال

سَرپھری لہروں کے جھولے میں
ابھی اوجھل ہے
نظم: عجب پانی ہے

جو بھیس بدلیں
کوئی روپ دھاریں
نظم: درد ہوتا ہے
پھولوں جیسے اسم
نظم: غار میں بیٹھا شخص

دکھ سے لبالب بلبلاہٹ
نظم: سواری اونٹ کی ہے

صنعت بےنقط کا استعمال

سوکھے ہوئے سارے گملوں کو
نظم: درد ہوتا ہے

بند مجھ پر ہوئے سارے در
سارے گھر
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

متعلقات کا استعمال

زبان بے زبانی
نظم: وہی مخدوش حالت
ایڑی میں کانٹا چبھے
تو بدن تلملاتا ہے
دل ضبط کرتا ہے روتا ہے
جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے
وہ زرد ہوتا ہے
نظم: درد ہوتا ہے

بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں
بجلی چمکتی ہے
برسات ہوتی ہے
جو ہجر کی رات ہوتی ہے
نظم: درد ہوتا ہے

منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں
نظم: یہ کیسی گھڑی ہے

صعنت تضاد کا استعمال

اب تمہارے مرے مابین
کسی دید کا
نادید کا اسرار نہیں
نظم: بیج اندر ہے

جاؤ اب روتے رہو
وسط نا وسط کا مرحلہ
نظم: بیج اندر ہے

مَوت اور زندگی
…..
صفائی اور گندگی
نکاسی ٔوجود
خیروشر
روانی و جمود کے معاملات میں گھِرا ہواتھا
نظم: لال بیگ

جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

رات دن بسرام کرتی تھیں
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

سرحد امکاں سے لا امکاں تلک
نظم: سواری اونٹ کی ہے

رفیق سندیلوی نے اپنی نظم میں انگریزی الفاظ کا کمال خوبی سے استعمال کیا ہے۔ مثلا

غیر مرئی نالیوں سے
مین ہول تک
نظم: لال بیگ
……
سُست وتیز
ساری لائنوں میں گھومتا تھا
نظم: لال بیگ

اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا
نظم: وہی مخدوش حالت

نلکی آکسیجن کی لگی ہے
گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

رفیق سندیلوی ہندی کلچر سے متعلق الفاظ کا استعمال بڑی مہارت سے کرتے ہیں۔ معنویت کا ایک الگ سے جہان آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم جاتا ہے۔ مثلا
میرا دل کھو گیا
اپنی ٹک ٹک میں
بہتا رہا وقت
کتنا سمے ہو گیا!
نظم: سمے ہو گیا

کڑیوں کے رخنوں میں
ہمارے ساتھ چڑیاں
رات دن بسرام کرتی تھیں
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

سُوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
نظم: عجب پانی ہے

میں اکیلا عزا دار
کتنے یگوں سے
اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ
مجھے اپنا جلوہ دکھا میرا دل کھو گیا

اپنی ٹک ٹک میں
بہتا رہا وقت
کتنا سمے ہو گیا!
نظم: سمے ہو گیا

کڑیوں کے رخنوں میں
ہمارے ساتھ چڑیاں
رات دن بسرام کرتی تھیں
نظم: برادہ اڑ رہا ہے

سُوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
نظم: عجب پانی ہے

میں اکیلا عزا دار
کتنے یگوں سے
اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ
نظم: مجھے اپنا جلوہ دکھا

رفیق سندیلوی کے ہاں محاورات اور افعال مجہول کا برجستہ استعمال ہوا ہے۔ ان کے استعمال سے ان کے کلام کو شگفتگی‘ سلاست‘ برجستگی شعری و لسانیاتی توانائی میسر آئی ہے۔ مثلا

افتاد پڑنا
خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے
نظم: یہ کیسی گھڑی ہے
بنیاد رکھنا
جس گھڑی رکھّی گئی بنیاد میری
مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
فیصلہ کرنا
سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو
انجام دینا
سنو عجلت فکر میں کوئی بھی کام انجام پاتا نہیں
ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ
تماشا کرنا
یہ فسوں کار تماشا کیا ہے
جاؤ اب روتے رہو
مس کرنا
یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی
صدا گونجنا
اس لن ترانی کے گنبد میں
میری صدا گونجتی ہی رہے گی
نظم: مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

ہموار کرنا
تو پھر میں نے اس کے لیے دھند ہموار کی
نظم: مگر وہ نہ آیا

قسم کھانا
اے ہوا
پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا
نظم: یہ سجیلی مورتی

رفیق سندیلوی نے اردو نظم کو بڑے شان دار اور جان دار مختلف نوعیت کے شعری مرکبات سے نوازا ہے۔ چند ایک مرکب ملاحظہ فرمائیں:

جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم

میری پرواز کے دائرے نے جنا
میں ہرے پانیوں میں
بدن کا ستارہ ڈبونے لگا
اور اک لاتعین سبک نیند سونے لگا
....
ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی
کیچ کی اُمَس میں
دونوں وقت مِل رہے تھے
ہالۂ نفَس میں
دِھیرے دِھیرے اُس کے
نظم: لال بیگ

سَرپھری لہروں کے جھولے میں
نظم: عجب پانی ہے

وقت کی تھالی میں
نظم: یہ سجیلی مورتی

اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا
نظم: وہی مخدوش حالت

مرے شب نما جسم پر
.....
اور حصار رفاقت میں
نظم: مگر وہ نہ آیا

وجود کے کچھار میں
……………
بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہٹ گیا
……….
بے صدا سی جست بھر کے
نظم: مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

دکھ سے لبالب بلبلاہٹ
کانٹوں بھری کھاٹ میں
پیاس کے جام پیتا ہوں
نظم: خواب مزدور ہے

آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا
جھلملاتی ہوئی نیند، سن
میرا ادھڑا ہوا جسم بن!!
......
جھلملاتی ہوئی نیند سن
نادید کا اسرار نہیں
جاؤ اب روتے رہو

وسط نا وسط کا مرحلہ
نظم: بیج اندر ہے

گزر گاہوں کے سب نامعتبر پتھر
خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا

تشبیہ شعری حسن کا اہم ترین لوازمہ ہے اوراس شعری حسن کا تصرف کلام میں فصاحت و بلاغت کا ذریعہ بنتا ہے۔ رفیق سندیلوٰی نے اس شعری کمال کو کمال خوبی سے برتا ہے۔ باطور نمونہ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
فربہ پاؤں جیسے اک گرھستن کے
نظم: یہ سجیلی مورتی
اک ستارہ سی بارش نے لب رکھ دیا
نظم: مگر وہ نہ آیا

اسے جو بھی پہنے گا
بالکل ستارہ لگے گا
ستارے کے مانند چمکے گا
نظم: مجھے اپنا جلوہ دکھا

سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے
پھولوں جیسے اسم
نظم: غار میں بیٹھا شخص

اوس کا قطرہ
مصفا حوض کے مانند
نظم: گنبد نما شفاف شیشہ

پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے
نظم: مگر وہ نہ آیا

تلمیح بڑی بات کے اختصار کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ رفیق سندہیلوی نے اس شعری حربے سے معنویت کے دریا بہا دیے ہیں۔ مثلا

ہم اپنی وحشت میں
جو بھیس بدلیں
کوئی روپ دھاریں
سمندر بلوئیں یا دیوار چاٹیں
نظم: درد ہوتا ہے
کیا میں تجھے دیکھ پاؤں گا
اس لن ترانی کے گنبد میں
میری صدا گونجتی ہی رہے گی
نظم: مجھے اپنا جلوہ دکھا

رفیق سندہلوی کے ہاں مختلف نوعیت کی اصطلاحات کا استعمال کلام میں گہری معنویت کا سبب بنتا ہے۔ چند ایک اصطلاحات کا استعمال باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:۔۔۔۔
میں اکیلا عزا دار
کتنے یگوں سے
اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ

نظم: کہیں تم ابد تو نہیں ہو
کونین کے
اپنے قطبین کے
پیچ و خم میں
وجود و عدم میں
......
کیسے اشارہ کیا
میں نے کیسے بہ یک وقت
اپنی فنا اور بقا سے کنارہ کیا
نظم: بیج اندر ہے

وضو کرکے سجدہ کیا ہے
نظم: درد ہوتا ہے

مجھے اپنا جلوہ دکھا
وقت کے کس خلا میں
مظاہر کی کس کہکشاں میں
زمانے کے کس دب اکبر میں
نظم: مجھے اپنا جلوہ دکھا
درج بالا معروضات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید اردو نظم کا نقاد اور ماہر لسانیات مطالعہ اور کام کے دوران رفیق سندیلوی کی نظم کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ رفیق سندیلوی کی یہ شعری تخلیقات اردو زبان کی لسانیاتی ثروت کا سبب بنی ہیں اور ان کے حوالہ سے لفظوں کی تفہیم کے نئے در وا ہوئے ہیں۔ ان کی کاوش ہا اردو ادب کے دامن میں اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ عصری حیات کی معتبر شہادت کا فریضہ انجام دیتی رہیں گی۔

جن نظموں سے استفادہ کیا گیا

نظم: عجب پانی ہے
نظم: غار میں بیٹھا شخص
نظم: یہ کیسی گھڑی ہے
نظم: برادہ اڑ رہا ہے
نظم: مگر مَچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
نظم: مہرباں فرش پر
نظم: جھلملاتی ہوئی نیند سن
نظم: ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی
نظم: لال بیگ
نظم: مگر وہ نہ آیا
نظم: بڑا پر ہول رستہ تھا
نظم: سواری اونٹ کی ہے
نظم: درد ہوتا ہے
نظم: وہی مخدوش حالت
نظم: بیج اندر ہے
نظم: سمے ہو گیا
نظم: مجھے اپنا جلوہ دکھا
نظم: مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں
نظم: یہ سجیلی مورتی
نظم: خواب مزدور ہے
نظم: گنبد نما شفاف شیشہ
نظم: کہیں تم ابد تو نہیں ہو
برقی کتاب جس سے مواد حاصل کیا گیا
مقصود حسنی پیش کار‘ رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں‘ ابوزر برقی کتب خانہ‘ جنوری ٢٠١٧
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.